عالمی تناظر میں تحمل مزاجی کی اہمیت
مولانا کرامت الله
ذاتِ انسانی کی طرف جن اوصاف واعراض کی نسبت واسناد(predication)کی جاتی ہے،جیسے عمومی فضائل اوررذائل،ان میں اخلاقی صفتیں یاخصلتیں اپناالگ درجہ رکھتی ہیں۔ بنیادی طوریہ دوقسم کی ہیں:صفاتِ محمودہ اورصفاتِ مذمومہ۔یعنی اچھی یالائقِ ستائش صفتیں اوربُری یالائقِ مذمت صفتیں۔یہ تقسیم اپنے اپنے اندازمیں عام انسانی طبیعت و فطرت اوردین ومذہب دونوں کے حکم واقتضا کی روسے ہے۔اورہرایک صفت وخصلت یا”لازم“کی صورت میں ہوتی ہے، جو انفرادی زندگی سے متعلق ہوتی ہے اوریا”متعدی“ہوتی ہے، یعنی اجتماعی زندگی سے اس کاتعلق وارتباط ہوتا ہے اوریالازم اورمتعدی دونوں ہوتی ہے۔”صفاتِ محمودہ“ میں سے ایک” تحمل مزاجی“ہے، جس پریہاں اسلامی تعلیمات وہدایات اورموجودہ عالمی فضا کے حوالے سے روشنی ڈالنی مقصود ہے۔
اللہ تعالی نے حضرتِ انسان کو جہاں ماہیت اور ساخت وصورت میں دوسری مخلوقات سے بہت مختلف پیدا کیا ہے،وہاں مقصدوغایت اور بنیادی مالہ وماعلیہ کے اعتبارسے بھی اسے نہایت ممتاز ومنفرد حیثیت سے نواز ہے۔دین ومذہب کے لحاظ سے انسان فی الواقع ایک روحانی ہستی ہے، جس کا حقیقی ٹھکانہ ماوراء الظاہر (meta-cosmic) یعنی عالمِ آخرت قرار پایا ہے ،جو لامتناہی امکانات اور خداوند قدوس کی قدرت وحکمت وغیرہ کی اصل جلوہ گاہ ہے اور یہ دنیا اگراس کے لیے مقصود ہے تو اسی آخرت کے اعتبارسے مقصودہے:”خلقت الدنیالکم، وخلقتم للاخرة“(دنیاتمہارے لیے اور تم آخرت کے لیے پید اکیے گئے ہو)۔
تو دنیا بے شک انسان کے لیے ہے اور اس سے متعلق امور سے اس کا ضرور واسطہ ہے، مگربنیادی طور محض اسی اُخروی غرض کی خاطر ہے۔انسانی وجود کا بس یہی پہلو ہے، جو دیگر جملہ جہات پر اس طرح غالب وحاوی ہے کہ اس بابت کسی بھی حوالے سے گفتگو کرنی ہو تو محور ومرجع اسی کو قرار دیناپڑتاہے۔
انسان کونہ آزاد پیدا کیا گیا اور نہ اپنی مرضی پر اسے چھوڑ دیاگیا ہے،بلکہ دیکھاجائے تو اس کے سامنے سوائے مسائل و مشاکل کے اور کچھ نہیں۔ ان مسائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:حالی(Immediate) اور مآلی (Ultimate)۔ حالی یا فوری مسائل سے مراد اس دنیوی زندگی کے مسائل ہیں، جن کی تعبیر اختصاراً روٹی، کپڑے اور مکان والے مسائل سے کی جاتی ہے اور انسان کی جو انفرادی سعی اور کدوکاوش نظرآتی ہے اور اجتماعی پروگراموں اورمختلف ادارات و تنظیمات وغیرہ کا جو سلسلہ ہوتا ہے، وہ انہی کے سبب ہوتا ہے۔ جب کہ مآلی یا نہائی مسائل وہ ہیں( خواہ انسان کو ان کا مطلوبہ ادراک و شعور اور ان سے نمٹنے کی ضرورت کا احساس ہو یا نہ ہو) جو اس کے وجودکے اس دور سے متعلق ہیں، جو مذکورہ اخروی اور دائمی و ابدی مرحلہ ہے۔ ہمیں کہاں جانا ہے؟ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ موت کے بعد کس قدر مختلف صورت حال کا سامنا کرنا ہے؟ قبر، حشرنشر اور حساب کتاب وغیرہ مراحل آخر کیسے طے ہوں گے؟ اللہ کوکیوں اورکیسے راضی رکھاجائے؟یہ انہی مسائل والے سوالات ہیں۔ جیسے اس نوع کے فلسفیانہ وفکری اوروجدانی سوالات کہ اس کائنات سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ اس میں ہمارا کیا مقام ہے؟اور جس مقام کو ہم اس میں رکھتے ہیں اس کے لیے کس قسم کا رویہ اورطرزِعمل مناسب اوردرکارہے؟
دینِ خداوندی جس کی سب سے آخری اور مستند ترین شکل اسلام کی صورت میں سلسلہ انبیا کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ظہور پذیر ہوئی، اس میں ان مآلی یا اخروی مسائل کو نہایت توضیح وتنقیح اور بہت معقول و منظم طورسامنے لا کر انسان سے اپنی تمام تر عقلی، نفسیاتی اور جسمانی قوتوں کواصلاً و اوّلاً ان ہی کے لیے وقف کر رکھنے کا مطالبہ ہے ،کہ جس کا واحد طریقہ خدا کے ان احکام کی بجاآوری و پاس داری ہے جس کا انسان کو مکلف بناکر انہی کے تحت زندگی بسر کرنے کا پابند ٹھہرایاگیا ہے۔چناں چہ دنیا میں انسان سے مطلوب اللہ تعالیٰ کی یہی اطاعت و بندگی ہے، جودراصل وہ امتحان و آزمائش ہے، جس کا نتیجہ آخرت کی فلاح و سعادت، یعنی جنت، اوریاوہاں کے خسران و شقاوت ، یعنی دوزخ کی شکل میں نکلناہے؛جب کہ یہی اُخروی کامیابی اوراُخروی ناکامی ہی اصل میں کامیابی اورناکامی قراردی گئی ہے:”پس جو شخص دوزخ کی آگ سے دوررکھاگیااورجنت میں داخل کیا گیا سووہ کامیاب ہوگیا“۔
اب بات یہ ہے کہ اس دین برحق کے جو مختلف و متنوع قوانین وضوابط اور تکلیفی و تشریعی امور ہیں بلاشبہہ وہ مذکورہ اخروی مقصد کے لیے تو ہیں ہی،ان کے انفرادی و اجتماعی اہتمام والتزام کی بدولت دنیامیں بھی ایک ایسی فضا میسر آسکتی ہے جو دنیا داری اور عیش کوشی و شہوت پرستی کے دلدادہ، بے ایمان و بے ضمیر افراد کے معیار و اعتبارسے قطع نظر، جذبہ خدا طلبی سے مالا مال اور روحانیت و للٰہیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے پاکیزہ اور نیک سرشت بند گانِ خدا کے نزدیک ایک مایہ بے بہا ثابت ہوسکتی ہے؛جس کے تحت پھر کیا بات محبت و الفت کی! کیا بات ہمدردی کی! کیا بات باہمی تراحم اور تعاون و تناصر کی! غرضیکہ انسانی طبیعت اورعقلِ سلیم کی اس انداز والی اخلاقی و روحانی ضرورتوں اور چاہتوں کا کوئی بھی پہلو اس کی تعلیمات و ہدایات کے دائرے سے خارج نہیں رہتا۔ جیساکہ اس دین حق سے مطلوبہ قربت ولگاؤاوراس کی مقصدیت ومعنویت سے آگاہی رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ مطالبہ اخروی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس دنیوی زندگی کی فلاح و بہبود کا بھی صحیح معنی میں صرف یہی دین ضامن و متکفل ہے۔چناں چہ دین کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:”و ضع الہٰی سائق للبشر الیٰ ما ھو خیر لہ فی الدارین“ یعنی ایک الٰہی دستور، جو انسان کو دونوں جہانوں کی بھلائی کی طرف لے جانے والا ہو۔جیسے کہ اس طرح بھی اس کی تعریف بیان کی گی ہے:”قانون سماوی سائق لذوی العقول الی الخیرات بالذات“(ایک آسمانی قانون جواہلِ عقول کوان امور کی طرف لے جانے والاہوجوبالذات بھلائیاں ہوں۔
اس بنا پربلاخوف کہاجاسکتاہے کہ دینِ اسلام کوانفرادی اور اجتماعی زندگی کالازمہ ٹھہراکراس کی کماحقہ پاسداری کواگرواحدوظیفہ بنالیا جائے،توآخرت کے علاوہ دنیامیں بھی ضرورمثبت نتیجہ اورموافق اثر مرتب ہوسکتاہے۔جیسے اس حقیقت کونہیں جھٹلایاجاسکتاکہ کسی ملک میں شرعی قوانین اوراسلامی طرزحکمرانی رائج ہوتوتقریباً وہ جملہ مسائل حل یاکم ہوسکتے ہیں جوحکومتی دائرہ کار میںآ تے ہیں۔یہ پھر الگ بات ہے کہ ایک کم ظرف اوردینی لحاظ سے کورچشم نے پاکستان کے حوالے سے کہاتھاکہ اہلِ وطن کو اسلامی نظام کی نہیں،روٹی،کپڑے اورمکان وغیرہ کی ضرورت ہے۔ بخدا!یہ توبعینہ ایساہے کہ کہاجائے کہ مریض کوعلاج کی نہیں، گولی،شربت اورٹیکے وغیرہ کی ضرورت ہے۔
اس لحاظ وجہت سے اسلام حقائق اورواقعیات کا دین ہے، نہ کہ فرضیات و توہمات کا۔اس میں دوسرے ابنائے نوع کی نسبت جو احکام وہدایات ہیں کہ جنہیں ”حقوق العباد“ کے جامع نام سے یاد کیا جاتا ہے،ان میں بنیادی فلسفہ و مصلحت ہی یہ کارفرما ہے کہ واقعی اور زمینی حاجات و مشکلات میں ایک آدمی کیوں کر دوسرے کے کام آسکتا ہے؟ ایک کا وجود کس طرح دوسرے کے لیے منبعِ خیر و خوبی ثابت ہوسکتا ہے؟ کیسے ایک فرد کے شروفساد اور منفی سرگرمیوں سے دوسرا محفوظ رہ سکتا ہے؟اورکیسے دوسرے کی بُرائی پرصبراورنیکی پر شکراداکرنے کامظاہرہ کیاجاسکتاہے؟ تو اسلامی تعلیمات وارشادات میں دنیوی حوالے سے بنیادی چیز بس یہی باہمی بھلائی اور خیررسانی ہے جس سے ظاہر ہے کہ مقصود ایک ایسے معاشرے اور سماج کاقیام ہے جہاں اس مدنی الطبع مخلوق(Social Being) کے لیے ظلم و اذیت سے خالی ایک ایسا ماحول فراہم ہو جو ”بہشت آنجاکہ آزارے نباشد“ ہی کامصداق ثابت ہو۔پھر اس تناظر میں یہ بات بسہولت فہم وعقل میں آتی ہے کہ اجتماعی، بلکہ بین المللی زندگی میں انسانی اعمال اوراخلاق و اطوار کا کون سا جز اور پہلو کیوں کر اور کس حیثیت و کیفیت سے کارآمد و مطلوب ہے اور اس پر اثرانداز ہونے والے اندرونی و بیرونی اسباب و عوامل اور ان کی کارکردگی وکارآمدی کی تعیین کس طرح ہوگی؟جیسے ان اخلاق واطوارمیں سے ایک ”تحمل مزاجی“ ہے، جویہاں زیربحث ہے:
تحمل مزاجی(Tolerance) کاخلاصہ اورحاصل ہے ”دوسروں کی بُرائیوں اورخلاف طبع باتوں کوبرداشت کرنے اوران پرمنفی رد عمل ظاہرنہ کرنے کارویہ وعادت“۔
دین اسلام ایک کل(Whole)کی حیثیت میں ہے، جس کے لازمی اجزا (Integral Parts) کے طورپر مختلف شعبے ہیں: عقائد، عبادات،ا خلاقیات، معاملات،معاشرت۔ان سب شعبوں کے اپنے اپنے احکام ولوازم ہیں کہ جن سب پرعمل کرنے کا حکم اورتاکید ہے۔ارشادخداوندی ہے: ﴿ادخلوافی السلم کافة﴾ (اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ)۔ ان جملہ کلیات وجزئیات کی عملی رعایت رکھناہی دین داری کہلاتاہے۔چناں چہ اس قاعدہ کے تحت بہت سارے افراد مومن اورمسلمان توبے شک ہوسکتے ہیں اورہیں، مگر دین دارلوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تحمل مزاجی کاتعلق ان شعبوں میں ظاہرہے کہ شعبہ اخلاق سے ہے، جب کہ معاملات اورمعاشرت سے اس کاگہراتعلق اوروہی اس کے لیے اصل میدانِ عمل وانطباق ہیں۔
اس حقیقت میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ” تحمل مزاجی“ علی الاطلاق اور بنیادی طورپر ایک وصفِ محمود اور خُلقِ محبوب ہے اور اسلام جس کی خاصیت ہی دوسروں کے لیے عافیت وسلامتی اور ایثار و قربانی کی فضامہیاکرناہے، اس میں کیوں اسے وہ مخصوص و ممتاز درجہ عنایت نہ کیاگیا ہوگا جو اس کا حقِ لازم ہے۔چناں چہ اسلام میں جس طرح دوسرے لوگوں کو اپنی دل آزاری اورزبان وہاتھ کی اذیت رسانی سے محفوظ رکھنانہایت اہم اورمسلمان ہونے کی نشانی ودلیل قراردیاگیاہے،اسی طرح دوسروں کی تکالیف اور زیادتیوں کوبرداشت کرنے کی بھی ازحداہمیت وفضیلت بتلائی گئی ہے۔
ویسے تو عموماً ہرقسم کے حالات میں صبرو تحمل کاشیوہ اپنائے رکھنے کابہت تاکید و اہمیت کے ساتھ درس دیاگیا ہے،مگر خصوصی طور جب دوسرے ابنائے جنس کی طرف سے ناخوشگوار احوال یا ان سے کسی بنا پر اختلاف وشقاق کی نوبت پیش آرہی ہو تو وہاں توبہ درجہء اتم اس امر کی ضرورت و اہمیت کی پاس داری مطلوب ہے کہ کسی طرح بھی صبر و برداشت کی رسی ڈھیلی نہ ہونے پائے۔ دشمن کے ساتھ بھی جو انصاف واعتدال کا سلوک کرنے کا حکم ہے وہ دراصل اسی تحمل مزاجی کا مظہر اور اسی کی اہمیت وضرورت کی تلقین ہے؛ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ” کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو“۔ اس آیت سے قبل اسی قسم کی آیت کے تحت علامہ شبیر احمدعثمانی لکھتے ہیں:
”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اورتقریباًڈیڑھ ہزارصحابہ ماہِ ذیقعدہ میں محض عمرہ اداکرنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے۔حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کرمشرکین نے اس مذہبی وظیفہ کی بجاآوری سے روک دیا۔نہ حالتِ احرام کاخیال کیا،نہ کعبہ کی حُرمت کا،نہ محترم مہینہ کا،نہ ہدی وقلائدکا۔مسلمان شعائر اللہ کی اس توہین اورمذہبی فرائض سے روک دیے جانے پرایسی ظالم اوروحشی قوم کے مقابلہ پرجس قدر بھی غیظ وغضب اوربغض وعداوت کااظہار کرتے وہ حق بجانب تھے اورجوشِ انتقام سے برافروختہ ہوکرجوکارروائی بھی کر بیٹھتے وہ ممکن تھی۔لیکن اسلام کی محبت اورعداوت دونوں جچی تلی ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے جابروظالم دشمن کے مقابلہ پربھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کاحکم دیا۔عموماً آدمی زیادہ محبت یازیادہ عداوت کے جوش میں حد سے گذرجاتاہے،اس لیے فرمایاکہ سخت سے سخت دشمنی تمہارے لیے اس کاباعث نہ ہوکہ تم زیادتی کربیٹھواورعدل وانصاف کوہاتھ سے چھوڑدو“۔
اس لحاظ سے لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی زیادیتوں کو سہنے والے شخص کو بہتر گردانا گیا ہے۔چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ”جو مسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو ان سے میل جول نہیں رکھتا اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا“۔
مختلف احادیث مبارکہ سے تحمل مزاجی کی اہمیت وفضیلت واضح ہوتی ہے:
ایک روایت کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ کوئی شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کچھ برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو جواب دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز مبارک وہ نہیں رہاجوپہلے تھا۔ بعد میں آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ جس وقت تم خاموش تھے ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا؛پھر جب تم جواب دینے لگے وہ فرشتہ رک گیا۔ (جاری)