Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی اوَل 1430

ہ رسالہ

3 - 17
***
ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط)
حضرت مولانا محمد سعد زید مجدھم

حضرت مولانا محمد سعد زید مجدھم نے امسال رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر جو فکر انگیز اور درد آمیز وعظ فرمایا، قارئین الفاروق کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
سنتوں کا اہتمام کرو، سنتوں کے اہتمام کے بغیر مسلمان غیر مسلموں سے چھانٹانہیں جاسکتا۔ اب تو عجیب معاملہ ہو گیا ہے کہ کہیں حادثہ ہو جاوے، زلزلہ آجاوے یا کہیں ٹرینیں ٹکرا جاویں تو مسلمانوں کو پہچاننے کے لیے ختنہ دیکھنی پڑتی ہے، جو مسلمان سر سے پاؤں تک شعائر اسلام سے بھرا ہوا تھا کہ اُسے دیکھ کر دور سے الله تعالیٰ کی یاد آجاتی تھی آج اس کی شناخت مشکل ہو گئی ۔ کہیں سلام کرنا ہو تو پہلے نام پوچھنا پڑتا ہے، جب اسلامی نام بتا یا جاتا ہے تو کہتے ہیں ”السلام علیکم“ نام پوچھنے کی نوبت اس لیے آتی ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ کون سی قسم کے انسان ہیں ۔ آیا سلام کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ آج مسلمان نے سنتوں کے اہتمام کو چھوڑ کر اپنے آپ کو سلام جیسی مبارک دعا سے بھی محروم کر لیا، جسے الله نے اپنا نائب بنا کر زمین پر اتارا ہے ۔ ہم سنتوں کو چھوڑتے ہیں سنت ہونے کی وجہ سے اور صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین سنت پر عمل کرتے تھے سنت ہونے کی وجہ سے ۔ ( یعنی ہم سنت کو فرض ووواجب سے کم درجے کا خیال کرکے اسے ترک کر دیتے ہیں، جب کہ صحابہ اس عمل کو سنت سمجھ کر محبوبیت کی وجہ سے اہتمام فرماتے تھے ۔)
میرے دوستو، بزرگو اور عزیزو! اسلام تو کامل دین کا نام ہے اگر ہمارے اندر وہ کامل دین ہے تو اسلام پھیلے گا اگر ہماری نقل وحرکت اور اس کام کے ساتھ ہماری نسبت کامل اسلام کے ساتھ نہیں ہے تو یاد رکھو کہ صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰة سے اسلام نہیں پھیلے گا، کیوں کہ نماز، روزہ ، حج اور زکوٰة یہ تو اسلام کی بنیادیں ہیں۔ صحیح روایت میں ہے کہ ”بني الاسلام علیٰ خمس… الخ“ کہ پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں ۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر نہیں ہے بلکہ پانچ چیزیں خود اسلام کی بنیاد ہیں ۔ تو پھر اسلام کی عمارت کہاں ہے ، معاملات، اخلاق اور معاشرت یہ اسلام کی عمارت ہے ۔ ان بنیادوں کے بغیر معاملات، اخلاق اور معاشرت قائم نہیں ہو سکتے اور اس عمارت کے بغیر صرف بنیادیں بنالینے سے ضرورت پوری نہیں ہو سکتی ۔ ہر عقل مند آدمی یہی کہے گا کہ ان بنیادوں پر آپ عمارت بنائیے تو پھر آپ کو سایہ بھی ملے گا، سردی، گرمی کا انتظام بھی ہو گا، ساری ضروریات پوری ہوں گی ۔ صرف بنیاد بنا کر کوئی نہیں بیٹھ جاتا، جب تک اس پر عمارت نہ کھڑی کرے۔ ہر عمارت اپنے درو دیوار اور قد وقامت سے پہچانی جاتی ہے کہ یہ مسجد ہے ، یہ ہسپتال ہے اور یہ دفتر ہے۔ عمارت کو دیکھ کر ہی اس کے مقصد کا اندازہ ہو تا ہے۔ خاص طور پر اپنے اور غیروں کے درمیان پیش آنے والے معاملات میں جب تک حق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہو گا خدا کی قسم! اس وقت تک غیر مسلم اسلام کو نہیں پہچانیں گے ۔ غیر مسلم اسلام کو جب پہنچائیں گے جب مسلمان اسلامی احکام پر فیصلہ کرے، چاہے حق کسی غیر مسلم کا ہو ۔ مولانا یوسف رحمہ الله نے حیاة الصحابہ میں عنوان رکھا ہے کہ صحابہ کرام کے وہ اعمال جنہیں دیکھ کر غیر مسلموں کو ہدایت ہوا کرتی تھی ، جتنی چاہے لمبی لمبی نمازیں پڑھ لو، روزہ وزکوٰة ادا کر لو، یہ سارے اعمال مسلمان اور الله تعالیٰ کے درمیان کے ہیں۔ غیر مسلم اس وقت تک اسلام کو نہیں سمجھ سکتے جب تک معاملات، اخلاق اور معاشرت کو احکام کے مطابق نہ بنالیا جائے، حضرت علی رضی الله عنہ بازار میں تشریف لے گئے، وہاں دیکھا کہ ایک یہودی زرہ بیچ رہا ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ زرہ میری ہے یہودی نے کہا یہ میری ہے دونوں میں نزاع پیدا ہوا تو کہا کہ چلو! عدالت میں چلتے ہیں ،وہاں فیصلہ ہو گا۔ عدالت میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے مقرر کردہ قاضی شریح رحمہ الله موجود تھے۔ وہ امیر المؤمنین کو دیکھتے ہی فوراً اپنی مسند سے اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ”فرمائیے امیر المؤمنین میرے لیے کیا حکم ہے ؟ “ حضرت علی رضی الله عنہ کو قاضی نے اپنی مسند پربٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئے، حضرت علی رضی الله عنہ کے مدمقابل کے ساتھ اور نیچے بیٹھ کر کہا کہ حکم فرمائیے۔“
یہودی بھی کہتا ہو گا ارے! تو کہاں پھنس گیا ،ان کا اپنا بنایا ہوا قاضی، اتنا ادب ان کا ہو رہا ہے، یہاں تیرے حق میں فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ قاضی نے معاملہ سنا، حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا کہ یہ زرہ میری ہے ، یہودی نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔یہ زرہ تو میری ہے۔ قاضی نے کہا اے امیر المؤمنین! آپ کے پاس گواہ ہے؟ حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا ” ہاں! میرا بیٹا میرے حق میں گواہ ہے۔“ قاضی نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کے بیٹے کی گواہی تو آپ کے حق میں معتبر نہیں ہو گی ۔ لہٰذا فیصلہ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ زرہ آپ کو نہیں مل سکتی، یہ زرہ تو اس یہودی کی ہے ۔“ آپ اندازہ کریں کہ جھگڑا امیر المؤمنین سے ہو رہا ہے، مدمقابل یہودی ہے ۔ یہودی نے اپنے حق میں فیصلہ ہوتا ہوا دیکھا تو فوراً کہا:
”اشھد أن لا الہ الا الله وأشھد ان محمداً رسول الله“ اسلام میں داخل ہو کر اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! یہ زرہ آپ ہی کی ہے۔ میں نبوت والے معاملات دیکھنا چاہتا تھا، حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا اب یہ زرہ تمہیں ہدیہ ہے۔ مزید ایک گھوڑا اور 700 درہم بھی اُسے ہدیے میں دیے۔
میں بغیر کسی حجاب کے صاف صاف عرض کر دوں کہ آج دنیا میں جتنے بھی حالات ہیں ان کی اصل وجہ اسلامی معاملات، معاشرت اور اخلاق کا نہ ہونا ہے، ورنہ ایک غیر مسلم جو مسلمان کی قید میں ہو او رمسلمان خود تو کھجور پر گزارا کرے اور اُس غیر مسلم قیدی کو روٹی کھلائے تو ایسا غیر مسلم کیوں اسلام قبول نہیں کرے گا ؟ایک غیر مسلم صحابی کی قید میں تھا، وہ صحابی خود تو کھجور پر گزارا کرتے تھے، مگر اس قیدی کو گندم خرید کر روٹی مہیا کرتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ایسا غیر مسلم اسلام میں کیوں داخل نہ ہو جو مسلمان کی قید میں ہوتے ہوئے اسلام کا اکرام دیکھ رہا ہو ؟ میرے دوستو! میں دوبارہ عرض کروں کہ ساری دنیا میں جتنے حالات ہیں ان کی بنیادی وجہ ہماری اپنی کار گزاری ہے، اگر اسلام واقعی اسلام کی صورت میں پیش کیا جاوے تو ساری دنیا میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کی تعداد ساری دنیا میں اسلام کے پھیلنے کے لیے کہیں زیادہ ہے ۔ حضرت مولانا محمد یوسف رحمہ الله فرماتے تھے کہ الله نے ایک ایک صحابی کو پورے پورے ملک کی ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے ۔ لیکن دو چیزیں ہیں، ایک ہماری تنگ نظری اور دوسرے ہمارے دلوں میں غیروں کی ہدایت کی سچی تمنا نہ ہونا۔ یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے ہمارے اوپر حالات کے آنے کا، اگر مسلمان کے دل میں غیروں کی ہدایت کی سچی تمنا نہیں ہو گی تو جتنے بھی حالات اس پر آرہے ہیں ان حالات میں وہ غیبی نصرتیں اور تائیدات ہر گز نہیں دیکھ سکتا۔ الله رب العزت نے حالات میں جتنی بھی نصرتیں فرشتوں کے ذریعے سے نازل فرمائی ہیں، وہ سار ی اس بنیاد پر فرمائی ہیں کہ ان مسلمانوں کے دلوں میں غیروں کی ہدایت کی سچی تمنا ہے اور یہ ان کی ہلاکت نہیں چاہتے، اس لیے ساری نصرتوں میں دو چیزیں ہیں، بلکہ سارے کام میں دو چیزیں اصل ہیں ،ایک مقصود اور دوسرے موعود۔ مقصود ہدایت ہے اور موعود وہ جس کا الله نے انبیا علیہم السلام، صحابہ کرام او رایمان والوں سے وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اگر ملک ومال اور ان کے اسباب جو موعود ہیں، اگر وہ مقصود بن گئے تو الله کی قسم موعود کبھی حاصل نہیں ہو گا اور اگر مقصود سامنے ہو کہ ہم ان کی ہدایت چاہتے ہیں تو الله رب العزت ان کو ہدایت عطا فرماکر ساتھ لاوے گا، یا ان کومغلوب کرکے ان کے مادی نقشے ایمان والوں کو عنایت فرماوے گا لیکن اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ایمان والوں کے دلوں میں ان کے مادی اسباب سے فائدے اٹھانے کے بجائے ان کو الله تعالیٰ کے احکام پر لانے کی تمنا ہو اور ان کے نقشوں سے استفادے کا بالکل ارادہ نہ ہو، اگر ان کے مادی نقشوں کو حاصل کرکے ان پر غلبہ حاصل کرنے کا جذبہ ہو گا تو الله انہیں کبھی مغلوب نہیں کرے گا۔ مولانا محمد یوسف رحمہ الله فرماتے تھے کہ” الله کی جتنی غیبی تائیدات ہیں وہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی جب ان کے دلوں میں غیروں کی ہدایت کی تمنا ہو گی، کیوں کہ صحابہ کرام کے ساتھ الله تعالیٰ کی غیبی تائیدات کا جو راز ہے وہ غیروں کی ہدایت کی تمنا ہے کہ تم سے کچھ نہیں چاہتے سوائے تمہاری ہدایت اور نجات کے۔“
میرے دوستو! سارے حالات کا سبب ہی یہی ہے کہ ہم ان سے وہ چاہتے ہیں جو الله ہم سے نہیں چاہتا، اس لیے ہم سب اس کا ارادہ کریں کہ آج سے ہم سارے عالم کے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بن کر جیئیں۔ اپنے آپ کو امت بنا کر چلیں، کیوں کہ تاجر، کاشت کار، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کی نسبتیں سب کی سب ختم ہونے والی ہیں ۔ صحابہ میں صرف دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک مہاجرین، دوسرے انصار۔ اس کے علاوہ صحابہ میں کوئی تیسری قسم نہیں ملتی ۔ صحابہ یا تو دین کے لیے ہجرت کرنے والے یا دین کی نصرت کرنے والے تھے۔ صرف ایک صحابی جو در حقیقت مہاجر ہی تھے، لیکن انہوں نے ایک خاتون سے نکاح کرنے کی خاطر ہجرت کی تھی، اس وجہ سے وہ مہاجر ام قیس کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں، ورنہ باقی تمام صحابہ کرام میں کوئی تیسری قسم نہیں ملتی، حالاں کہ وہ تجارت بھی کیا کرتے تھے ، زراعت بھی کیا کرتے تھے اوراپنے اپنے علاقوں کے ذمے دار اور سردار بھی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقصد حیات سے پہچانا جاتا ہے ۔ اس لیے میرے دوستو، بزرگو، عزیزو! ہم سب اب تک کی اپنی غفلت پر توبہ کریں اور یہ ارادہ کریں کہ اے الله! اب ہم پورے دین پر خود بھی چلیں گے اور پورے دین کی دعوت بھی دیں گے اور اس پر الله سے یقین اور بصیرت کو مانگو کہ ہمیں تونے یہ نعمت دی ہے، ہمیں اس پر استقامت بھی نصیب فرمادے میرے دوستو! انفرادی ذمے داری نہیں ہے، بلکہ اجتماعی ذمے داری ہے ہر ایمان والے کی اس کے لیے ارادے فرماؤ، صرف جمع ہو جانا اور بکھر جانا اصل نہیں ہے، بلکہ زندگی بھر کے فیصلے کرو کہ اس کام کو کام بناکر جینا ہے، اس کے لیے ہمت کرکے فرماؤ کہ سال ، سات ماہ، چار ماہ، اندرون کے لیے اور بیرون کے لیے کون کون تیار ہے؟ یہ بات پورے یقین اور دلیل اور ہر زمانے کی کارگزاری ہے اس لیے الله نے اسی زمانے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہتواصی بالحق، تواصی بالصبر اور ان کے ساتھ ساتھ ایمان اور عملِ صالح ان چار اسباب کو ایک وقت میں ہر ہر مومن اپنے اندر جمع کرے، اس کے بغیر امت خسارے سے نہیں نکل سکتی۔
وصلّ الله علیٰ النبی الأمّی الکریم
وعلیٰ الہ وصحبہ وأمّتہ۔ آمین

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آج بھی دین پر عمل ممکن ہے 1 1
3 جب الله کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہیں 2 1
4 ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعی ( آخری قسط) 3 1
5 دعوتِ اصلاح مولانا محمد منظور نعمانی  4 1
6 کیا فرماتے ہیں علمائے دین 5 1
7 یہودی ذہنیت اور ہماری سرد مہری عبدالله خالد قاسمی 6 1
8 مسلم دنیا ۔۔ حالات وواقعات 7 1
9 مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل ومشکلات مولانا حبیب الرحمن اعظمی 8 1
10 مسلمان اور عصر حاضر۔۔ عمل کی ضرورت مولانا محمد عارف سنبھلی 9 1
11 اخبار جامعہ 10 1
12 مبصر کے قلم سے 11 1
13 نکا ح نعمت ،طلاق ضرورت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 12 1
14 مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی کے اسباب الگ ہیں مولانا محمد حذیفہ وستانوی 13 1
15 حدیث اور تاریخ کا فر ق مولوی عمر فاروق راجن پوری 14 1
16 تصوف کیا ہے؟مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی 15 1
19 عربی قواعد افادیت وخاصیت محترم خلیل الرحمن 16 1
20 مغرب کا بین الاقوامی قانون علمی وتاریخی جائزہ مولانا محمد عیسی منصوری 17 1
Flag Counter