Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

5 - 17
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
مردوں اور عورتوں کے مخلوط پروگراموں کے لیے انتظامات کرنے کا حکم
سوال… میں آپ سے کاروبار کے سلسلے میں فتوی لینا چاہتا ہوں برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریری طور پر فتویٰ عنایت کیا جائے۔
ہم شادی ودیگرتقریبات کے لیے ایونٹ مینجمنٹ ( ڈیکوریشن اور کیٹرنگ وغیرہ) کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں مختلف شادی ہال وغیرہ بک کرواکے کسٹمر کے لیے۔
ان تقریبات میں انتظام وغیرہ ہمارے ذمے ہو گا لیکن یہ پارٹی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو مکس گیدرنگ کے تحت اٹینڈ کرتے ہیں یا علیٰحدہ علیٰحدہ اس میں انتظامیہ کی کوئی ذمے داری نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ کبھی کبھی کوئی فنگشن مہندی وغیرہ کا بھی ہوتا ہے جو کہ عموماً لیڈیز کا ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ بھی مکس گیدرنگ ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ ان تقاریب میں میوزک کا بھی انتظام کیا جاتا ہے جو کہ پارٹی کی مرضی سے طے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم صرف کھانے اور ڈیکوریشن وغیرہ کا انتظام کردیں اور میوزک کے انتظام کے لیے کسی اور سے پارٹی کو ملوا دیں بلا معاوضہ تو یہ کیسا رہے گا او راس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ اس کے علاوہ کبھی سالگرہ وغیرہ اور دیگر تقریبات ہوتی ہیں اس کا انتظام کرنا کیسا ہے؟
برائے مہربانی فتویٰ عنایت کیا جائے کہ مندرجہ بالا کاروبار کرنا کیسا ہے اور ان کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
جواب…مردوں اور عورتوں کا باہمی اختلاط ، بے پردگی ، میوزک، گانا بجانا ، سننا وغیرہ یہ تمام کام از روئے شرع حرام ہیں اور حرام کام میں کسی کی مدد کرنا بھی حرام ہے لہٰذا:
مذکورہ صورت میں آپ کا ڈیکوریشن کا انتظام ازخود کرکے ،میوزک وموسیقی کے لیے پارٹی کو دوسرے افراد سے ملوانا درست نہیں ، اگر آپ کی نیت بھی اس گناہ کے کام کی ہے تو پھر تو یہ حرام ہے، وگرنہ مکروہ تحریمی وناجائز ہے، اسی طرح ایسی پارٹی کے انتظامات کی ذمہ داری لینے کا بھی یہی حکم ہے جس میں مکس گیدرنگ، بے پردگی وفحاشی ہو۔
سال گرہ انگریز کی ایجاد کردہ ایک بیہودہ اور فضول رسم اور بدعت ہے ، لہٰذا ایسی کسی تقریب کے انتظامات کی ذمہ داری لینا بھی درست نہیں۔
البتہ مذکورہ بالا کاروبار کوشرعی اعتبار سے درست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مذکورہ مفاسد سے پاک کر دیا جاپے اور مینجمنٹ کے عملہ کو یقین ہو کہ جس پارٹی کے لیے وہ ہال بک کروا رہے ہیں اور ڈیکوریشن کا انتظام کر رہے ہیں وہ پارٹی اس تقریب میں کوئی غیر شرعی کام ، مثلاً گانابجانا، سننا، میوزک کا استعمال، بے پردگی ، مکس گیدرنگ، کھڑے ہو کر کھانا اور بدعات کی تقریبات وغیرہ نہیں کرے گی ، ورنہ یہ کاروبار جائز نہیں۔
کرسمس ڈے میں مسلمانوں کا ٹرکی پکانا اور کھانا
سوال… بندہ جزیرہ باربیڈوس کا رہنے والا ہے ۔ اس ملک کی اکثریت نصاریٰ ہے ۔ یہاں کے مسلمان ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ان کے بعض اعمال ، افعال وحرکات میں یا تو تشبہ اختیار کرتے ہیں یا مشابہت ہو جاتی ہے ۔ اس میں بعض چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے۔
۔25 دسمبر نصاریٰ کا خاص جشن ہے جس میں وہ میلاد عیسی علیہ السلام مناتے ہیں ، اس دن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگ گرجا گھر سے واپس آکر کھانا کھاتے ہیں او راس وقت اہتمام سے ٹرکی پکا کر سب مل کر کھاتے ہیں ۔
الف… سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس دن ٹرکی پکا کر کھائے تو کیا حکم ہو گا! اگر یہ دعوی ہو کہ تشبہ کی نیت سے نہیں صرف ٹرکی کھانے کی رغبت میں کھا رہا ہوں تو اس صورت میں کیا حکم ہے
ب… اگر 25 دسمبر کونہیں بلکہ کسی دوسرے دن جو اس تاریخ سے قریب ہے ٹرکی کھایا جائے تو کیا حکم ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ گوبازاروں میں پورا سال غیر مسلمان کا ذبح شدہ دستیاب ہوتا ہے لیکنجاندار ٹرکی کو مسلمان ذبح کرسکے انہیں ایام میں دستیاب ہوتے ہیں جو لوگ پال کر اس موقع پر بیچتے ہیں۔
بہ صورت جواز، اگر اس دوسرے دن مسلمان اس کھانے کو پکانے میں ، ساتھ کھانے میں وغیرہ خاص اہتمام کریں جو دوسرے دنوں میں نہیں ہوتا ہے تو کیا حکم ہے۔
اسی دن ( کرسمس25 دسمبر) نصاریٰ گھر سے بہت کم نکلتے ہیں اور پورا دن سب ورنہ اکثر تفریحی جگہیں خالی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کسی تفریحی جگہ پر ہجوم نہیں ہوتا، اس کو غنیمت سمجھ کر بہت سے مسلمان خاندان تفریح کے لیے نکلتے ہیں ۔اگر کوئی او رمنکر نہ ہو مثل بے پردگی ، اختلاط وغیرہ ، تو کیا حکم ہے ۔ یہ سلسلہ ہر سال ہوتا ہے اور بعض خاندان کے بچے اس کے عادی ہیں کہ اس دن تفریح ہو گی۔
اس دن اور اس سے قبل ایام میں ہدیہ دینے لینے کا رواج ہے۔ جن لوگوں کے غیرمسلموں کے ساتھ جائز تعلقات ہیں، بعض مسلمانوں کو ہدیہ دیتے ہیں ، نیر بعض کمپنیاں بطور عموم ان سے تجارت کرنے والے کو کچھ قلم، گلاس وغیرہ دیتی ہیں۔
الف… اس موقع پر لینا کیسا ہے؟
ب… بعض کام کرنے والے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم کو اس موقع پر کچھ دیا جائے تو ان کو دینا کیسا ہے ؟ اگرنہ دیا جائے تو ان کو صدمہ ہوتا ہے اور پھر پورا سال ان سے کام لینا مشکل ہوتا ہے۔
انہی ایام میں نصاریٰ کا ایک معمول ہے کہ بازاروں او ر گھروں کوخوب مزین کرتے ہیں ، عام طریقہ اس کا یہ ہے کہ مختلف رنگ کی لائٹیں جلائی جاتی ہے۔ بعض مسلمان خودیا اپنے بچوں کو تماشہ دکھانے کے لیے بازاروں میں اور انہی خاص علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں لائٹیں بہت خوب صورت ہوتی ہیں۔ اس کو دیکھنے کے لیے جانا کیسا ہے؟
جواب… جواب سے پہلے چند باتیں بطور تمہید کے ذکر کی جاتی ہیں، انسان کو پیش آنے والے امور دو طرح کے ہوتے ہیں: اضطراریاختیاری۔
اضطراری امور وہ ہیں جن کے ہونے نہ ہونے میں انسانی اختیار کو کوئی دخل نہیں ، مثلاً انسان کی خلقت، اس کی بھوک، پیاس اور اس سے مجبور ہو کر کھانا پینا وغیرہ اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ اگر کافرکھاتے پیتے ہیں تو تم نہ کھاؤ، یا وہ لباس پہنتے ہیں تو تم نہ پہنو یا وہ عبادت کرتے ہیں تو تم نہ کرو ، البتہ ان میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ تم ان افعال میں وہ تہذیب وشائستگی اختیار کرو جو الله کو پسند ہے اور کافروں ، فاسقوں کے طور طریقوں کی نقل مت کرو۔
اختیاری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے کرنے نہ کرنے میں انسانی اختیار کو دخل ہوتا ہے اور یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔
مذہبی امور عادی ومعاشرتی امور
مذہبی امور سے مراد وہ اعمال ہیں جن کا تعلق دین اور عبادت سے ہے ان میں غیر مسلموں کے اعتقادات اور عبادات میں مشابہت کفر ہے اور ان کی مذہبی رسومات میں مشابہت حرام قریب از کفر ہے جیسے عیسائیوں کی طرح سینے پر صلیب لٹکانا، ہندؤوں کی طرح زنار باندھنا وغیرہ امور میں مشابہت سے کفر کا اندیشہ ہے۔
عادی اور معاشرتی امور دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے دوسرے وہ ہیں جن سے شریعت نے براہ راست منع نہیں کیا ہے ۔
پہلی قسم کے امور میں مشابہت حرام ہے، مثلاً: ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا ، داڑھی منڈوانا اور ریشمی لباس پہننا وغیرہ اور دوسری قسم کے جو امور ہیں وہ فی نفسہ مباح ہیں لیکن اگر کفار کا شعار او رامتیازی نشان ہوں ، مثلاً غیر اقوام کا وہ لباس جو صرف انہیں کی طرفمنسوب ہو او راسے استعمال کرنے والا اسی قوم کا فرد سمجھاجائے جیسے: نصرانیوں کی ٹوپی اور شیعوں کا سیاہ لباس وغیرہ ان امور میں مشابہت ناجائز ہے۔
اب جوابات ملاحظہ فرمائیں:
الف… کفار کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس دن ٹرکی ( فیل مرغ ای: الدیک الرومی) پکاکر کھانا ناجائز ہے یہ دعوی کہ صرف ٹرکی کھانے کی رغبت میں پکایا جارہا ہے، تشبہ کی نیت سے نہیں ، لغو ہے اگر اس دعوی میں کچھ حقیقت ہے تو کسی اور دن بھی پکایا جاسکتا ہے۔
ب… کسی اور دن میں ( چاہے خاص اہتمام کے ساتھ ہو یاویسے ہی) جب کہ نصاری کی مشابہت لازم نہ آتی ہو تو کھانے کی گنجائش ہے۔
منکرات سے بچتے ہوئے گنجائش ہے ، البتہ ہر اس طریقے سے پرہیز کیا جائے جس سے بچوں کے دلوں میں اس دن کی عظمت واحترام پیدا ہو۔
الف) بوقت ضرورت لینے کی گنجائش ہے
ب… ہدیہ دینے سے مقصود اس دن کی تعظیم ہے تو بالکل ناجائز اور حرام ہے او راگر تعظیم مقصود نہیں، تو بھی تعظیم کا شائبہ ضرور موجود ہے ، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے ، ضرورت کے وقت دینے کی گنجائش ہے۔
ناجائز ہے، اس سے اجتناب لازم ہے ، کفر کی رونق کو نمائش کا ذریعہ بنانا کسی طرح درست نہیں اس طرح کرنے سے مسلمانوں کے دلوں سے ( خاص طور پر مسلمان بچوں کے دلوں سے) کفر کی نفرت ختم ہو جائے گی ویسے بھی حضرات فقہائے کرام کفار کے مذہبی اور قومی میلوں میں جانے سے منع فرماتے ہیں اس طرح ان کے مجمع میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
بینکوں میں سودی رقم چھوڑنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
بندہ کے پاس مختلف بینکوں کے اکاؤنٹ میں ستر، اسی لاکھ کے قریب سود کے پیسے جمع ہو گئے ہیں جو یورپ وغیرہ کے بینکوں میں ہیں اور کچھ پاکستانی بینکوں میں، اب میں، اس کا کیا کروں؟
بینک میں چھوڑتا ہوں تو یہ پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے اس ملک میں بھی اور یورپ میں بھی ۔ میرے ساتھی رائے دیتے ہیں کہ یہ رقم اٹھا کر بغیر ثواب کی نیت سے زکوٰة کے مستحقین میں دے دوں او رکچھ رقم رفاہی اداروں میں ایکسرے کی MRI اور الٹراساؤنڈ وغیرہ مشین خرید کر دے دوں یاخرید نے کے لیے ان کو پیسے دے دوں (بغیرثواب کی نیت کے) تاکہ جن اکثر غرباء کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
جواب… واضح رہے کہ سود کی مذکورہ رقم بینکوں میں چھوڑنا صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہ رقم مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور یہ عمل اعانت علی الأثم کے زمرے میں آتا ہے۔
