***
غربت ومہنگائی اور والیانِ وطن
محترم یرید احمد نعمانی
”یہاں حکمرانوں کو صرف اپنی کرسی کی فکرہے ۔کسی کو ملک کی پروا نہیں ۔جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیداہوئے ہوں انہیں غریب آدمی کے دکھ کا کیا احساس ہوگا؟“ان خیالات واحساسات کا اظہاروقاربابر نے اس وقت کیا ،جب ان کے پاس بچوں کی عیدی کی خریداری کے لیے ادھار لیے گئے 4000روپے ختم ہوگئے اورشاپنگ بھی نامکمل اورادھوری رہی۔
قارئین!یہ جذبات،یہ مایوسیاں اوریہ دکھڑے صرف ایک ملازمت پیشہ وقاربابرکے نہیں۔ یہ توروزافزوں گرانی کے ہاتھوں مجبورومقہورلوگوں کی دیگ کا ایک ”چاول“ہے،جسے دیکھ کر بقیہ افراد کے ”پکنے“کو اس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔ تنگ دستی وخستہ حالی کی ایسی بیسوں تصویریں اورسینکڑوں مناظر ہمارے اردگردپھیلے ہوئے ہیں۔ اشیائے خورونوش کیپیہمگرانی،غیرملکی قرضوں کے متواترتجاوز،بجلی کی قیمتوں میں بے رحمانہ اضافہ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ دار وشریک کار ہونے کا انعام ہمیں کن کن صورتوں اور منظروں میں دیکھنے کو مل رہا ہے؟برسرزمین حقائق کیاکہانی سنا رہے ہیں ؟یہ منظر نامہ اپنے اندر کتنی حقیقت وصداقت سموئے ہوئے ہے؟ان سوالات کے جوابات کے لیے کسی خاص زائچہ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ۔
خبرہے کہ کراچی میں عید کے تینوں دن سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔اس ضمن میں شہری حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی پرائزکنڑول کمیٹیاں مکمل طورپہ غیر موثر وغیر فعال رہیں۔جس کی وجہ سے 10روپے والی دھنیے کی گڈی 40،ٹماٹر90،پیاز80،آلو40اور چھوٹاگوشت 470روپے کلو فروخت کیا گیا۔گذشتہ سے پیوستہ مہینے میں وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اس ببانگ دہل دعوی کے باوصف :”حکومت چینی مہنگی نہیں ہونے دے گی، نیز شوگرمافیاکی سازشیں ناکام ہوں گی۔“عملاًرواں ماہ سے چینی کی قیمت 85روپے فی کلومقررکردی گئی ہے۔عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمتوں میں زیادتی کے باعث ملٹی نیشنل کمپنیوں نے برانڈ ڈگھی کی قیمت میں 4روپے فی کلوکااضافہ کردیاہے ۔ جس کے بعد گھی اور خوردنی تیل کی قیمت خرید 145سے بڑھ کر 149کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ذرائع کے مطابق حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والی چند مقامی گھی اور تیل کمپنیوں نے اپنی پیدوار روک دی ہے ،جس کی بناپر قیمتوں میں حالیہ اضافہ دیکھا جارہاہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا یہ ہے کہ رمضان المبارک کے دوران ایل پی جی کی قیمتوں میں 5مرتبہ ناروا اضافہ کیا گیا۔آخری مرتبہ ساڑے 10روپے فی کلو کی بلاجواز او رغیر منصفانہ بڑھوتری کی گئی۔اکثر کمرشل گاڑیوں میں استعمال ہونے والا یہ ایندھن اپنی بڑھتی ہوئی گرانی کے باعث کیا قیامت ڈھائے گا؟یہ امرمحتاج بیان نہیں۔
ایسے وقت میں جب کہ پاکستان کی بستیاں اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہیں،صنعتیں بند پڑی ہیں،کھیتوں کے لیے پانی نہیں ،برآمدات سکڑرہی ہیں،آئی ایم ایف نے رواں مالی سال میں دومرتبہ بجلی مہنگی کرنے کا اشتعال انگیزمطالبہ کردیاہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے اسٹینڈبائی پروگرام کی چھٹی اور ساتویں قسط کی ادائیگی کے لیے مزیدجن شرائط کا اضافہ اورذکرکیا ہے ،ان میں پیپکو کے ادارے کا خاتمہ ،ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری سمیت واپڈا ور دیگر اداروں کے ملازمین کو رعایتی بجلی کی فراہمی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
اس حقیقت وبداہت سے انکا رممکن نہیں ہے کہ انتہاپسندی اوردہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری فدویانہ اور غلامانہ اطاعت گزاری نے ملکی پیداوارمیں زوال،سرمایہ کاری میں کمی ،بے روزگاری میں بے انتہااضافہ اورآمدنی میں تیزی سے آتی ہوئی کمی جیسے کوہ گراں مسائل ومشکلات کو جنم دیا ہے۔پی آرایس پی 2کی رپورٹ کے مطابق :”2008-09میں پاکستان کو پہنچنے والانقصان 6کھرب 77ارب79کروڑروپے ہوگیاہے۔“جب کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم 54ارب50کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔بجٹ کا ایک بڑاحصہ سیکورٹی اداروں کے لیے مختص کرنے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں اورمنصوبوں کی رفتار سست یا نہ ہونے کے برابرہوچکی ہے۔ملک میں پھیلتی لاقانونیت،امن وامان کافقدان اور عدم تحفظ جیسے عوامل واسباب نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی برا اورناقابل بیان اثر ڈالاہے۔
ایک جانب محرومیوں اور آزردگیوں کی ستائی مفلوک الحال قوم ہے تو دوسری طرف ارباب بست وکشاد کی بدعنوانیاں ،اقرباپروریاں اور سرکاری عیاشیاں ہیں۔جن کے آگے کوئی بند اور رکاوٹ ہی نہیں۔ماہ رفتہ کے دوران وزیر خزانہ کی جانب سے اعلی سطحی اجلاس میں وزیر اعظم کو انتباہ کیا گیا تھا کہ ملک عزیز مزید کسی بددیانتی ،خردبرد،غفلت ،رشوت اور لاپروائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔جس کے لیے ضروری ہے کہ کرپٹ افسران اور نااہل افراد کارسے محکموں اوراداروں کوپاک کیاجائے اوران سے جاں خلاصی حاصل کی جائے۔ وائے افسوس اس انتباہی نوٹس کے باوجود وزیر اعظم نے اپنے دوست عدنان خواجہ کو OGDCکا سربراہ متعین کردیاہے۔
واضح رہے کہ متذکرہ شخصیت مالی بے ضابطگیوں پر سزایافتہ ہے اور حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ سے ضمانت پر رہاہوئیہے۔وفاقی وزیرتجارت مخدوم امین فہیم بھی اسی نوعیت کے سنگین الزام کی زد میں ہیں۔مذکورہ وفاقی وزیر نے دوست پروری کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے دبئی کے ایک نائٹ کلب کے سابق منیجر ایاز خان کوNICکا نگران اعلی لگادیاہے۔موصوف نے چارج سنبھالتے ہی اپنارنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔
مشتے نمونہ ازخروارے کے طورپر والیان قوم کی خود غرضیوں ،شاہ خرچیوں اور خود فریبیوں کی یہ ان کہی داستانیں اپنے اندربے حکمتی وبدتدبیری کاجہاں سموئے ہوئے ہیں۔فی الواقع حکام سلطنت کی کارکردگیاں اورخود نمائیاں اب طشت ازبام ہوچکی ہیں۔ معاملات وحالات کی خرابی اور سنگینی اشرافیہ،حکمرانوں اور جاگیرداروں کے لیے نوشتہ دیوارہے۔سینیٹر رضاربانی کا یہ بیان:”حکمران سوائے تقریروں کے کچھ نہیں کررہے ہیں ۔
ہم گلی کوچوں کی حقیقت سے آنکھیں چرارہے ہیں ،(ہمیں) پالیسیاں بدلنا ہوں گی، ورنہ خطرناک انقلاب آسکتاہے۔“خداوندان اقتداراور مالکان تقدیر قوم وطن کے عملی حقائق اور بے ترتیب وغلط پالیسیوں پر کھلی دلیل ہے۔
کیا قحط،تنگ دستی ،خودکشیاں،عدم روزگاراورجانوں کے عدم تحفظ کا احساس صرف ملک کے سترہ کروڑ نفوس کا مسئلہ ہے؟کیا بھوک، افلاس، فقروفاقہ سہنااوربرداشت کرنانچلے طبقے کا مقدرہے؟کیا اب بھی برائے نام رہبروں اورراہنماؤں کے دل خوش کن اورپرفریب نعروں اور وعدوں سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے؟اگرنہیں ...... تووقاربابرصحیح کہتاہے کہ جنہیں سونے کے چمچے میں گھٹی دی گئی ہو،انہیں مسکین ولاچارانسانوں کے دکھ ،کرب ،رنج اورتکلیف کا کیا،کیسے اورکیوں احساس ہوگا؟