Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 14
***
مدارس اسلامیہ کا مقصد
مولانامفتی محمدرفیع عثمانی
اکبر الٰہ آبادی نے جب اس صورت حال کو دیکھا کہ انگریز مسلمانوں کے بچوں کو قتل تو نہیں کر رہا، لیکن سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں داخل کرکے اپنا بنایا ہوا نصاب ، اپنے بنائے ہوئے سیکولر ماحول میں پڑھا کر ان بچوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام بنا رہا ہے ، تاکہ نئی نسل سے ہمیں کوئی خطرہ باقی نہ رہے ، اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے اس تعلیمی پالیسی پر اپنے ایک شعر میں خوب تبصرہ کیا ہے۔ فرعون کو جادو گروں یا کسی خواب دیکھنے والے نے یہ بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل میں کوئی لڑکا پیدا ہونے والا ہے ،جو تیری حکومت کا خاتمہ کر دے گا ، تو اس نے یہ حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا بھی پیدا ہو اس کو قتل کر دیا جائے ، تاکہ فرعون کی فرعونیت کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے ۔ فرعون نے نومولود بچوں کو قتل کیا اور اتنا بدنام ہوا کہ آج تک اس کے اس ظلم کا چرچا زبانوں پر ہے ، لیکن الله تعالیٰ کو کچھ او رمنظور تھا، الله تعالیٰ نے اسی کے ہاتھوں حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کرائی ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی نے اس کی حکومت کا خاتمہ بھی کیا، فرعون کو جو بدنامی اٹھانا پڑی وہ الگ رہی ۔ تو اکبر الٰہ آبادی مرحوم، فرعون کے عمل اور انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ #
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
مطلب یہ تھا کہ فرعون نے بچوں کا قتل عام کیا، تاکہ ان میں سے کوئی اس کی حکمرانی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ انگریزوں نے قتل عام کرکے بدنامی تو مول نہیں لی ، لیکن اسکول اور کالج کھول کر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کر دیا جس سے ہندوستانی مسلمانوں کی نسلیں غلامی کی خوگر ہو جائیں، یہ درحقیقت ان کا نظریاتی اور اخلاقی قتل عام تھا، تو اکبر الٰہ آبادی مرحوم فرماتے ہیں #
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یعنی فرعون بھی اگر قتل کے بجائے ایسے ہی اسکول کھول لیتا اور ایسے ہی کالج کھول لیتا جیسے انگریزوں نے کھولے ہیں تو قتل کی بدنامی اس کے حصے میں نہ آتی اور بنی اسرائیل کو محکوم بنائے رکھنے کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا۔
انگریزوں نے یہ چال بازی کی کہ قتل عام تلوار سے تو نہیں کیا، لیکن نظام تعلیم کے ذریعے نظریاتی قتل عام کیا۔ اس صورت حال کو کسی اور شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے کہ #
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
علماء نے انگریزوں کے اسکولوں کی مخالفت کیوں کی؟
ہمارے علمائے کرام نے اس وقت مسلمان بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلے سے روکا، آج یہ طعنہ دیا جاتا او راعتراض کیا جاتا ہے کہ علماء ، جدید علم او رحکمت کے خلاف ہیں ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بُرا سمجھتے ہیں ، یہ بالکل واقعات کے خلاف بہت ہی بھونڈہ الزام ہے، علماء نے سائنس اور ٹیکنالوجی یا عصری علوم کی کبھی مخالفت نہیں کی ، علم وفن کی کبھی مخالفت نہیں کی،بلکہ ہمیشہ علم وفن کی سرپرستی اور قدردانی کرتے رہے اور علم وفن کو ترقی دینے میں کوشاں رہے ۔ میں پیچھے کہہ چکا ہوں کہ علمائے دین کے پاس تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ سبق موجود ہے کہ : ﴿کلمة الحکمة ضالة المؤمن﴾ یعنی حکمت کی بات مؤمن کی متاعِ گم شدہ ہے۔ یورپ اور انگلینڈ سے جو سائنس اور ٹیکنالوجی آرہی تھی، علما اس کی مخالفت نہیں کر رہے تھے اور نہ آج کر رہے ہیں ، مخالفت اس ماحول کی او راُس خاص نصاب ونظام کی کر رہے تھے جو اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان بچوں کو ذہنی طور پر غلام بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا او رانگریزی زبان کی مخالفت بھی اس وجہ سے کر رہے تھے کہ وہ انگریزی کو مسلمانوں کی قومی وسرکاری زبان فارسی کی جگہ رائج کر کے مسلمانوں کا رشتہ ان کی قومی روایات سے، ان کی تاریخ سے او ران کے شان دار ماضی سے توڑنا چاہتے تھے ۔ جدید علم وحکمت کی علما نے کبھی مخالفت نہیں کی، اسکول وکالج کھلتے گئے ، ملازمتیں انہیں کی ڈگریوں کی بنیاد پر ملنے لگیں اور جس کے پاس وہ ڈگری نہیں تھی وہ بے روز گار رہا ، بے عزت ہوا اور ان پڑھ کہلایا۔ ادھر ہندوؤں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے اپنے حربے استعمال کرنے شروع کر دیے ، انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مبلغین بلاکر یہاں کے مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر اُن کے ایمان پر ڈاکا ڈالنا شروع کیا۔
دارالعلوم دیوبند کا قیام
ان حالات میں اس بات کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اس دور محکومی میں اسلامی علم وحکمت، قرآن وحدیث، فقہ، اُصول فقہ، تفسیر او رتمام اسلامی علوم کی وہ میراث جو دینی مدارس کے ذریعے تیرہ سو سال سے اب تک محفوظ چلی آرہی تھی ، وہ ہمارے ہاتھوں سے نہ جاتی رہے ، اس وقت ہمارے بزرگوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، جس میں سب سے آگے مولانا محمد قاسم نانوتوی ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ ہم کم از کم اسلامی علوم کو اور اسلامی اقتدار کے زمانے میں علم وحکمت کے جو دوسرے شعبے تھے مثلاً حساب ، الجبرا، جیومیٹری( اقلیدس) ، علم ہیئت ( فلکیات)، جغرافیہ، منطق، فلسفہ، عربی شعر اورادب اور طب وغیرہ ان سب کو تو محفوظ کر ہی لیں ، اس مقصد کے لیے انہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا ، دارالعلوم دیوبند بڑی سادگی کے ساتھ ایک اُستاد اور ایک شاگرد سے شروع ہوا ، اُستاد کا نام بھی محمود، شاگرد کا نام بھی محمود، ایک انار کے درخت کے نیچے یہ مدرسہ شروع ہو گیا۔
مدرسہ عمارت کا محتاج نہیں
مدرسے کے لیے عمارت کی ضرورت نہیں ہوتی ، عمارت مل جائے تو یہ الله کا کرم ہے ، لیکن مدارس کی تاریخ بتاتی ہے کہ مدار س کا وجود عمارتوں کا محتاج نہیں ہوتا ، مدرسہ نام ہے اُستاد اور شاگرد کا، جہاں اُستاد اور شاگرد بیٹھ جائیں، اُستاد پڑھانا اور شاگرد پڑھنا شروع کر دے وہی مدرسہ ہو جاتا ہے ، چاہے وہ درخت کا سایہ ہو ، یا ریگستان اور چاہے وہ کوئی جزیرہ ہو یا پہاڑ کی چوٹی ، اسی طریقے سے دارالعلوم دیوبند قائم ہوا اور پھر رفتہ رفتہ وہ عالم اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی بن گئی اور یہاں سے وہ آفتا ب وماہتاب پیدا ہوئے جن کے نام لیوا آج دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم بھی ان کے نام لیواؤں میں شامل ہیں ، اگرچہ ہماری زبانیں اس قابل نہیں کہ وہ ان مقدس ہستیوں کا نام لیں۔
علمائے دیوبند کی سب سے بڑی خوبی
دارالعلوم دیوبند سے تیار ہونے والے علمائے کرام کی ایک اہم خصوصیت اور سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے علم وعمل اور قول وکردار سے صحابہ کرام کے نمونے پیش کیے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کا اتباع کیا اور واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخصیت صحابہ کرام کا نمونہ بنی، اُن بزرگوں کے اعلیٰ کردار اور علمی وعملی کمالات کی ایک طویل اور لذیذ داستان ہے ، ان کے واقعات اور حکایات شروع کر دوں تو دو دن اسی میں گزر جائیں ۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ، وہ کیسے بے نفس لوگ تھے، ان کو الله تعالیٰ نے ریاء اور طلب شہرت جیسے رزائل سے بچایا تھا، یہ حضرات بدعتوں کا قلع قمع کرنے والے اور سنتوں کو زندہ کرنے والے تھے ﴿اشداء علی الکفار رحماء بینھم﴾ کا نمونہ تھے، بدعت کا رد ہو یا دوسرے مخالفین سے مجادلہ ، دونوں کام سنت کے مطابق کرتے تھے، اپنی من مانی نہیں کرتے تھے۔
حضرت شیخ الہند کا سبق آموز واقعہ
کانپور میں جب حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله علیہ ایک مدرسہ میں پڑھاتے تھے تو انہوں نے اپنے استاذ محترم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله علیہ کو دعوت دی، تاکہ وہاں تشریف لائیں اور بیان فرمائیں ، کانپور میں بے چارے کچھ لوگ کچھ بدعات میں مبتلا تھے اور ان کے مریدین کا بڑا حلقہ تھا، شہرت یافتہ حضرات تھے اور عام طور پر ان میں یہ چرچے ہوا کرتے تھے کہ میاں! یہ علمائے دیوبند کیا جانیں علوم کیا ہوتے ہیں ؟ ان کو تو علوم کی ہوا بھی نہیں لگی ۔ اسی طرح کی باتیں کرتے تھے ، تو حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے حضرت شیخ الہندکی تشریف آوری پر جلسے میں اُن حضرات کو بھی دعوت دی ، حضرت شیخ الہندرحمة الله علیہ کا ایمان افروز بیان ہوا، پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا، گویا علم وحکمت اور فصاحت وبلاغت کا دریا دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا، اسی دوران وہ حضرات بھے آگئے ، جو علمائے دیوبند سے اختلاف یا مخالفانہ رویہ رکھتے تھے، ان کے معتقدین بھی ساتھ تھے ۔ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ خوش ہوئے کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے ، یہ حضرات ہمارے استاذ کی تقریر سنیں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے بزرگوں کے پاس کتنا علم ہے ، کیسی حکمت اور دانائی ہے۔
حضرت شیخ الہند نے جیسے ہی ان اہل بدعت کو دیکھا تو خاموش ہو گئے ، تقریر وہیں ادھوری چھوڑ دی ، لوگ سمجھے کسی عذر سے یا شاید پانی پینے کے لیے رک گئے ہیں ، جب چند منٹ گزر گئے تو حضرت تھانوی نے پوچھا: حضرت! کیا بات ہے ؟ فرمایا: اب میں تقریر نہیں کروں گا ۔ عرض کیا: حضرت! اب تو تقریر کا وقت آیا تھا، اس پر حضرت نے جو جملہ فرمایا وہ آب زر سے لکھنے اور دل میں کندہ کرنے کے قابل ہے، فرمایا: ” تم کہتے ہو کہ اب تو تقریر کا وقت آیا ہے، یہی بات تو میرے دل میں آگئی تھی ( جس کی وجہ سے تقریر چھوڑ دی) یعنی اب تک الله کی رضا کے لیے بیان ہو رہا تھا ، اب بیان جاری رکھتا ہوں تو یہ ان کو دکھانے کے لیے ہو گا ، الله کے لیے نہیں ہو گا، اس لیے تقریر چھوڑ دی۔“
یہ حضرت علی کے ایک عظیم کردار کا نمونہ ہے 
دیکھیے! یہ واقعہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسا حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا، ایک یہودی نے حضرت علی رضی الله عنہ کے سامنے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے کلمات کہے، حضرت علی رضی الله عنہ فاتح خیبر کیسے برداشت کرسکتے تھے ، اس کو زمین پر پٹخ مارا، سینے پر سوار ہو گئے او راُسے قتل کرنے کے لیے خنجر نکالا۔ یہاں ایک بات یاد رہنی چاہیے، وہ یہ کہ شان رسالتمیں صریح گستاخی کے مجرم کوجان سے مارنے کا اختیار حضرت علی رضی الله عنہ کو اس وجہ سے تھا کہ وہ امیر المؤمنین تھے، انہوں نے اپنے کانوں سے اسے گالی دیتے ہوئے سنا، دوسرے لوگ جو وہاں موجود تھے انہوں نے بھی سنا ، مجرم کا جرم ثابت تھا، جس کی سزا موت ہے ، اس واسطے انہیں قتل کرنے کا اختیار تھا ، مجھے اور آپ کو اس وقت تک کسی کو قتل کرنے کا اختیار نہیں جب تک عدالت فیصلہ نہ کر دے کہ اس نے یہ جرم کیا ہے، اسے قتل کر دیا جائے، شریعت کا قانون یہی ہے ۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے قتل کرنے کے لیے خنجر نکالا تو اس یہودی نے منہ پر تھوک دیا، حضرت علی رضی الله عنہ نے کچھ سوچا اور اسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے ، لوگوں نے عرض کیا : امیر المؤمنین ! اسے آپ نے ایسے ہی چھوڑ دیا ؟ فرمایا: ” پہلے میں الله تعالیٰ کی رضا کے لیے قتل کر رہا تھا، جب اس نے میرے منہ پر تھوکا تو مجھے غصہ او رزیادہ آگیا، مگر میں نے سوچا کہ اب اگر اسے قتل کروں گا تو اپنے نفس کے انتقام کا جذبہ بھی شامل ہو گا۔“ یہودی نے جب دیکھا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے غلاموں کی یہ عظمت ہے تو اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ حضرت شیخ الہند نے درحقیقت حضرت علی رضی الله عنہ کی مثال قائم کی۔ یہ تو ایک مثال ہے ، ہمارے اکابر کی زندگیاں صحابہ کرام کی زندگیوں کا نمونہ تھیں، ہمارے بزرگان دیوبند، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے چلتے پھرتے نمونے تھے، الحمد لله ان حضرات نے ان علوم نبوت کی حفاظت کی جوپچھلے تیرہ سو سال سے علمائے دین اورعلمائے اسلام کے ترکہ میں چلے آرہے تھے ، اس کی پروا نہیں کی کہ ہمیں سرکاری اداروں میں ملازمتیں نہیں ملیں گی انھو ں نے روکھی سوکھی کھا کر ، تنگ وتاریک حجروں میں رہ کر اور بعض اوقات فاقہ کشی کرکے بھی اور لوگوں کی ملامتیں سن کر بھی ، اپنے کام کو جاری رکھا اور علوم دینیہ کی حفاظت میں الحمدلله کامیاب ہو گئے۔
علی گڑھ کے ادارے کا قیام
عین اُسی زمانے میں جب دارالعلوم دیوبند قائم ہو رہا تھا ، مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ایک ہم سبق سرسید احمد خان مرحوم نے علی گڑھ میں تعلیمی ادارہ قائم کیا ، ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کو سرکاری ادارہ میں ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں اور ہندوخوب ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی معاشی وسیاسی موت واقع ہو جانے کا ندیشہ ہے ، انہوں نے مسلمانوں کی سیاست ومعیشت کے تحفظ کے لیے علی گڑھ کا داراہ قائم کیا ، تاکہ وہاں انگریزوں کے لائے ہوئے نصاب تعلیم کو رائج کرکے کم از کم مسلمانوں کی سیاست اور معیشت تو محفوظ کر دی جائے ۔ تو دیوبند کا مشن تھا ، مسلمانوں کے دِین کا تحفظ اور سرسید کے اس تعلیمی ادارے کا مقصد تھا مسلمانوں کی دنیا کا تحفظ ، دونوں نیتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھیں، مسلمانوں کے دِین کا تحفظ بھی ضروری ہے، ان کی سیاست ومعیشت اور دنیا کا تحفظ بھی ضروری ہے ۔
یہاں سے دین ودُنیا میں تفریق پیدا ہوئی
لیکن المناک بات یہ ہوئی کہ پہلے یہ دونوں کام ایک ہی قسم کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتے تھے ، اب یہ کام تقسیم ہو گئے، علی گڑھ کا نصاب ونظام اور طریقہ کار الگ اور دیوبند کا نصاب ونظام اور طریقہ کار جدا۔ دین اور دنیا میں تفریق ہوئی، تعلیم کے دونوں نظاموں میں خلیج پیدا ہوئی ، اپنے اپنے مقصد میں دونوں ادارے کامیاب ہوئے ، دیوبند نے علوم نبوت کی الحمدلله ایسی حفاظت کی کہ جب آزادی ملی اور پاکستان قائم ہوا تو وہ علوم نبوت جوں کے توں اسی طرح محفوظ تھے جیسے انگریزوں کے آنے سے پہلے محفوظ تھے، بلکہ محفوظ ہی نہیں، بلکہ الحمدلله بزرگانِ دیوبند اور ان کے شاگردوں نے ان میں اورنکھار پیدا کیا تھا اور ان کو آگے بڑھایا تھا۔ ادھر علی گڑھ بھی اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوا۔ پاکستان بن گیا۔ الحمدلله پاکستان کا قیام پورے برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کا مرہونِ منت ہے ، لیکن اگر حضرات علمائے دیوبند کی ایک بڑی جماعت تحریک پاکستان میں پیش پیش نہ ہوتی تو مسلمان ان قربانیوں کے لیے تیار نہ ہوتے ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں ان کے رفقاء حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی اور ہمارے والدماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  اور علمائے دیوبند کی ایک بڑی جماعت قیام پاکستان کی تحریک میں سر گرم ہوئی، پیش نظر یہ تھا کہ ہمیں ایک ایسا خطہ مل جائے، جس میں ہم اسلامی معیشت ، اسلامی تجارت، اسلامی نظام تعلیم ، اسلامِ حکومت ، اسلام کا عدل وانصاف اور اسلامی معاشرت قائم کر سکیں ۔ الحمدلله پاکستان وجود میں آیا تو ہمارے بزرگوں کے سامنے سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ یہاں اسلامی حکومت کے شایانِ شان نظام قائم ہو ، اسلامی معاشرہ قائم ہو۔ نظام حکومت بھی اسلامی ہو ، نظام تعلیم بھی اسلامی ہو ۔
یہ دونوں نظام تعلیم دفاعی نوعیت کے تھے 
والد ماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  بار بار فرمایا کرتے تھے کہ دیوبند جس مقصد کے لیے قائم ہوا تھا اور علی گڑھ جس مقصد کے لیے قائم ہوا تھا دونوں اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ، لیکن یہ دونوں نظام تعلیم دفاعی تھے، اقدامی نہیں تھے ۔ میں مفہوم عرض کر رہا ہوں الفاظ نہیں ۔ یہ دونوں دفاعی نظام تعلیم تھے ،ا قدامی نہیں تھے ، یعنی ایک غیر مسلم قوم ہم پر مسلط ہو گئی تھی ، اسلام اور مسلمانوں کو اس کی دست برد سے بچانے کے لیے دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ایک قلعہ تعمیر کیا گیا، جہاں اور علوم دین اور اسلامی روایات کی حفاظت کی گئی اور جدید علوم وفنون سے مجبوراً قطع نظر کرنی پڑی، جوبلاشبہ دنیاوی حیثیت سے ایک نقصان تھا اور علی گڑھ میں مسلمانوں کی دنیا اور ان کی معیشت کی حفاظت کے لیے جدید علوم وفنون کو اپنایا گیا مگر وہاں جانے والوں میں دین کی وہ پختگی نہیں رہی ، ان میں سے بہت سوں کے اندرانگریزوں کی ذہنی مرعوبیت پیدا ہو گئی اور اپنی دینی وقومی روایات کے بارے میں ان میں سے بہت سے لوگ احساس کمتری کا شکار ہو گئے ۔ بہرحال یہ دونوں نظام تعلیم دفاعی نوعیت کے تھے جو حالات کے جبر کے باعث ” دفاعی حیثیت“ سے آگے نہ بڑھ سکے۔
پاکستان کو نئے نظام تعلیم کی ضرورت تھی
حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ جب پاکستان بن گیا اور مسلمانوں کا ایک آزاد اور خود مختار وطن دنیا کے نقشے پر ابھر آیا تو یہاں پورے ملک کے نظام تعلیم کے طور پر نہ علی گڑھ کا نظام تعلیم کافی تھا نہ دیوبند کا نظام تعلیم یہ دونوں ایسے نظام نہیں تھے کہ ان میں سے کسی ایک کو جوں کا توں پاکستان کے سب تعلیمی اداروں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹوں میں جاری کر دیا جائے، اگر ایسا ہوتا تو اب پھر مذہب سے محرومی رہتی یا دنیا سے۔ ہمارے والد صاحب  او رہمارے دوسرے بزرگوں کا یہ سوچا سمجھا نظریہ تھا کہ یہاں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دین ودنیا کی تفریق نہ ہو ایک مرحلے تک مثلاً میٹرک تک مشترک نصاب تعلیم چلے اور اس میں ضروری دینی مسائل اور قرآن وسنت کی بنیادی تعلیم بھی قومی اور مادری زبان میں ہو اور عصری علوم وفنون بھی ساتھ ساتھ چلیں ،میٹرک تک دینی اور دنیاوی نصاب تعلیم میں کوئی فرق نہ ہو ، میٹرک کے بعد جس طریقے سے ہر علم وفن کے لیے اسپیشلائزیشن اور تخصص ہوتا ہے اس نظام میں بھی ہو کہ کوئی طالب علم عصری علوم میں آگے بڑھے، کوئی دینی علوم میں، پھر آگے جا کر کوئی فقہ میں تخصص کرے ، کوئی حدیث میں ، کوئی جغرافیہ میں ، کوئی انجینئرنگ میں، کوئی طب میں ۔ لیکن میٹرک تک تعلیم سب کی مشترک ہو اور آگے سائنس ، ٹیکنالوجی ، جغرافیہ، ریاضی، انجینئرنگ اور طب وغیرہ کی تمام تعلیم بھی اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہو، تعلیمی اداروں کا ماحول مسلمانوں کے شایان ِ شان ہو اور ہمارے نظام تعلیم سے معیاری محدثین وفقہا اور مفسرین ومتکلمین تیار ہوں او رمثالی مسلمان انجینئر، مثالی مسلمان ڈاکٹر، مثالی مسلم سائنس دان تیار ہوں ، جو ملک وقوم کی بھی مثالی خدمت کرسکیں اور اسلام کے مبلغ بھی بن سکیں ۔ اس سلسلے میں ہمارے والد ماجد نے سرکاری سطح پر برسوں کوششیں کیں کہ پورے ملک کا نظام تعلیم سرکاری سطح پر اس انداز میں قائم ہو کہ جس میں دین ودنیا کی خلیج نہ ہو۔
افسوس ناک صورت حال
لیکن افسوس ناک صورت حال یہ سامنے آئی ، جس پر والد صاحب بہت افسوس کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک پر جوحکم ران دو چار سال بعد ہی مسلط ہو گئے تھے وہ یہاں اسلامی تعلیم نہیں لانا چاہتے تھے، انہوں نے انگریزوں کی آغوش میں تعلیم حاصل کی تھی ، انگریزی زبان لکھنا اوربولنا ہی ان کے نزدیک بڑا علم تھا ، ان کے اندر قومی غیرت کا ایسا معیار بھی نہیں تھا جوہر آزاد اور غیور قوم میں پایا جاتا ہے ، انہوں نے اپنی قومی زبان اردو کو پہلے کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ پیچھے دھکیلا۔ انگریزی زبان کو اور لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے نظام تعلیم کو جوں کا توں مسلط رکھا اور ایک آزاد وخود مختار اسلامی ملک کی ضرورت کے مطابق نظام تعلیم قائم کرنے کے سلسلے میں کوئی کوشش بار آور نہ ہونے دی ، حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ اس زمانے میں کئی یونیورسٹیوں کے ممتحن بھی رہے ، نصاب کمیٹیوں کے رکن بھی رہے اوربہت کوششیں کیں کہ کسی طریقے سے اسلامی سانچے میں یہ نظام تعلیم ڈھالا جاسکے ، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ والد صاحب  فرماتے تھے کہ ہم تو یہ چاہتے تھے کہ پورے ملک میں اسلامی نظام تعلیم ہو ، جس میں دونوں قسم کے علوم وفنون جدید ترین ترقی یافتہ شکل میں ہوں ، وہ تو اب ممکن نہیں رہا۔ چلو وہی کام کر لیں جو انگریزوں کے دور میں مولانا محمد قاسم صاحب کو کرنا پڑا تھا۔
دارالعلوم کراچی کا قیام نانک واڑے میں
چناں چہ مجبوراً پھر دارالعلوم کراچی کی بنیاد بڑی سادگی کے ساتھ رکھی گئی کہ کم از کم وہ علوم وفنون جو علمائے دیوبند نے محفوظ رکھے تھے ، جب تک نئی حکومت نہیں آتی، ملک میں اسلامی نظام تعلیم نہیں آتا، کم از کم وہی علوم جوں کے توں محفوظ کر لیے جائیں ۔ الحمدلله ہمارے دینی مدارس اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں ، ان کو جو میراث علمائے دیوبند سے ملی تھی اس میراث کو انہوں نے دین کے قلعوں میں محفوظ رکھا۔ الحمدلله پورے ملک میں دِینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے ، اس سلسلے کی ایک کڑی الحمدلله جامعہ دارالعلوم کراچی ہے ، جس کو میرے والد ماجد نے نہایت سادگی کے ساتھ نانک واڑے میں ایک چھوٹی سے عمارت میں اس کا الاٹمنٹ حاصل کرکے قائم کیا تھا، وہ عمارت پتہ نہیں کب سے بند پڑی تھی او ربہت سارے لوگ اس پر قابض رہ چکے تھے ، جو لوگ اس میں رہائش پذیر تھے جب وہ گئے تو کھڑکیوں کے دروازے تک اتار لے گئے تھے، مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے تھے۔ ہمارے والد ماجد اپنے شاگرد رشید او راپنے داماد حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمة الله علیہ کے ساتھ اس عمارت میں پہنچے، ان کے پاس سامان کیا تھا؟ سوائے جھاڑو کے کوئی ساز وسامان نہیں تھا، جھاڑ ووہاں لے گئے تھے ، اپنے ہاتھوں سے ان دونوں بزرگوں نے اس عمارت کو صاف کیا اور وہاں قال الله قال الرسول کا سلسلہ الله تعالیٰ نے شروع کرا دیا۔ یہ کراچی میں کھڈہ محلہ کے مدرسے کے بعد سب سے پہلا مدرسہ تھا ، کھڈہ میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قیام پاکستان سے پہلے کا چلا آرہا ہے ، اس کے بعد یہ سب سے پہلا مدرسہ یہاں قائم ہوا ۔ اس وقت پاکستان میں مدارس گنے چنے تھے، خیر المدارس، ملتان میں کچھ ہی عرصہ پہلے قام ہوا تھا، جامعہ اشرفیہ، لاہور میں قائم ہوا تھا اور اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ پہلے سے موجود تھا، دارالعلوم کراچی جیسے ہی وجود میں آیا ، دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کے طول وعرض بلکہ باہر سے بھی طلبہ آنے شروع ہوئے ، مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا ، وہاں سے بھی طلبہ آنے لگے ، تین چار سال ہی کے اندر وہ عمارت تنگ پڑ گئی اور دارالعلوم کراچی یہاں کورنگی میں منتقل ہو گیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی کے مزار کی جگہ
کورنگی میں دارالعلوم کے منتقل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی کی پوری کوشش تھی کہ یہاں پاکستان کے شایان شان بڑا دارالعلوم قائم کیا جائے ، والد ماجد بھی اسی کوشش میں تھے ، شیخ الاسلام علامہ عثمانی صاحب  کا جب انتقال ہو گیا تو دارالعلوم کی بنیاد نانک واڑے میں رکھی گئی، علامہ عثمانی صاحب کا ذاتی مکان نہیں تھا ، وہ پاکستان کے بانیوں کی صف اول میں بھی ممتاز مقام رکھتے تھے، مگر انہوں نے ایک انچ بھی ذاتی زمین ترکہ نہیں چھوڑی ، ایک شخص کے مکان کے ایک حصے میں رہتے تھے، سامنے کئی ایکڑ کا میدان تھا، مجھے یاد ہے کہ جب ہم بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ علامہ عثمانی صاحب کے یہاں جایا کرتے تھے تو بچوں کے ساتھ ہم اسی میدان میں کھیلا کرتے تھے، علامہ عثمانی کی وفات ہوئی تو ان کی قبر بھی وہیں بنائی گئی ، نانک واڑے کی جگہ دارالعلوم کے لیے ناکافی ہو گئی تو والد صاحب کی خواہش ہوئی اور علامہ عثمانی صاحب  کے وارثوں اور دوسرے حضرات سے مشورہ بھی ہوا کہ اسی میدان کو حاصل کر لیا جائے تاکہ شیخ الاسلام علامہ عثمانی کی یاد گارکے طور پر یہاں دارالعلوم قائم ہو اور نانک واڑے سے دارالعلوم یہاں منتقل ہو جائے اور اس دارالعلوم کی نسبت علامہ عثمانی کی طرف ہو جائے ، چناں چہ اس پورے میدان کی الاٹمنٹ دارالعلوم کراچی کے نام پر ہو گئی ، ایک عظیم الشان جامعہ دارالعلوم کا جامع نقشہ ( ماسٹر پلان) بنایا گیا، نقشے میں اساتذہ کرام کی رہائش کے لیے بھی مکانات رکھے گئے تھے اور علامہ عثمانی کے دو بھائی یہاں کراچی میں تھے، ان کے لیے بھی پلاٹ رکھے گئے تھے، علامہ عثمانی کی زوجہ محترمہ کے لیے بھی پلاٹ رکھا گیا ، تاکہ یہ حضرات بھی یہاں رہیں ۔د رس گاہوں اور طلبہ کی اقامت گاہوں اور لائبریری سمیت ایک بڑے جامعہ کا نقشہ تیار کرایا گیا۔ ماسٹر پلان تیار ہو گیا اور حکومت سے منظور بھی کرالیا گیا، اس ادارے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے حضرت والد صاحب  نے ہندوستان، مشرقی پاکستان او رمغربی پاکستان کے بزرگوں کو جمع کیا، مہینوں پہلے سے اس کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں ، ہمیں یاد ہے کہ ہم طلبہ پوری پوری رات اس جلسے کی تیاری میں لگے رہتے تھے، طلبہ، اساتذہ اور منتظمین نے اپنا کیمپ اسی میدان میں جاکر ڈال لیا،اس زمانے کے برصغیر کے اکابر جمع ہو گئے ، بنیادیں کھودی گئیں، اس میں روڑی بھی ڈال دی گئی اور بزرگوں نے اپنے ہاتھ سے مسالہ بھی ڈال دیا ، یہ دو روزہ یا شاید تین روزہ کانفرنس تھی ، کانفرنس شروع ہو گئی۔
ایک آزمائش
ایک سرمایہ دار جو سیاست میں نیا نیا داخل ہوا تھا ، وہ دارالعلوم کے اس میدان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس نے شرارت کرکے علامہ عثمانی کی اہلیہ محترمہ کو بہکایا کہ آپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے ، فلاں فلاں کے خلاف سازش ہو رہی ہے ، وہ بیچاری سیدھی سادی محترم خاتون تھیں، اس کی باتوں میں آگئیں، اس شخص نے ان سے کچھ کہلوایا اور اخباری نمائندوں نے پتہ نہیں کس کس طریقے سے ان کی باتیں نقل کرکے اخبارات میں چھپوا دیں اور تاثر یہ دیا گیا کہ علامہ عثمانی صاحب  کی اہلیہ صاحبہ اس میدان میں دارالعلوم کراچی قائم کرنے کی مخالف ہیں ، حالاں کہ حقیقت یہ نہیں تھی ۔ حضرت والد صاحب کو پتہ چلا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ٹوپی ان کے قدموں میں ڈال کر کہا کہ آپ تو میری ماں ہیں ، آپ کے خلاف میں کیسے کچھ کر سکتا ہوں ، یہ تو سب کچھ آپ کے لیے اور علامہ عثمانی کی یاد میں کیا گیا ہے، آپ کے لیے پلاٹ بھی رکھا گیا ہے ، آپ کو کسی نے غلط باتیں بتائی ہیں، مگر چوں کہ علامہ عثمانی کی اہلیہ صاحبہ اسی شخص کے مکان کے ایک حصے میں رہتی تھیں اور علامہ عثمانی بھی تاحیات اسی میں رہے ، محترم اہلیہ صاحبہ کو پورا اطمینان نہ ہوا، والد صاحب کو بڑا غم ہوا ، بار بار کوشش کے باوجود کامیابی نہ ہو ئی ، اگلے دن بھی کانفرنس کا اجلاس ہونے والا تھا۔
حضرت والد صاحب کا مثالی ایثار
راتوں رات والد صاحب نے فیصلہ کیا اور سب کو سنا دیا کہ میں دارالعلوم یہاں نہیں بناؤں گا، میں واپس جارہا ہوں ، مجھے یاد ہے اس وقت کے دارالعلوم کے ناظم اول، ہمارے بہنوئی حضرت مولانانور احمد صاحب  جنہوں نے مہینوں دن رات ایک کرکے بڑی جانفشانی سے اس پوری تقریب کے انتظامات کیے تھے، اس فیصلے پر بہت روئے تھے اور ہم بھی سب رو رہے تھے والد صاحب  سب کو روتا چھوڑ کر اور یہ فرما کر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے کہ جس کا دل چاہے بنالے ، میں دارالعلوم یہاں نہیں بناؤں گا، کیمپ اٹھانے کا حکم دے دیا اور اعلان کر دیا کہ آج کے بعد اس زمین سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ اس زمانے کے چیف کمشنر صاحب کا خط ابھی کچھ عرصہ تک میرے پاس محفوظ تھا، غالباً اب بھی ہو گا، تلاش کروں تو مل جائے گا ، انہوں نے والد صاحب کو خط لکھا کہ مجھے معلوم ہو اکہ بعض شرپسند عناصر نے علامہ عثمانی کی اہلیہ کو دھوکا دے کر آپ کے خلاف سازش کی ہے ، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قانون کی پوری طاقت آپ کی پشت پر ہے ، آپ دارالعلوم بنائیں، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو روک نہیں سکے گی۔ والد صاحب نے اس کا جواب تحریراً نہیں دیا، صرف ٹیلی فون پر شکریہ اداکرکے کہہ دیاکہ بس! مجھے یہاں دارالعلوم نہیں بنانا ، بہت لوگوں نے کہا کہ دینی ادارہ وقت کی اہم ضرورت ہے ، نہیں بنے گا تو بڑا نقصان ہو جائے، اس وقت حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ نے جو جملہ ارشاد فرمایا وہ یاد رکھنے کے قابل ہے :
دارالعلوم بنانا فرض عین نہیں، مسلمانوں کو پھوٹ سے بچانا فرض عین ہے
فرمایا:”یاد رکھو! دارالعلوم بنانا فرض عین نہیں ہے، مگر مسلمانوں کو افتراق سے بچانا فرض عین ہے۔ اگر میں نے یہاں زبردستی دارالعلوم قائم کیا تو کچھ لوگ علامہ عثمانی کی اہلیہ صاحبہ کو ۔ جو میری ماں کے درجے میں ہیں ۔ بہکا کر ایک گروہ بنالیں گے ، کچھ ان کی موافقت کریں گے اور کچھ لوگ میرا ساتھ دیں گے ، مسلمانوں میں افتراق پیدا ہو گا، افتراق سے بچانا فرضِ عین ہے ، دارالعلوم قائم کرنا فرض عین نہیں، میں دارالعلوم یہاں نہیں بناؤں گا۔ خلاصہ یہ کہ وہ میدان اسی حالت میں چھوڑ کر چلے آئے۔ اس کے بعد وہاں اسلامیہ کالج کے نام سے اسی شخص نے ایک کالج بنا دیا، جو آج بھی موجود ہے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی روز بعد جنوبی افریقہ کے ایک تاجر آئے ، انہوں نے کہاکہ کراچی سے باہر تقریباً12 میل کے فاصلے پر ایک شرافی گوٹھ ہے، اس کے قریب ریگستان میں میری چھبیس(26) ایکڑ زمین پڑی ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اسے وقف کردوں، وہاں آپ مدرسہ بنالیں۔ اس زمانے میں یہ سارا ریگستان تھا اور سات میل دور دور تک کوئی سڑک نہیں تھی ، بجلی نہیں تھی ، سات میل دور تک پانی کی لائن نہیں تھی ، سیوریج کی لائن نہیں تھی، ٹیلی فون نہیں تھا، زندگی کے کچھ بھی آثار اس ریگستان میں نہیں تھے ، بس چھوٹا سا ایک شرافی گوٹھ کچھ فاصلے پر موجود تھا، جو الحمدلله اب بھی موجود ہے۔
دارالعلوم کی کورنگی میں منتقل
دارالعلوم یہاں منتقل ہو گیا ، یہ عمارتیں جو آپ کو جنوبی سمت میں نظر آرہی ہیں، پہلے یہ دو عمارتیں بنی تھیں، ایک تیسری عمارت ادھر شمال مغرب میں بنی تھی ، جو نئی مسجد کی وجہ سے ختم کر دی گئی ہے تین عمارتوں سے یہ دارالعلوم یہاں قائم ہوا ۔ اس وقت ہماری تعلیم کے تین سال باقی تھے ، دیگر طلبہ کے ساتھ ہم بھی یہاں آکرآباد ہو گئے ، یہ ریگستانی زندگی تھی ، دیہاتی زندگی تھی، جب ہم یہاں سے شہر جاتے تو یہ کہہ کر جاتے تھے کہ : ”کراچی جار ہے ہیں“۔ دوپہر کو چلتے تو رات کو پہنچتے تھے ، کہیں سے گدھا گاڑی مل گئی تو اس پر بیٹھ گئے، کہیں سے اونٹ گاڑی مل گئی تو اس پر بیٹھ گئے ، کہیں سے پیدل چلتے ،آگے جاکر بس ملی تو اس میں بیٹھ گئے ، اس زمانے میں اس علاقے کا نام کورنگی نہیں تھا ، بلکہ شرافی گوٹھ تھا۔ یہاں اتنی ریت اُڑتی تھی کہ ظہر کے وقت جب ہم نماز کے لیے جاتے تو پندرہ فٹ کے فاصلے کا آدمی نظر نہیں آتا تھا ۔ پھر تقریباً ڈھائی سال بعد اس علاقے میں کورنگی ٹاؤن کی تعمیر اور آبادی شروع ہو گئی ، اس طرح الله تعالیٰ نے رفتہ رفتہ شہر کراچی کویہاں تک پہنچا دیا، شروع میں یہاں دارالعلوم کو صرف چھبیس(26) ایکڑ زمین ملی تھی، پھر رفتہ رفتہ الله تعالیٰ نے رقبہ زمین میں اضافہ فرمادیا، اب یہ جامعہ دارالعلوم کراچی بہتر (72) ایکڑ کے رقبے پر آپ کے سامنے ہے ، ولله الحمد․
ایثار کے نتائج
میرے مرشد حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ دارالعلوم کو جو الله تعالیٰ نے اتنی بڑی زمین ، اتنے وسائل ، اتنی برکت اور اتنی ترقی عطا فرمائی یہ مفتی صاحب کو الله تعالیٰ نے ان کے اس ایثار کا بدلہ دیا ہے جو امت کو انتشار سے بچانے کے لیے انہوں نے علامہ عثمانی کے مزار کے میدان کے سلسلے میں کیا تھا، وہاں انہوں نے دارالعلوم قائم نہیں کیا ، الله تعالیٰ نے اس سے کئی گنا زیادہ زمین او راس کے وسائل عطا فرما دیے۔
وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین

Flag Counter