Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

14 - 17
***
حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری
حدیث کا لغوی معنی جدید، نیا ،خبر دینا۔ لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کرتے چلے جائیں اس میں خبر دینے کا مفہوم ضرورر ہے گا۔ قرآن مجید میں اس جیسے الفاظ اٹھارہ جگہوں میں آئے ہیں، محدثین کی اصطلاح میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریر کو حدیث کہتے ہیں ۔ تقریر کا مطلب ہے کہ کسی صحابی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا ہو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو ۔ محدثیناور اصولیین کے نزدیک تقریر بھی بالاتفاق حدیث میں شامل ہے۔
حدیث کا موضوع آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے
حقیقت تاریخ
تاریخ کہتے ہیں پہلے والے لوگوں کے حالات، واقعات کو ۔ یہ علم ایک بلند پایہ، معزز اور بہت سے فائدوں والا فن ہے، کیوں کہ یہ ہمیں گزشتہ اقوام کے اخلاق واحوال بتاتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کی سیرتوں سے آگاہ کرتا ہے اور سیاست میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے، تاکہ کوئی کسی دینی یا دنیوی سلسلے میں ان میں سے کسی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہے تو اسے پورا پورا فائدہ حاصل ہو۔
ضرورت تاریخ
عقل مند انسان نے ہمیشہ سے اپنے مستقبل کی اصلاح ماضی کے واقعات وتجربات اور حالات ومشاہدات کی روشنی سے کی ہے ۔ صحیح تاریخی واقعات طالبین حق، راہ حق کے مثلاشی، خدا ترس بندوں کے لیے بہترین استاذ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے پند وموعظت کا ایک بہت بڑا خزانہ حاصل کر سکتے ہیں۔
بہرکیف مستقبل کی اصلاح وترقی اور استحکام کے لیے گذشتہ واقعات سے بے پروائی نہیں برتی جاسکتی۔ کیوں کہ انسان پہلے کے حیرت انگیز، عبرت ناک واقعات کو پڑھ کر اپنے آپ کو سنوار سکتا ہے۔ انبیائے کرام ورسل عظام علیہم السلام اور اقوام و ملل کے صحیح حالات کے ضمن میں ایک مؤمن کے لیے اطمینان وسکون اور قوت قلبی وروحانیت کا بہترین سامان اور نصیحت وتذکیر کا کافی مواد جمع ہوتا ہے، ان سے صرف نظر کرکے زندگی گزارنا گویا جنگل کی زندگی بسر کرنا ہے ۔ اسی لیے الله تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں احکام واصول کے ساتھ ساتھ سابقہ قوموں کے سبق آموز واقعات کو پورے اہتمام سے بیان کیا او رجگہ جگہ اقوام ماضیہ کے قصص وحکایات سے پیدا ہونے والے پُرحکمت وایمان افروز نتائج پر متنبہ فرمایاہے، کیوں کہ عقل مند انسان کا فطری خاصہ ہے کہ جب وہ سنتا ہے کہ میرے ابنائے جنس پہلے فلاں فلاں جرائم کی پاداش میں ہلاک وتباہ ہوچکے ہیں تو ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، جن امور پر فلاح وکام یابی حاصل ہوئی تو طبعا اس کی طرف دوڑتا ہے۔
مغالطہ
بعض تجدد پسندوں نے حدیث او رتاریخ کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی ، وہ حدیث کو تاریخ کا حصہ شمار کرکے حدیث کو حجت سے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں او رانکار حدیث کا باب کھول کر بہت سے احکام الہٰی سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ غیر استنادی تاریخ کو سامنے لا کر لوگوں کو حدیث سے دور رکھنے کی چال چلا رہے ہیں ۔ اور بعض تجدد پسند تاریخ کو حدیث کا مقام دے کر دین کے اندر من گھڑت باتیں داخل کر رہے ہیں۔زیر نظر مضمون میں ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لیے حدیث او رتاریخ کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے، تاکہ حق واضح ہو اور مسلمان اس گمراہ فرقے کے جال میں نہ پھنسیں۔
حدیث وتاریخ میں امتیازی فرق
حدیث کا تعلق خاص آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ہے، بخلاف تاریخ کے، اس کا تعلق عموما کسی حکومت، قوم، جنگ، غرض گونا گوں چیزوں سے ہوتا ہے۔
محدثین جب کسی حدیث کو بیان کرتے ہیں تو من وعن وہی بیان کرتے ہیں جو کچھ انہوں نے سنا ہوتا ہے، بخلاف مؤرخین کے، عموماً جب کسی چیز کی تعداد کو بیان کرتے ہیں تو بڑھا چڑھا کر بتایا کرتے ہیں۔
محدثین جب کسی حدیث کو کسی راوی سے لیتے ہیں تو راوی کو اصول حدیث کے قواعد پر پرکھتے ہیں، اگر قواعد کے مطابق ہو تو اسے لے لیتے ہیں ورنہ چھوڑ دیتے ہیں، بخلاف مورخین کے، وہ صحیح وغلط دونوں پر قناعت کر لیتے ہیں او ران میں قواعد کا تصور بھی نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے تاریخ میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں۔
بعض مورخین کا بڑے لوگوں کی مدح وثنا کرکے ان کو خوش کرنا اور ان کا قرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، بخلاف محدث کے، وہ تو اس کو حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں لاسکتا کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ اس لیے محدث ڈرتا ہے، خشیت الہٰی اس کے دل میں گھر کیے ہوتی ہے۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم کو جو کچھ فرماتے تو اس کی باضابطہ نگرانی بھی فرماتے کہ اس چیز کی تعمیل کہاں تک رہی ہے۔ تاریخ میں ایسا نہیں ہے کہ مورخین نے اپنے راویوں پر کڑی نظر کی ہو کہ غلط بیانی نہ کریں۔
حدیث پڑھنا، پڑھانا باعث ثواب ہے ۔ خود جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی جو کہ سعادت عظمیٰ ہے۔ تاریخ جاننے والے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا نہیں فرمائی۔
قرآن وحدیث کی اتباع کو خود الله اور اس کے رسول نے بھی فرمایا ہے، بخلاف تاریخ کے کہ قرآن کے پورے تیس (30) پاروں میں چراغ ہاتھ میں لیے ڈھونڈتے رہو، کہیں تاریخ کی اتباع کا حکم نہیں ملے گا۔
تواریخ کی روایات احادیث مبارکہ کے سامنے آجائیں تو ہیچ ہیں، اگر تاریخی روایات اور احادیث میں تعارض آجائے تو تاریخ کو غلط کہا جائے گا۔
مورخین بعض مقامات میں کوتاہی کر جاتے ہیں۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter