مشاعروں سے بہتر ہو، لیکن ان چیزوں سے ہماری دلچسپی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے سننے کے بعد ہم بہت ’’سبک دوش‘‘ ہوکر گھر واپس جاتے ہیں ، ہمارا دل مطمئن ہوجاتاہے کہ یہ کار خیر کرکے ہم نے بہت سے گناہوں کا کفارہ کردیا ہے، اور آئندہ بھی بہت سے گناہوں کے حقوق حاصل کرلیے ہیں ۔
’’اللہ غفورٌ رحیم ہے‘‘، اور ’’حضور ﷺ شفاعت فرما دیں گے‘‘ کا ایک ایسا تخیل مسلمانوں میں پیدا ہوگیا ہے جو اسلام کے حقیقی تصور سے بہت مختلف اور بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اور حضور ﷺ کی شفاعت کا یقین برحق اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے، لیکن اگر اس سے ہمارے اندر جذبۂ عمل کے بجائے بے عملی، یا خدا نخواستہ بد عملی پیدا ہونے لگے، تو ہمیں محسوس کرنا چاہیے کہ ہم جادۂ شریعت و سنت سے دور ہوتے جارہے ہیں ، اور ہمیں اپنے طرز فکر اور طرز عمل میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے، صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے زیادہ خدا کی رحمت و مغفرت پر یقین رکھنے والااور نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا ان سے زیادہ حقدار پوری دنیا میں اور کون ہوگا، لیکن کیا وہ ہماری طرح اس پر تکیہ کرکے بیٹھ گئے تھے، اور یہ سمجھ بیٹھتے تھے کہ اب کوئی گناہ ان کو نقصان پہنچانے والانہیں ؟۔