Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 14
***
عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت اورمخصوص اعمال
محترم محمد اظہر سعید
ماہ ذو الحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہونے کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ الله نے زندگی کی صورت میں جو نعمت تمہیں عطا فرمائی تھی اس میں ایک سال اور کم ہو گیا اور یہ نعمت عظمی جس مقصد کے لیے عطا کی گئی تھی وہ کہاں تک پورا ہوا؟! اس اعتبار سے ماہ ذوالحجہ انسان کو اس کی غفلت سے بیدار کرنے والا بھی ہے۔
رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے۔
حضرت عبدالله بن عباس سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:” الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشرہ ذوالحجہ ( یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں صحابہ کرام  نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا یہ جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں! جو شخص جان اور مال لے کر الله کی راہ میں نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا، سب کچھ الله کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے۔“
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑ ی ممتاز حیثیت رکھتا ہے، پارہ عم میں سورہ فجر کی آیات ﴿والفجر ولیال عشر﴾ میں الله رب العزت نے دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر الله تعالیٰ کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے تو الله تعالیٰ نے سورہ فجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، لہٰذا اس سے ان دس راتوں کی عزت،عظمت او رحرمت کی نشان دہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” دونوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے۔“
ایک اور حدیث میں جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:” اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں۔“ یعنی ایک روزہ کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گی تو وہ اس طرح ہے جیسے لیلة القدر میں عبادت کر لی ہو۔
عشرہ ذالحجہ کے مخصوص اعمال
احادیث میں عشرہ ذوالحجہ کے جن اعمال کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا
عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ اہل استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو بیت الله میں حاضر ہو کر حج کریں، لیکن الله نے اپنے فضل وکرم اور بے پایہ رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فرما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہو جائیں، لہٰذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:” جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا اردہ ہو تو قربانی کرنے تک وہ جسم کے کسی حصہ کے بال نہ لے اور ناخن نہ کاٹے۔“
حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” مجھے حکم دیا گیا ہے ، قربانی کے روز عید منانے کا، جو الله تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قربانی پیش کر دوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ، ناخن کاٹو، مونچھیں پست کرو اور موئے زیر ناف صاف کرو، الله تعالیٰ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے۔“
مسئلہ: یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے اور حدیث کے الفاظ میں اس کی صراحت بھی ہے، وہ بھی اس شرط سے کہ زیر ناف اور بغلوں کی صفائی او رناخن کاٹے ہوئے چالیس روز نہ گزرے ہوں اور اگر چالیس روز گذر گئے ہوں تو امور مذکورہ کی صفائی واجب ہے۔
یوم عرفہ
ماہ ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو آنے والے دن یعنی یوم عرفہ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں الله تعالیٰ بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آگ سے آزاد کرتا ہے۔ یعنی عرفہ کے دن الله تعالیٰ سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا فرماتا ہے اور بلاشبہ اس دن الله تعالیٰ اپنی رحمت ومغفرت کے ساتھ بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر حج کرنے والوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے او رفرماتاہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ جوکچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا۔“
ایک اور حدیث میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” عرفہ کے دن الله تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو !یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود اور لبیک وذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آئے ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا، یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہے جو گنہگار ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔“
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” دعاؤں میں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے کہی اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کہی ( اور وہ یہ ہے ) لا الہ الا الله وحد لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر“․
یوم عرفہ کا روزہ
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گزشتہ او رایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔“ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث فضائل میں جہاں بھی کسی نیک عمل سے گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں او رجہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ وندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے او رپھر توبہ سے بھی وہ گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق الله سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔
دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ عرفہ کے دن، جو دراصل حج کا اہم ترین دن ہے، روزہ کی یہ فضیلت غیر حاجیوں کے لیے ہے کہ اس طرح حجاج کرام پر نازل ہونے والی رحمتوں او ربرکتوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جب کہ حجاج کے لیے مقبول ترین عمل اس دن وقوف عرفات ہے، اگر حجاج اس دن روزہ رکھیں گے تو انہیں وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ جانے میں مشکل پیش آئے گی، لہٰذا حجاج کرام کے لیے اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت بھی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع والے دن اپنے عمل سے امت کو تعلیم بھی یہی دی ہے۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرفات میں افطار کیا اور آپ کے پاس حضرت ام فضل نے دودھ بھیجا تو وہ آپ نے نوش فرمایا۔
تکبیرات تشریق
عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے، جو یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے دن کی نماز فجر سے شروع ہو کر 13 تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور یہ تکبیر ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے، تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد․
اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے اور آہستہ آواز سے پڑھنا خلاف سنت ہے۔
تکبیرات تشریق مرد ، عورت، شہری ، دیہاتی، مقیم ومسافر سب پر واجب ہے، البتہ مرد متوسط بلند آواز سے پڑھے اور عورت آہستہ، اکثر لوگ اس سلسلہ میں یہ غفلت کرتے ہیں کہ پڑھتے ہی نہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو آہستہ پڑھ لیتے ہیں، خاص طور پر اس سلسلہ میں خواتین سے عام طور پر بڑی کوتاہیاں ہوتی ہیں اور خواتین کو تکبیرات پڑھنا یاد نہیں رہتا لہٰذا مرد حضرات پر ضروری ہے کہ اپنی مستورات کو یہ مسئلہ بتائیں اور انہیں یاد دہانی کروا دینی چاہیے۔
سلام کے متصل بعد تکبیرات بھول جانے کی صورت میں اگر نماز کے منافی کوئی کام نہیں کیا تو یاد آنے پر تکبیرات کہہ دینی چاہیے اور اگر نماز کے منافی کوئی کام کر لیا ہو تو پھر تکبیرات فوت ہو گئیں، ابکہنے سے واجب ادا نہیں ہو گا، اس پراستغفار ضروری ہے۔
ایام تشریق کی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق میں قضا کرے تو اس کے بعد بھی تکبیرات تشریق کہنا واجب ہے، البتہ اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نما زایام تشریق میں قضا کرے یاایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز ایام تشریق کے بعد قضا کرے تو تکبیرات نہ کہے۔
قربانی
الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صرف اپنی عبادت وبندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے او ربندگی کا حاصل یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اپنے مالک کا تابع رہے، اسی میں اس کی کامیابی ہے، البتہ الله تعالیٰ نے عبادات کی کچھ خاص شکلیں مقرر فرمائی ہیں، جو مختلف انبیا کے ذریعے بندوں کو بتلائی گئیں، انہی عبادات میں سے ماہ ذوالحجہ کے اول عشرہ کی اہم ترین عبادت کی ایک شکل قربانی کا افضل ترین عمل ہے۔
ان ایام کی اہمیت وفضیلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عبادتیں جو سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جاسکتیں ان کے لیے الله تعالیٰ نے ان ایام کو منتخب فرمایا،یعنی حج اور قربانی کہ الله نے ان دو عبادتوں کے لیے وقت مقرر فرما دیا ہے، ان ایام واوقات کے علاوہ دوسرے اوقات وایام میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا تو وہ عبادت ہی شمار نہ ہو گی ۔ لہٰذا امت محمدیہ کے لیے ماہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں یعنی صرف ذوالحجہ کی 10،11،12 تاریخ میں اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو جاری فرما دیا او راس قربانی کے عمل اور اپنے خلیل کے طریقے کو اس قدر پسند فرمایا کہ اپنے پیارے حبیب رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس کی بے انتہا فضیلت جاری فرما دی اور انہیں بھی اس عمل کو کرنے کا حکم دیا، فرمایا:﴿فصل لربک وانحر﴾ (کوثر:2) سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے او راس کے نام کی قربانی کیجیے۔
اور یہ قربانی کا حکم صرف امت محمدیہ کے لیے ہی نہ تھا، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم تک تمام ادیان ومذاہب میں یہ حکم رہا ہے ۔ ارشادباری تعالی ہے:﴿ولکل امة جعلنا منسکا لیذکرو اسم الله علی مارزقھم من بھیمة الانعام ﴾(سورہ حج:34)
ترجمہ: ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے ) ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپاؤں پر الله کانام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے تھے۔
امام ابن کثیر اور دیگر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام ادیان ومذاہب میں چلا آرہا ہے۔
الله رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿ولکل امة جعلنا منسکاھم ناسکوہ﴾․( حج:67)
ترجمہ: ہم نے ہرا مت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقے پر ذبح کیا کرتے تھے۔
حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما، حضرت عطاء، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب قرظی اور حضرت ضحاک رحمہم الله تعالی وغیرہم کاقول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیر الله کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الله تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا ہے او ربندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہو گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے پہلے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قربانی کرو۔“
عن ابی ہریرہ رضی الله تعالی عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من کان لہ سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا․ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔“
عن ابن عمر قال: اقام رسول صلی الله علیہ وسلم بالمدینة عشر سنین یضحی․
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔
عن محمد بن سیرین، قال: سألت ابن عمر عن الضحایا أواجبة ہی؟ قال: ضحی رسول الله صلی الله علیہ وسلم والمسلمون بعدہ وجرت بہ السنة․ ان مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ نے ہر سال قربانی کی ہے 
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول الله! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، صحابہ نے عرض کیا پھر ہمارے لیے یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قربانی کے جانوروں کے ہرہر بال کے عوض ایک نیکی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله! صوف ( اون) کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا
عن عنش قال رأیت علیا رضی الله عنہ یضحی بکبشین، فقلت لة ماھذا؟ فقال: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اوصانی ان اضحي عنہ، فانا اضحي عنہ․
اس روایت سے واضح علم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کو وصیت فرمائی تھی کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کریں، لہٰذا قربانی کسی دوسرے کی طرف سے بھی کی جاسکتی ہے۔
ان مندرجہ بالا آیات واحادیث سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:
صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دس سال میں ہر سال قربانی فرمائی۔ حالاں کہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا، معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے او رنہ مکہ معظمہ کے ساتھ۔
قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں،بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہو گی،درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے، جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا تھا اور فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلاچوں وچرا حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے گردن پیش کر دی تھی، مگر الله تعالیٰ نے اپنا فضل فرماکر دنبے کا فدیہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اس سنت ابراہیم علیہ السلام وحکم الہٰی پر ذبح کرکے ہی عمل ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص خود قربانی نہ کر سکے تو دوسرا اس کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے، اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔
قربانی کا تصور ہر مذہب او رملت میں رہا ہے، لیکن اسلام میں قربانی قرب الہٰی، اعتراف بندگی اور اطاعت شعاری کی علامت ہے، قربانی اس عہد کی تجدید ہے کہ ہمارا جینا مرنا اور پوری زندگی الله کے لیے ہے اورہماری زندگی کا مقصد الله کی بندگی ہے، لہٰذا اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بحیثیت مسلمان ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہونا چاہیے۔

Flag Counter