بلکہ یہ ساری رقم بینکوں سے نکلوا کر اصل مالکوں یا ان کے وارثوں تک پہنچا دی جائے اگر اصل مالکوں اور ان کے ورثاء تک پہنچاناممکن نہ ہو تو پھر بریٴ الذمہ ہونے کے لیے غرباء مساکین اور مستحق حضرات کو بتائے بغیر بلانیت ثواب دی جائے۔
پھر اگر یہ مستحق حضرات اس سے ایکسرے کی MRI اور الٹراساؤنڈ وغیرہ مشین خرید کر رفاہی اداروں میں رکھوادیں تو بہتر ہو گا، تاکہ دیگر غریب حضرات بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
کیا مقیم ومسافر ہونے میں طالب علم استاد کا تابع ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے میں کہ ہم ایک مدرسے میں پڑھتے ہیں ۔ جہاں ترتیب یہ ہے کہ سال کے شروع میں آنے والے طلباء کو یہ کہاجاتا ہے کہ وہ اس وقت تک مسافر ہیں جب تک انتظامیہ انہیں مقیم ہونے کی اجازت نہ دے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں ہر جمعرات کو چوبیس گھنٹے کے لیے تبلیغی جماعت میں بھیجیں گے، جو شہر سے باہر گاؤں ہوتا ہے لیکن وہ گاؤں اڑتالیس میل کے اندر واقع ہوتا ہے ۔ دوسری دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ طالب علم استاد کے تابع ہیں اگر ان کی نیت مسافر کی ہے تو یہ بھی مسافر ہیں تو کیا یہ صحیح ہے او راس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہم نے سہارن پور سے اس کے متعلق فتویٰ لیا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا مقیم ہونے کے لیے مدرسے والوں کی اجازت کا اعتبار ہے یاکہ مدرسے میں سال بھر پڑھنے کی نیت کے ساتھ آنے سے ہی طالب علم مقیم شمار ہو گا؟ اگر طالب علم اپنی نیت میں مستقل ہو کر مقیم ہو سکتا ہے۔ توسابقہ نمازوں کا کیا بنے گا ، یعنی سابقہ نمازوں کی قضا کی جائے یا قیامت میں اس مدرسہ کی انتظامیہ سے پوچھا جائے گا۔
جواب… صورتِ مسئولہ میں طالب علم اس مدرسہ میں ایک لمبے عرصے کے لیے اقامت پذیر ہے او رجمعرات کو چوبیس گھنٹے کے لیے تبلیغی جماعت میں جاتا ہے ، لیکن بایں طور کہ اپنا سامان وغیرہ موضع اقامت میں چھوڑ کر جاتا ہے، اور چوبیس گھنٹے کے بعدواپس اس جگہ آنے کا ارادہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ طالب علم مقیم شمار ہو گا اور یہ اپنے موضع اقامت اورجماعت میں جانے کی صورت میں اگر مسافت سفر سوا ستتر کلو میٹر سے کم ہو تو پوری نماز پڑھے گا، مذکورہ وطن اقامت ایسے سفر سے ( جو بقصد ارتحال نہ ہو یعنی اس وطن اقامت سے جاتے وقت اپنا سامان وغیرہ ساتھ نہ لے جائے اور وہاں سے بالکلیہ اعراض مقصود نہ ہو واپس آنے کا ارادہ ہو ) باطل نہ ہو گا۔
باقی جہاں تک تعلق ہے اس دلیل کا کہ طالب علم استاذ کا تابع ہے ، تو اس سے ہر طالب علم مراد نہیں بلکہ وہ طالب علم مراد ہے جسکی استاذ کے ساتھ ایسی ملازمت ہو کہ اس کا کھانا پینا استاذ کی طرف سے ہو اور استاذ کے ضرر سے اس کو ضرر لاحق ہو او راستاذ کی راحت سے اس کو راحت حاصل ہو۔ آج کل کے ہر طالب علم پر یہ حکم صادق نہیں آتا، چناں چہ علامہ طحطاوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : ”فمطلق تلمیذ لا یعطی ھذا الحکم لما قد یشاھد منھم من شدة المغایظة والمخالفة“․ ( حاشیة الطحطاوی علی الدر، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر:337/1 ، دارالمعرفة بیروت)
لہٰذا جب طالب علم اس طرح نہیں تو وہ احکام سفر میں استاذ کا تابع نہ ہو گا، البتہ اگر کسی طالب علم کی اپنے استاذ کے ساتھ ایسی ملازمت ہو کہ وہ اس کا شریک سفر وحضر ہو اور مذکورہ بالا شرائط بھی اس میں پائی جاتی ہوں، تو وہ یقینا احکام سفر میں استاذ کا تابع ہو گا۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter