Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 14
***
مسلمان کبھی معذور نہیں ہو سکتا
محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
میں امریکا کی ایک حبشی بستی سے تعلق رکھتی ہوں ۔ امریکا میں حبشیوں کی مجموعی حالت سے زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا۔ میں ایک اخبار میں کام کرتی ہوں ۔ اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی۔ اپاہج ہونے کی وجہ سے سوائے مطالعہ کے میرا کوئی شغل نہ تھا۔ جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور اس کے رضا کار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں، مگر پھر یہ سوچتی کہ ہو سکتا ہے کہ خبر سچ ہی ہو ۔
میرے پاس اپنے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے ۔ میں نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں لیں اور پڑھنا شروع کیں۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا۔ پھر میں نے انگریزی میں قرآن کے ترجمہ کا ایک نسخہ حاصل کیا۔ قرآن کے اس نسخے کو پڑھ کر مجھے عجیب طرح کا روحانی سکون ملتا تھا، جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ آج میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص دلچسپی اور لگن کے ساتھ قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، قرآن پاک کے مطالعہ نے مجھے بہت بے چین کر دیا۔ میں نے اخبار کے ذریعہ یہ پتا چلایا کہ یہاں ہمارے شہرمیں کون ایسا شخص ہے جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے ۔ اس کا پتا مجھے جلد ہی مل گیا۔ وہ شخص محمدیوسف تھے۔ میں نے محمدیوسف سے ملنے کا وقت مانگا تو انہوں نے کہا کہ جب چاہو تم مجھ سے مل سکتی ہو ۔ ان سے ملاقات کا وقت طے ہو جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
اگلے دن دوپہر کے وقت میں محمدیوسف سے ملنے گئی ۔ جب انہوں نے مجھے وہیل چیئر پر بیٹھے معذور اور اپاہج لڑکی کو دیکھا تو کچھ پریشان سے ہو گئے، مگر میری مسکراہٹ او رخوش دلی نے ان کی پریشانی کوجلد ختم کر دیا۔ محمدیوسف میری طرح حبشی تھے، پہلے ان کا نام جان بلکیڈن تھا، مگر اب وہ محمدیوسف ہیں ۔ وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے۔ وہ مسجد میں نماز بھی پڑھاتے اور وہیں قرآن کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے ۔ انہوں نے میرے بارے میں مجھ سے ساری معلومات حاصل کیں ، پھر میں نے محمد یوسف سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے ؟ انہوں نے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا کہ میں اس لیے مسلمان ہوا کہ یہ میری طلب اور الله تعالیٰ کی رحمت تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔ ان کا یہ جواب میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ مسلمان ہونے کے بعد میرا بھی یہی خیال ہے کہ جو انسان سیدھا راستہ پانا چاہتا ہے الله تعالیٰ اس کے دل میں اسلام کے لیے محبت پیدا کر دیتا ہے ۔
محمدیوسف نے مجھے بتایا کہ وہ حبشیوں کے ایک بہت ہی غریب خاندان میں پیدا ہوئے، سن بلوغ کو پہنچے تو ایک ہوٹل میں برتن دھونے کا کام کرنے لگے۔ ہوٹل والے اکثر انہیں ایک پیکٹ دیتے تھے کہ وہ اسے ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا دیں ، اس کے بدلے میں وہ انہیں ایک ڈالر دیتے۔ ایک دن یوسف نے سوچا کہ پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہیے کہ اس میں کیا ہے؟ جب انہوں نے ایک روز اسے کھول کر دیکھا تو اس میں انہیں حشیش ملی۔ انہوں نے وہ حشیش مہنگے داموں فروخت کر دی اور ہوٹل واپس نہیں گئے، مگر ہوٹل والوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا او ران کی خوب پٹائی کی ، اس واقعہ کے بعد وہ گناہوں کی دنیامیں پہنچ گئے ۔ وہ عورتوں کی دلالی کرتے ،قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے ۔ منشیات کا خفیہ دھندہ کرتے اس طرح خود بھی منشیات کے عادی ہو گئے ، انہیں عدالت سے کئی بار سزا بھی ہو چکی تھی ۔ محمدیوسف نے گفتگو کے تسلسل میں بتایا کہ جب ایک بار وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے ۔ یہ مسلمان رضا کار تھے جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے ، ان کی تبلیغ سے وہ بہت متاثر ہوئے ، ان کا بھی دل چاہنے لگا تھاکہ وہ بھی ایک باعزت زندگی بسر کریں ، جب وہ سزا مکمل کرکے جیل سے نکلے تو ان رضا کار مسلمانوں کی کوششوں سے وہ کافی بدل گئے ۔ وہ اپنی مجرمانہ زندگی چھوڑ دینا چاہتے تھے، اس سلسلے میں وہ ان رضا کار مسلمانوں سے ملے ، انہوں نے ان کے لیے روز گار کا بندوبست کیا، کچھ نقد رقم بھی دی، تاکہ جب تک انہیں تنخواہ ملے وہ اس رقم سے گزر اوقات کر سکیں، وہ رضا کار حضرات انہیں اپنے ساتھ رکھنے لگے ، وہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے ، یوں محمدیوسف، جوکبھی جانی بلکیڈن تھے، مسلمان ہو گئے۔
