Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

12 - 17
***
نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم أزواجاً لتسکنوا إلیہا وجعل بینکم مودة ورحمة﴾․
ترجمہ: اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں ، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے ) درمیان محبت وہمدردی پیدا کردی۔ (سورة الروم:21)
نکاح اللہ کی ایک نعمت ہے ، جب یہ رشتہ قائم کیا جاتاہے تو اس میں پائیداری ودوام مقصود ہوتا ہے ، اس رشتہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زوجین کو اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے اور اللہ رب العزت کا یہ فیصلہ کہ دنیا تا قیامِ قیامت آبادر ہے ، پورا ہوتا ہے ۔
”فإنہ لما حکم اللہ تعالیٰ ببقاء العالم إلی یوم القیامة ومعلوم أنہ لا یبقی ما لم یکن بینہم معاملة یتہیأ بہا معاشہم من البیع والإجارة والنکاح مبقیاً لہذا الجنس بالتوالد“․ (نورالأنوار،ص:178)
علامہ شامی  فرماتے ہیں : اللہ رب العزت نے بہت سی حکمتوں ، مصلحتوں اور منفعتوں کے پیشِ نظر نکاح کو جائز قراردیا ، منجملہ ان مصالح وحِکم کے ایک حکمت ومصلحت یہ ہے کہ اس روئے زمین پر نوعِ انسانی اصلاحِ ارض اور اقامتِ شرائع کے لیے اس کی نائب بن کر قیامت تک باقی رہے اور یہ مصلحتیں اسی وقت متحقق ہوسکتی ہیں جب کہ ان کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ستونوں پر ہو اور وہ ہے نکاح۔
ویسے تو نسلِ انسانی کاوجود مرد وعورت کے ملاپ سے ممکن تھا ، خواہ وہ ملاپ کسی بھی طرح کا ہو تا ، لیکن اس ملاپ سے جو نسل وجود میں آتی وہ اصلاحِ ارض اور اقامتِ شرائع کے لیے موزوں ومناسب نہ ہوتی ، نسلِ صالح نکاح سے ہی وجود میں آسکتی ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے :”فاسد سے فاسد اور باطل سے باطل وجود میں آتا ہے “۔”ما بني علی فاسد أو باطل فہو فاسد وباطل“․ (موسوعة القواعد الفقہیة:439/9)
نکاح کے ذریعہ انسان اولاد حاصل کرتا ہے ، جب وہ ان کی تعلیم وتربیت کو بہتر طریقے سے انجام دیتا ہے تویہی اولاد اس کے لیے دنیوی زندگی میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے مرنے کے بعدذکرِ حسن ہوا کرتی ہے ، اولاد لطفِ روحانی(Soul enjoyment) اور رونقِ زندگانی(Gaity of life) ہے ،اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ عزیز میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿المال والبنون زینة الحیوة الدنیا والٰبقیٰت الصالحات خیر عند ربک ثواباً وخیرٌ أملاً﴾․
ترجمہ: مال اور اولاد دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں اور باقی رہ جانے والے اعمالِ صالحہ آپ کے پروردگار کے ہاں ثواب کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ہے اور امید کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ۔(سورة الکہف:46)
انسان کی آنکھ بند ہونے کے بعد یہی اولاد اس کی نام لیوا ہوتی ہے اور اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ، مگر تین چیزوں سے اس کو برابر فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ایک نیک اولاد کوبھی ذکر فرمایا:”عن أبی ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:إذا مات الإنسان انقطع عملہ إلا من ثلاثة أشیاء؛ من صدقة جاریة، أو علم ینتفع بہ، أو ولد صالح یدعو لہ“․(سنن أبی داود:398/2،صحیح مسلم :41/2،الوصیة)
نکاح مر د وعورت دونوں میں ملاپ کا بہترین ذریعہ ہے اوریہی ملاپ عورت میں پائی جانے والی کمی کو پورا کرنے کا سبب بنتا ہے ، کیوں کہ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ عورت پیدائشی طور پر کمزور ہے ، مرد جن اعمالِ شاقہ(Difficult works) کا متحمل ہے عورت اس کا تحمل نہیں کرسکتی ،عورت کو مرد کی ضرورت ہے ، تاکہ مرد کسبِ معاش میں اس کا معاون ومددگار اور اس کی عزت وآبرو کا پاسبان ہو ، ٹھیک اسی طرح مرد کو بھی عورت کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ اس کے مال کی حفاظت وصیانت اور اس کے امورِخانہ دار ی کے فرائض کو انجام دے اور متاعبِ حیات(Troublesome of life) کو اس سے دور کردے اور مرد کی یہ ضرورت اسی وقت پوری ہوگی جب کہ وہ کسی عورت سے رشتہٴ نکاح کو قائم کرے ، اسی مقدس رشتے کو قرآنِ حکیم نے میثاقِ غلیظ سے تعبیر فرمایا : ﴿وأخذن منکم میثاقاً غلیظاً﴾․
ترجمہ: اور وہ (بیویاں) تم سے ایک مضبوط اقرار لے چکی ہیں۔ (النساء:21)
نکاح خاندانوں میں اتحاد وارتباط اور اسبابِ بغض وعداوت کے دور کرنے اور عفت وپاک دامنی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ (ردالمحتار:58/4)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”یا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ة فلیتزوج، فإنہ أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فإنہ لہ وجاء “․
ترجمہ: اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھے اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے ، کیوں کہ اس سے نگاہیں نیچی رہتی ہیں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔(أخرجہ الشیخان فی صحیحیہما واللفظ لمسلم)
ا سلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمربھر کے لیے ہو ، اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے ، کیوں کہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر صر ف میاں بیوی پر ہی نہیں پڑتا ، بلکہ نسل واولاد کی تباہی وبربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے اور پورا معاشرہ بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے میاں بیوی کو وہ ہدایتیں دی ،جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط ومستحکم ہوتا چلا جاتا ہے ۔
اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو، تو شوہر کو حکم دیا گیا کہ وہ افہام وتفہیم اور زجرو تنبیہ سے کام لیں، اگر با ت بڑھ جائے او راس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند افراد کو حَکَم اور ثالث بناکر معاملہ طے کرلیا جائے ۔ارشادِ خداوندی ہے:﴿وإن خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکماً من أہلہ وحکماً من أہلہا، إن یریدا إصلاحاً یوفق اللہ بینہما﴾․
ترجمہ: اور اگر تمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کا علم ہو تو تم ایک حَکَم مرد کے خاندان سے اور ایک حَکَم عورت کے خاندان سے مقررکردو، اگر دونوں کی نیت اصلاحِ حال کی ہوگی تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ (النساء:35)
لیکن بعض اوقات میاں بیوی کے مزاج کا ہم آہنگ نہ ہونا اور دونوں میں اس قدر بغض وعداوت ہوجانا کہ دونوں ایک ساتھ رہ کر ایک دوسرے کے حقوقِ واجبہ ادانہ کرسکتے ہوں اور اصلاحِ حال کی تما م کوششیں ناکام ہوچکی ہوں اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کاآپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہو ،تو ایسی صورت میں اس ازدواجی تعلق کو ختم کرناہی طرفین کے لیے سامانِ راحت وسلامتی ہوتا ہے ، اس لیے شریعت نے طلاق کو مباح قرار دیا۔
علامہ شامی  فرماتے ہیں: محاسنِ طلاق میں یہ داخل ہے کہ شریعت نے طلاق کا اختیار صرف مرد کو دے رکھا ہے ، کیوں کہ وہ عورت کے مقابلہ میں کامل العقل ہوتا ہے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ اس کے عواقب ونتائج پر غور کرلیتا ہے ، جب کہ عورت کی عقل میں نقصان ہوتا ہے ، اوروہ خواہشات سے مغلوب ہوتی ہے اور یہ بھی محاسنِ طلاق میں داخل ہے کہ آدمی کو دینی ودنیوی مکارہ سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔(ردالمحتار:429/2)
لیکن اس خلاصی وچھٹکارے کے لیے اسی طریق وترتیب کو اپنانا ضروری ہے جو شریعت نے بتلائی ہے ، اس کی خلاف ورزی کرنا شرعاً حرام ہے ۔
مفتیٴ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  فرماتے ہیں:
”شریعت نے معاہدہٴ نکاح کو توڑنے اور فسخ کرنے کا طریقہ وہ نہیں رکھا ، جوعام خرید وفروخت کے معاملات اور معاہدات کا ہے ، کہ ایک مرتبہ معاہدہ فسخ کردیا تو اسی وقت اسی منٹ فریقین آزاد ہوگئے اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہوگیا، اور ہر ایک کو اختیار ہوگیا کہ دوسرے سے معاہدہ کرلے ، بلکہ معاملہٴ نکاح کو بالکل قطع کرنے کے لیے او ل تو اس کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے، پھر اس پر عدت کی پابندی لگادی گئی“۔(معارف القرآن:557/1)
طلاق کاشرعی طریقہ
طلاق کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو ایسے طہر کی حالت میں جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو، ایک طلاقِ رجعی دے ، یعنی یوں کہہ دے کہ” میں نے تجھے ایک طلاقِ رجعی دی “اور اس کو چھوڑدے یعنی دوسری طلاق نہ دے ، یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے ،اس طلاق کو طلاقِ احسن کہتے ہیں،کیوں کہ اگر شوہر کو اپنے فعلِ طلاق پر ندامت ہوتو وہ تدارک پر قادر ہوگا، یعنی اگر عدت کے اندر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت گزرگئی اور دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو بلا حلالہ نکاحِ جدید کرسکتا ہے۔
طلاقِ رجعی میں عدت کے اندر رجوع کرنے کے لیے نہ تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے ، نہ ہی عورت کی رضامندی ضروری ہے، نہ عدت میں ترکِ زینت کا حکم ہے، نہ میاں بیوی کو زمانہٴ عدت میں علیحدہ رہنے کا حکم ہے ، بلکہ زوج اور زوجہ کے لیے ایک گھر میں رہنا جائز ہے۔(غایة الأوطار:108/2)
اپنی مدخولہ بیوی کو ایسے تین طہر میں، جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو، ایک ایک کرکے تین طلاقیں دیدینا طلاقِ حسن ہے ، کیوں کہ اس طرح طلاق دینے کی صورت میں اگر دو طلاقیں دینے کے بعد شوہر اپنے اس اقدام پر نادم وشرمسار ہو تو عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے ۔
مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا۔ ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں عورت کے ساتھ صحبت کرچکا۔ طلاقِ بائن دینا ۔ ایک طہر میں ایک سے زائد (دو یاتین ) طلاق دینا۔ غیر مدخولہ کو بیک وقت ایک سے زائد طلاق دینا۔ نابالغہ یا آئسہ (جس عورت کو حیض آنا بند ہوچکاہو)کو ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طلاقِ بدعت ہے، اس طرح طلاق دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے ، البتہ طلاق بہر صورت واقع ہوجاتی ہے ۔
ایک غلط فہمی
عامةً لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ نکاح کے بندھن کو ختم کرنے کے لیے تین طلاق دینا ہی ضروری ہے اور جب تک تین طلاقیں نہیں دی جائیں گی نکاح ختم نہیں ہوگا، اس کی وجہ احکامِ شرعیہ سے ناواقفیت ہے ۔ایک طلاق دے کر بھی نکاح ختم کیا جاسکتاہے (جس کا طریقہ اوپر گذرچکا)، نیز طلاق ضرورةً مباح ہے اور جو چیز ضرورةً مباح ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ہی مباح ہوتی ہے اورضرورت ایک طلاق سے پوری ہوجاتی ہے ، فقہ کا قاعدہ ہے: ”الضرورات تبیح المحظورات، وما أبیح للضرورة یتقدر بقدرہا“۔ (الأشباہ والنظائر:308-307)، اس لیے زائد طلاقیں دینے سے پرہیز کیا جائے ، تاکہ گنا ہ لازم نہ آئے۔فقط واللہ أعلم بالصواب

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter