Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

2 - 14
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
کفن ودفن کے انتظام کے لیے انجمن بنانا
سوال… مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے محلے میں میت کے حوالے سے ایک انجمن بنی ہوئی ہے جو کہ محلے کے افراد نے آپس میں مل کر بنائی ہے اس انجمن کا اصول یہ ہے کہ محلے میں جتنے بھی گھر ہیں اور ان گھروں میں جو شادی شدہ حضرات ہیں ( بشرطیکہ مکان ان کا اپنا ہو) تو ان سے سو (100) روپے شروع میں ممبر بننے کی فیس اور 
(بیس) روپے ماہوار وصول کیے جاتے ہیں اور جو اس انجمن کا ممبر نہ بننا چاہے تو کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اب انجمن کے پاس جو رقم جمع ہوئی ہے اُسی رقم سے اگرمحلے کے اندر کسی انجمن کے ممبر کے گھر میت ہو جائے تو یہ انجمن ان کے گھروالوں او ران کے مہمانوں کے لیے 
(تین) دن تک کھانے، ٹینٹ، وشامیانے وغیرہ لگانے کا بندوبست کرتی ہے اور اگر ضرورت ہو تو قبر ، کفن ودفن کا بھی انتظام کر تی ہے اور اگر جو ممبر نہیں ہے مگر غریب مستحق ہے تو ان کے لیے بھی انجمن ہی انتظام کرتی ہے۔
پہلے دن کے کھانے کے لیے انجمن خود میت کے گھر والوں اور ان کے مہمانوں کے لیے دیگوں وغیرہ کا انتظام کرتی ہے ۔ کیوں کہ پہلے دن مہمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے
دوسرے دن کے کھانے کے لیے یہ انجمن راشن وغیرہ میت کے گھر کے دائیں طرف کے پڑوسی کے گھر بھجوائے گی تاکہ وہ میت کے گھر اورمہمانوں کو کھانا پکا کر بھجوائے۔
تیسرے دن کے کھانے کے لیے یہ انجمن راشن وغیرہ میت کے گھر کے بائیں طرف کے پڑوسی کے گھر بھجوائے گی تاکہ وہ میت کے گھر اور مہمانوں کو کھانا پکا کر بھجوائے۔
تینوں دن صبح کے ناشتے اور شام کی چائے کے لیے جو انجمن کے ممبران ہیں ان کے گھروں پر پرچیوں کے ذریعے انتظام کی تقسیم ہوتی ہے۔ کیا یہ طریقہٴ کار شرعاً جائز ہے؟
جواب… میت کی قبر، کفن، دفن اور اہل میت کے کھانے کے انتظام کے لیے انجمن بنانا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔
البتہ اگر کوئی اس طرح انجمن بنائے کہ انجمن کے ہر ممبر کی آمدنی حلال ہو اور ہر ایک بخوشی ورضا اس کا ممبر بنا ہو اور ماہانہ فیس متعین یاغیر متعین مقدار میں ہر ایک سے جبراً وصول نہ کی جاتی ہو اور ہر ایک کا مقصود رضائے الہٰی اور پسماندگان کی دستگیری اور غم خواری ہو ، فخر ونمود نہ ہو اور دوسرے تیسرے دن کا کھانا تیار کرنا پڑوسیوں پر لازم وضروری نہ ہو اور انجمن والے دیگر لوگوں کو میت اور اہل میت کی خدمت سے نہ روکیں، تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم اجتناب اولیٰ ہے اور ہر شخص بقدروسعت انفرادی طور پر میت او راہل میت کی خدمت کرے۔
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ایک نوجوان نے زہریلی دواپی کر خود کشی کر لی، ایک درس نظامی کے فاضل عالم نے اس کا جنازہ پڑھایا، ان کا کہنا ہے کہ باغی مسلمان کا جنازہ علما ء کو نہیں پڑھنا چاہیے، خود کشی کرنے والوں کاجنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، جب کہ اس سے پہلے ہمارے ہی علاقے میں ایک نوجوان نے اسی طرح خود کشی کی تھی اور ہمارے ایک درس نظامی کے فاضل عالم جو کہ متخصص بھی ہیں انہوں نے کہا کہ علماء او رمعززین علاقہ کو ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ جنازہ کوئی عام مسلمان پڑھا دے تاکہ لوگوں کے دلوں میں خودکشی کی نفرت پیدا ہو کہ دنیا میں ہی معززین علاقہ نے جنازہ نہیں پڑھا یہ توہین ہے اب دو علما ء میں اختلاف مسئلہ کی وجہ سے لوگوں میں اضطراب ہے مہربانی فرماکر قرآن سنت کی روشنی میں خود کشی کا اور خود کشی کرنے والے کے جنازے کا حکم عنایت فرما دیں ۔ بینوا وتوجروا․
جواب…خود کشی کرنا ایک سنگین گناہ ہے ایسے شخص کی نماز جنازہ کے بارے میں جمہور علماء کرام او راحناف کے ہاں راجح مسلک یہ ہے کہ خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، البتہ بعض فقہاء کرام کا قول ہے کہ مقتدیٰ او راہل علم و فضل کے لیے بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص کے جنازے میں شرکت نہ کریں تاکہ لوگوں کو اس فعل سے نفرت ہو، تاہم نہ تو پڑھنے والے گناہ گار ہوں گے اور نہ ترک کرنے والے ۔ البتہ سب کے چھوڑنے کی صورت میں سب گناہ گار ہوں گے۔
دورانِ نماز موبائل بند کرنا
سوال… بہت سے لوگ مسجد میں آنے کے بعد بھی موبائل فون بند نہیں کرتے اور دوران نماز اس کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، جس میں اکثر موسیقی ہوتی ہے۔ کیا ایسے موقع پر موبائل کو نماز کے دوران ہی دیکھ کر بند کیاجاسکتا ہے؟ کیوں کہ اگر اسے یوں ہی بجنے دیا جائے تو پوری مسجد کے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ اگر موبائل کو دوران نماز بند کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی تو کیا یہ ایک شخص تمام نمازیوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنی نماز فاسد کر دے یا اس کو نماز کے آخر تک چھوڑ دیا جائے اور سلام کے بعد بند کیا جائے۔
جواب… واضح رہے کہ موبائل کو بند کرنے کے لیے نماز کو توڑنا تو جائز نہیں ، البتہ ایک ہاتھ سے اس طرح بند کیا جاسکتا ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا اور اگر نمازی موبائل کو اس طرح بند کر رہا ہو کہ دور سے دیکھنے والا شخص یہ سمجھے کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا، تو اس طرح نماز ٹوٹ جائے گی۔
بایں ہمہ نمازی کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل ہی موبائل فون اہتمام اور پابندی سے بند کر دینا چاہیے، تاکہ مسجد کا تقدس پامال اور بے حرمتی نہ ہو اور کسی کے خشو ع وخضوع میں خلل نہ آئے۔اور گھنٹی میں موسیقی منتخب کرنا بھی ناجائز ہے۔
ناپاک موبائل کو پاک کرنے کا طریقہ
سوال… موبائل فون اگر کسی گندی نالی یا گٹر وغیرہ میں گر جائے تو اسے کس طرح پاک کیا جائے اس لیے کہ موبائل کو اور اس کی کیسنگ (باڈی) کو دھونا تو ممکن ہے مگر بیٹری او راندر کا حصہ جسے پانی سے نہیں دھو سکتے، کیا صرف خشک کرنے سے پاک ہو جائے گا۔
اسی طرح گھڑی اور دیگر مشینی آلات کو پاک کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب… موبائل اگر ناپاک ہو جائے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا وہ حصہ جو دھونے سے خراب نہیں ہوتا ہے اسے تین دفعہ دھو لیا جائے اور جو حصہ پانی لگنے سے خراب ہوتا ہے اس کو تین دفعہ گیلا کپڑا مارکر صاف کر لیا جائے، یا اسپرٹ سے صاف کیا جائے کہ اسپرٹ سے موبائل خراب نہیں ہوتا ۔
اور یہی حکم گھڑی اور ان تمام مشینی آلات کا ہے جو پانیسے دھونے سے خراب ہو جاتے ہیں۔
بچے کو دیے گئے تحائف کا حکم
سوال…بچے کی پیدائش پر ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں بچے کو تحائف اور نقدی کی شکل میں ہدیے دیے جاتے ہیں تو آیا اس صورت میں والدین نقدی کو استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ کیوں کہ بظاہر ملک بچے کی نظر آتی ہے تفصیلی جواب مراحمت فرمائیں۔
جواب… بچے کی پیدائش وغیرہ کی تقریبات کے موقع پر جو ہدایا او رتحائف پیش کیے جاتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :
پہلی قسم: وہ اشیاء جو عام طور پر بچوں کے استعمال کی ہوں وہ تو بچوں کا حق ہے مثلاً بچوں کے کپڑے یا کھلونے وغیرہ۔
دوسری قسم وہ ہے جو عادةً بچوں کے استعمال کی نہ ہو مثلاً نقدی، خورد ونوش کا سامان یا گھریلو اشیاء وغیرہ، والدین کے لیے ان کا استعمال جائز ہے۔
واضح رہے کہ ان ہدایا اور تحائف وغیرہ سے مقصود بچے کے والدین کے ساتھ نیکی اور اظہار مسرت ہوتا ہے ، لیکن تعظیم والدین کی خاطر بچے کی طرف منسوب کرکے دیے جاتے ہیں۔
ٹیپ ریکارڈ اور ریڈیو کی تلاوت سے سجدہٴ تلاوت اور ثواب کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ، ومفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ! کیسٹ، موبائل، ٹیپ ریکارڈ اور ریڈیومیں اگر براہ راست تلاوت سنی جائے تو ثواب کا ترتب اور سجدہ تلاوت کا وجوب دونوں ثابت ہوتے ہیں اور پہلے سے ریکارڈ شدہ تلاوت سنی جائے تو نہ سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے نہ ثواب کا حصول، آپ سے مطلوب ان دونوں کے درمیان وجہ فرق ہے براہِ کرم جواب میں تحریر فرماکر ممنون فرمائیں۔ أجیبوا بالبرہان وأجرکم علی الرحمن․
جواب… واضح رہے کہ وجوب سجدہٴ تلاوت اور ثوابِ سماِع تلاوت کا دار ومدار تلاوت صحیحہ پر ہے او رتلاوت صحیحہ یہ ہے کہ تلاوت کرنے والے میں خود بھی سجدہ کی اہلیت وصلاحیت ہو، اگر تلاوت کرنے والے میں سجدہ کی اہلیت وصلاحیت نہیں تو اس کی تلاوت تلاوت صحیحہ نہیں اور نہ اس کے احکام تلاوت صحیحہ کے ہیں ، اسی لیے فقہاء کرام نے مجنون اور طوطے کی تلاوت سے سجدہ تلاوت کوواجب نہیں قرار دیا ہے اور علت یہ بتائی ہے کہ ان میں خود سجدہ کی اہلیت وصلاحیت نہیں ہے ، لہٰذا یہ تلاوت ، تلاوتِ غیر صحیحہ ہے۔
اسی طرح اگر کسی نے گنبد یا کنویں کی بازگشت ( گونج) سے آیت سجدہ سنی تو سجدہ تلاوت واجب نہیں ہو گا، اس لیے کہ یہ تلاوت، تلاوت صحیحہ نہیں اور یہ آواز قاری کی آواز کے علاوہ ، الگ چیز ہے ۔
مذکورہ تفصیل کے بعد وجہ فرق یہ ہے کہ ٹیپ ریکارڈ کی تلاوت اور موبائل اور ریڈیو کی تلاوت جب براہ راست نہ ہو تلاوت غیر صحیحہ ہے اس لیے کہ ٹیپ ریکارڈ، موبائل اور ریڈیو میں خود سجدہ کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے تو ان سے آیتِ سجدہ سننے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہو گا موبائل اور ریڈیو سے اگر براہ راست تلاوت ہو رہی ہو، تو اس سے سجدہ تلاوت واجب ہو گا۔ اس لیے کہ موبائل اور ریڈیو لاؤڈ اسپیکر کی طرح تلاوت کرنے والے کی اصل آواز کو دور تک پہنچاتے ہیں لاؤڈاسپیکر قاری کی اصل آواز میں قوت پیدا کرتا ہے اور موبائل اور ریڈیو آلات کی قوت سے اصل آواز کو دوسری جانب پہنچا دیتے ہیں ، جب یہ اصل آواز ہے اور اس کا قاری سجدہ کا اہل ہے تو اس سے سننے والے پر بھی سجدہٴ تلاوت واجب ہو گا۔
اور اسی طرح تلاوت اگر ریڈیو یا موبائل پر براہ راست ہے تو سننے والے کو سماع تلاوت کا ثواب ملے گا اور اگر ٹیپ ریکارڈ وغیرہ پر ہے او رمجلس میں قرآن کی بے ادبی نہیں تو یہ بھی ثواب ہے البتہ سماع تلاوت جیسا نہیں۔
ٹول پلازہ ٹھیکے پر دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان کرام مندرج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ٹول پلازہ حکومت کسی ٹھیکیدار کو ٹھیکہ پر دے دیتی ہے یعنی حکومت ان سے یکمشت پیسے لیتی ہے اور ٹھیکیدار گاڑیوں سے ٹیکس لیتا ہے پھر کبھی یہ ہوتا ہیکہ ٹھیکیدار کو نفع ہوتا ہے ، یعنی جتنے پیسے دیے ہیں اس سے زیادہ پیسے ان کو ملتے ہیں اور کبھی نقصان ہو جاتا ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے؟ مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب… واضح رہے کہ لوگوں کو کسی قسم کی منفعت فراہم کیے بغیر محض ٹیکس کی وصولی کے لیے ٹول پلازہ بنانا اور ٹیکس وصول کرنا جائز نہیں اور ایسی صورت میں ان ٹول پلازہ کا ٹھیکہ خریدنا اور حکومت کے لیے فروخت کرنا بھی جائز نہیں، کیوں کہ ایسے ٹھیکے میں روپیہ کی بیع روپیہ کے بدلے میں کمی وزیادتی کے ساتھ لازم آتی ہے ، لہٰذا یہ سودی معاملہ ہے ، اس لیے اس طرح ٹھیکہ پر دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں اور اس سے ٹھیکیدار کو جو نفع ہو گا وہ بھی ناجائز ہے۔
البتہ دوسری صورت میں کہ حکومت عوام کو کوئی منفعت فراہم کرکے اس کی اجرت وصول کرے، تو چوں کہ وہ جائز ہے اس لیے اس کا ٹھیکہ دینا بھی جائز ہے ، جس کی شرعی توجیہ یہ ہے کہ حکومت نے اس پل یا سڑک کی منفعت ٹھیکے دار کو دے دی، پھر ٹھیکیدار اس منفعت سے فائدہ اٹھانے والوں سے فیس وصول کرتا ہے تو یہ جائز ہے اور اس میں قباحت نہیں۔

Flag Counter