***
آتش رومی کی سوزش میں ہے علاج تیرا
محترم عبدالوحید معاویہ
آئے روز سورج طلوع ہو جاتا ہے ، پھر ڈھل جاتا ہے اور رات اپنی تاریکی کے ساتھ نمو دار ہو جاتی ہے ، پھر رات گزر کر سورج طلوع ہو جاتا ہے اور یوں… یہ سلسلہ رواں دواں ہے اپنی منزل کی طرف ، معلوم نہیں کہاں سے جاری ہو گیا تھا او رکہاں تک اور کب تک جاری رہے گا۔ مرور ایام کے اس نظام میں ، لیل ونہار کی اس گردش میں انسانوں کے مختلف طبقات وجود میں آئے او رختم ہوئے ، قومیں پیدا ہوئیں اور فنا ہوئیں ، حکومتیں بن گئیں اور مٹ گئیں، گاؤں اور بستیاں آباد ہوئیں اور اجڑ گئیں، عروج وزوال کی داستانیں رقم ہوئیں اور بھلا دی گئیں، اسی لیل ونہارنے، اسی ارض وسما نے ، انہیں ستاروں او رکہکہشاؤں نے قوموں کا عروج وزوال دیکھا، بلندی اور پستی دیکھی ، بادشاہوں اور گداؤں کو دیکھا، ظالم وجابر، فاسق وفاجر آئے تو انبیا ، صلحا ،تقیا اور اصفیا بھی آئے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلتا ہے ، ایک کڑی ہے جو منسلک ہے۔
لیکن یہ سارا نظام… لیل ونہار کا ، صبح وشام کا ، گرمی وسردی کا ، ستاروں اور سیاروں کا، سورج اور کہکہشاؤں کا، پہاڑوں اور جنگلات کا ، سمندروں او رباغات کا اور زمین اور آسمان کا ایک محور کے گرد گھوم رہا ہے، ایک مرکز کا طواف کر رہا ہے ۔ وہ محور اور مرکز ابن آدم ہے، یہی مفہوم ہے ”خلقت الاشیاء لاجلک“ کی، انسان ہے ، جو اشرف المخلوقات ہے، جس کو خلعت نیابت سے مزین کیا گیا ہے ، جس کو پیدا کرکے رب العالمین نے فرمایا تھا کہ میں اپنی بادشاہت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، اپنی قدرت کا ڈنکا بجوانا چاہتا ہوں، اپنی ربوبیت منوانا چاہتا ہوں۔ اٹھارہ ہزار اقسام کی مخلوقات میں سے انسان کا انتخاب کرکے اسے زمین پر بھیج دیا اور اپنی نیابت کا تاج پہنا کر احسن تقویم کے ساتھ اشرف المخلوقات بنانے کی خوش خبری بھی دی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان نے کبھی غور کیا کہ وہ کیا ہے، کیا انسان صرف ظاہری گوشت پوست اور اعضا وجوارح کے ظاہری ڈھانچے کا نام ہے، جس کے ساتھ وہ جیتا ہے؟ کیا لفظ انسان صرف ظاہری جسم اور اعضا وجوارح کے لیے وضع ہوا ہے جن کے ساتھ اس کی زندگی وابستہ ہے ، یہ اس کی غلط فہمی ہو گی اگر وہ اپنے آپ کو گوشت پوست کا بنا ہوا ظاہری ڈھانچہ سمجھتا ہے ۔ حقیقت اس کے خلاف ہے ، واقعات اس کی تردید کرتے ہیں ، جب قلب انسانی کی حرکت بند ہو جائے، سانس رک جائے، جسم وہی ہوتا ہے لیکن انسان نہیں کہلاتا ، بلکہ لاش کہلاتا ہے او رانسانی حقوق سے اسے محروم کیا جاتا ہے ، انسانوں کی فہرست سے نکل کر مردوں کی فہرست میں داخل ہو جاتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ انسان جسم کے ظاہری ڈھانچہ کا نام نہیں، بلکہ جسم کے ساتھ روح بھی ہے، دونوں کے مجموعہ کا نام انسان ہے ۔ جب تک روح اور جسم کا تعلق آپس میں قائم رہتا ہے ، تو انسان انسان کہلاتا ہے اور جب روح او رجسم میں تعلق ختم ہو جائے تو جسم پھر لاش کہلاتا ہے ۔
انسان کے یہ دو جہاں ہیں ، ظاہری جہاں یعنی جسم ، جس کو چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے اور باطنی جہاں جسے نہ دیکھا جاسکتا ہے نہ چھوا، اسی میں روح آباد ہے ، اسی میں دل دھڑکتا ہے ، اسی میں خواہش جنم لیتی ہے ، اسی میں امنگیں اور آرزوئیں پروان چڑھتی ہیں، اسی میں غموم اور سرور ، نفرت ومحبت، بغض وایثار جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، یہی انسان کی اصل دنیا ہے، جو نظروں سے اوجھل ہے ، جب تک اس کا نظام چلتا رہتا ہے، انسان زندہ رہتا ہے ، اسے معاشرہ میں تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں او رجہاں سے یہ نظام بند ہو جاتا ہے وہیں سے انسان بدل جاتا ہے، اب وہ انسان نہیں، مردہ بے جان لاش ہو جاتا ہے ۔
انسان کی ظاہری دنیا ( جسم) خارجی اثرات کو قبول کرتی ہے، اسے زمانہ کے حوادث سے دو چار ہونا پڑتا ہے، کبھی وہ صحت مند ہے تو کبھی بیمار، کبھی مغموم ہوتا ہے تو کبھی مسرور، کبھی نزلہ وبخار ہوتا ہے تو کبھی زکام، بعینہ اسی طرح انسان کی باطنی دنیا، جہاں روح آباد ہے رذائل وصفات حسنہ جیسی متضادرنگتوں کیحامل ہوتی ہے، اگر یہاں غم وغصہ موجود ہے تو حلم وبرداشت بھی آباد ہے، تکبروریا کی بدبو ہے تو عاجزی اور اخلاص کی خوشبو بھی ہے، خود غرضی اور خود پسندی کی آما جگاہ بنا ہوا ہے تو ایثار اور قربانی کا مسکن بھی ہے، اگر حب جاہ ومال کے متلاطم موجیں جوش مار رہی ہیں تو الله اور اس کے رسول پر جان فدا کرنے کی ولولے بھی خاموش نہیں ہیں، یہاں نفس وشیطان اپنی کارستانی میں مصروف ہیں تو وہاں وعدہ الست بھی ہر دم نگہبان ہوتا ہے۔
یہی دو حیثیتیں ہیں جن کو اسلام نے کبھی نظر انداز نہیں کیا، جو کہ زندگی کا ایک ہمہ گیر نظام ہے ، جہاں وہ نماز وروزہ، زکوٰة اور حج کے احکام دے رہا ہے وہاں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی بھی تعلیم دیتا ہے، جہاں چوری اور ڈاکا، شراب وکباب، زنا وبدکاری، غصب اور قتل کی مذمت کرتا ہے وہاں ریا او رتکبر، خود غرضی وخود پسندی، زبان درازی اور نظر بازی جیسی قبیح صفات کی بھی دھجیاں اڑاتا ہے، اگر جسم کے ظاہری ڈھانچہ کو احکام دیتا ہے تو قلب وروح کو بھی مامور کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی لگام وابستہ ہے اس جہانِ روح وقلب سے ، جو نظروں سے پوشیدہ ہے اور جس پر باطنی احکام کا دار ومدار ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دل ہے کیا؟ یہ روح ہے کیا؟ ایک طبقہ کہتا ہے دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جو بائیں جانب سینہ کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، جوف میں جما ہوا خون ہوتا ہے جو سوداء قلب کہلاتا ہے، وہ خون کے پمپنگ کے عمل کو دھڑکن سے تعبیر کرتا ہے، جب کہ روح دل کے اندر جوف میں جمے ہوئے خون سے اٹھنے والی بھاپ اور اسٹیم کا نام ہے ، جو سارے بدن میں گردش کرتی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دل او رروح ، ظاہری قلب اور روح کے ساتھ ، دو لطیف قوتیں ہیں ۔ یہ لطیف اور پوشیدہ قوتیں کیا ہیں او رکیسی ہیں؟ یہ انسان کے ادراک سے باہر ہے، ان کا ادراک صرف ان کے پیدا کرنے والے کو ہے۔ یہ معلوم ہے کہ مقناطیس اور لوہے میں ربط ہے ، جوڑ ہے، پر ربط کیا ہے ، جوڑ کیا ہے، ہمیں کوئی علم نہیں ، قلب وروح کی یہ پوشیدہ قوتیں خون کے اس لوتھڑے کے ساتھ جوڑ رکھتی ہیں ، لیکن یہ ہمارے ادراک سے باہر ہے، ان کا ادراک صرف ر ب العالمین کو ہے ، یہی تشریح ہے اور مطلب ہے ﴿قل الروح من امر ربی﴾ کی۔
دل کا یہ پوشیدہ جہاں اور نظروں سے اوجھل دنیا، انسان کے ظاہری جہاں کی بنیاد ہے ، اسی کے بناؤ اور بگاڑ پر موقوف ہے انسان کا بناؤ اوربگاڑ، اگر دل کا یہ جہاں ٹھیک ہے، نظام ٹھیک ہے ، خواہشات صحیح ہیں، جذبات نیک ہیں تو انسان صحت مند ہے ، نیک اور صالح ہے ۔ جب انسان نیک اور صالح ہو گا تو سارے جہاں کا سارا نظام ٹھیک ہو گا، زمین امن وامان کا گہوارہ ہو گی، معاشرہ چوری، ڈاکا، زنا، شراب اور قتل جیسی برائیوں سے پاک ہو گا، لوگوں کی جان، مال اور عزتیں محفوظ ہوں گی، پھر ہر حق دار کو اس کا حق ملے گا، اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے دوسروں کو ان کے حقوق دینے پر مجبور ہوجائیں گے، مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے ، والدین اپنی محبوب اولاد سے اور شوہر اپنی بیویوں سے بے فکر ہو جائیں گے، ہر طرف امن وسکون، خوشی و سرور او راطمینان کی فضا قائم ہو جائے گی، یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں پہاڑوں کی سنگریز وادیوں میں چلنے والی جوان لڑکی اپنی منزل کی طرف بڑھے گی، مگر اس کی طرف اٹھنے والی آنکھ جھکنے پر مجبور ہو گی ۔ ظاہر ہے کہ پھر بادشاہ اور گدا ایک کشتی کے مسافر ہوں گے او رایک منزل کے متلاشی ہوں گے ۔ یہی تشریح ہے او رمطلب ہے ﴿وعدالله الذین آمنوا وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض… الخ﴾ کی۔
لیکن دل کا یہ پوشیدہ جہاں اگر بگڑ جاتا ہے تو پورا انسان بگڑجائے گا او رانسان کے بگڑنے سے سارا جہاں سارا نظام بگڑ جائے گا، زمین میں فساد برپا ہو جائے گا، امن وانصاف ملبہ تلے دب جائے گا، ظلم عام ہو جائے گا، لوگوں کی جان ومال عزت وآبرو داؤ پر لگ جائے گی، یہ سب کچھ انسان کے بگڑنے کے نتیجہ میں ہو گا اور یہ تشریح ہے ﴿ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس﴾ کی۔
معلوم ہوا کہ دل بگڑتابھی ہے اور سنورتا بھی ہے، دل بگڑجاتا ہے تو انسان بگڑ جاتا ہے، دل سنورتا ہے تو انسان سنور جاتا ہے۔ یہی توضیح ہے ”إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ“ کی۔
ظاہری بدن کبھی تندرست وصحت مند ہوتا ہے کبھی بیمار وکمزور،صحت مند رکھنے کے لیے کبھی تدبیر کرنی پڑتی ہے، دواؤں سے علاج کیا جاتا ہے ۔ ظاہری بدن کی طرح قلب وروح کو بھی تندرست اور صحت مند رکھنا پڑتا ہے اور بیمار ہو جائے تو تدبیر کرنی پڑتی ہے ۔ دل کی تندرستی خالق ومالک کی پہچان ہے کہ وہی نفع ونقصان، راحت وتکلیف کا مالک ہے ، وہی منعم حقیقی ہے، وہی خیروشر کا مالک وخالق ہے اور اسی کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے، تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ ہو، اسی کی رحمت کا امیدوار او راسی کی رضا جوئی کی فکر ہو ، صدق واخلاص کے ساتھ ہمہ وقت، ہمہ تن اس کے احکام کی اطاعت گذاری ہو ۔ اور دل کی بیماری الله کی یاد سے غفلت ہے ، اس کے احکام کی خلاف ورزی ہے ، کفر وشرک ، حسد وکینہ، تکبر ونخوت، بخل وحرص، حب مال وجاہ اور غرورو نفاق ہے۔
ظاہری بدن کی بیماریاں چوں کہ محسوس بالحواس ہوتی ہیں تو ان کے معالجات بھی محسوس آلات اور دواؤں سے ہوتے ہیں، جب کہ باطنی امراض آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں نہ نبض وغیرہ سے پہچانے جاسکتے ہیں تو ان کا علاج بھی محسوس دواؤں اور غذاؤں سے نہیں، بلکہ قرآن وسنت کے بتلائے ہوئے اصول ہی سے ہو سکتا ہے ۔ ظاہری اعمال ومعاملات ہوں یا باطنی اخلاق و عقائد ،سب کی اصلاح کا مکمل نظام قرآن وسنت میں موجود ہے۔
صحابہ وتابعین سے لے کر موجودہ زمانے کے صالحین وکاملین تک، جس کو جس چیز میں کمال حاصل ہوا تھا، صرف اسی نظام عمل کی مکمل پابندی سے حاصل ہوا تھا۔ وہ اگر نماز، روزے، حج اور زکوٰة کے پابند تھے تو صدق واخلاص، توحید وتواضع، صبر وشکر، توکل وزہد میں بھی باکمال تھے، اگر وہ جھوٹ وفریب ، چوری وبے حیائی جیسے گناہوں سے ڈرتے بچتے تھے تو کبر ونخوت، دوسروں کی تحقیر وتذلیل، حب جاہ ومال او رحرص وبخل جیسے باطنی گناہوں کو بھی ایسا ہی حرام جانتے اور ان سے پرہیز کا اہتمام کرتے تھے ۔ یہ وہی اکابر تھے جنہوں نے صرف علوم ظاہرہ پر کبھی بھی اکتفا نہیں کیا، بلکہ ظاہری علوم کی تکمیل کے ساتھ باطنی اصلاح وتربیت میں بھی برابر لگے رہے۔
لیکن زمانے کی نیرنگیاں بھی کیا کیا گل کھلا رہی ہیں ، آج ہر طرف غفلت کے جراثیم پھیل گئے ہیں، صدیوں پر محیط روش بدل گئی ، دین کو اعمال ظاہرہ میں منحصر سمجھ لیا گیا۔ صدق واخلاص توحید وتوکل، صبر وشکر ، قناعت وزہداور تقوی کے صرف الفاظ زبانوں پر رہ گئے، حب مال وجاہ ، نخوت وغرور، غیظ وغضب ، کینہ وحسد جیسے مہلک امراض سے نجات حاصل کرنے کی فکر دلوں سے محو ہو گئی، ظاہر تو کچھ دین کے مطابق بنا لیا گیا، چند بڑے ظاہری گناہوں سے بچنے پر اکتفا کیا گیا، جو جبہ ودستار میں نہیں کھپتے جب کہ باطنی گناہ، جن پر جبہ ودستار کا پردہ ڈالا جاسکتا تھا ان کو شیر مادر سمجھ لیا گیا۔ نتیجتاً تعلیم وتبلیغ بے اثر ہو کر رہ گئی ، خطابت کے جوہر ماند پڑ گئے ، قلم کی قلم کاری قرطاس تک محدود ہو گئی ، علم نقوش کا نام رہ گیا ، عمل واخلاص ماضی کا قصہ پارینہ بن گیا، اگر صرف ظاہری علم وفن باعث فضیلت ہوتا تو سینکڑوں یہودی، نصرانی، لامذہب دھیرئیے او رمستشرقین آج بھی علم وتحقیق کے صف اول کے شاہ سوار ہیں ، ان کو بھی رومی اور غزالی کا مقام حاصل ہوتا مگر ان کا علم وتحقیق دین نہیں بلکہ نرا فلسفہ ہے ۔ علوم ظاہرہ کی فن دانی، تحقیقی مباحث کی گہرائی او رعلمی موشگافیاں دینی کمال تھا، نہ ہے، دین علوم ظاہری اور باطنی، دونوں کے جمع کرنے اور ان پر عمل کرنے کا نام ہے۔