گزرے، اور ابو سفیان کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے:
’’آج سخت خونریزی کا دن ہے، آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔‘‘
آخری دستہ جو خود حضور ﷺ کا تھا، اس کے علم بردار حضرت زبیر بن العوام (رضی اللہ عنہ) تھے، حضور ﷺ کو دیکھ کر ابو سفیان نے کہا: حضور نے سنا عبادہ کیا کہتے ہوئے گزرے؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا:
’’آج رحمت کا دن ہے، آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔‘‘
پھر وہ وقت بھی آیا جب تمام مجرم حضور ﷺ کے دربار عدالت بلکہ دربار رحمت میں جمع کیے گئے، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم) پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے، اور درندگی اور سنگ دلی کا کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا تھا، ایذا رسانی اور وحشیانہ سزاؤں کی پوری تصویر صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم) کی نظروں کے سامنے تھی، صحابۂ کرام تو بعد کی چیز ہیں ، ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے خود حضور ﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں ، آپ ﷺ کو زخمی کردیا تھا، اور ہاتھ دھو کر آپ ﷺ کی جان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔
آپ ﷺ ان کے ساتھ سب کچھ کرسکتے تھے، اور ایک اشارہ ہی میں ان کا کام تمام ہوسکتا تھا، لیکن آپ ﷺ نے ان کے ساتھ جو برتاؤ