Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

8 - 17
***
مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی
آج سے تقریباً چودہ سو برس پہلے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایسی قوم کی تشکیل کی تھی جس کو خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن اور سیرت طیبہ کی شکل میں انتہائی روشن اور نورانی شاہراہ پر چھوڑا تھا، جس کے متعلق خود نبی صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” لیلھا کنھارھا“ اپنے ابتدائی دور میں یہ قوم اس شاہراہ پر اس طرح چلی کہ دنیا بھر کی کامیابیاں اس کے قدم بوس ہوئیں، لیکن رفتہ رفتہ اس قوم نے اس شاہراہ سے انحراف کر دیا اور اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہی دنیاوی مسائل ومشکلات نے دبوچنا شروع کیا اور اب یہ قوم مصائب کے گھیرے میں ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل ومشکلات بہت ہیں ، طاغوتی لشکر کا حملہ ہر چہار سو سے ہے اور ہم مصائب میں الجھے زندگی گزار رہے ہیں … تو سب سے پہلے ہم ان مسائل ومشکلات کے اسباب تلاش کرتے ہیں ۔ ہم صرف سرسری نظر اپنی زندگیوں پر ڈالیں گے تو مسئلہ ہم پر عیاں ہو جائے گا۔
قرآن وحدیث میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس جہان رنگ وبو میں کوئی چیز از خود اور اتفاق سے نہیں ہوتی بلکہ وہ منجانب الله ہوتی ہے اور ظاہر میں اس کے اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ جن کو الله پاک نے قرآن مجید میں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے۔
چناں چہ ارشاد خدا وندی ہے:
﴿ وما اصابکم من مصیبة فبما کسبت ایدیکم﴾․ (الشوری:30)
اور جو کچھ مصیبت تم کو ( حقیقةً) پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کی بدولت پہنچتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون﴾․ ( الروم:41)
لوگوں کے اعمال کی بدولت بروبحر ( یعنی خشکی اور تری) غرض ساری دنیا میں فساد پھیل رہا ہے ( اور بلائیں وغیرہ نازل ہو رہی ہیں )، تاکہ الله تعالیٰ ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ چکھا دے، شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آجائیں۔
اس قسم کے مضامین قرآن میں بہت جگہ ہیں۔ پہلی آیت کے متعلق حضرت علی کرم الله وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”اس آیت کی تفسیر میں تجھے بتاتا ہوں، اے علی ! جو کچھ پہنچے، مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو یا دنیا کی کوئی بھی مصیبت ہو، وہ تیرے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ (بحوالہ اسباب مصائب اور ان کا علاج ص:8)
اب ایسی بھی بات نہیں ہے کہ کوئی مسئلہ ہی نہ پیش آئے او رکسی کو کوئی مشکل ہی نہ پڑے، مسائل ومشکلات تو پیش آتے ہی رہیں گے۔ مشکلات ومسائل کا نام ہی زندگی ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ انسان زندگی پائے اور مشکلات ومسائل سے دو چار نہ ہو … اور ایمان والا انسان، جو الله کا سب سے برگزیدہ بندہ ہوتا ہے وہ بھلا رنج وغم سے کیسے بچ سکتا ہے جب کہ ارشاد نبوی ( صلی الله علیہ وسلم ہے: ” ان عظم الجزاء مع عظم البلاء“․ (ترمذی:64/4)
یعنی بڑی جزا تو بڑی آزمائش کے ساتھ ہے… اہل ایمان ہر دور میں مسائل ومشکلات سے دو چار ہوتے رہیں گے اور ابتلا و آزمائش کے مراحل ہی زندگی کا لازمی عنصر بنتے رہیں گے، کیوں کہ #
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت
عصر حاضرمیں مسلمانوں کو درپیش مسائل ومشکلات دو طرح کی ہیں ، ایک تو وہ ہیں جو خو دان کی اپنی ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں ۔ دوسری وہ جو غیروں نے ان کی راہ میں کھڑی کر رکھی ہیں، اول الذکر کو داخلی مسائل ومشکلات اور دوسرے کو خارجی مسائل ومشکلات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ہمارے داخلی مسائل خارجی مسائل ومشکلات کا سبب ہیں ، کیوں کہ باطل کے سیل رواں میں پہلے اتنی بھی قوت نہ تھی کہ تنکہ بہا سکے۔ مگر جب مسلمانوں نے سفینہٴ ملت میں سوراخ کیا ،اپنے ہی ہاتھوں اپنے پاؤں میں کلہاڑی ماری تو #
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ”آخرت کے سدھارنے اور سنوارنے اور دینی تشخص وامتیاز برقرار رکھنے کا ہے“ پھر دیگر مسائل ہیں، مسلم معاشرہ کے مسائل ومشکلات کی آگ کی تپش محسوس کرکے ہی ہمارا ادراک صحیح منزل تک پہنچ سکتا ہے او رمسائل ومشکلات کے صحیح ادراک کے بعد ہی کوئی صحیح حل پیش کیا جاسکتا ہے۔
مسلم معاشرہ میں مسائل ومشکلات جراثیم کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارا سماج گونا گوں مسائل ومشکلات اور اعتقادی وعملی پیچیدگیوں سے بھرا ہے ، جن کو ہمیں سمجھنا ہو گا، اس وسیع موضوع پر مجموعی طور پر اور الگ الگ اجزا پر کتب موجود ہیں۔
ہم ذرا غور کریں ، مسائل کو پہچانیں اور اپنے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ہم تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور معاشی، الغرض ہر اعتبار سے پستی میں ہیں ، بے دینی اس قدر عام ہے کہ ہم سے دین داری کا شائبہ بھی ختم ہو رہا ہے اور ہم میں مغرب کا زہر سرایت کر رہا ہے۔ دیکھ لیں! کتنے مسلمان ایسے ہیں جن کے چہرے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نورانی سنت بااحترام باقی ہے یا بالکل چٹ…! چہرے اور وضع قطع سے تو مسلمان کی پہچان دشوار ہو گئی ہے ، داڑھی رکھنا شعائر اسلام میں سے ہے اور شعائر اسلام کو بالائے طاق رکھ کر ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیاری سنتوں کو چھوڑ کر ہم کبھی چین نہیں پاسکتے۔ کتنے افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ دعویٰ ہے مسلمان ہونے کا اور مسلم صفات سے آزاد۔ دعویٰ ہے عاشق رسول ہونے کا اورمحبوب صلی الله علیہ وسلم ہی کے طوروطریق، جو اسوہٴ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہیں، انہیں سے بیزاری … الله اکبر! یہ کیسا بگاڑ ہے…!
آج ایک مسلمان لباس غیروں جیسا پہنتا ہے ، غیروں کا کلچر اپناتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے رشتہ توڑ کر طریقہٴ یہود ونصاریٰ اس کو بھاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم غیروں کے ہاتھ بک گئے اور کوئی وقعت نہ رہی۔
آج بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہے ، پڑوسی سے نالاں ہے ، شکوہ ہے کہ اولادنا کارہ اور آوارہ ہے ، عورتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے ، لڑکیوں کا حق مارا جاتا ہے ، چھوٹے بڑے کی تمیزختم ہوتی جارہی ہے ، بے ایمانیاں او رمعاملات کا بگاڑ اپنی انتہا پر ہے ، بے دینی اور بد کرداری بالکل عام ہے ، مسجدیں، نمازیوں سے خالی ہیں ، صفیں مسجود حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز جبیں کو ترس رہی ہیں، اہل علم، جذبہٴ عمل سے عاری، تعلیم وتعلم، خلوص وللہیت سے خالی، ہماری وضع قطع ایسی کہ شناخت کرنا دو بھر، کون مسلمان ہے، کون نہیں؟ کوئی امتیاز نہیں #
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
ہمارا رویہ نماز کے متعلق بہت زیادہ افسوس ناک ہے ، نماز جو فارق بین الکفر والاسلام ہے ، جو ایمان کی علامت ہے، غو رکریں کتنے مسلمان نماز کی پابندی کر تے ہیں ، اسی طرح دوسرے ارکان پر عمل کرنے والے ہیں ، اسی سے ہم تمام دینی احکام کا اندازہ کر سکتے ہیں … فریضہٴ دعوت ہم سے چھوٹ رہا ہے ، غیر مسلموں میں تبلیغ دین سے تو ہمارے کان تقریباً ناآشنا ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی اصلاح کا بہانہ بنا کر غیر مسلموں تک دعوت دین نہ پہچانے سے مواخذہ ہو گا۔ بزرگان ملت اور دانش ور ان قوم اس مسئلہ پر بھی غور کریں۔ الحمدلله! آج کل اس کا بھی عملاً کچھ اقدام کیا گیا ہے جس کے لیے طریقہٴ کار سے وابستگی نہایت ضروری ہے او راسی کا ثمرہ ہے کہ دنیا آج اسلام کی طرف ہے۔
ہمارے آپسی اختلاف وانتشار ، ملت اسلامیہ کے لیے اور بھی سوہان روح ہیں ، جس اتحاد نے دنیا کو اسلامی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا تھا آج اسی اتحاد کو بالائے طاق رکھنے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اتحاد اسلامی کا سرچشمہ قرآن حکیم اب بھی ہمیں اپنی تمام تر تاثیرات کے ساتھ اسلامی اتحاد کی دعوت دیتا ہے ، دلوں کو جوڑنے اور اخوت ومحبت پیدا کرنے کی سعی پیہم کرتا ہے ۔
فرمان الہٰی ہے: ﴿واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا﴾․
مگر افسوس کہ آج امت مسلمہ نے کلمہٴ حق کی بنیاد پر اتفاق واتحاد نہیں کیا، ذات برادری کی تفریق کرکے مسلمان خود کے لہو کے پیاسے بن گئے اور اپنی جمعیت کا پارہ پارہ کرکے جذبہٴ اخوت کا قلع قمع کر دیا۔ دیکھ لیجیے ! عراق اور فلسطین کے مسلمان خانہٴ جنگی کی مسموم فضا میں اپنے ہی ہم مذہب سے نبرد آزما ہیں اور اقوام عالم ہمارے کردار سے بھرپور منفعت حاصل کر رہی ہے۔
قرآن کریم اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پر کیف اور پرسوز لہجے میں گویا ہے:﴿واطیعوا الله ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم﴾․ (الانفال:46)
الله اور اس کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا فساد مت کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
حیرت ہے کہ خدا ہمیں راہ راست پر لانا چاہتا ہے، مگر ہم آپس میں نفاق اور نفرت وعداوت کا بیج بو رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ غیر قوموں میں مختلف فرقے اور ذاتیں ہیں، جن میں اشد ترین اختلافات بھی ہیں، مگر جب اسلام سے ٹکرانا ہوتا ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں او رایک مسلمان قوم ہے جسے مدت سے پریشان کیا جارہا ہے اور ظلم وستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔ مگر متحد نہیں ہو سکتی، اگر ہم اختلاف کی دلدل سے نکل کر اتفاق کے گلشن میں پہنچناچاہتے ہیں تو ہمیں صرف کلمہٴ توحید کی بنیاد پر اسلامی اتحاد قائم کرنا ہو گا، رنگ ونسل کے امتیاز کو ختم کرکے ہمدردی اور اخوت کا جامہ پہننا ہو گا، مسلمان کوئی بھی ہو ، کہیں کا بھی ہو، سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایمان واسلام کے ناطے ہم سب آپس میں بھائی ہیں، نسل پرستی ، قومیت اور وطنیت وعلاقائیت کی ضد چھوڑو، یہ ہماری ملت اسلامیہ کی بدنصیبی ہے کہ ذاتی مسائل بھی ایک معمہ بن گئے۔ مسلکی اختلاف کیا چیز ہے؟ دشمن مسلک سے نہیں، مذہب سے لڑ رہا ہے۔ اتحاد اسلامی کی رفعت شان بزبان محسن انسانیت سنیے! آپ صلی الله علیہ وسلم نے سوا لاکھ صحابہٴ کرام کے جم غفیر کو خطاب کرکے فرمایا:”کلکم من آدم، وآدم من تراب، لافضل لعربی علی عجمی، ولالعجمی علی عربی، ولالأحمر علی اسود، ولا لاسود علی احمر، الا بالتقوی“․
تم سب حضرت آدمعلیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے، کسی عرب نسل کے آدمی کو کسی عجم نسل کے آدمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ فضیلت صرف نیکی اور اچھائی کی بنیاد پر ہو گی۔
قرآن آج بھی دلوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، بس ہم قرآنی تعلیمات پر خلوص کے ساتھ عمل پیرا تو ہوں، پھر ویسا ہی اتحاد پیدا ہو گا جیسا رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے عرب کے مختلف قبائل وخاندان کو کلمہ توحید کی بنیاد پر تیار کرکے قائم کیا تھا۔
مسلم معاشرہ میں ایک جانب دین اور اس کے احکام سے دوری ہے تو دوسری جانب شریعت کی ممنوعات سے قربت، جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا اور جن کے کرنے والوں پر لعنت اور وعید وارد ہوئی ان میں کتنے رات دن مشغول اور منہمک ہیں۔ شراب ہی کو لے لیجیے! یہ ام الخبائث ہے، اس میں کسی طرح کی شرکت حرام ہے، شراب پینے والا، پلانے ولا، بنانے والے ، بنوانے والا، بیچنے وخریدنے والا، لادکر لے جانے والا، جس کے پاس لاد کر لے جائی جائے وہ اور اس کی قیمت کھانے والا، سب بزبان رسالت ملعون ومردود ہیں ، اسی طرح سود کا معاملہ ہے۔ اس کے نہ چھوڑنے والے کے لیے قرآن میں الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کا اعلان ہے، سود کا سب سے کم درجہ اپنی ماں سے زنا کے مثل ہے، رشوت کے معاملہ میں راشی اور مرتشی دونوں جہنم میں جائیں گے ۔ یہ عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے ، ہم اپنے حالات پر غور کریں، کتنے معاملات میں سودی لین دین کھلم کھلا ہوتا ہے ۔ شراب علی الاعلان پی جانے لگی، رشوت کاکاروبار عام ہے ، امانت، مال غنیمت کے مثل ہوگئی۔
