Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

10 - 17
***
اخبار جامعہ
جامعہ کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیاں
الحمدلله جامعہ میں تعلیمی وتربیتی سرگرمیاں اپنے جوبن پر ہیں۔ تعلیمی سال کے وسط مدتی امتحانات وتعطیلات کے بعد دوسرے نصف سنوی دورانیے کا آغاز ہو چکا ہے اور طلبہ و اساتذہ تازہ دم ہو کر اپنے تعلیمی اور تدریسی مشاغل شروع کرچکے ہیں ۔ اس مرحلے پر انتظامیہ جامعہ نے سال گزشتہ نصف سنوی اور سالانہ امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں میں انعامات تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا اس کے لیے حسب سابق ایک پروقار تقریب کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا چناں چہ بروز ہفتہ14 ربیع الثانی جامعہ فاروقیہ کراچی فیزII میں ایک خوب صورت جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں وہاں کے طلبہ نے ” دینی مدارس کی اہمیت“ کے موضوع پر اردو اور عربی میں تقریریں کیں۔ تقریری مقابلے میں اول دوم سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات اور شیلڈز دی گئیں ، امتحانات میں امتیازی پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کو بھی انعامات اور شیلڈز دیے گئے۔ جامعہ فاروقیہ کراچی فیزII شارع مفتی محمود (سابق حب ریور روڈ) پر نزد ناردرون بائی پاس بالکل برلب سڑک ایک وسیع قطعہٴ اراضی پر واقع ہے۔ یہاں بین الاقوامی معیار کی عظیم اسلامی درس گاہ کا قیام ایک خواب تھا جواَب رفتہ رفتہ حقیقت کا روپ اختیار کر رہا ہے بیسیوں عالیشان عمارتوں، خوب صورت مسجد او رجدید سہولیات سے آراستہ اس شہر دانش کے مجوزہ منصوبے کا نقشہ اہل ذوق کے دیکھنے کی چیز ہے۔ اس نقشے کی پہلی عمارت جو إن شاء الله مستقبل میں بابُ مدنیہ العلم ثابت ہو گی وہ تکمیل کے مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اس سے قبلہ رخ پر مسجد محمد بن قاسم کی تعمیر بھی ابتدائی شکل میں ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک کشادہ راستہ ہے جس کے دونوں طرف مختلف پودے اور رنگ برنگ گل بوٹے آنے جانے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں ۔ اسی جگہ جلسہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ حاضرین وسامعین کے لیے کرسیوں کا اہتمام کیا گیا تھا جن پر جامعہ کے مہمانان گرامی او راساتذہ وطلبہ تشریف فرما تھے جب کہ مہمانانِ خصوصی اور جامعہ کے ارباب اہتمام وانتظام، مشائخ اور حکَم حضرات اسٹیج پر تشریف رکھتے تھے، جلسہ گاہ کے اوپر چاروں طرف قمقمے آویزاں تھے جو صحرا کی مدہم قدرتی روشنی میں کہکشاں کا سا منظر پیش کر رہے تھے یہ بڑا ہی دلآویز اور دیدہ زیب منظر تھا جس کی بعض حضرات، جنگل میں منگل، کی تشبیہ مستعار لے کر داد دیتے رہے تو کسی نے اس میں تصرف کرکے جنگل میں جمعہ قرار دے کراپنے جذبات واحساسات کا اظہار کیا۔ چوں کہ اب یہاں مقیم طلبہ کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہو گئی ہے اس لیے پہلی بار سطح زمین سے کافی اوپر بنی ہوئی مسجد کی سیڑھیاں اتر کر جب نمازی باہر آرہے تھے تو مہمانوں اور یہاں کے اساتذہ کے کافی بڑے مجمع میں مستقبل کے عظیم منصوبے کا پیش خیمہ یا مقدمة الجیش ہونے کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں کے پروگرام میں مہمان خصوصی حضرت مولانا سعید یوسف صاحب تھے جنہوں نے نہایت پراثر خطاب فرمایا، علاوہ ازیں ممتاز نعت خواں اور تبلیغی جماعت کے کارکن جنید جمشید صاحب بھی آئے تھے انہوں نے مجمع کی خواہش پر مولانا رضاء الحق صاحب (ساؤتھ افریقا) کے” قرار دل“ سے علماء دیوبند کی مدح میں کہے گئے چند اشعار بھی سنائے ۔ سابق کرکٹر اور اب تبلیغی جماعت کے فعال ساتھی جناب سعید انور صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے او رانہوں نے بھی ڈائس پر آکر چند ایک بڑی مفید باتیں کہیں اور سامعین سے دعاؤں کی پرزور اپیل کی۔
جامعہ کے اساتذہ حدیث ، حضرت مولانا محمد انور صاحب ، حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب ، حضرت مولانا محمدیوسف صاحب، ناظم تعلیمات حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، حضرت مولانا منظور احمد مینگل صاحب ، ادارہ المعارف کے سربراہ مولانا عبدالوحید کشمیری، بلدیہ ٹاؤن کے معروف ادارے جامعہ الصفة کے مہتمم مولانا قاری حق نواز صاحب اور دیگر حضرات نے بھی شرکت فرمائی ، حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے ابتدائی کلمات کہے جب کہ آخر میں حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب نے خطاب کیا۔
جامعہ فیزII کے اساتذہ وطلبہ نے نہایت عمدگی اور جانفشانی سے پروگرام کا انعقاد کیا تھا اور مہمانوں کی خدمت میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جامعہ فاروقیہ کراچی شاہ فیصل ٹاؤن میں اتوار15 ربیع الثانی کو بعد نماز ظہر اردو تقریری مقابلہ بعنوان” علوم حدیث کی نشر واشاعت میں علماء پاک وہند کا کردار“ منعقد ہوا جس میں تلاوت، حمد اور نعت کے بعد تقریباً دس طلبہ نے حصہ لیا تخصص فی الأدب العربی کے طالب علم غلام مجتبی ناصر نے ترانہٴ جامعہ پیش کیا۔
آخر میں مولانا سعید یوسف صاحب نے خطاب کیا عصر کے بعد مہمان خصوصی حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب مدظلہم نے مختصر خطاب فرمایا اور پھر طلبہ میں انعامات تقسیم کیے گئے۔
مغرب کے بعد عربی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا جس میں متعدد طلبہ نے حصہ لیا اس پروگرام میں مہمانان خصوصی تھے مولانا سعید یوسف صاحب ، فضیلة الشیخ عبدالرحمن المحمود اور فضیلة الشیخ موسی، مولانا سعید یوسف صاحب، شیخ عبدالرحمن اور شیخ موسی نے خطاب بھی فرمایا۔ رات گئے مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات جامعہ کی دعاء کے ساتھ جلسہ اختتام کو پہنچا۔
عرب شیوخ کا پیغام
ضیوف الشرف شیخ عبدالرحمن محمود اور شیخ موسی نے اپنے خطاب میں نہایت قیمتی نصائح بھی فرمائیں۔ عربوں کے متعلق عام مشاہدہ یہ ہے کہ نشست وبرخواست، وضع قطع بودوباش اور گفتگو میں نہایت سادے، بے تکلف اور پر خلوص ہوتے ہیں ( الا ما شاء الله) شیخ عبدالرحمن وشیخ موسی نے بھی اسی مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت صاف صاف باتیں کہیں ۔ انہوں نے کہا حضرت موسس جامعہ شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان ہمارے لیے بمنزلہ والد کے ہیں اور ہم ان کی خدمات کے معترف ہیں، طلبہ نے بھی بڑی اچھی تقریریں کیں الله انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ تاہم عربی زبان اس سے زیادہ اہتمام کی محتاج ہے جتنا اس کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا افسوس کہ فصیح عربی کا اب عرب بھی تمسخر اڑاتے ہیں مگر پھر بھی یہ اسلام کی زبان ہے اور عربی کے بغیر اسلام کو نہیں سمجھاجاسکتا۔ لہٰذا عربی سیکھ کر براہ راست قرآن وحدیث سے استفادہ کرو۔ انہوں نے کہا إعراب کے ”تکلفات“ سے بے نیاز ہو کر جیسی تیسی عربی کو ہم العربیة الباکستانیة کہتے ہیں اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمیں عربی زبان بولنے اور سیکھنے میں کوئی شرم اور جھجھک نہیں محسوس کرنی چاہیے اور ہمارے ہاں جو عربی فنون کی امہات کتب پڑھائی جاتی ہیں ان سے کم از کم صحیح عربی ہمیں ضرور سیکھنی چاہیے، عربی تکلم کے لیے لہجے کی صحت اور مخارجِ حروف کے مطابق الفاظ کی ادائیگی کی رعایت رکھنی چاہیے اس کے بغیر عربی ، عربی نہیں رہتی اور الله اوررسول کا کہا ہوا مطلب عموماً ادا نہیں ہوتا انہوں نے خطاب میں غیر ضروری اور بے محل جذبایت پر بھی شدید نکیر فرمائی اور اسے مضحکہ خیز قرار دیا ۔اس وبا میں ہمارے ہندوپاک کے مسلمان بری طرح مبتلا ہیں اور نوجوان نسل میں اس کے بغیر اچھی تقریر کا تصور بھی مفقود ہوتا جارہا ہے اور اس کی اصلاح کی طرف بھی بہت کم توجہ دیجاتی ہے ۔ عموماً تقریروں میں مواد اور دلائل کے بجائے الفاظ کا ہیر پھیر ہی ہو تا ہے ۔ اور انداز واطوار کی ادا کاری سے مجمع کو مسحور کرنے کی کوشش ہوتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی اور فرانس وغیرہ میں کوئی انگریزی میں بات نہیں کرسکتا وہ کہتے ہیں ہماری زبان جرمنی اور فرانسیسی ہے انگریزی نہیں ۔ اگرچہ انگریزی بڑی وسیع زبان ہے اور اس میں علوم وأداب کا بھی بڑا ذخیرہ ہے مگر عربی تو اس سے سینکڑوں گونہ بڑی اور خوب صورت زبان ہے۔ اور ہماری دینی وثقافتی زبان ہے پھر ہم کیوں انگریزی سے مرعوب ہیں اور اسے أولیت دیتے ہیں ۔مدارس عربیہ کو کم از کم اس حوالے سے نہایت فعال اور ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ شیخ موسی نے کہا اردو کے ترجمہ کو عربی نہیں کہاجاسکتا ، عربی کی اپنی تعبیرات ہیں او رکسی بھی بات کو انہیں عربی تعبیرات میں ادا کرنا صحیح عربی کہلاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ہمیں مؤمنوں کی طرح تواصی بالحق پر عمل کرتے ہوئے سامنے نصیحت کرنی چاہیے نہ کہ منافقین کی طرح بعد میں تبصرے۔
آخر میں مولانا خلیل احمد صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter