Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

3 - 14
***
ایمان کی تجدید، دعوت الی الله کے ذریعے
حضرت مولانا محمد سعد زید مجدھم نے امسال رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر جو فکر انگیز اور درد آمیز وعظ فرمایا، قارئین الفاروق کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اس کا الله کے سامنے رونا اور گڑگڑانا حرام کمائیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے، اس کو اس کے حالات رلارہے ہیں، لیکن اس کی حرام کمائی اس کی دعاؤں کو الله کی طرف سے مردود کروا رہی ہوگی۔ علما نے لکھا ہے کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز کے لیے جسم، کپڑے اور جائے نماز پاک ہوں تو نماز ہو جائے گی، حالاں کہ جسم میں دوڑنے والا خون بھی حرام غذا سے بالکل پاک ہو، یہ بھی نماز کے لیے جسم ، کپڑوں اور جائے نماز کی طرح سے ظاہری پاکی میں شامل ہے، اس کے بعد باطنی تقوی کا مرحلہ آتا ہے، جس پر عمل کی قبولیت کا مدارہے، پانی بہالیا اور سمجھ لیا کہ میں پاک ہو گیا، نہیں، بلکہ جسم میں دوڑنے والا خون بھی دیکھا جائے گا کہ پاک ہے یا نہیں؟
حضرت عمیر بن سعد رضی الله عنہ حمص کے گورنر تھے، وہ حمص سے مدینہ منورہ پیدل تشریف لائے، بکھرے بال اور نہایت غبار آلود تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے دیکھ کر پہچان تو لیا مگر پوچھا کہ یہ کیا حال کیا ہوا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرا خون لوگوں کے مال سے پاک ہے ،میں نے لوگوں سے سواری کا سوال نہیں کیا اور انہوں نے مجھے سواری دی نہیں ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے تعجب سے فرمایا کہ بہت ہی برے لوگ تھے جنہوں نے تمہیں سواری نہیں دی۔ حضرت عمیر بن سعد نے فرمایا اے امیر المؤمنین! مسلمانوں کی غیبت کر رہے ہیں حالاں کہ الله تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ اس زمانے کے گورنر ایسے ہوتے تھے، سارے دین کا مدار غذا پر ہے ۔ سارے دین کا مدار معاملات پر ہے، اس میں شک نہیں کہ نماز سب سے پہلا حکم ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ نماز سے بھی پہلے طہارت ہے۔
ایک نجاست حکمی ہے اور ایک نجاست مرئی ہے، ایک شخص جنابت کی حالت میں ہو اور وہ بدن سے ظاہری اور مرئی نجاست کو دور کرے تو کیا وہ پاک ہو جائے گا؟ یقینا اس کی نجاست حکمی غسل جنابت کے بغیر زائل نہیں ہو سکتی۔ یہ مثال میں اس لیے دے رہا ہوں کیوں کہ آج ساری ظاہری نجاستیں نظر آرہی ہیں، لیکن حرام کمائی کی لائن کی نجاستیں نظر نہیں آرہی ہیں حالاں کہ جس طرح پیشاب، پاخانہ اور دیگر نجاستیں ہیں بالکل ایسے سود بھی ناپاک ہے ۔ بدن میں دوڑنے والا حرام خون ظاہری بدن کو صابن کے رگڑ نے سے ہر گز پاک نہیں ہو سکتا۔ یہ ناپاک خون عبادات کو کھوکھلا اور دعاؤں کو مردود کیے ہوئے ہے۔ یہ ناپاک خون باہر کی رگڑائی سے صاف نہیں ہو گا او رایک بات خوب سمجھ لو کہ اس کو صاف کرنے کے لیے چاہے کتنے ہی نیک اعمال کر لیے جائیں اس سے بھی یہ پاک نہیں ہو گا، کیوں کہ اس شخص کے پیروں کے ناخنوں سے لے کر دماغ کی باریک رگوں تک جسم میں حرام خون دوڑ رہا ہے تو اس سے کون سے حرام سے بچنے کی اور کون سے نیک اعمال میں الله تعالیٰ کے دھیان کی امید کی جاسکتی ہے؟! اس لیے سب سے زیادہ اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ کما ئی اور معاملات کو الله تعالیٰ کے حکم کے مطابق بناؤ ۔ الله کی قسم! جس طرح مومن کے ذمے نماز فرض ہے اسی طرح اس کے ذمے حلال کمانا فرض ہے ۔ ہم صرف کمانے کو فرض سمجھتے ہیں،حالاں کہ صرف کمانا فرض نہیں بلکہ حلال کمانا فرض ہے ،اس کے بغیر کوئی عبادت قائم نہیں ہو سکتی۔ زکوٰة سے وہ مال پاک ہوتا ہے جو حلال طریقے سے کمایا گیا ہو، حرام طریقے سے کمایا ہوا مال زکوٰة سے پاک نہیں ہو سکتا۔
عبادات قائم ہوتی ہیں معاملات سے اور معاشرت بھی معاملات کی درستی سے ہی درست ہوگی۔ اس لیے کہ حکم کے خلاف بڑھتے ہوئے اعضا میں حرام خون کیحرکت ہے ،جوان اعضا کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ اب لوگ عبادات قائم کرنے کے باوجود معاملات کی درستگی سے غافل ہیں، حالاں کہ قیامت میں عبادتوں کے ڈھیر، حقوق والے ایسے لے اڑیں گے جیسے دنیا میں اس نے یہ عبادات دوسروں کے واسطے ہی کی تھیں ،وہاں کی کرنسی نیکیاں ہی ہیں، عبادت گزار پہاڑوں جیسی عبادت لے کر پہنچیں گے لیکن حقوق والے سب لے جائیں گے، اس کے باوجود حقوق باقی ہوں گے تو ان حقوق والوں کے گناہ ان عبادت گزاروں پر ڈالے جائیں گے اور انہیں دوسروں کے حقوق تلف کرنے کی پاداش میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا،حق مارنے والے عابد اپنی نیکیوں سے قیامت میں بالکل ہی خالی ہاتھ ہو جاویں گے۔ اس لیے ہمیں نماز پر اس ساری طہارت کے ساتھ آنا پڑے گا۔
کفر اور اسلام کے درمیان نماز کے ذریعے سے فرق کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہر برا کام کرسکتا ہے، لیکن نماز نہیں چھوڑ سکتا اور کافر ہر نیکی کر سکتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھ سکتا، ہمیں اپنی نمازوں کے ظاہر وباطن پر مشق کرنی ہو گی، اس کا قیام ،رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ اور قعدہ سب کا سب مشق چاہتا ہے ۔ نما ز پر سب سے پہلی مشق یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادات کی طرف بلانا اسباب کے مقابلے میں ہے ، اسباب کی رعایت میں نہیں ہے ۔ مسلمان تین قسم کے ہیں، ایک وہ قسم جو بالکل اعمال سے اعراض کرنے والے ہیں۔ دوسری قسم مسلمانوں کی وہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اعمال او راسباب کو ساتھ ساتھ لے کر چلو۔ یہ لوگ اعمال کو بگاڑنے اور خراب کرنے والے ہیں ۔ یہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں، لیکن نماز میں جلدی کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے مادی نقشے تقاضا کرتے ہیں کہ نماز پڑھ کر جلدی دکان پر آجاؤ۔ اس کی نماز میں اطمینان اور سکون نہیں ہو گا، کیوں کہ اس نے یہ طے کیا ہے اسباب اور اعمال دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، ایمان تقسیم ہونے کی چیز نہیں ہے کہ ہمارا یقین عمل پربھی ہو اور سبب پر بھی ہو ۔خوب سمجھ لو کہ اسباب پر کوئی وعدہ نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ اسباب کو چھوڑ دو بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ دو کام کر لو ایک تو یہ کہ اعمال کو اسباب پر فوقیت دے دو۔ دوسرے یہ کہ اسباب کی وجہ سے اعمال میں بگاڑ پیدا نہیں کرو ۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! میں تجارت کے لیے بحرین جاؤں؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ” پہلے دو رکعت نماز پڑھ لو۔“ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اعمال سے کامیابی کے یقین کی تربیت دی تھی ۔ میرے دوستو! اپنی نمازوں میں کمال پیدا کرو، اس لیے کہ اگر نماز قائم نہیں ہوئی تو دین بھی کبھی قائم نہیں ہوگا۔ ہمارے دین کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب نماز کا بگڑنا ہے اور نماز کے بگڑنے کا سبب مادّی نقشوں کا یقین ہے ۔ چناں چہ مسلمانوں کی یہ دوسری قسم اعمال کو بگاڑنے والی ہے اور اعمال کو بگاڑنا بہت خطرناک بات ہے۔ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے دمشق کی مسجد میں ایک شخص کو نماز میں جلدی کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا۔” تم کب سے اس طرح نماز پڑھتے ہو؟ “ اس نے کہا : ” میں چالیس سال سے ایسی نماز پڑھتا ہوں۔“ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے ارشاد فرمایا”اگر تم اسی طرح (ناقص) نماز پڑھتے ہوئے مر گئے تو قیامت میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے دین پر نہیں اٹھائے جاؤ گے۔“
میں کیا عرض کروں، ہمارے پرانے پرانے ساتھی کہتے ہیں، ”جلدی سے نماز پڑھ لو، مشورہ کرنا ہے ، گشت کے لیے جانا ہے ۔“ ہمارے درمیان سے تربیت کا علم نکل گیا، اس لیے ہمیں جہل نے غافل کر دیا ہے۔ حالاں کہ دعوت کی محنت تو اعمال میں تقویت او رکمال پیدا کرنے کے لیے تھی اور یہ عمل کو بگاڑ کر دعوت کے لیے جارہا ہے ۔ دعوت کی محنت کے بڑا ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ کام الله کے تمام اوامر میں کمال پیدا کرنے کے لیے ہے، اگر یہ شخص اس کام کے لیے عمل کو بگاڑے تو پھر یہ وہ کام نہیں ہو گا جس کا مقصد الله تعالیٰ کا قرب اور اس کے حکموں کے پورا کرنے میں کمال پیدا کرنا ہے ۔
نماز میں دوسری مشق الله کے دھیان کو پیدا کرنے کی ہے۔ صفت احسان ہر عمل میں مطلوب ہے۔ ارشاد نبوی ہے ”ان تعبد الله کأنک تراہ… الخ“ یعنی” تم الله کی عبادت اس طرح کرو گویا تم الله کود یکھ رہے ہو۔“ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دھیان صرف نماز میں مطلوب ہے، بلکہ جتنے بھی الله کے اوامر ہیں ان سب میں الله کا دھیان مقصود ہے، خواہ وہ تجارت سے متعلق ہوں ، حکومت سے متعلق ہوں، زراعت سے متعلق، معاشرے ومعاملات سے متعلق اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام احکام میں الله کے دھیان کو سامنے رکھنا مطلوب ہے، گویا الله کو دیکھتے ہوئے عبادات انجام دو اور عبادات صرف نماز کو نہیں کہتے۔ امام غزالی رحمہ الله نے فرمایا:” دس چیزیں عبادت ہیں: نماز، روزہ، حج،زکوٰة،ذکر، تلاوت، دعوت کی محنت، پڑوسیوں کے حقوق، تجارت، سنتوں کا اہتمام۔
چناں چہ ان تمام چیزوں میں صفت احسان مطلوب ہے، عبادت کہتے ہیں الله کی اطاعت کو۔ جتنے الله کے اوامر ہیں سب کے سب عبادت ہیں اور عبادت صرف الله کا حق ہے ۔ الله کے غیر کی عبادت نہیں ہو سکتی ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارا میلان جتنا جتنا غیروں کی چیزوں اور ان کے طریقوں کی طرف جھکا ہو ا ہے الله کی قسم! یہ الله کے غیر کی عبادت اور اس کو رب نہ ماننے کے مترادف اور اس کے برابر ہے یہ بات دلوں کو جھنجھوڑنے والی ہے۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں، تاکہ ہمارا احساس جاگے کہ ہم نے چند عبادات کو دین کا نام دے کر باقی تمام احکام کو بالکل لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا ہے، ہم سارے دین میں سے صرف اتنا دین اختیار کرتے ہیں جتنا ہماری دنیا کے ساتھ میل کھا سکے اور اس دین کی وجہ سے ہماری دنیا کا کوئی نقصان نہ ہو۔
عبادت، اطاعت اور ربوبیت صرف الله ہی کا حق ہے، جس طرح الله کا غیر رب نہیں ہو سکتا اور اس کی عبادت نہیں ہو سکتی، بالکل اسی طرح الله کے غیر کی اطاعت بھی نہیں ہو سکتی، اس کو بہت دھیان سے سمجھنا ہو گا، مسلمان الله کے غیر کی عبادت نہیں کرے، اس کے سامنے نہیں جھکے ، عبادت کا تصور صرف پیشانی رکھ دینے کا نام ہی نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کھانے پینے ، لباس، شکل وصورت، شادی بیاہ اور معاملات ومعاشرت میں ان کا میلان کن طریقوں کی طرف ہے؟ صرف روزہ، زکوٰة اور حج ہی نہیں بلکہ ہر مومن کو اپنے آپ کو پورے دین پر لانا ہو گا۔ امام غزالی رحمہ الله نے ”سنتوں کے اہتمام“ کو عبادت میں شمار کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نماز سے لے کر سنتِ عادت تک سب کا سب عبادت میں داخل ہے، اس ساری بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک قصے کی طرف توجہ فرمائیں۔
حضرت عدی بن حاتم رضی الله عنہ جب نصرانیت سے اسلام میں داخل ہو گئے تو انہوں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ” ہم تو آپ پر ایمان لانے سے پہلے بھی الله ہی کو رب مانتے تھے پھر الله رب العزت نے قرآن کریم میں یہ کیوں فرمایا﴿اتخذوا أحبارھم ورھبانھم اربابا من دون الله﴾․ یعنی ان لوگوں نے اپنے علما اور راہبوں کو الله کے سوا اپنا رب بنایا ہوا تھا؟“
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اے عدی! تمہارے علما وراہب الله کے حلال کو حرام اور الله کے حرام کردہ امور کو حلال کیا کرتے تھے تو تم ان کی پیروی اور اتباع نہیں کیا کرتے تھے؟“
عدی بن حاتم رضی الله عنہ نے جواب میں عرض کیا: اے الله کے رسول ! ایسا ہی ہوتا تھا ہم اپنے علما ومشائخ کی اتباع میں الله تعالیٰ کے حلال اورحرام کردہ امور میں تمیز نہیں کیا کرتے تھے۔“
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” تب تو تم نے اُن کو اپنا معبود بنالیا تھا۔“
ان حقائق پر غور کرنا چاہیے ورنہ جو جتنے دین پر چل رہے ہیں وہ سمجھیں گے کہ مجھ سے متعلق تو اتنا ہی دین ہے۔ دین حالات کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ حکم کے لحاظ سے ہے۔
اپنی نمازوں میں ہر رکن میں کم از کم تین مرتبہ الله کا دھیان لانے اور اعمال سے الله کے وعدوں کے پورا ہونے کی مشق کرو۔ ہمارے ہاں مشق کے معنی کچھ اور سمجھے جاتے ہیں،حالاں کہ مشق تو عمل سے ہوتی ہے، باتوں سے مشق نہیں ہوتی ۔ فوج اپنی مشق میں کیسی کیسی دشوار گھاٹیوں سے گزرتی ہے، اسی طرح ہم اپنے اعمال میں اس قدر جان ماریں کہ ہمیں اعمال سے الله کے وعدوں کے پورا ہونے کا یقین ہو جائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ الله فرماتا ہے: ”بندہ کہتا ہے کہ میں نے بہت دعا کی ہے مگر دعا قبول نہیں ہوئی۔“ الله رب العزت دعا پر حاجات کے پورا کرنے کو اس لیے مؤخر فرماتے ہیں، کیوں کہ دعا پر بندے کی استقامت کو جانچنا چاہتے ہیں، ہم اسباب سے مایوس ہو کر اعمال کی طرف آتے ہیں، جب مریض سے ڈاکٹر ہاتھ اٹھا لیں تو ہم کہتے ہیں کہ نماز پڑھو، صدقہ کرو اور الله سے دعا کرو حالاں کہ جن اعمال کی طرف الله تعالیٰ نے اسباب سے پہلے بلایا تھا ہم اُن کی طرف اسباب سے مایوس ہونے کے بعد آتے ہیں۔ آج سے ہم یہ طے کر لیں کہ ہم اپنی تمام حاجات اور اسباب کو مؤخر کریں گے اور اعمال کو سب پر مقدم کریں گے، اس پرہم استقامت اختیار کریں گے تو پھر الله تعالیٰ ہمیں دکھائیں گے کہ اعمال پر الله کے کیا کیا وعدے ہیں۔
میرے دوستو! اپنی عبادات اور معاملات کو علم کے مطابق بناؤ، کیوں کہ اعمال میں جو درجہ اخلاص کا ہے وہی درجہ علم کا بھی ہے، جس طرح اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے اعمال مردود ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح علم کے بغیر بھی اعمال مردود ہو جاتے ہیں ۔ خدا کی قسم ! جس طرح نماز فرض ہے اسی طرح علم فرض ہے ۔ علم اور نماز کی فرضیت میں خدا کی قسم کوئی فرق نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ علم تو علما کی لائن کی چیز ہے، ہم تو دنیا دار لوگ ہیں ، مولانا یوسف رحمہ الله فرماتے تھے کہ ” دنیادار تو کافر کو کہتے ہیں ، مسلمان دنیادار نہیں ہوتا۔“ یاد رکھو کہ ہمیں دعوت الی الله کے ذریعے علم کا بھی اخلاص چاہیے۔ علم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک زبان کا علم، دوسرا دل کا علم، زبان کا علم وبال بنے گا اور دل کا علم نفع دینے والا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔
”العلم علمان، علم فی القلب، فذاک العلم النافع، وعلم علی اللسان، فذاک حجة الله علی ابن آدم“․ ( سنن دارمی المقدمة، باب التوبیح لمن یطلب العلم لغیر الله:114/1، رقم الحدیث:365,364)
یعنی علم دو قسم کا ہے ایک علم نافع اور دوسرا زبانی علم، زبان کا علم تو آدمی کے لیے مصیبت بنے گا، کیوں کہ قیامت میں آدمی کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک الله کی جانب سے اس سوال کا جواب نہ دے دے کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا۔ اس لیے میرے محترم دوستو! علم سیکھو اور علما سے محبت کرو، علما کی زیارت کو عبادت یقین کرو بڑی فکر کی بات ہے کہ اس کام کو کرتے ہوئے علما سے محبت اور ان سے حسنِ تعلق میں کمی آنا بڑے خسارے کی چیز ہے۔ علما سے محبت کرنا علم سے محبت کرنا ہے اور علم سے محبت کرنا قرآن کریم سے محبت کرنا ہے، جو آدمی علما سے محبت نہ کرے اس کے دل میں قرآن کریم کی عظمت ہر گز نہیں ہے ۔ مولانا یوسف رحمہ الله فرماتے تھے : ” علما کی زیارت کو یقینی عبادت سمجھو“ الله کا شکر ادا کرو کہ الله نے تمہیں علما اور مدارس دینیہ کی کثرت والا ملک عطاکیا ہے، اس محنت کے ذریعے جہالت کا احساس اور علم کی طلب پیدا ہوتی ہے تو دنیا بھر کے لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کہاں سے علم سیکھیں؟ ان ممالک میں علما اور مدارس دینیہ ناپید ہیں ۔ لعنت ان لوگوں پر جنہوں نے ان کے علم سیکھنے کی راہ میں کڑی شرائط اور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ تمہارے ملک میں علما او رمدارس بہت کثرت سے ہیں، اس پر الله کا شکرا دا کرو۔
اگر الله والے علم سے کام یابی کا یقین نہیں تو یہی چیز ہمیں مادی چیزوں کے سیکھنے اور مادی فنون کی طرف لے جائے گی، اس علم الہٰی سے یوں غافل ہوں گے کہ ہماری معاش کا مسئلہ ہے ، ہمارا مادی مسئلہ ہے، ہم علم کیسے حاصل کریں؟ حالاں کہ جو چیز فرض نہیں اسے تو حاصل کر لیا اور جس علم کے بغیر آخرت میں نجات نہیں اس علم کو حاصل نہ کیا۔ یاد رکھو! نماز کی طرح ہر مومن کے ذمے علم کا سیکھنا فرض عین ہے، محدث بننا، فقیہ بننا اور مفتی بننا فرض عین نہیں ہے ، فرض کفایہ ہے۔ امت اس علم سے اس لیے دور ہو گئی کہ لوگ یہ سمجھے کہ ہمیں بھی آٹھ سال پڑھ کر محدث بننا ہو گا۔ حضرت مولانا یوسف صاحب رحمہ الله فرماتے تھے: ”اس بات کی تحقیق کرنا کہ میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے اس کو علم میں لگنا کہتے ہیں اگر آپ روزانہ کچھ وقت علما کے پاس گزار دو اور ان سے پوچھتے رہو کہ میں شادی کیسے کروں ؟ ، تجارت کیسے کرو ؟ میں فلاں شعبے میں ملازم ہوں آیا وہ حلال ہے یا حرام ہے ؟ چناں چہ وہ شخص جو اپنے دین میں علما سے پوچھ پوچھ کر چل رہا ہو وہ بھی علم کے فضائل حاصل کرنے والا شمار ہو گا۔“
اس زمانے میں ایک بہت بڑی جہالت کی بات یہ ہو گئی ہے کہ ہر چیز کو علم کہتے ہیں سائنس کا علم ، ڈاکٹری کا علم، انجینئرنگ کا علم، سب کو علم کہتے ہیں۔ خداکی قسم! علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے ۔ میرے پاس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طالب علم نظام الدین میں آئے، کہنے لگے ہم سب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طالب علم ہیں۔ میں نے کہا ہر گز نہیں ، آئندہ نہ کہنا، بلکہ یوں کہو کہ ہم طالب فن ہیں، اس لیے کہ الله کی تحقیق میں لگنا علم ہے اورمخلوق کی تحقیق میں لگنا فن کہلاتا ہے، وہ کہنے لگے کہ ہم تو اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم علم میں لگے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا بالکل نہیں، اس لیے کہ حدیث میں آتا ہے کہ علم کی طلب کے لیے راستہ طے کرنے والے کے لیے الله تعالیٰ جنت کا راستہ آسان فرماتا ہے۔ پھر تو ہر یہودی اور کافر جو سائنس کے فنون میں مشغول ان کے لیے بھی جنت کا راستہ آسان ہونا چاہیے، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ہاں! تم فن حاصل کر رہے ہو، اس کا تعلق دنیا کی زندگی کی ضرورت سے ہے، ہم اس سے منع نہیں کرتے، لیکن اس کا تعلق صرف دنیاوی زندگی سے ہے، مرنے کے بعد آخرت کا پہلا سوال ہو گا۔ ”من ربک؟“ تمہارا رب کون ہے ؟ اس لیے سارا کا سارا علم قبر کے تین سوالوں میں محدود ہے، رب کی تحقیق کرنا علم ہے، دوسرا سوال دین کے بارے میں ہو گا۔ اپنی شریعت کی تحقیق کرنا علم ہے۔ تیسرا سوال جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے متعلق ہو گا۔ آپ علیہ السلام کو قبر میں وہی پہچان سکے گا جو دنیا میں آپ کی شریعت اور سنتوں کا پابندبن کر رہا ہو گا۔
اس لیے خوب سمجھ لو کہ ہر چیز کے سیکھنے کو علم کہنا یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ آج ساری دنیا کے یہود ونصاریٰ نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ سائنس وغیرہ کے علوم سیکھو ،یہ بھی علم ہے۔ آج مسلمان علم الہٰی سے اس لیے دور ہو گیا کیوں کہ اس نے ہر چیز کے سیکھنے کو علم قرار دے دیا، حالاں کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے۔ کتنی غیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ایک مسلمان انجینئر علما پر فخر کرے کہ تمہارے پاس حدیث کا علم ہے، دیکھو! میرے پاس بھی انجینئرنگ کا علم ہے۔ دیکھو! میرے دو ستو خوب سمجھ لو، انبیا علیہم السلام جب الله کی طرف سے اپنی قوموں کے پاس وحی کا علم لے کر آتے تھے تو ان کی قوموں میں وہ لوگ جو اُن پر ایمان نہیں لاتے تھے وہ اپنے دنیاوی فنون کے مقابلے میں انبیا کے علوم کا مذاق اڑاتے تھے، الله نے اُن سب لوگوں کو ہلاک کیا، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فلما جاء تھم رسلھم بالبینات فرحوا بما عندھم من العلم وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزء ون﴾․ (سورہ مومن، آیت:83 ،پارہ24)
یعنی” الله نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جنہوں نے انبیا کے علوم کے مقابلے میں اپنے فنون پر فخر کیا۔“
خوب سمجھ لو کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے، فن تو موت پر ختم ہو جائے گا، قبر میں جاتے ہی پہلا سوال علم کے بارے میں ہو گا۔ مولانا یوسف رحمہ الله فرماتے تھے: ” قبر میں زبان یقین کے مطابق بولے گی، معلومات کے مطابق نہیں بولے گی۔“
اس لیے میرے دوستو! علما سے علم حاصل کرو ۔مجھے حیرت ہے کہ الله والے علم سے پر ورش کا یقین نہیں اور دنیا والوں کے فنون سے پرورش کا یقین ہے۔ مولانا یوسف رحمہ الله فرماتے تھے:” سرکاری اسکول کی چھت گرے گی تو کون بنوائے گا؟ کہا کہ حکومت ہی بنوائے گی، ہائے افسوس کہ الله والے علم سے پلنے کا یقین نہیں رہا۔“
پھر علم بھی دو قسم کا ہے، ایک فضائل کا علم اور دوسرا مسائل کا علم، فضائل کا علم الله تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کا نام ہے۔ اگر فضائل کے علم کے ذریعے اعمال پر الله کے وعدوں کے پورا ہونے کا یقین نہیں ہو گا تو ہمارے اعمال مسائل والے علم کے مطابق ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ عمل کو مسائل کے علم کی طرف یقین کی طاقت لائے گی، جس کو عمل پر وعدے کا یقین نہیں ہو گا وہ مسائل جاننے کے باوجود عمل کو اس کے مطابق نہیں بنائے گا، جس کو وعدوں کا یقین ہو گا وہی مسائل کی تحقیق کرکے عمل اُس کے مطابق کرے گا، اس لیے میرے دوستو! علما سے محبت کرو او رایک بہت اہم بات بھی خوب سمجھ لو کہ اپنے کام کو ”مقابل“ بن کر نہیں کرو، بلکہ ” معاون“ بن کر کرو، اس لیے کہ دین کے کسی شعبے کا انکار، اس کا استخفاف ( ہلکا جاننا) اور اس کی اہمیت وافادیت کی نفی یہ سب سے زیادہ نقصان دہ اور اس محنت کو بالکل ایک جانب کر دینے والی چیز ہے۔ مصاحب بن کر کام کرو ، ساتھی بن کر کام کرو، او رامت بن کر کام کرو یہ مت کہو کہ ہم تبلیغی جماعت کے آدمی ہیں، تبلیغی جماعت کوئی جماعت نہیں ہے۔ مولانا الیاس رحمہ الله فرماتے تھے :” میں نے اس کام کا کوئی نام نہیں رکھا۔ جماعت تو خود تفریق کا نام ہے، ہماری جماعت، تمہاری جماعت، تفریق ہو گئی، ہم اس کام کو جماعت بن کر نہیں، بلکہ امتی بن کر کر رہے ہیں۔“
امت کسے کہتے ہیں ؟ امت اس کو کہتے ہیں جو لوگوں کو دین سکھلائے، حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے امت کا یہی ترجمہ کیا ہے:﴿الذی یعلم الناس الخیر﴾ اس لیے علما سے محبت کرو اور ان کی زیارت کو یقینی عبادت تصور کرو، اپنی اولاد کو الله والا علم سکھلاؤ، قرآن وحدیث کا علم سکھاؤ اور علم سے پلنے کا یقین رکھو، حدیث میں آتا ہے ” جو قرآن پڑھ کر بھی غنی نہ ہو وہ ہم سے نہیں ہے “۔ ”من لم یتغن بالقرآن فلیس منا“؟ زندگی میں پورا دین لانا ہے او رپورا دین زندگی میں یقین کے راستے سے آئے گا۔ (جاری)

Flag Counter