Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

7 - 14
***
مالک اور مزدور کے درمیان معاملات
مفتی محمد جعفر ملی رحمانی
تاجر،صنعت کار اور زمین دارکومزدور کی اور مزدور کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے او ران دونوں کی ضرورت روزگار فراہم کرتی ہے ،یہ خدائی نظام ہے،جیساکہ الله تعالیٰ کا ارشادہے : ﴿نحن قسمنا بینہم معیشتہم في الحیاة الدنیا ورفعنا بعضہم فوق بعض درجٰت لیتخذ بعضہم بعضاً سخریاً﴾․
ترجمہ: دنیوی زندگی میں ہم نے ان کی روزی تقسیم کر رکھی ہے، اورہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے ، تاکہ ایک دوسرے سے کا م لیتے رہیں۔(سورة الزخرف:32)
انسانی ضرورتوں کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہی عقدِ اجارہ کے جائز ہونے کی بنیاد ہے ، جیساکہ فقہ کا قاعدہ ہے:”حاجة الناس أصل في شرع العقود“۔(لوگوں کی حاجت معاملات کے جواز کی بنیاد ہے)۔(المبسوط للسرخسی:75/15)
کسی زمانے میں مزدور کومظلوم تصور کیا جاتا تھا، کیوں کہ وہ کمزور اورضرورت مند تھا، اس لیے اس کے حقوق کا استحصال کیا جاتا تھا، مگر انقلابِ روس کے بعد یہ صورتِ حال یکسر بدل گئی اور عالمی پیمانہ پر مزدوروں نے اپنی اپنی تنظیمیں اور یونینز بنالیں اور اس اجتماعی طاقت کے بل بوتے پر انہوں نے سرمایہ داروں ، مل مالکوں کے ناک میں دم کردیا، اور بسا اوقات ان کے کروڑوں کے کاروبار کو خاک میں ملاکر رکھ دیا دوسری جانب ان کے ردِّ عمل میں سرمایہ داروں ،مل مالکوں نے بھی اپنی تنظیمیں اور یونینز بنالیں، اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جب مزدور اپنی یونین کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کرتے ہیں تو کارخانہ دار تالہ بندی کا حربہ استعمال کرتے ہیں اور اس ہڑتال وتالہ بندی کی وجہ سے عام لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے کہ ان کو ان کی ضرورت کی چیزیں بروقت دستیاب نہیں ہوتیں ، یا بہت مہنگی خرید نی پڑتی ہیں۔
اس غیر مناسب صورت کا علاج کرنے اور سرمایہ ومحنت کے تنازعہ کا حل نکالنے اور آجر(Employer) واجیر(Employee) کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انسانی بستی کے دانشوروں ، داناوٴں اور ماہرینِ معاشیات نے جو کوششیں کی ہیں اور اقوامِ متحدہ(The united nation) کے زیرِنگرانی عالمی ادارہٴ محنت کا قیام عمل میں آیا ہے اور اس کے تیار کردہ قوانینِ محنت پوری دنیا میں ،خواہ مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم ، نہ صرف رواج پذیر ہیں ، بلکہ ان کو قانون کا درجہ حاصل ہے ، مگر ان قوانین سے بجائے اس کے کہ مالک و مزدور کا یہ تنازعہ ختم ہوتا کچھ زیادہ ہی الجھ گیا ، جس کی وجہ ان چارہ گروں کی نادانی ہے، جو دردِ دل کاعلاج پنڈلی پر پٹی باندھ کر کرنا چاہتے ہیں۔
مالک اورمزدور کے اس تنازعہ کا حل
اسلام دینِ فطرت ہے ، اس کا قانونِ محنت واجرت اخوت وبھائی چارہ پر مبنی ہے، دین نام ہے خیر خواہی کا اور جذبہٴ خیر خواہی زندگی کے ہر میدان میں ضرور ی ہے ، جب کہ آج مالک ومزدور دونوں اس جذبہ سے عار ی اور خود غرضی ومفاد پرستی کی ذہنیت کے ما لک ہیں ، مالک یہ چاہتا ہے کہ مزدور سے زیادہ سے زیادہ کام لے، پیداوار زیادہ کرے، زیادہ سے زیادہ نفع کو یقینی بنائے او رمزدور یہ چاہتا ہے کہ کام چوری کرے ، کارخانہ کی پیداوار خواہ کچھ بھی ہو ، مجھے میری اجرت زیادہ سے زیادہ ملے ، دونوں کی یہی خود غرضانہ ، مفاد پرستانہ ذہنیت ہے، جو سرمایہ دارکو مزدوروں کے حقوق کے استحصال پر اورمزدوروں کو انتقامانہ بغاوت پر ابھارتی ہے۔
اسلام نے مالک اور مزدور کے مابین خوشگوار تعلقات بنائے ہیں، اس کے لیے کچھ بنیادی احکام دیے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق
مالک ومزدور ، آقا وغلام ، کاشت کار وز مین دار، ہیڈ ماسٹر وٹیچرز، منتظم واساتذہ، سب انسانی حقوق میں یکساں اور برابر ہیں،فریقِ اول کو اپنے آپ کو برتر اور فریقِ ثانی کو کمتر سمجھنے کا کوئی حق نہیں ، فریقِ اول چونکہ اپنے آپ کو برتر اور فریقِ ثانی کو کمتر تصورکرتاہے اور اس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتا ہے جو اس بات کا تاثردیتا ہے کہ میں برتر ہوں او رآپ کمتر ، یہیں سے آپسی تنازعات واختلافات شروع ہوتے ہیں اور اس مشن کی ترقی یا تو رک جاتی ہے یا وہ ختم ہی ہوجاتا ہے ، جو دونوں کے لیے میدانِ عمل ہے ، کاش کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم پر عمل پیرا ہوتے :”تمہارے غلام ،خادم ، ملازم ،مزدور تمہارے بھائی ہیں،لہذا تم میں جس کے قبضے میں اس کا کوئی بھائی ہوتو اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیسا وہ خود کھاتا اورپہنتا ہے اور اس کوایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کی وہ استطاعت نہ رکھتا ہو او رکبھی ایساکام کرنے کو کہے تو خود بھی اس کا ہاتھ بٹائے “۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد سے درجِ ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے:
مالک ومزدور آپس میں بھائی بھائی ہیں ، اپنے خادم، نوکر اور ملازم کے ساتھ نہ صرف برابری بلکہ بھائیوں کا سا سلوک کرنا چاہیے۔
جومالک کھائے اور پہنے وہ اپنے ملازم ونوکر کو کھلائے اور پہنائے ، یعنی آپ جو معیار زندگی گذارتے ہیں نوکر بھی اسی معیار کا حق دار ہے ، مزدوروں کاحق مارکر مالک کو عیاشانہ اورامیرانہ زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں، اس سے معلوم ہواکہ یا تو مالک نوکر کو اس قدر اجرت دے کہ وہ بھی مالک کے مطابق معیارِ زندگی گذار سکے اور اگر یہ ممکن نہیں تو مالک اپنے معیارِ زندگی کو اس سطح تک نیچے لے آئے جس سطح تک وہ اپنے مزدور اور ملازم کے معیار زندگی کو بلندکرسکتا ہے ۔
مزدور کوایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتا، یہیں سے مزدور کے اوقات کار کی تعیین کا اصول مستنبط ہوتا ہے ، کہ ایک عام انسان ایک دن میں یا ایک ہفتہ میں کس حدتک اور کتنے گھنٹے کام کرسکتا ہے، جو اس کی صحت پر اثر انداز نہ ہو او رنہ ہی اس کی اپنی ضرورتیں اور اس کے لواحقین ومتعلقین کی ضرورتیں متأثر ہوں۔
زائد محنت کامعاوضہ
اگر کوئی کام وہ نہ کرسکتا ہو تو اس سے یہ کام نہ لے اور اگر ضرورت ہے تو خود اس میں اس کاہاتھ بٹائے، یہ اخلاق کا بلند تر درجہ ہے، جس میں مالک کی بالادستی وبرتری کے تصور کا ایک حدتک علاج بھی ہے اور اگر ایسا نہیں کرسکتاتو اس کام کے لیے آدمی بڑھادے اور اگر کسی کام کا تقاضا یہ ہو کہ وہ اسی دن پورا کرنا ضروری ہے اور مزدور بھی اس کی تکمیل پر راضی ہے تو اس کوزائد وقت کامعاوضہ دیاجائے ۔
مزدور اور غلام کی عزتِ نفس
مالک پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملازم ونوکر کی عزتِ نفس کا پورا خیال رکھے، اس کو ایسے القاب والفاظ سے نہ بلائے جس سے اس کی عزتِ نفس پر زد پڑتی ہو، حضرت ابوذر غفاری نے ایک دفعہ حضرت بلال  کوان کی ماں سے عار دلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا کہ” اے ابوذر! تونے اس کو اس کی ماں سے عار دلائی ، تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت باقی ہے۔“
مزدور کی مزدوری او راجرت کی فوری ادائیگی
آج کل مالک اپنے مزدوروں او رملازموں سے کام لے لیتے ہیں او راجرت کے لیے انہیں چکر کٹواتے ہیں، جو سراسر ظلم وزیادتی ہے ، بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس ظلم کے مرتکب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو“۔
بعض مزدور نا دہندہ مالک کے باربار چکر کٹوانے کی وجہ سے اپنی اجرت چھوڑدیتے ہیں اور یہ مالک اس کو مالِ غنیمت سمجھ کر استعمال کرتے رہتے ہیں، جب کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : ”حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں تین آدمیوں کی طرف سے خود مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر عہد کیا، پھر دھوکہ دیا ، دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچا اور اس کی قیمت کھالی، تیسرا وہ شخص جس نے مزدور سے محنت تو پوری لی مگر اس کی مزدوری نہ دی“۔
مزدور کی اجرت کتنی ہو؟
مزدورکو اتنی اجرت دینی چاہیے جس سے اس کی ضروریات پور ی ہوسکیں اور بہتر یہ ہے کہ ان ضروریات کا معیار وہی ہو جو خود مالک کا ہو۔
ویسے شرعاً وہ مقدار اجرت بن سکتی ہے جس پر وہ دونوں فریق راضی ہو ں ، لیکن ایسانہ ہوکہ فریقِ اول ، فریقِ ثانی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کو اجرت کم دے ، یا فریقِ ثانی فریقِ اول کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اجرت زیادہ لے، کیوں کہ ایسا کرنا تعلیماتِ شرعیہ کی خلاف ورزی ہے۔

Flag Counter