یہ امت خرافات اور رسوم ورواج میں کھو گئی ، آج ہماری آنکھیں سب سے زیادہ ٹی وی اسکرین اور ویڈیو کو پسند کرتی ہیں ، اگر کوئی مشغلہ زیادہ محبوب ہے تو وہ صنف نازک سے نظر بازی ہے ، اگر ہم زیادہ کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو عریاں فلمی پوسٹر ہیں۔ آج کل کوئی ایسی بے حیائی کی جگہ نہیں جو مسلمانوں سے خالی ہو ، مرد تو مرد% عورتیں بھی اس میں مبتلا ہیں ۔ انہیں پردہ کا کوئی اہتمام نہیں ۔ یہ گھروں سے نکلنے کے لیے ضرورت پیدا کرتی ہیں، یہ راستوں پر عام چال نہیں، بلکہ ناز سے پہلو بدل کر چلتی ہیں۔ جب کہ قرآن ببانگ دہل اعلان کرتا ہے۔
آپ کہہ دیجیے اے محمد (صلی الله علیہ وسلم)! مسلمان مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور کہہ دیجیے مسلمان عورتوں سے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار ( اور زیب وزینت) نہ دکھلائیں۔
یہی حکم تمام صحابہ کرام وصحابیات کو تھا، یہی حکم ابوبکر وعمر وعثمان وعلی کو تھا، یہی حکم اہل صفہ کو بھی تھا، یہی حکم درس گا ہنبوت کے ہر طالب علم کو تھا اور یہی حکم جو چودہ سو سال پہلے فاطمہ زہرا، عائشہ صدیقہ کو تھا، بلا کسی تبدیلی کے ہم اور ہماری مائیں بہنیں بھی اسی کی مکلف ہیں ، لیکن آہ! وہ قوم جس کا شیوہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا آج وہ خود چاہ ضلالت میں گری پڑی ہے ، ہماری زندگی خرافات کا مجموعہ بن گئی ہے، ناچ گانا، شطرنج وآتش بازی، داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کتروانا، انگریزی بال، رسوم نکاح، فضول خرچی، بے پردگی۔ الغرض آج ہم ان خرافات او ررسوم اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ انہیں حق سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی تنگ دستی اور فقر وفاقہ کا رونا روتے ہیں ۔ اپنے اوپر مظالم کی شکایات کرتے ہیں، لیکن اپنے اعمال کی خبر نہیں لیتے، اخلاقی امراض جیسے غلط اخلاق وعادات، رقص وسرود، گانے بجانے، ریڈیو، ٹی وی، سینما، آرام طلبی ، منکرات ومعاصی، احکام خدا وندی کی بر سر عام نافرمانی، فسق وفجور اور الحاد زندقہ پھیلانے والے رسائل وڈائجسٹ کا گھر گھر پھیل جانا، عریانیت وبے حیائی، اسراف وتبذیر، رسوم ورواج، بے عملی اور دین سے دوری ، آپسی اختلاف انتشار، غربت وجہالت اور بدتہذیبی یہ ہمارے وہ داخلی خطرات ہیں جو قوم کے قلب وضمیر او رمعاشرہ کے رگ وپے میں سما گئے ہیں ۔ یہ ہمارے داخلی دشمن اور داخلی مہلک امراض جو ہمارے انجام اور ہمارے معاشرہ کے لیے دشمنوں کے لشکر جرار سے کہیں زیادہ مہلک ، خطرناک اور زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی۔ نہ ہم ان سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر اور موثر اقدام وعلاج کرتے ہیں … حد تو یہ ہے کہ ان داخلی امور میں ہماری بے دینی کی وجہ سے مزید اضافہ ہوتاجارہا ہے، غیروں کے مسلسل حملوں اور پیہم یلغار کے باوجود ان باتوں میں کمی نہ آنا اور اصلاحی کوششوں کا بار آورنہ ہونا عصر حاضر کے مسلمانوں کا زبردست المیہ ہے۔
یہ طرز زندگی اور یہ اعمال وحرکات جو ہم نے اختیار کر رکھی ہیں، یقینا الله کی نصرت اور اس کی رحمت ومدد سے محروم کرنے والی ہیں۔ ہم شیطان کی غلامی میں پھنس گئے۔ الله تعالیٰ کی نافرمانی، مصائب وحوادث کی کثرت کا سبب ہے اور الله کی اطاعت اور اس کے احکام کی فرماں برداری دار ین کی فلاح کا سبب ہے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter