Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

11 - 14
***
ہم زندگی کیسے گذاریں؟
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
الله تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں اسلام عطا فرمایا
الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ الله تعالیٰ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، مسلمان گھروں میں پیدا کیا اور ایمان نصیب فرمایااور شریف گھرانوں میں ہم نے آنکھیں کھولیں اور پھر الله تعالیٰ کا اور زیادہ فضل ہے کہ دین دار گھرانوں میں ہماری پرورش ہوئی اور پھر یہ احسان عظیم فرمایا کہ مردوں سے الله تعالیٰ نے تبلیغی کام شروع کرایا اور اس کی برکت گھروں تک پہنچی او راب تو الله کے فضل وکرم سے گھروں میں ہماری مائیں اور بہنیں تبلیغی کام کرنے لگی ہیں ۔ اس کی برکت سے ہم اچھا برا سمجھنے لگے، حرام وحلال، نیک وبد، جائز وناجائز، الله کس چیز سے راضی یا ناراض ہوتا ہے ، اس کی کچھ سوجھ بوجھ ہونے لگی اور اس کی پوچھ گچھ بھی شروع ہوئی کہ زندگی کی کون سی چیزیں الله ورسول صلی الله علیہ وسلم کو پسند ہیں اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو الله کو ناپسند ہیں، معاشرت کیسی ہونی چاہیے؟ گھروں میں رہنا سہنا کیسا ہونا چاہیے ؟ لباس اور کپڑے کس طرح کے ہونے چاہئیں کہ شریعت کے مطابق ہوں اور کون سے شریعت کے خلاف ہیں ؟ ان باتوں کا اب گھروں میں تذکرہ ہونے لگا ہے۔
مغربی تہذیب کا اصول ” کھاؤ پیو،مست رہو“
آپ سب اس ملک میں ہیں، یہاں بہت دنوں سے یا سیکڑوں برس سے خدا کا خوف ، شرم وحیا، لحاظ اور تہذیب نہیں رہی، یہاں صرف ایک ہی کام رہا کھاؤ پیو اور مست رہو، چناں چہ انگریزوں میں کہاوت ہے ” کھاؤ، پیو، مست رہو، مگن رہو“ یہ مگن رہنا ان کے یہاں زندگی کا اصول ہے، جس میں آدمی مگن رہے اور مست ر ہے موت کبھی بھول کر بھی یاد نہ آئے کہ ہمیں مرنا ہے، ہمیں خدا کے سامنے جانا ہے ، یہاں جو مزے اڑائے ہیں ، گلچھرے اڑائے ہیں ان کاجواب دینا ہے، یہاں جو موج اڑائی ہے اس کا پائی پائی کا حساب دینا ہے۔
یہاں زندگی کا اصول یہ ہے کہ آدمی موت کو بھولا رہے ، آخرت کو بھولا رہے، الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑے رہے اور صرف عمدہ سے عمدہ کھانا، اچھی سے اچھی صحت بنانا، جوانی کا مزہ اڑانا اور دولت کے مزے اڑانا یاد رکھے، یہ یہاں کی زندگی کا اصول بن گیا ہے۔
لیکن خدا کے فضل وکرم سے ہمارا جس مذہب سے تعلق ہے اور جس ملک سے تعلق ہے اور جن لوگوں سے تعلق ہے ، ان کی زندگی کا اصول یہ نہیں ہے۔ ان کو تو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا تو کافر کی جنت اور مسلمانوں کا جیل خانہ ہے ، جیل خانہ میں آدمی موج نہیں اڑاتا، جیل خانہ میں آدمی آزاد نہیں ہوتا کہ گھومنے پر آیا تو گھومتا چلا گیا ، جو دل میں بات آئی ، جو من میں چاہت ہوئی بس وہ کر گزرا، کوئی روک ٹوک نہیں ، کوئی پابندی نہیں ، جیل خانہ میں گھومنے پھرنے کی جگہ بھی نپی تلی ۔ کھانے کا حساب بھی نپا تلا، کھانے کو جی کچھ چاہتا ہے مل کچھ رہا ہے، پسند کچھ ہے اورکھِلایا کچھ جارہا ہے، کبھی پہننے کو جی چاہا، کبھی سیر کا جی چاہا، ہوا خوری کا جی چاہا، مگر یہ تو چہار دیواری ہے، یہ تو جیل کی کوٹھری ہے اور کافر کے لیے کیا ہے؟ بس ایک بہت بڑا پارک ، ایک بہت بڑا باغ ، ایک بہت بڑا چمن، چاہے لوٹے پوٹے ، چاہے گھومے، چاہے ننگا پھرے، چاہے چہکے، چاہے بیل کی طرح چلے، کھائے پئے، کوئی بولنے والا نہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں ، تو ” دنیا کافر کی جنت اور مومن کا جیل خانہ ہے ۔“
دنیا میں اس طرح رہو جیسے کہ تم پردیس میں ہو
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” کن فی الدنیا کأنک غریب او عابر سبیل․“
(دنیا میں اس طرح رہو جیسا کہ تم پردیس میں ہویا کہ راستہ چلتے مسافر۔) جو مسافر ہوتا ہے اس کا جی نہیں لگتا، وہ کسی جگہ اپنا گھر نہیں بناتا ، کسی اسٹیشن پرٹھہر نہیں جاتا ، دیکھتا سب کچھ ہے ، گزرتا سب جگہ سے ہے، لیکن اپنے وطن کو نہیں بھولتا اور نہ اپنی منزل کو بھولتا ہے ، کہاں سے چلے تھے اور کہاں جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں سے کام کرکے فوراً آنا ہے ، جیسے چڑیاں دن بھر اڑتی رہتی ہیں، جیسے کبوتر اور میناہوں، جو دن بھر اڑتی رہتی ہیں اور دن بھر جگہ جگہ سے دانہ چگتی جاتی ہیں ، لیکن اپنے آشیانہ، اپنے گھونسلہ کو بھولتی نہیں کہ کہیں اور پہنچ جائیں، شام ہوئی تو سیدھے اپنے گھر واپس آتی ہیں ، کسی شاخ پر وہی تنکوں اور پتیوں کا بنا ہوا گھونسلہ ، دن بھر چاہے کسی امیر کے محل پر جاکر، کسی اونچی سے اونچی کوٹھی پر جاکر اپنا چارہ تلاش کرے، شام ہوئی تو اپنا گھر یاد آیا، بال بچے یاد آئے ، اڑکروہیں پہنچیں، یہی مؤمن کا حال ہے کہ دنیا میں سارا دن گھومتا پھرتا رہے، کام کاج کرے، دکان پر بیٹھے، دس دس گھنٹے ڈیوٹی دے، لیکن اس کو اصلی بستی نہیں بھولتی، اس کو قبر کا کونا نہیں بھولتا ، وہاں سیکڑوں ہزاروں برس سونا ہے ، اس کو آخرت نہیں بھولتی ،بس شام ہوئی ، یعنی جیسے ہی دنیا کا کام ختم ہوا ،اپنے اصلی وطن کی راہ لی۔
مسلمان کو اپنا اصلی وطن نہیں بھولنا چاہیے
مسلمان کی زندگی ایسی ہی ہونی چاہیے، ہمارے لیے ہندوستان، فرانس، جرمنی اور بڑے سے بڑے ملک امریکا، کینیڈا سب برابر ہیں، ہم کہیں بھی ہوں اپنا وطن نہیں بھولنا چاہیے، چاہے وہ محل ہو یا جھونپڑا، لیکن دل ہمارا خدا کے پاس رہنا چاہیے، ہمارا جسم کہیں بھی ہو ، ہم کو اصل جگہ کبھی نہیں بھولنی چاہیے، جہاں ہم کو مدتوں رہنا ہے ، وہ قبر کا کونا ہے، جہاں اندھیرا ہے،قبرستان جو جنگل میں ہے ، شہر کی آبادی سے دور، جہاں نہ شہر کے بچوں کی آواز پہنچ سکتی ہے، نہ بڑوں کی ، وہاں تو آدمی ہے اور اس کا عمل ، جو نمازیں ٹوٹی پھوٹی پڑھیں، جو کلمہ پڑھا، درود شریف پڑھا، وہ وہاں کام دے گا ، اسی سے وہاں دل لگے گا، وہی وہاں کا تکیہ ، وہی وہاں کا بچھونا، وہی وہاں کی روشنی ، وہی وہاں کا چراغ ، وہاں کی گنجائش اور وسعت ، ورنہ وہ کونا جہاں آدمی کروٹ بھی نہ لے سکے، وہاں جو کچھ کام آئے گا ، وہ نور ایمان کام آئے گا ، الله کا نام کام آئے گا، زندگی میں الله کے ساتھ جو تعلق پیدا کیا ہے وہ کام آئے گا، نماز میں اگر یہاں دل لگا ہے تو وہاں بھی دل خوش ہو گا، اگر کلمہ، نماز اور ایمان کی باتوں میں دل نہیں لگا ہے اور طبیعت ہمیشہ اچاٹ رہی اور وہی کپڑوں میں، زیور میں، کھانے پینے میں ، کوٹھی میں ، موٹر میں اگر وہ پھنسا رہا تو وہاں وحشت ہو گی ، وہاں ان میں سے کوئی چیز موجودہ نہ ہو گی ، یہ چیزیں تو کیا ہوں گی ،باپ مدد کرنے کے لیے، ماں بھی دلاسہ دینے کے لیے ، بیٹی بھی خدمت کرنے کے لیے، بیٹے بھی سلوک کرنے کے لیے وہاں موجود نہ ہوں گے ، وہاں وہی ایک نام الله کا، الله کا نام کام آئے گا اور ایمان کا نور کام آئے گا ، نماز روزہ کا نور کام آئے گا، قرآن کی روشنی کام آئے گی اور جو الله کا ذکر کیا بس وہی کام آئے گا۔
حدیث میں ہے کہ ” قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو گی یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔” وہاں جو کام آنے والی چیزیں ہیں ، وہ خود کچھ نہیں ، یہیں کے اچھے عمل باغ بن جائیں گے ، انہی اچھے اعمال سے جنت کی ہوائیں آئیں گی ، حدیث میں آتا ہے کہ قبر کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے، وہاں ان کو پہلے سے جنت کی ہواؤں کے جھونکے آنے لگتے ہیں، خوشبوئیں آنے لگتی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ہمارا ٹھکانا ہے اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مرنے کے وقت اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا اس کو دکھا یاجائے گا کہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے یا جنت اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ اگر کسی کے اچھے عمل ہیں ، ایمان سلامت لے کر گیا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے”نم کنومة العروس“ ”سوجا جیسے دلہن سوتی ہے“۔
قبر کی فکر ہی اصل فکر ہے
اس گھر کی فکر کرنی چاہیے اور جو چیزیں وہاں کام آنے والی ہیں، ان کی فکر کرنی چاہیے ، یہاں کے سامان کا حال یہ ہے کہ بچپن کا سامان جوانی میں کام نہیں آتا، جوانی کا سامان بڑھاپے میں کام نہیں آتا، بچپن میں جو کپڑے تھے جوانی میں پہنے نہیں جاتے او رجوانی میں جو کپڑے ہیں وہ بڑھاپے میں پہننا مناسب نہیں، یہ تو جوانی کے شوق تھے، بڑھاپے کا کپڑا اور ہوتا ہے اور اب تو دو مہینے کے کپڑے اس زمانہ میں کام نہیں آتے، یہاں یورپ پر ایسی مصیبت آئی ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا پر ، یہاں مہینے دو مہینے میں فیشن بدلتے ہیں ، پہلے فیشن کے مطابق جو کپڑے بنالیے، اب جب فیشن بدل گیا تو بالکل پرانے اور دقیانویسی معلوم ہونے لگتے ہیں اور ان کو پہن کر شادیوں میں جانا معیوب سمجھا جاتا ہے ، ایسی بے مروت ، آنکھ چرانے والی او رمنھ موڑنے والی اور جلدی سے جلدی بدل جانے والی تہذیب! اس پرا گر دل لگائے تو اس سے زیادہ بے عقل کون ہو گا؟!
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارہ دیکھا تو کہا کہ یہ تو بڑا چمک دار ہے، کچھ عجب نہیں کہ دنیا کا پیدا کرنے والا ہو ۔ اب جو ستارہ غروب ہوا اور ڈوب گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کچھ نہیں ، اس کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ پھر جاند دیکھا تو کہا سبحان الله ، چاند کا کیا کہنا، کیسی روشنی، ساری دنیا روشن ، ساری دنیا میں چاندنی پھیلی ہوئی ہے ، انہوں نے کہا، شاید یہی خالق ہو۔ پھر وہ غروب ہوا تو کہنے لگے یہ بھی کچھ نہیں ، اس کا بھی کچھ زور نہیں ، اس کا بھی بھروسہ نہیں۔ پھر جب سورج نکلا اور انہوں نے اس کی چمک دیکھی اور دن ہوا تو کہنے لگے واہ واہ، اس سے بڑھ کر تو کوئی روشن نہیں ، ستارہ بھی اس کے سامنے ماند اور چاند بھی اس کے سامنے شرمندہ، بس یہ سورج ہی سورج ہے ، پھر جب سورج بھی ڈوبنے لگا ، تو کہنے لگے ، ” لا أحب الآفلین“ میں ایسے منھ چھپانے والوں اور ایسے بے مروتوں اور ایسے آنکھ بند کرنے والوں سے اپنا دل نہیں لگا سکتا، جس کے ساتھ دل لگایا جائے وہ ” حی قیوم“ ہمیشہ رہنے والی ذات ہو ،ہمیشہ ساتھ دینے والی ذات ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دیا ہوا سبق یاد رکھنا چاہیے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، جو ہمارے آپ کے مورث اور پیغمبر ہیں اور سب سے آخر میں آنے والے پیغمبر کے دادا بھی ہیں ، انہوں نے یہ سبق دیا کہ جو بے مروت ہو ، جو آنکھیں پھیرنے والا ہو ، اس سے دل نہیں لگاناچاہیے ، جوانی بھی ایسی ہی دولت ہے اور طاقت، زندگی یہ سب منھ چھپانے والے، بچھڑ جانے والے اور بے وفا اور بے مروت، طوطا چشم، ان سے دل لگائے تو اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں، اگر کسی نے یہ سمجھا کہ جوانی میں جوانی کے کام کرنے چاہئیں او رکچھ لحاظ نہ کرنا چاہیے، تو جب بڑھاپا آئے گا اور یہ رنگ روپ، یہ شکل وصورت باقی نہیں رہے گی، اس وقت معلوم ہو گا کہ ہم نے اس بے وفا جوانی کی وجہ سے اس رحمان ورحیم خداکی نافرمانی کی ، خدا کی رحمت کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی، وہ ہمیشہ کام آتی ہے، وہ اندھیرے میں، اجالے میں ، امیری میں ، غریبی میں ، جوانی وبڑھاپے میں ، وطن وپردیس میں ہر جگہ اور ہمیشہ ساتھ دینے والی ہے ”الله معکم“ الله تمہارے ساتھ ہے ، الله تعالیٰ فرماتا ہے تم تین ہوتے ہو تو ، چوتھا خدا ہوتا ہے ، چار ہوتے ہو تو پانچواں خدا ہوتا ہے، تھوڑے ہوتے ہو یا بہت ہوتے ہو ، بازار میں ہوتے ہو یا گھر میں ہوتے ہو ہم ساتھ ہوتے ہیں، الله تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، ہر ایک کو دیکھنے والا ہے، ہر ایک کی مدد کرنے والا ہے ۔﴿ واذا سألک عبادی عنی فانی قریب﴾ جب میرے بندے میرے متعلق پوچھتے ہیں کہ خدا کہاں ہے؟ تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے ، تو ایسے خدا ، ایسے مالک ومہربان، ایسے شفیق ورحیم، ایسے کریم ، ناصر ومعین، ایسے مدد کرنے والے ، ایسے رحم کھانے والے ، ایسے سہارا دینے والے خدا کا ساتھ دیا جائے ، یابے وفا جوانی کا، بے وفا حسن وجمال کا ، یا بے وفا ساتھیوں اور بے وفا رفیقوں کا، یا باتیں بنانے والی سہیلیوں اور بہنوں کا ، یا ایسے فیشن کا جو صبح ہے تو شام کو اس کا ٹھکانہ نہیں ، شام ہے تو صبح اس کا ٹھکانا نہیں، اس کا ساتھ دے کر الله کی نافرمانی کرے، اس سے بڑھ کر کون سی حماقت اور بے عقلی ہو سکتی ہے؟ اس خدا کا کیوں ساتھ نہ دیں جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے ، یہاں بھی کام آئے اور قبر میں بھی ؟ اسی کی ہی دست گیری کام آئے گی اور حشر میں وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں، اس خدا سے تعلق پیدا کرنا چاہیے ، اس سے انس پیدا کرنا چاہیے ، اس سے ایسی جان پہچان پیدا کر لینی چاہیے ، اس پر ایسا بھروسہ ہونا چاہیے ، ایسا اس کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے کہ آدمی کو ہر وقت ایک ڈھارس رہے ، ہر وقت حوصلہ رہے، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے ، ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے، ہماری دولت کو کوئی اگر لے لے تو ہمارا ایمان تو کسی نے نہیں لیا ۔ اگر ہماری جوانی ختم ہو گئی ایمان تو ختم نہیں ہوا، خدا کا ساتھ تو نہیں چھوٹا، اگر دولت نے منھ چھپالیا اور بے وفائی کی، اگر شوہر نے بھی بے وفائی کی تو کوئی رنج نہیں، ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے ، اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو سب کچھ ہمارے ساتھ ہے۔
جس نے بادشاہ کو لیا اس کو سب ملا
ایک قصہ ہے کہ ایک بادشاہ نے بہت موج میں آکر رعیت سے کہا کہ آج جو جس چیز پر ہاتھ رکھ دے گا، وہ چیز اس کی ہو جائے گی، بس کیا پوچھنا، بن آئی لوگوں کی ، وہاں جو امرا وزرا، غلام، باندیاں اور خواص موجود تھے، جس کو جو چیز پسند آئی، اس نے اس پر ہاتھ رکھ دیا، کسی نے بادشاہ کے تاج پر ہاتھ رکھا، کسی نے تخت پر ہاتھ رکھا، کسی نے فانوس پر ، غرض کہ جو جس پر ہاتھ رکھتا گیا، وہ چیز اس کی ہوتی گئی ، ایک غلام کھڑا ہوا تھا، اس نے کچھ نہ کہا ، بت بنا کھڑارہا، بادشاہ کی نظر جب اس پر پڑی تو اس نے کہا، کیا تم کو یقین نہیں آیا، دیکھتے نہیں کہ جس نے جس چیز پر ہاتھ رکھ دیا وہ اس کا مالک ہو گیا ،اس نے جواب دیا کیا واقعی ایسی بات ہے ، بادشاہ نے کہا کہ الله کے بندے کیا تو دیکھ نہیں رہا ہے ، کیا قسم کھانے، تحریر لکھنے کی ضرورت ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ تو ہیں بے وقوف ، مجھے الله نے عقل وسمجھ دی ہے ، کسی نے تاج لیا ، کسی نے تخت ، کسی نے موتی لیا تو ہیرا نہیں ملا، کسی نے ہیرا لیا تو موتی نہیں ملا، کسی نے گھوڑا لیا تو پالکی سے محروم رہا ، پالکی لے لی تو گھوڑا نہیں آیا ، یہ کہہ کر اس نے بادشاہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ میں نے تو اس کو لیا ، جس نے بادشاد کو لیا، اس کو تخت بھی ملا، تاج بھی، گھوڑا بھی ملا، طاؤس بھی ، گھر بھی ملا، گھر کا سامان بھی، اس کو عزت بھی ملی اور طاقت بھی۔
یہی ہماری مثال ہونی چاہیے ، آج ایسے افراد ہر جانب ملیں گے جو فیشن پر جان دینے والے ، کپڑوں، موٹروں کے شوقین، جوانی اور دولت پر فدا ہونے والے ہوں گے ، لیکن مسلمان عورتوں کو تو صرف الله کا طالب ہونا چاہیے الله کی محبت حاصل کرنے کی کوششکرنی چاہیے کہ الله کی نظر عنایت اس کی طرف ہو جائے، پھر سب کچھ اس کا ہے۔
بی بی مرغی پال لو
خاندان مجددی کے ایک بزرگ شاہ محمد یعقوب  صاحب مجدد کہانیوں اور قصوں میں بڑی اونچی اونچی باتیں سمجھایا کرتے تھے، انہوں نے ایک قصہ سنایا۔
”بھوپال میں بیگمات کا دور تھا، ایک بیگم بہت پریشان تھیں ، ایک پیر صاحب کے پاس آئیں، کہنے لگیں ، پیر صاحب !میں بہت پریشان ہوں ، میرے شوہر مجھے پوچھتے نہیں ، پہلے تو بہت خیال کرتے تھے ، لیکن اب ان کا دل مجھ سے بھر گیا ہے ، مجھے سخت تکلیف ہے ، اولاد بھی میرا خیال نہیں کرتی، شوہر کی نگاہ کیا پھری ، ساری دنیا کی نگاہیں پھر گئیں ، سر کار میرے لیے دعا کریں ۔ انہوں نے پوری رام کہانی سنی اور کہنے لگے، بی بی! مرغی پال لو، اب وہ بڑی پریشان، کہ پیر صاحب کو کیا ہو گیا ؟ کل تک تو خوب سنتے تھے، اب اونچا سننے لگے ۔ ذرا زور سے پکار کر کہا حضرت صاحب میرے لیے دعا کیجیے میں بہت پریشان ہوں۔ پیر صاحب نے آہستہ سے کہا بی بی! میں کہہ رہا ہوں مرغی پال لو۔ اب وہ پریشان کہ آج پیر صاحب کو کیا ہو گیا ہے ، میں تو ان سے دعا کے لیے کہتی ہوں اور پیر صاحب مرغی پالنے کو کہتے ہیں؟ پھرعرض کیا کہ حضرت میں سمجھی نہیں ، آپ ذرا اچھی طرح سمجھا دیں، تو پیر صاحب نے فرمایا بی بی صاحبہ! ایک قصہ ہے ، قصہ سے بات خوب سمجھ میں آجائے گی ، دو گھر قریب قریب تھے، ایک امیر گھر تھا ، کھاتا پیتا اور ایک ذرا غریب گھر تھا، بیچ میں ایک دیوار تھی، اس دیوار میں ایک کھڑکی تھی ، تو جب اس غریب گھرمیں کوئی مہمان آتا تو غریب گھر والی پڑوس کے گھر منھ ڈال کر کہتی کہ مہمان ناوقت آگئے ہیں ، کچھ انتظام ممکن نہیں ہے ، ایک انڈا دے تو کام چل جائے۔ ایک بار ہوا، دو بار ہوا اور جب بار بار یہ واقعہ پیش آیا تو جل کر کہنے لگی کہ بی بی ہمسائی! ایک مرغی پال لو ، قصہ ختم ہو جائے گا، فرصت ہو جائے گی۔ تو بیگم صاحبہ میں تم سے وہی کہتا ہوں کہ الله کے ساتھ تعلق قائم کر لو، الله سے دعا کرنا، مانگنا سیکھ لو، سب مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔“
سب کاموں کی کنجی الله سے تعلق
وہی میں آپ سب سے کہتا ہوں، الله کو یاد کرنا، الله سے مانگنا، الله کو راضی رکھنا سیکھ لیجیے، سب کام بن جائیں گے، دنیا کی جتنی چیزیں ہیں ، سب بے وفا، بے مروت، طوطا چشم ہیں، جوانی ہے صحت خراب، قصہ ختم۔ صحت ٹھیک تو کاروبار فیل تو سب بے کار، اگر خدا کو محبوب رکھے تو جوانی بھی ہے صحت بھی ہے اور سب کچھ ہے ۔
ساری مشکلوں، مصیبتوں کا علاج ایک الله کا تعلق پیدا کرنا ہے ، وہی سب کچھ کرتا ہے ، الله کی نیک بندیوں کے حالات پڑھو کہ انہوں نے کسی چیز میں دل نہیں لگایا، نہ جوانی میں، صحت میں، نہ طاقت اور حسن وجمال میں،انہوں نے صرف الله کے ساتھ تعلق پیدا کیا ، الله کا نام لینا ، راتوں کو اٹھنا ، توبہ استغفار کرنا، درود شریف پڑھنا، تلاوت قرآن کرنا، اسلامی عقائد پر بچوں کی پرورش کرنا، توحید کے بیج ان کے دل میں بونا، گناہ کی نفرت پیدا کرنا، الله کا نام سکھانا، اسلامی آداب واخلاق کی تعلیم دینا یہ ان کے مشغلے رہے ، نتیجہ یہ کہ گھر کا ماحول اسلامی، دل خوش ، الله راضی تو سب راضی، اگر الله ناراض تو سب ناراض ہیں۔
﴿ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ﴾․ (سورہ احزاب رکوع:4)
(اورجاہلیت قدیم کے مطابق اپنے کو دکھاتی مت پھرو۔)
تمہارا دل گھروں میں لگنا چاہیے ، سینما گھروں میں نہیں ، محفلوں اور بازاروں میں نہیں ، تمہاری جگہ ، تمہاری سلطنت تمہارا گھر ہے ، غریب ہو یا امیر باہر نکلو گی تو تم وہ نہ رہو گی جو گھر میں ہو ، گھر میں تمہارا حکم چلے گا ،اولاد تمہاری خدمت کرے گی، گھر سکون واطمینان کی جگہ ہے۔
الله تعالیٰ نے اپنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے جو پسند کیا وہی تم کو اپنے لیے پسند کرنا چاہیے ، وہی ہمارے لیے نمونہ ہے، اسلام سے پہلے کا زمانہ جو جاہلیت کا زمانہ تھا اس کی طرح بناؤ سنگار نہ کرو ، نماز پڑھو، زکوٰة دو، نماز کے لیے جگہ مقرر کرو، جگہ پاک وصاف ہو کہ وہاں تسبیح پڑھ سکو، دینی کتابوں کامطالعہ کر سکو، اپنے بچوں کو دین کی باتیں سکھا سکو، جو وقت بچے اس میں شوہر کی خدمت کرو۔
حضرت مولانا الیاس صاحب  ،مولانا یوسف اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمة الله علیہم کی ماؤں کے قصے پڑھیے، وہ کیسی عابدہ، زاہدہ تھیں، ان کی راتیں کیسے گزرتی تھیں، دن کیسے گزرتے تھے ، نتیجہ یہ ہوا کہ الله تعالیٰ نے ان کو ایسے فرزند عطا فرمائے، جن کے نور سے سارا عالم منور ہے۔
اب جو اولاد ماں کی گود میں پلتی ہیں، ظاہر ہے کہ وہ کیسی ہوں گی ، جیسی گودویسی اولاد، جب وہ زبان سے الله کا نام نہ لیں گی ، تلاوت نہ کریں گی، تو کیا اثر ہو گا؟ 43

Flag Counter