اسلام کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے عربی سیکھ کر ایک ہی سال میں پورا قرآن مجید پڑھ لیا ، اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح اسلامی قواعد اور طرز زیست میں ڈھال لیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئے ۔ اسلام قبول کرنے کے چار سال بعد انہیں اس علاقے کے مسلمانوں کا امام مقرر کر دیا گیا۔ امام بننے کے بعد انہوں نے چندہ جمع کرکے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرا دی، اُس مسجد کی تعمیر میں انہوں نے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ بھرپور ساتھ دیا۔
میں محمدیوسف کی اسلام قبول کرنے کی آپ بیتی اور اسلامی طرز پر زندگی گزارنے کا سن کر بے حد متاثر ہوئی اور میں نے یوسف سے کہا کہ میں بھی مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور اس راستے میں آنے والی ہر مشکل پر میں قابو بھی پالوں گی۔ میرا یہ عزم سن کر محمدیوسف نے مجھے خوشی ومسرت سے دیکھا اور کہا الله مبارک کرے، کیا تمہیں کلمہ او رنماز آتی ہے ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے مجھے رومن زبان میں کلمہ او رنماز کی کتاب دی ، میں نے مختصر مدت میں کلمہ او رنماز یاد کر لی او رمحمدیوسف کے پاس آکردین اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرتی رہی ۔ ایک جمعہ کے روز مسجد میں بہت سے نمازیوں کی موجودگی میں، میں نے اسلام قبول کر لیا او رمسلمان ہو گئی۔
قبول اسلام کے بعد میں نے سگریٹ پینا ترک کر دیا اور ہر کھانے کے ساتھ تھوڑی شراب بھی پیتی تھی، اسے بھی ترک کر دیا۔ مسلمان عورتوں کی طرح اپنے لمبا لباس سلوالیا، پہلی بار جب میں لمبے چغے اور سر کو بھی ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلی تو سب سے پہلے میرے ماں باپ نے ہی میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا سنتھیا یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟ میں نے ان سے کہاممیٰ میرا نام آمنہ ہے، سنتھیا نہیں ۔ 
یہ سن کر میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزا کے ساتھ ساتھ لاپروائی کی جھلک بھی دکھائی دی۔ میری ماں چیخ کر بولی ” تمہاری جگہ جہنم میں ہے ، تم نے …“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ او رکہتیں، میں اپنی وہیل چیئر گھر سے باہر نکال لی گئی۔ اتفاق سے اس روز میری تنخواہ کا دن تھا، تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرا دیا۔ میری ماں کو جب فنڈ دینے کا پتا چلاتو وہ مجھے اور مسلمانوں کو کوسنے لگیں۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی زندگی کو پوری طرح اسلام کے قوانین وضوابط کے مطابق ڈھال لیا، میرے اسلام قبول کرنے پر جو لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھاتے تھے اب وہ بھی تھک کر چپ ہو گئے۔
ایک کرسمس پر بہت سے مہمان ہمارے گھر اکٹھے تھے، شراب پانی کی طرح پی جارہی تھی ۔ اہوں نے زبردستی مجھے شراب پلانی چاہی تو میں نے کہا ” میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر “ یہ سنتے ہی میرے والدمجھے پیٹنے لگے، پھر تھک کر ایک طرف بیٹھ گئے ۔ میں یہ ظلم برداشت کرتی رہی پر میں نے الحمدلله شراب نہیں پی ۔ اس رات پورا وقت میں روتی رہی۔ پہلے میں نے سوچا کہ گھر چھوڑ دوں، پھر سوچا والدین کا مجھ پر حق ہے او رمیرا فرض بنتا ہے کہ ان کے ساتھ رہ کر ان کی کافرانہ زندگی بدلنے کی کوشش کروں۔
کچھ روز بعد میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اخبار کی نوکری چھوڑ کر مسلمان رضا کار بن گئی۔ جس کام کے لیے مجھے چنا گیا تھا اس میں بہت سے خطرات تھے، مگراس کام کے کرنے کے لیے اسلام نے مجھے حوصلہ بخشا، اس حوصلہ کی وجہ سے میں کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لارہی تھی۔ میں اسلام کا پیغام لے کر جیلوں میں جانے لگی، میں قیدیوں کو اسلام کی عظمت کے بارے میں بتاتی او رانہیں مجرمانہ زندگی کو چھوڑ کر بہتر زندگی بسر کرنے کے مشورے دیا کرتی۔ کچھ قیدی میری بات دھیان سے سنتے او رکچھ میری معذوری پر قہقہے لگاتے، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ جیل میں ایک قیدی نے مجھے بتایا کہ شہر میں منشیات کا سب سے بڑا کاروبار برنارڈونامی شخص کا ہے ، ہم سبھی اس کے لیے کام کرتے ہیں ، ایک اور قیدی جس نے اسلام پر میری باتوں کا کافی اثر قبول کیا تھا، اس سے میں نے برنارڈوکاپتا معلوم کیا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اس سے ملنے کی غلطی نہ کرنا۔ کیوں کہ وہ بہت خطرناک آدمی ہے، پر میں نے دل میں اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دوسری صبح میں برنارڈو کے عالی شان گھر پہنچ گئی۔ 
