Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

13 - 17
***
مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی
الحمد للہ، ہم مسلمان ہیں ،ہمارا مذہب کامل و مکمل ہے، ہماری تہذیب بہترین تہذیب ہے، ہماری ثقافت اور کلچر امتیازی ہے، غرض کہ ہم قرآن اور احادیث کی صورت میں اسلام کے مل جانے کے بعد ہر چیز سے بے نیاز ہیں، ہمیں نہ کسی تہذیب سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے، نہ کسی کلچر کو اپنانے کی حاجت ۔ ہم صرف اور صرف معقول و منقول ”نظریہٴ اسلام“ کی پیروی کے مجاز ہیں، کیوں کہ وہی حقیقی معنی میں مساوات،عدل و انصاف، حقوق اللہ،حقوق العباد، معاشرت، معیشت، سیاست و ریاضت، حقوق انسانی کا مبنی بر انصاف و اعتدال اور میانہ رو تعلیمات کا حامل ہے، اسلام صرف عبادات میں منحصر و محبوس نہیں، بلکہ ایک ”دستور حیات“ ہے جو قیامت تک زندگی کے کسی بھی شعبہ میں پیش آنے والے مسائل کو حسن و خوبی کے ساتھ حل کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔ قرآن اور اسلام کو، دراصل انسان کی ہدایت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ رب العزت نے نازل کیا، مگر اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اور احادیث مبارکہ میں جس کو وحی غیرمتلو کہا جاتا ہے، ”کائنات“ کی بہت ساری اشیا پر بھی اچھی خاصی روشنی ڈالی ، ایک اندازے کے مطابق قرآن کریم کی چھ ہزار چھ سو سے زائد کل آیتوں میں سے تقریباً ایک ہزار آیات ایسی ہیں جس میں ”کائنات“ یعنی ”آسمان،زمین، پہاڑ، ستاروں، پودوں، بیجوں، جانوروں، رات، دن، تخلیق انسانی، بارشوں“ وغیرہ پر مضبوط اور مستحکم انداز میں بحث کی گئی ہے، کوئی ظن و تخمین اور اندازے پر ”علم جدید“ کی طرح عمارت نہیں کھڑی کی گئی ہے۔ اسلام اور قرآن کے آنے سے پہلے کائنات کے سلسلے میں لوگوں کے عجیب عجیب بے ڈھنگے اعتقادات و نظریات تھے، آسمان کے سلسلہ میں قدیم فلاسفہ یعنی فلاسفہٴ کلدان کا نظریہ یہ تھا کہ آسمان ایک چھت ہے، جو پہاڑوں پر رکھا ہوا ہے اور آفتاب و ماہتاب اور تمام ستارے اس چھت میں جڑے ہوئے ہیں، بطلیموس کا بھی یہی عقیدہ تھا، زمین کے بارے میں فلاسفہٴ ہند کا نظریہ یہ تھا کہ زمین ایک تھال کی طرح ہے، جو ایک گائے کے سینگ پر رکھی ہوئی ہے اور گائے کچھوے پر کھڑی ہے اور کچھوا ایک بہت بڑے سمندر میں تیر رہا ہے، گائے جب زمین کو اٹھاتے ہو ئے تھک جاتی ہے تو وہ زمین کو ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر لیتی ہے، جس کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔ (سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات:ص54) قرآن کریم نے یہ اور اس جیسے جتنے بھی ”ظنی وو ہمی“ نظریات دنیا میں رائج تھے ان کی تردید کی اور مختلف آیتوں میں آسمان و زمین کی حقیقت، اس کی تخلیق کے مراحل وغیرہ کو بیان کیا، چوں کہ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، جو اس وقت زیربحث نہیں، لہٰذا ہم بس اتنے ہی پر اکتفا کررہے ہیں۔ مغرب نے دنیا کو کیا دیا؟ مغرب اور مغربی تہذیب نے دنیا کو کیا دیا؟اس سوال کا جواب کسی پر ڈھکا چھپا نہیں رہا، کیوں کہ احوال و قرائن اس پر شاہد عدل ہیں کہ مغرب نے دنیا کو نمود و نمائش،عیش کوشی، مادیت، نظریہ بقائے اصلح (Might is right) اور علاقہ پرستی کے سوا کچھ نہیں دیا، اس تہذیبِ خادع نے اللہ، آخرت، جزا و سزا اور نیکی بدی کی تمام اقدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے معدوم کردیا اور مادہ پرستی، خود غرضی، نفع اندوزی کو انسان پر ایسا مسلط کیا کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا بنیادی اصول اس تہذیب کا بنیادی نشان اور شعار بن گیا۔ذاتی و اجتماعی مفاد کی خاطر دھوکا، فریب،کذب بیانی، ظلم وجور، انسانیت کی ہلاکت اور بربادی، غرض کہ برائیوں کو جائز ہی نہیں بلکہ استحباب کا درجہ دیا اور کارہائے خیر کو پسِ پشت ڈال دیا، انسان کو روحانیت سے بیزار کرکے جسمانی عیش و عشرت اور تفریح پسندی کو انسانوں کی تگ و دو کا محور و مرکز بنا دیا۔ نوبت ایں جا رسید کہ انسانی احترام، عورت کا تقدس، بچوں کی معصومیت، جوانی کی غیرت و حمیت، بڑھاپے کا وقار، یہاں تک کہ خاندانی زندگی کا حسن و سلوک اس کے علم برداروں کی نفس پرستی، تنگ نظری اور خود غرضی کے بھینٹ چڑھ گئے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے مغربی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور پھر کیا خوب کہا : دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ زر اب کم عیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدارہوگا غر ضیکہ اس تہذیب نے ہمہ گیر انتشار برپا کیا، گویا یہ تہذیب نسل انسانی کے لیے نعمت تو کیا ہوتی، لعنت کا درجہ رکھتی ہے، اگرچہ ایشیا افریقہ اور پوری دنیا کے مسکین و یتیم (یعنی مغربی تہذیب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسکین اور دین جیسی نعمت سے محروم ہوکرمغربی تہذیب کے پیچھے لگنے کی وجہ سے یتیم) اسی کو ترقی تصور کر رہے ہیں۔ ویاللاسف! تہذیب مغرب کا بدترین پہلو مادیت پرستی (Moterialism) ہے ،جو تمام برائیوں کی جڑ اور اصل ہے، کیوں کہ مادیت کی غایت اور منتہائے مقصود محض جسمانی راحت ہے، سائنس اشیا کے حقائق کے جاننے کا دعویٰ کرتی ہے، حالاں کہ اشیا کے حقائق علوم وحی سے جانے جاسکتے ہیں، سائنس اور سائنس دانوں کی تحقیقات قطعیت اور یقین کا درجہ نہیں رکھتیں، محض ظن اور اندازہ ہے، زیادہ سے زیادہ ظنِ غالب ۔ بہرصورت ظن سے نکل کر یقین کے زمرے میں ان کی تحقیقات کا دخول ناممکنات میں سے ہے، قرآن نے صاف الفاظ میں اعلان کردیا: ﴿ان یتبعون الا الظن﴾ وہ محض اٹکل اورظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور پھر آگے قرآن نے صاف الفاظ میں اس کے نتیجہ کو بیان کیا: ﴿وان الظن لایغنی من الحق شیئا﴾ اور ظن حق اور حقیقت کی معرفت نہیں دے سکتا۔گویا حق اور حقائق کو جاننا محض علوم وحی سے ہوسکتا ہے۔ مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب نے ازمنہٴ وسطیٰ میں پادریوں اور بادشاہوں کے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے، جو خواہشات کا شکار تھے، جنہوں نے یہودیت اور نصرانیت کی صورت بگاڑ کر اسے عقل کا مخالف ٹھہرا دیا، ”سائنسی ترقی“ کے لیے مذہب سے بغاوت کو ضروری سمجھا، جو درحقیقت ایک سنگین غلطی تھی، کیوں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ کے بقول”نقل صحیح اور عقل سلیم“ میں کبھی بھی تعارض نہیں ہوسکتا اور حضرت کی یہ بات سوفی صدمبنی برحقیقت اور سچ ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے انکار ناممکن اور دشوار ہے۔ اکیسویں صدی کی سائنسی تحقیقات، جو قرآن کی بیان کردہ باتوں کی تائید کررہی ہیں، اس سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اگرچہ قرآن جو اللہ جل جلالہ و عم نوالہ کی کتاب ہے، اسے اس کی تائید کی ضرورت نہیں، ہم سائنسی تحقیقات کو قرآن کے لیے بطور استدلال اور استشہاد کے پیش کرنے کے بھی قائل نہیں، کیوں کہ سائنسی تحقیقات پائیدار اور اٹل نہیں ہوتیں، بلکہ بدلتی رہتی ہیں، اور قرآن نے جو کچھ بیان کیا وہ پائیدار مستحکم ہے، اس میں تغیر و تبدل کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، جب کہ ”سائنسی تحقیقات“ پر اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ سائنس نے تین سو سال پہلے آسمان اور زمین کے بارے میں کچھ کہا، پھر دو سو سال بعد کچھ کہا، پھر سو سال بعد کچھ کہا اور آج کچھ اور کہا جارہا ہے اور آئندہ کچھ اور کہے جانے کا امکان موجود ہے، تو ظاہر سی بات ہے قرآنی حقائق اور سائنسی تحقیقات میں کیسے جوڑ ہو سکتا ہے۔ اگر سائنس کو ”قرآن“ کے لیے بطور ”مستدل“ و ”شہادت“ کے پیش کیا جائے جیساکہ علی طنطاوی نے اپنی کتاب ”جواہر التفسیر“ میں کیا ہے۔تو جب سائنس اپنی کسی پچھلی تحقیق کو غلط ثابت کرے تو قرآن کی جس آیت کے لیے اس سائنسی تحقیق کو دلیل بنایا گیا ہے ا س ایک آیت کی بھی تغلیط لازم آئے گی اور ”جواہر التفسیر“ میں کچھ ایسا ہی ہوا بھی ہے، حالاں کہ ایک آیت کی تغلیط انسان کے کافر ہونے کے لیے کافی ہے۔ آج مسلمانوں کا ایک طبقہ جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ ”ترقی“ اور ”ایجادات“ مغرب کی دین ہے، یہ سراسر بے بنیاد اور غلط ہے، اس لیے کہ ”کائنات“ پر غور و فکر کی دعوت سب سے پہلے قرآن ہی نے دی، قرآن کبھی کہتا : ﴿اَ فَلاینظرون الی الابل کیف خلقت؟﴾ کبھی کہتا ہے : ﴿ما تری فی خلق الرحمن من تفٰوت فارجع البصر ہل تری من فطور؟﴾ کبھی کہتا ہے: ﴿و السماء بنینٰہا باید وانا لموسعون﴾اور کبھی کہتا ہے ﴿افلم ینظروا الی السمآء فوقہم کیف بنینٰہا و زینٰہا وما لہا من فروج؟﴾ وغیرہ۔ قرآن کے اس اعلان کے بعد دنیا میں انسان میں غور و فکر ، تدبر وتفکر کا ایک جذبہ بیدار ہوا اور پھر مختلف ایجادات و اختراعات کا سلسلہ شروع ہوا، اسی لیے آپ کو معلوم ہونا چاہیے، جابر بن حیان (ولادت721 متوفی 806) سب سے پہلا ماہر کیمیا گذرا ہے، جس نے ایک انگریز موٴرخ کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلے ”عمل تقطیر و تذویب و تحویل“ کو بیان کیا، احمد بن عبداللہ المروزی (متوفی 874) جو علم ہیئت کا بڑا ماہر تھا، جس نے عربی زیج کا نظریہ، ہجری تقویم پر بِنا رکھ کر پیش کیا۔ عباس بن فرتاس (متوفی887ء) جو فلکیات، لسانیات وغیرہ میں بڑا ماہر تھا، اس نے سب سے پہلے پرندوں کی طرح اڑنے کی، کوشش کی گویا ہوائی جہاز کی طرف ذہن منتقل کیا۔ اسی طرح ایک سیارہ گاہ بنائی، سب سے پہلے ایک خاص قسم کی ”گھڑی“ بنائی۔ اسی طرح ”کرہٴ فلکی“ ایجاد کیا ”تلوار“ کی ایجاد بھی اسی کی طرف منسوب ہے۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی (متوفی 847) بھی علم ہیئت کی بڑا ماہر تھا ، ریاضیات میں اسے درجہٴ کمال حاصل تھا، اسی نے تکمیل (Integration) اور مساوات کی شکلیں پیش کی، ا س نے افلاک اور کرہٴ ارض کے نقشوں کی ایک اٹلس بھی تیار کی، جعفر البلخی بڑا زبردست ماہر نجوم تھا، یعقوب بن اسحاق الکندی جو بڑا فلسفی گذرا ہے، اس نے ”عالَم“ کے بارے میں یہ ثابت کیا کہ ”عَالَمْ“ ”مکان و زمان “ دونوں میں محدود ہے، اس کے علاوہ بیرونی، عمر الخیام، ابن حوقل، ابن شعب، ابن النفیس، ابن طفیل القیسی، ابن باجہ، ابن البیطار، ابو علی سینا، ابو النصر فارابی، ابن الہیثم، وغیرہ بھی بڑے ماہر اسلامی فلاسفہ، اطبا، محققین، جغرافیہ داں گذرے ہیں۔ (مستفاد از سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات) اہل مغرب صدیوں تک مسلمانوں کے ساتھ نبردآزما رہے، مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی، اس کی اصل وجہ تو یہ تھی کہ مسلمانوں کا ایمان باللہ بڑا مضبوط تھا اور مسلمان نے ایمانی تقاضوں کو بھی مجموعی اعتبار سے پورے طور پر بجا لایا تھا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمان ﴿واعدوا لہم ما استطعتم من قوة﴾ کو مدِنظررکھے ہوئے تھا، یعنی وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی نئی نئی جنگی ایجادات و اختراعات کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا تھا، لیکن اصل محرک تو بہرحال پہلا امر ہی تھا، دوسرا امر ذیلی اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اہل مغرب نے اس کو بھانپ لیا، اس نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اولاً ترقی کے ارادے سے علوم اسلامیہ کو سیکھنا شروع کیا، مگر زیادہ توجہ ان امور کی طرف دی جو ”دنیوی ترقی“ سے تعلق رکھتے تھے۔ جب اسے ایسا محسوس ہوا کہ اب ہمیں کامیابی اور غلبہ حاصل ہو جائے گا، تو اس نے ”جہاداسلامی“ کے مقابلہ میں ”صلیبی جنگ“کے نام پر تمام عیسائیوں کو متحد کیا، مگر پھر بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، تو اب انہوں نے پھر غور فکر شروع کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اب یہودیت اور نصرانیت کو متحد ہوکر اسلام کے خلاف کوئی ایسا محاذ کھولنا چاہیے، جس سے مسلمانوں کی ایمانی طاقت اور ”اسلامی غیرت و حمیت“ کمزور ہوسکے، لہٰذا ”استشراق“ (Orientalism) کے نام پر ایک تخریبی تحریک کی بنیاد ڈالی، جس نے ”تحقیق“ (Reasrch) کی آزادی کے نام پر اسلام پر ایک فکری یلغار کردی، جس نے قرآن، حدیث، عقائد اسلام، فقہ، اصول فقہ، تاریخ اسلام، عربی زبان، علم کلام اور فلسفہ اسلامی وغیرہ، تمام علوم اسلامیہ پر آزادانہ تحقیق کی۔ ”انکشاف حقیقت“ کے خوش نما نام پر شبہات واعتراضات کا انبار لگا دیا اور دوسری جانب سائنس نے ٹیکنالوجی کے نام پر الحاد و بے دینی کو فروغ دینے کے لیے مختلف نظریات کو خوب ہوا دے کر عام کیا، وہ نظریات یہ ہیں: ”انسان پرستی (Humanism)، موجودیت (Existentialism)، لادینیت (Secularism)، مادیت(Materialism)، تجربیت (Empiriscism)، اباحیت (Positivism)، نتائجیت (Fragmatism)، افادیت پسندی (Vtilitarism)، ڈاروینیت یا نظریہ ارتقا(Parwanism)۔ ان میں سے ہر ایک ایمان اور اسلام کے لیے خطرناک اور مہلک ہیں۔ تیسری جانب مغرب نے اپنے غلبہ کے بعد کلچر اور فیشن کے نام پر نیا فتنہ اور تحریک شروع کر دی، جس سے غیرت و حمیت بلکہ انسانیت کو شدید نقصان پہنچا۔ ہم مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ مغربی تحریک استشراق (Orietalism) کی صورت میں مذکورہ مغربی نظریات باطلہ مغربی کلچر کی حقیقت اور اس کے پیچھے اسلام کے خلاف کی جانے والی سازش سے واقف ہوکر خود بھی اور پورے معاشرے کو مغرب کی ہلاکت خیز سازشوں اور مکرو فریب سے بچائیں، اللہ ہم سب کو موت تک ایمان اور اسلام کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رکھے اور ہر طرح کی باطل تحریک کا شکار ہونے یا متأثر ہونے سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔ مغرب کا فریب علم وحی کے نازل ہونے کے بعد مسلمان دنیا پر غور و فکر کرنے پر آمادہ ہوا، اس لیے قرآنی اشارات و کنایات کو سمجھنے کے لیے اپنی پوری ذہنی توانائی کو صرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مختصر سے عرصے میں ایمان و یقین اور تفکر و تدبر کے صحیح استعمال کی وجہ سے ترقی کے بام عروج کو پہنچ گیا، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ جب تک مسلمانوں میں سلطان سے لے کر و زرا تک اور وزرا سے لے کر امرا تک اور امرا سے لے کر عوام الناس اور علما، غرض کہ تمام شعبوں کے مسلمانوں میں ایمان اورایمانی تقاضوں کو پورا کیا جاتا رہا وہاں تک ترقی کرتا رہا، کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے : ﴿انتم الأعلون ان کنتم موٴمنین﴾ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور ان کے بعد بھی دیگر خلفا اور ان کے فوجی کمانڈروں، میں صلاح و تقویٰ موجودرہا، کامیابی قدم بوسی کرتی رہی۔ حضرت خالد بن ولید کو لے لیجیے، مہلب بن ابی صفرہ کو لے لیجیے، محمد بن قاسم کو لے لیجیے یا پھر نورالدین زنگی، سیف الدین قطز، محمود غزنی، صلاح الدین ایوبی، محمد الفاتح، طارق بن زیاد، موسی بن نصیر،اورنگ زیب وغیرہ ، سب کے سب تقویٰ، طہارت ِ ایمانی، غیرت اسلامی، حمیت، اعمالِ صالحہ، شب بیداری اور حب ِ رسول جیسے اوصاف مطلوبہ سے سرشار تھے؛ آپ کوئی بھی کامیاب جنرل، یا امیر ایسا نہیں بتلاسکتے جو ہمارے زمانیکے حکم رانوں اور امیروں کی مانند ہو۔ غرض کہ عالمِ اسلام جس وقت ترقی کی منزلیں طے کر رہاتھا ، اس دور میں یورپ تنزلی اور ذلت و نکبت کے دور سے گذر رہا تھا،پھرجب اسلام مغرب کے راستے سے اندلس پہنچا اور مسلمانوں کی ترقی کو اہل مغرب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ”مادیت“ کو غرض بنا کر اندلس کی درسگاہوں میں انہوں نے علم حاصل کیا، مگر انہوں نے صرف ہنر حاصل کیا اور پھر بیداری کے بعد انہوں نے اس کو ہمارے کمال اتا ترک اور سرسید وغیرہ کی طرح تقلید مشرق اور تقلید مسلم کا نام نہیں دیا (یعنی اسلام اور اسلامی تہذیب و افکار سے قصداً متأثر نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور فن اور ہنر حاصل کیا، اس طور پر کہ ہماری تعلیمات کو قبول نہیں کیا، جیسا کہ انیسویں صدی میں مسلمانوں کے ایک طبقہ نے مغرب سے فن اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اس کے مادی اور غیر اسلامی وانسانی افکار و نظریات کو بھی اپنانے کو ترقی کا لازمی جز سمجھا اور سمجھ رہے ہیں) بلکہ اسے روحانی صلیبی جنگ سے یادکیا، یعنی صلیبی جنگوں کی ہاری ہوئی بازی کو نئے انداز میں کامیاب بنانا اور جب اس کو شش سے وہ انقلاب تک پہنچ گئے، تو اس کو نشأة ثانیہ کانام دے دیا، یعنی یہ ترقی اور غلبہ انہوں نے اپنے ہی یونانی علوم کے احیا کی وجہ سے حاصل کیا، نہ کہ مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے ، بلکہ انہوں نے تو اسلامی ترقی کو بھی ایمان ، قرآن،حدیث وغیرہ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علوم یونان کے عربی میں ترجمہ کے بعد اسی کا مرہون منت قراردیا، جو سفید جھوٹ اور فریب کے علاوہ کوئی حقیقت کا درجہ نہیں رکھتا۔ بہت سے مسلمان بھی مستشرقین سے متأثر ہو کر یہی تسلیم کرتے ہیں ،اگر ایسا ہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ افلاطون، ارسطو، سقراط ، بقراط وغیرہ کا زمانہکوئی قبل المسیح پانچ سو سال ہے، تو کیوں یونا ن اور دنیا کو اس وقت نہیں، بلکہ ایک ہزار سال تک ترقی حاصل نہ ہوسکی؟ جبکہ مسلمانوں کو ان کے علوم کی وجہ سے ایک ہزار سال بعد ترقی حاصل ہوئی؟ ظاہر سی بات ہے کہ جب بات ہی بے بنیاد ہے تو جواب کیا بن پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ”یونانی علوم“ترقی کا باعث تو کیا بنتے، تنزلی کا باعث بنے، کیوں کہ یونانی علوم کے تراجم کے بعد مسلمان جب اس کے مطالعہ میں لگے تو ”ظاہریت پرستی“ کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان کی بنیاد ڈگمگا کر رہ گئی۔ اسی لیے علمائے اسلام نے مامون الرشید کے بارے میں کہا کہ اس نے ”یونانی علوم“ کے تراجم میں دلچسپی لی، جس کی وجہ سے اعتزال کو تقویت ملی اور نقل کے مقابلے میں عقل کو ترجیح دینے کا رُجحان مسلمانوں میں زور پکڑ گیا، لہٰذا اللہ اسے یعنی مامون کو ویسے ہی نہیں چھوڑے گا بلکہ باطل فرقوں کو تقویت پہنچانے کی وجہ سے اس کا مواخذہ کرے گا، بلکہ حضرت تھانوی نے تو اسے دوسری صدی کا ”مخرب اسلام“ قرار دیا۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو جو کچھ ترقی ملی وہ محض ایمان اور قرآن کی بدولت ملی، یونانی علوم کا اس میں کوئی کردار نہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس ذہنیت سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ الحمدللہ !ہم خود اپنے پاوٴں پر محض اللہ کی نصرت اور توفیق و فضل سے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہاں! البتہ اہلِ مغرب نے جو کچھ ترقی حاصل کی وہ مسلمانوں سے ہنرمندی سیکھ کر حاصل کی، چاہے اسے وہ تسلیم کریں یا نہ کریں، حقیقت کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اب ہمیں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایمانی تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کریں اور مغربی تہذیب اور کلچر سے متأثر ہوئے بغیر، صرف ان سے ہنر حاصل کریں، تو ہی کامیابی ہماری قدم بوسی کرسکتی ہے۔ کمال اتاترک کا ترکی، اَسّی (80)سے زائد سال بعد بھی، ایمان سے بغاوت کی وجہ سے آج تک ترقی نہیں کرسکا اور کر بھی نہیں سکے گا، اس لیے کہ جب تک اسلام اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ باطل کی کسی بھی تہذیب سے متأثر ہوئے بغیر، ہم مسلمان ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے لیے کامیابی کی راہ ہموار ہوسکے، بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی نہ بھی ہو اور محض مضبوط ایمان اور اس کے تقاضوں پر عمل، اتحاد و اتفاق کے ساتھ ہونے لگے تو ترقی ممکن ہی نہیں،ان شاء اللہ لازمی اور یقینی ہے، کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے: ﴿انتم الاعلون ان کنتم موٴمنین﴾کیا آپ نے غزوہٴ بدر، سیف الدین قطز، نورالدین زنگی، طارق بن زیاد، خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، محمد الفاتح رحمہم اللہ وغیرہ کی تاریخ اٹھا کر نہیں پڑھی؟ وہ ایمان و یقین کے جبل راسخ اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے، نہتے تھے، مگر پھر بھی کامیاب و کامران ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل مغرب اور دیگر غیرمسلم اقوام جب ان کے پاس ایمان نہیں کیوں ترقی کر رہی ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی فرماتے ہیں: ترقی اور علمائے اسلام لوگ کہتے ہیں کہ علمائے اسلام ترقی سے روکتے ہیں ، میں کہتاہوں کہ الزام صحیح نہیں، بلکہ عام طورپر لوگ تو عقلی طریقہ سے ترقی کو ضروری ثابت کرتے ہیں اور میں اسے شرعی فرض کہتاہوں، حق تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ولکل وجہة ہو مولیہا فاستبقوا الخیرات﴾ یعنی ہر قوم کے لیے قبلہ کی ایک جہت مقررہے، جس کی طرف وہ منہ کرتی ہے تو ایک دوسرے سے بھلائیوں میں آگے بڑھو۔ ہم کو تو استباق یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم ہے اور یہی ترقی ہے ، ترقی کی ضرورت تو قرآن شریف سے ثابت ہے، بلکہ ”استبقوا“ امر کا لفظ ہے، جو فرض ہونے کا تقاضا کرتاہے، تو یہ کہاجائے گا کہ اسلام میں تر قی کرنا فرض ہے، اب کسی کی مجال ہے کہ ترقی سے روک سکے۔ لہٰذا علما پر یہ الزام بالکل تہمت ہے۔ قرآنی فرض سے کوئی کیسے روک سکتاہے؟ بس فرق اس قدر ہے کہ اور لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ دوسری قوموں کے قدم بہ قدم چل کرترقی کرو اورعلما یہ کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن کہے اس طرح ترقی کرو۔ غیر قوموں کی تقلید میں یہ نہیں کہتا کہ جو تدبیریں یورپ اور غیر قوموں نے اختیارکی ہیں ان کا دنیوی کامیابی میں کوئی اثر ہی نہیں۔ہاں! یہ ضرور کہوں گا کہ مسلمانوں کو ان تدبیروں سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ مسلمانوں کے لیے ان تدبیروں کے اثر کرنے میں ایک رُکاوٹ ہے اور وہ رُکاوٹ ان کا گناہ اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرناہے اور یہ رکاوٹ کا فروں میں نہیں ہے، کیوں کہ ان پر جزئی عملوں کی ذمہ داری نہیں، ان پر تو ایمان لانے کی ذمہ داری ہے، اور ایمان نہ لانے پر اور کفر کرنے ہی پر ایسا سخت عذاب ہوگا، جس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں ۔ باقی عملوں کی ان سے پوچھ نہ ہوگی، نہ ان کی سزا ملے گی۔ اورمسلمانوں سے الحمد للہ، کفر کا عذاب ہٹا ہواہے ، ان سے عملوں پر پوچھ ہوگی، اورجب یہ ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہیں ، تو ان کو کامیابی ہوا نہیں کرتی ، اللہ تعالیٰ ان تدبیروں میں سے اثر کودور کردیتے ہیں، تاکہ اس مخالفت کی سزا دنیا ہی میں بھگت لیں۔ ہر قوم کی ترقی اور کامیابی کا طریقہ الگ ہے ، یہ ضروری نہیں کہ جو طریقہ ایک قوم کو فائدہ دے ، وہ سب ہی کو فائدہ دے اور اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ تدبیریں ہمیں بھی فائدہ دیں گی، تب بھی خداوندی احکام کی پیروی فرض ہے اور ان ناجائز تدبیروں کا اختیار کرنا ہرگز روا نہ ہوگا۔ دیکھیے! شراب ، جوے اور سود میں بھی نفع ہے ، خود ارشادعزوجل ہے : ﴿قل فیہما اثم کبیر ومنافع للناس﴾ (آپ کہہ دیجیے شراب اور جوے میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو کچھ فائدہ بھی ہے۔) لیکن ایسے فائدہ کو لے کر کیا کریں ، جس میں خدا تعالیٰ کا غضب بھی ملا ہو۔ لوگ تدبیر تو کرتے ہیں ، شریعت کے خلاف اور پھر چاہتے ہیں کہ علما ساتھ دیں اور فائدہ ہی کہاں ہوا، جس میں خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو اور دین و دنیا دونوں کی تباہی ہو؟! اس لیے مسلمانوں کو ان تدبیروں سے ترقی نہیں ہوسکتی، بلکہ اور تنزلی ہوگی اور ہوتی جارہی ہے۔ ترقی کی قسمیں ترقی اچھی باتوں میں بھی ہوتی ہے اور بُری میں بھی؛ مگر بھلائیوں میں تو کوشش کرکے ترقی حاصل کرنے کے قابل ہے اور برائیوں میں نہیں، ورنہ ایک ڈاکوکو بھی یہ کہنے کا حق ہے کہ مجھے ڈاکہ سے کیوں منع کیا جاتاہے، میں ترقی کرنا چاہتا ہوں۔ بلکہ اسی طرح ہردھوکہ باز کو، چورکو، گرہ کٹ کو، کفن چور کو، رشوت لینے والے کو، سود خور کو، سٹہ باز کو؛ غرض ہر بد معاش کو یہ کہنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس لیے بھلائی میں تو ترقی، ترقی ہے اور برائی میں ترقی بری ہے۔ تو اب جس ترقی کو اور لوگ کہتے ہیں یا وہ اس کا بھلا ہونا ثابت کردیں یا جس ترقی کو علمائے اسلام کہتے ہیں ہم اس کا بھلا ہونا ثابت کردیں۔ خود ترقی کرنا تو ضروری اور فرض ہے، مگر ان طریقوں سے ترقی کو برائی میں ترقی کرنا بنادیاہے، جو درحقیقت بجائے ترقی کے تنزلی ہے۔ اسلاف کی ترقی اور موجودہ ترقی موجودہ ترقی کا حاصل تو حرص ہے اور شریعت نے حرص کی جڑکاٹ دی ہے۔ صحابہٴ کرام نے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ تھے، کہیں ایسے خیال کواپنے دل میں جگہ نہیں دی، نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کی تعلیم فرمائی، نہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت میں کوئی واقعہ ہے۔ ان حضرات کی ترقی تو دین کی ترقی تھی، اگر چہ اس کے ساتھ ہی دنیا کی بھی وہ ترقی ملی کہ آج لوگوں کو خواب میں بھی نصیب نہیں، لیکن مقصود صر ف وہی ترقی تھی؛ چناں چہ ان کی اس شان کو خودخداتعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ﴿الذین ان مکنہم فی الارض اقاموا الصلوة واتوا الزکوة وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر﴾․(یہ وہ لوگ ہیں، اگر ہم ان کوزمین پر قبضہ دے دیں تو یہ نماز اداکرتے رہا کریں، زکوٰة دیتے رہا کریں اور بھلائیوں کا حکم اور برائیوں سے روک ٹوک کرتے رہا کریں۔) یہ ہے ترقی کے بعد ان کے خیالات کا نقشہ جس میں کسی شک و شبہ کی بھی گنجائش نہیں۔ مالی ترقی جس ترقی کو لوگ تر قی کہتے ہیں، اس کے تین حصے ہیں: ”مال، عزت، حکومت“ آج کل دوسری قوموں کے سامانِ عیش دیکھ کر مسلمانوں کی رال ٹپکتی ہے۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ بھلائی اور سلامتی اسی میں ہے، کہ ان کو دنیا زیادہ نہ ملے، اگر ہم کو زیادہ مال دیا جاتاتو رات دن دنیا ہی کی فکر میں رہتے، آخرت سے بالکل غافل ہو جاتے، اس پر شاید یہشبہہ ہوکہ ہماری نیت تو یہ ہے کہ اگر خداتعالیٰ ہم کوسامان زیادہ دیں تو خوب نیک کام کریں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خوب خرچ کریں تو یادرکھیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے زیادہ جاننے والے ہیں، آپ کو کیاخبر ہے کہ اس وقت آپ کے جو ارادے اور نیتیں ہیں، زیادہ مال ملنے کے بعد بھی یہ باقی رہیں گی یا نہیں، اس کو تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، حضرات صحابہٴ کرام سے بڑھ کر کون نیک بخت ہوگا۔ مگر حدیث شریف میں آتاہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ سے فرمایا کہ تمہاری کیا حالت ہوگی جب کہ میرے بعد سلطنتیں اورشہرفتح ہوں گے اور تمہاے پاس زیادتی کے ساتھ مال وسامان اورغلام و نوکر ہوں گے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہم اللہ کی عبادت کرنے کے لیے فارغ ہوجائیں گے۔ نتفرغ للعبادة ونکفی الموٴنة (ہم عبادت کے لیے فارغ ہوجائیں گے اور مشقت سے بچ جائیں گے)۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری یہی حالت اچھی ہے جو آج کل ہے۔ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے لیے زیادہ پسند نہیں کیا، حالاں کہ ان حضرات نے واقعی زیادہ سامان ہونے پر عبادت میں پہلے سے زیادہ ترقی کی ہے اور دنیا میں نہیں گھسے تو اوروں کے لیے کب پسند فرمائیں گے؟ اس لیے مسلمانوں کو دوسری قوموں کا مال دیکھ کر رال نہ ٹپکاناچاہیے۔ اولئک عجلت لہم طیباتہم فی حیاتہم الدنیا(یہ کافر لوگ تو وہ ہیں، جن کو ان کی نعمتیں دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں)اور آخرت میں تو کافروں کے لیے عذاب ہی ہے اور مسلمانوں کے واسطے تو راحت جنت میں ہے، دنیا میں تو مسلمانوں کو اتنی ترقی چاہیے کہ پیٹ بھر کرروٹی مل جائے، سترڈھانکنے کے لیے کپڑا اور رہنے کو مختصر سامکان؛ اور اتنا الحمد للہ بہت مسلمانوں کوحاصل ہے۔ صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنابھی حاصل نہ تھا، تو ہم لوگ بادشاہ ہیں، ارشاد نبوی ہے: جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ بدن میں صحت ہو، دل میں بے فکری ہو، ایک دن کاکھانا اس کے پاس ہو،توگویا اس کو تمام دنیا مل گئی۔ (جاری)

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter