Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 14
***
حج کے بعد زندگی ایسے گزاریں
مولانا عبدالله البرنی المدنی
اللہ سبحانہ وتعالی نے سورة الشمس میں متعددچیزوں کی قسم کھاکر فرمایا ہے:
کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا اور ناکام ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو برائیوں میں دھنسادیا۔(تزکیة کے لغوی معنی پاک وصاف کرنے کے آتے ہیں۔ (دیکھیے المحیط فی اللغة ج:2 ص95)
اور اصطلاح شریعت میں اس کے معنی ہیں اپنے باطن کو رذائل سے پاک کرنا اور فضائل سے آراستہ کرنا․ 
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ظاہر وباطن کی اصلاح پر بہت زیادہ زور دیا ہے اوریہ حقیقت بھی واضح فرمادی ہے کہ باطن کی اصلاح کے بغیر کوئی بندہ اللہ تعالی کا دوست اور اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔ وہ صفات جن کو حاصل کرنا ہر شخص پر فرض ہے، ان کا بیان درج ذیل ہے:۔
اللہ تعالی کی محبت ومعرفت
اللہ تعالی کی محبت ومعرفت کی بنیاد توحیدہے او ر توحیداسوقت تک کامل نہیں ہوتی جب تک ا نسان اپنے خالق اور معبود سبحانہ وتعالی کی محبت حاصل نہ کرے، جس رب نے ہم پر احسانات کی بارش کررکھی ہے اور اس قدر نعمتیں عطا فرما ئی ہیں جن کو شمار کرنا بھی ہمارے لیے نا ممکن ہے، اس کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔لہذا دل کوشرکیہ عقائدسے پاک کرنا اور اللہ تعالی کی عظمت اور محبت وخشیت دل میں بٹھانا صرف اللہ تعالی کوحاجت روا اور مشکل کشا جاننا، مصیبت اور تکلیف میں صرف اللہ تعالی کو پکارنا اور ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف دل کا متوجہ رہنا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کس درجہ دل میں ہونی چاہیے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں پڑہیں: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿النبی أولی بالمؤمنین من أنفسہم وأزواجہ أمہاتہم﴾(الأحزاب:8) 
کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ایمان والوں کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ان کی مائیں ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میری محبت اس کے دل میں اس کے والد اور اس کے بیٹوں اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔(بخاری ومسلم)
حضرات علمائے کرام نے ارشاد فرمایاہے کہ اس محبت سے مراد وہ محبت ہے جس کی علامت اورنشانی یہ ہے،کہ اس کے نزدیک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت ساری مخلوق کے مقابلہ میں راجح ہو،ایسانہ ہوکہ اعزہ واحباب،بیوی،بچوں اوردوسرے لوگوں کی خاطریااپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کوپس پشت ڈال دے۔ جب تک خواہش دین کے تابع نہ ہواسوقت تک کامل مومن نہیں۔
عَنْ عَبْداللّٰہِ بِن عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَیُوٴْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَاجِئْتُ بِہ( رواہ فی شرح السنة، وقال النووی: حدیث صَحِیْح)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے کوئی اس وقت تک موٴمن نہ ہوگا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے طریقے کے تابع نہ ہو۔
دل کوکبرو حسد اور دکھلاوے سے پاک کرناتکبر کا علاج 
کبر کا علاج یہ ہے کہ خود کوتمام مسلمانوں سے کم تر سمجھے اور یہ خیال ہمیشہ رہے کہ اعتبار خاتمہ کاہے، لہٰذا ہمیشہ ڈرتارہے اور اللہ تعالی سے مغفرت اور معافی مانگتا رہے اور حسن خاتمہ کا سوال کر تارہے۔کسی کوحقیر نہ جانے، گنہگار مسلمانوں کے بارے میں سوچے کہ کسی بھی وقت اللہ تعالی ان کو سچی توبہ کی توفیق دیدے گا اور اپنے اعمال کے بارے میں عدم قبولیت کا خوف دل میں رکھے اور قبولیت کی دعا مانگتا رہے۔ 
حسد کا علاج
اور حسد کا علاج یہ ہے کہ اس بات کو باربار سوچے کہ اللہ تعالی جس کو جو نعمت عطا فرمائے کوئی اس سے چھین نہیں سکتا، لہٰذا اللہ تعالی کی عطا پر اعتراض کرنا اور اپنے دل کو جلانا سراسر بے وقوفی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حسداعمال صالحہ کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے․(رواہ ابو داود، باب فی الحسد) حاسد جب تک حسد سے توبہ نہ کرلے اس کو چین وسکون نہیں ملتا۔
دکھلاوے کا علاج 
دکھلاوے کا علاج یہ ہے کہ روزانہ مراقبہ کرے کہ میدان حشر میں ان لوگوں میں سے کوئی میرے کام نہ آئے گا، اگر ساری دنیا تعریف کرے اور اللہ تعالی راضی نہ ہو توکچھ فائدہ نہیں۔لہٰذا دکھلاوا کرکے اپنے اعمال کو برباد کرنا سراسر حماقت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن جب اعمال کا بدلہ ملے گا تو اللہ تعالی دکھلاوا کرنے والوں سے فرمائے گا کہ جاؤ ! دیکھو جن کو دکھانے لیے عمل کرتے تھے کیا ان کے پاس تمہارے لیے کوئی جزا ہے؟(مسند احمد ج 5 ص429)
فرائض اور واجبات اداکرنا 
فرائض اور واجبات اداکرنا اور گناہوں سے اپنے تمام اعضا کو بچانا آنکھوں کو بد نظری سے اور زبان کو غیبت سے اور کانوں کو گانا اور غیبت سننے سے، ہاتھ پیروں کو ظلم سے محفوظ رکھنا۔
طاقت واستطاعت کے بقدر نفلی عبادات کی کثرت کرنا
طاقت واستطاعت کے بقدر نفلی عبادات کی کثرت کرنا، مثلا نفلی نمازیں نفلی روزے اور تلاوت وذکر اللہ کی کثرت کرنا۔(لیکن نفلی عبادت میں جسمانی اور دماغی صحت کاخیال رہے کیوں کہ اللہ تعالی کو یہ پسند نہیں کہ بندہ اتنی مشقت کرے کہ بیمار ہو جائے، اگر فرائض اور واجبات ادا کرے اور سنن مؤکدہ کا اہتمام رکھے اور گناہوں سے بچتا رہے تو بھی اللہ تعالی کی رضا اور محبت حاصل ہوجائیگی۔
صحبت صالحین غفلت کا بہترین علاج ہے
دین داری اور تقویٰ والی زندگی حاصل کرنے کا سب سے سہل اورآسان طریقہ یہ ہے کہ انسان صالحین اور متقین کی معیت اختیار کرلے ، وہ حضرات جو خود متبع سنت ہوں اورقرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں، ہر عمل میں جائز وناجائز کا خیال کرتے ہوں، اللہ تعالی سے ڈرنے والے ہوں ان کے دل فکر آخرت سے لبریز ہوں،جب ایسے لوگوں سے تعلق اور دوستی ہوگی تو خود بھی انسان ان شاء اللہ تعالی ویسا ہی ہوجائے گا اور یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ شعر:
تنہا نہ چل سکیں گے محبت کی راہ میں
میں چل رہاہوں آپ میرے ساتھ آئیے
صالحین کے قافلہ میں شامل ہوجانا بڑی سمجھ داری اور سعادت کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :المرء مع من أحب․ (مشکوٰة شریف)۔
ترجمہ : انسان جن لوگوں سے محبت رکھے گاانہیں کے ساتھ ہوگا۔
یعنی صالحین سے محبت رکھے گا تو ان کی صحبت میں بیٹھے گا، اس طرح وہ اللہ تعالی کی رحمت کے سائے میں رہے گا،پھر آخرت میں بھی ان کے ساتھ انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔جو دوستی دنیاوی اغراض ومقاصد کے لیے ہوتی ہے وہ ، قائم نہیں رہتی ، البتہ جو تعلق اللہ تعالی کے لیے ہو وہ باقی رہتاہے ۔

Flag Counter