ملازم مجھے اندر جانے سے روکنے لگا، ہم دونوں میں تکرار ہونے لگی ، تکرار کی آواز سن کر ادھیڑ عمر کا ایک مضبوط جسم والا آدمی گھر سے باہر نکلا اور غصے سے بولا، یہ کیا ہو رہا ہے ۔ شور کیوں مچا رکھا ہے ؟ میں سمجھ گئی کہ یہ برنارڈو ہے او رمیں نے اس سے کہا ” میں آپ سے علیحدگی میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں“ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا اور ملازم کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ ملازم کے جانے کے بعد برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا ” میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا، تم معذور ہو، اس لیے تمہاری بات سن رہاہوں، کہو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں“ میں نے اشاروں کنایوں میں کہا ” مسٹر برنارڈو ، الله نے آپ کو سب کچھ دیا ہے ، اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے “ جب میں نے بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہا ”نکل جاؤ یہاں سے، تمہیں کس نے بتایا کہ میں یہ کام کرتا ہوں ، مجھے تمہارے اپاہج پن کا خیال نہیں ہوتا تو …“ (میں نے الله سے دل میں دعا کی پھر برنارڈ کی بات کاٹتے ہوئے کہا)” اگر واقعی تم مجھے اپاہج سمجھتے ہو او رمیرے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ دن تک صرف پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں “ یہ الله کا ہی کرم تھا کہ بڑنارڈو جیسا شقی القلب شخص قہقہہ لگا کر بولا تم ضد کی بہت پکی ہو ، کل اسی وقت آجانا۔
برنارڈو اطالوی نژاد تھا، مجھ سے پہلے شاید ہی اس نے کسی کو ملاقات کا وقت دیا ہو اور اس خلوص سے ملا ہو ۔ اس سے روز ملاقاتیں ہونے لگیں، پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا، میں اس کے سامنے منشیات کی تباہ کاریوں، اس کی وجہ سے لوگوں کی بدحالی کا او رپھر اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی رہی ، وہ میری ساری باتوں کو بغور سنتا رہا۔ ایک دن مجھ سے کہا ”آمنہ واقعی انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہییں“ میں نے کہا ” یہ الله کا شکر ہے کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی“ چند روز بعد برنارڈو نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا اور اس نے ایک روز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے مافیا کے سربستہ رازوں کو کھول دیا۔
قارئین کرام! آپ کو یاد ہو گا کہ سابق امریکی صدر فورڈ کے عہد صدارت (1977-1974) میں برنارڈو کے مذکورہ انکشاف سے امریکا میں تہلکہ مچ گیا تھا ۔ بڑنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا کہ ” ایک اپاہج اور چلنے پھرنے سے معذور لڑکی نے مجھے وہ طاقت بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے او رکھلی فضا میں اڑنے کی ہمت اپنے اندر محسوس کر رہا ہوں۔“
اُس روز میں بہت روئی تھی، جب مجھے خبر ملی کہ منشیات مافیا کے آدمیوں نے جیل کے اندر ہی برنارڈو کو گولی ماردی، مجھے امید تھی کہ وہ زندہ رہتا تو آنے والے وقتوں میں ضرور اسلام قبول کر لیتا۔ برنارڈو کے منشیات اور دیگر جرائم سے تائب ہونے کی وجہ سے مجھے الیکٹرانک اور پڑنٹ میڈیا میں بہت شہرت ملی، میری تقریریں شائع ہونے لگیں، میری خدمت کو بہت سراہا گیا، عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی کلے مجھ سے ملنے گھر آئے ، صدر فورڈ نے وائٹ ہاؤس میں بلا کر میری تعریف کی ۔ یہ کرشمہ میرا نہیں بلکہ میں جانتی ہوں کہ میرے الله کا ہے ، یہی وجہ ہے کہ میرے اندر ذرا بھی تکبر پیدا نہیں ہوا۔ اسلام نے میری زندگی میں جو انقلاب پیدا کیا میری خواہش ہے کہ اسے میں پوری دنیا میں پھیلادوں، گو کہ میرے والدین نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، مگر ان کی زندگی میں بڑ ی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور اب وہ میری بھی بہت عزت کرنے لگے ہیں۔
پچھلے چند برسوں میں الله کی رحمت اور میری کوشش سے ساڑھے تین سو سے زائد افراد نے منشیات سے توبہ کی ہے اور21 مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا۔ میں ایک اپاہج عورت ہوں، مگر میں سمجھتی ہوں کہ جو اسلام قبول کر لے، وہ کبھی اپاہج نہیں ہو سکتا، کیوں کہ الله تعالیٰ اس کا سہارا بن جاتا ہے ۔ میری زندگی اب اسلام کے لیے وقف ہو چکی ہے ، جب بھی کوئی انسان برائی کا راستہ ترک کرتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ اسلام کی فتح ہوئی ہے ، یہ ہے میری کہانی، سنتھیا سے آمنہ بننے کی۔

Flag Counter