***
شاہین بلند آشیاں
محترم آباد شاہ پوری
یہ امام سفیان ثوری کی مجلس علم ودرس ہے۔ سفیان کے گرد وپیش ان کے عقیدت مند او رگلستانِ علم کے خوشہ چین بیٹھے ہیں ۔ ان میں ان کے عام شاگرد بھی ہیں او راپنے وقت کے بڑے بڑے علما اور صلحا بھی۔ خلیفہ ہارون الرشید کا قاصد وارد ہوتا ہے اور سلام وتحیات کے بعد بڑے ادب واحترام کے ساتھ اپنی قبا کے نیچے سے ایک سر بمہر مکتوب نکال کر پیش کرتا ہے او رکہتا ہے : ” یہ امیر المومنین کا مکتوب ہے۔“ ا مام سفیان مکتوب ہاتھ میں لے چکے ہیں ، امیر المومنین کا نام سنتے ہی فوراً پھینک دیتے ہیں اور فرماتے ہیں : پناہ بخدا! میں ایسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا جسے ظالم کے ہاتھ چھو چکے ہیں۔ پھر اپنے ایک شاگرد کو حکم دیتے ہیں کہ پڑھو اس میں کیا لکھا ہے ۔ شاگرد مکتوب پر ثبت شدہ مہر توڑتا ہے، لفافہ چاک کرتا ہے اور مکتوب کھول کر پڑھتا ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم۔ الله کے بندے ابو جعفر امیر المومنین کی جانب سے اپنے دینی بھائی سفیان بن سعید الثوری کی طرف۔
میرے بھائی! آپ کو خبر ہے کہ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو سلک اخوت میں منسلک کر رکھا ہے ۔ مجھے بھی اس اخوت ہی کے واسطے سے آپ کے ساتھ محبت اور لگاؤ ہے۔ اگر خلافت کا طوق میری گردن میں نہ ہوتا تو اپنی محبت اور اخلاص کی بنا پر خود حاضر خدمت ہوتا۔ الله نے مجھے منصب جلیل سے نوازا ہے ۔ کوئی ایسا شخص نہیں جس نے مجھے اس پر مبارک باد نہ دی ہو۔ میں نے خزانوں کے منھ کھول دیے ہیں ، جو بھی آتا ہے بامر اد وشاد کام جاتا ہے۔ یہ عطا، بخشش اور جود وسخا میری آنکھوں کے لیے نور وسرور کا باعث بنی ہوئی ہے ، لیکن آپ نے ابھی تک تشریف لانے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ یہ عریضہ اسی شوق تمنا کے ساتھ خدمت والا میں بھیج رہا ہوں۔ اے ابوعبید! آپ خوب جانتے ہیں کہ مومن کی زیارت او راس سے ملاقات کے فضائل کیا ہیں ؟ لہٰذا خط ملاحظہ فرماتے ہی بہ عجلت تشریف لائیے۔“
امام سفیان خط کا مضمون سن رہے ہیں او ران کے چہرے پر انقباض اور ناگواری کے آثار نموادر ہو رہے ہیں ۔ خط پڑھا جاچکتا ہے تو امام ارشاد فرماتے ہیں :” اسی خط کی پشت پر ظالم کو جواب لکھ دو۔“ حاضرین مجلس عرض کرتے ہیں : ” اے ابوعبید! امیر المومنین کا معاملہ ہے، اگر جواب الگ کاغذ پر دیا جائے تو بہتر ہے ۔“ ارشاد فرماتے ہیں:” اسی خط کی پشت پر جواب لکھو۔ یہ خط اگر کسب حلال سے ہے تو منصور اس کے حیلے سے بہرہ یاب ہو گا، ورنہ اس کے ساتھ جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ میں اپنے ہاں کسی ایسے چیز کی موجودگی گوارا نہیں کرسکتا جسے ظالم کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسی چیز ہمارا دین بھی برباد کرکے رکھ دے۔“ عرض ہوتا ہے جواب میں کیا لکھا جائے؟ فرماتے ہیں لکھو: ”الله کے بندے سفیان کی جانب سے ابو جعفر منصور کی طرف، جو امیدوں اور آرزوؤں کے فریب میں گرفتار ہے ، حلاوت ایمان جس سے سلب ہو چکی ہے اور جو تلاوتِ قرآن کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔ دیکھو! میں تمہیں واشگاف الفاظ میں لکھ رہا ہوں کہ میرے اور تمہارے درمیان جو رشتہٴ محبت تھا وہ منقطع ہو گیا ہے۔ ہمارے دیرینہ تعلقات اب ختم ہو گئے ہیں ۔ تم نے اپنے مکتوب میں خود اعتراف کیا ہے کہ تم مسلمانوں کے بیت المال میں بے جاتصرف کر رہے ہو ۔ تمہارا خط جن لوگوں کے سامنے پڑھا گیا ہے گویا تم نے انہیں اپنے اس جرم کا گواہ بنالیا ہے اور کل جب الله کے دربار میں پیشی ہو گی تو ہم اس کی شہات دیں گے۔
اے منصور! تم مسلمانوں کا مال برباد کر رہے ہو۔ کیاتمہارے اس فعل کو مجاہدین فی سبیل الله ابناء السبیل، اہل علم ، بیوہ عورتیں، یتیم بچے او رتمہاری باقی رعایا پسند کرتی ہے؟
اے منصور! اپنا ہاتھ روکو۔ کل تمہیں الله کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور جواب دہی کرنی ہے۔ یقین جانو، الله تعالیٰ کی ذات بڑی عادل اور حکم ہے ، اس سے ڈرو۔ تم سے ایمان او رزہد سلب کر لیا گیا ہے ۔ تم تلاوت قرآن کی لذت اور صلحا کی ہم نشینی سے محروم کر دیے گئے ہو۔ تم نے ظالموں کا سرخیل بننا پسند کر لیا ہے۔
اے منصور! تم تخت شاہی پر جلوہ گرہو، حریر ودیبا استعمال کرتے ہو، دروازوں پر تم نے پردے آویزاں کر رکھے ہیں، ظالم سپاہ تمہارے حضور میں کھڑی رہتی ہے، وہ لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتی ہے ، مگر کوئی ان ستم رسیدوں کی داد رسی نہیں کرتا۔ تمہارے آدمی لوگوں پر شراب کی حد جاری کرتے ہیں اور خود شراب کے رسیا ہیں ، زانی کو سزا دیتے ہیں اور خود زنا کار ہیں ، چوروں کے ہاتھ کاٹتے ہیں اور خود چور ہیں ، قاتل کو سزائے موت کا حکم دیتے ہیں اور خود قتل وخونریزی میں قاتلوں سے زیادہ بے باک اور نڈر ہیں ۔ خلق خدا ان کی ستم رانیوں سے نالاں ہے ، لیکن اس کی تو تمہیں کوئی فکر نہیں ، الٹا جو لوگ اپنا دامن بچائے ہوئے ہیں ، انہیں بھی اپنی آلودگیوں میں ملوث کرنا چاہتے ہو ۔ مجھے تمہارے عطیات اور جود وکرم کی کچھ احتیاج نہیں اور نہ میں تمہارے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنا چاہتا ہوں۔“
یہ سفیان الثوری کون ہیں ، جنہوں نے منصو رکی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا؟ حالاں کہ یہی منصور تھا جسے سفیان کج کلاہوں کی صف میں شامل ہونے سے پہلے پسند کرتے تھے۔ دنیا نے تو دیکھا ہے جب کوئی شخص بخت کی یاوری سے تخت وتاج کا مالک بن جاتا تو اس کی داد ودہش سے فیض یاب ہونے کی دوڑ لگ جاتی ہے ۔ حکمران کے حلقہٴ تقرب میں شامل ہونے کی خاطر تگ ودو ہونے لگتی ہے ، لیکن یہاں یہ عجیب الٹ معاملہ ہے۔ایک شخص اپنے دیرینہ ساتھی اور ہم نشیں سے اس لیے تعلقات منقطع کر لیتا ہے کہ اب وہ صاحب اقتدار ہو گیا ہے ۔ یہ دیرینہ ساتھی تخت اقتدار پر بیٹھتے ہی خزانوں کے منھ کھول دیتا ہے ۔ایک دنیا جھولیاں بھر بھر کے لے جاتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ سفیان بھی آئیں گے ، اسے منصب عظیم وجلیل پر فائز ہونے پر مبارک باد دیں گے اور شاد کام وبامراد جائیں گے او رجب ان کی آمد سے مایوس ہو جاتا ہے تو خو دانہیں دعوت دیتا ہے، لیکن وہ مرد غنی دعوت کو نہایت حقات سے ٹھکراد یتے ہیں ۔ اسے نہایت تلخ لب ولہجے میں تنبیہ کرتے ہیں کہ جس عظمت پر تم نازاں اور نشہٴ اقتدار میں مست ہو وہ ایک بھاری ذمہ داری ہے ،جس کے لیے تمہیں کل قیامت کے روز سب سے بڑے حاکم ومنصب کی بار گاہِ عدل میں حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے، جس غلط کار نظام کے تم سربراہ بنے ہو اور اس پر پھولے نہیں سماتے اس کی ایک ایک غلط کاری کے تم ذمہ دار ٹھہرائے جاؤ گے او رجن خزانوں منھ کھول کر تم اپنی فیاضی اور جودسخا کا مظاہرہ کرنے چلے ہو وہ درحقیقت مسلمانوں کی امانت ہیں۔ ان کی ایک ایک کوڑی کا تمہیں حساب دینا ہو گا۔
تو ہاں، یہ سفیان الثوری کون ہیں؟ اپنے دورمیں علم حدیث رسول کے امیر المومنین، امام جلیل، عظیم محدث اور فقیہ، علم وعمل کے آفتاب جس سے جہل کی تاریکیاں چھٹ کر رہ گئی ہیں۔ امام مالک کہتے ہیں : پہلے عراق میں روپے پیسے اور کپڑے کی بہتات تھی او رجب سفیان الثوری وہاں گئے تو علم کی بہتات ہو گئی۔ اتنی عظیم وبلند مرتبت شخصیت کہ ان کے ہم عصر ائمہ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ، جنہیں مستقبل میں احمد بن حنبل ایسے عظیم محدث اور امام اپنا استاد سمجھنے پر فخر کریں گے، اگرچہ ان کے لیے زانوئے تلمذتہہ کرنا تو ایک طرف انہیں دیکھنا تک نصیب نہ ہو گا۔
سفیان کا جواب ابو جعفر کو غضب ناک کر دینے کے لیے کافی ہے۔ وہ پیج وتاب کھاتا بھی ہے، مگر سلطنت کی مصلحتیں اس کی آتش غضب کو ٹھنڈا کر دیتی ہیں، بنو عباس کی سلطنت تازہ تازہ قائم ہوئی ہے۔انہیں اپنے اقتدار کے استحکام اور عامة المسلمین کو اپنا ہم نو ابنانے کے لیے علما وصلحا اور ائمہ ومحدثین کے تعاون کی ضرورت ہے، جن کا عوام پر اثر ہے اور جن کی حمایت حاصل ہو جانے کے بعد ان کے ہر فعل کو دینی جواز حاصل ہو سکتا ہے۔
سفیان الثوری کو جو مکتوب لکھا گیا اس کا اصل محرک یہی ہے۔ سفیان الثوری ملت کے ان ممتاز افراد میں سے ہیں جنہیں ابو جعفر او راس کے بعد اس کا بیٹا مہدی اپنے حلقے میں کھینچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، مگر وہ ان سے دور بھاگتے ہیں ، انہیں عطیات اور ہدایا سے نوازتے ہیں اور وہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ، انہیں مناصب جلیلہ کی پیش کش کرتے ہیں اور وہ اسے مسترد کر دیتے ہیں ۔ وقت کی رفتار کے ساتھ ایک طرف منصور کی کوششوں میں اضافہ، دوسری طرف سفیان کا رویہ سخت تر ہوتا جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ حج کے موسم میں مسجد الحرام میں منصور سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے ۔ وہ کندھوں سے پکڑ لیتا ہے اور کعبے کی طرف ان کا رخ کرتے ہوئے کہتا ہے:” قسم ہے اس عمارت کے رب کی! مجھے آپ نے کیسا آدمی پایا؟ “ سفیان بے تامل بڑی بے باکی کے ساتھ جواب دیتے ہیں:” اس عمارت کے رب قسم! میں نے تجھے بدترین انسان پایا ہے۔“
ایک مرتبہ منصور کوفہ کے گورنر کے نام ایک فرمان بھیج کرانہیں بغداد طلب کرتا او رمنصب قضا پیش کرتا ہے ۔ یہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور موقع پاکر بھاگ آتے ہیں اور روپوش ہو جاتے ہیں ۔ پھر بلد الامین ( مکہ معظمہ) میں پہنچ کر پناہ لیتے ہیں۔ منصور کا غیظ وغضب بھڑک اٹھتا ہے، وہ ان کے قتل کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ حج پر روانہ ہوتا ہے تو حکم دیتا ہے کہ حرم سے باہر سولی گاڑ دی جائے ۔ انہیں اس عالم میں پتہ چلتا ہے کہ مسجد الحرام میں لیٹے ہیں ، فضیل بن عیاض کی گود میں ان کا سر ہے اور سفیان بن عیینہ کی گود میں دونوں پاؤں۔ فضیل اور ابن عیینہ دونوں پریشان ہو جاتے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں : رب کعبہ کی قسم منصورکو اس گھر میں داخل ہونے کی توفیق نصیب نہ ہو گی ۔ پھر اٹھتے ہیں اور کعبے کے پردے پکڑ کر دعا کرتے ہیں : اے الله! مجھے منصور سے نجات دے ۔ اپنے رب پر یقین توکل سے لبریز دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا بارگاہِ الہٰی میں قبول ہوتی ہے۔ منصو رراستے میں بیمار ہو جاتا ہے او راس کی لاش مکہ پہنچتی ہے۔
منصور کے بعد مہدی تخت پر متمکن ہوتا ہے، وہ ان کی گرفتاری کے احکام جاری کردیتا ہے۔ سفیان ثوری چند سپاہیوں کی معیت میں دربار میں داخل ہوتے ہیں ۔ سب کی نگاہیں ان پر مرکوز ہیں۔ سفیان آگے بڑھ کر مہدی کے قریب پہنچتے ہیں ۔ ان کی چال میں عالمانہ وقار ہے ۔ آداب شاہی سے بے نیاز بلند آواز سے پکارتے ہیں:
” السلام علیک۔“
مہدی تخت سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اورنہایت خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے ، اپنے قریب مسند پر جگہ دیتا ہے ۔ پھر باتیں شروع ہوتی ہیں۔ مہدی کہتا ہے :
” سفیان آپ ہم سے بھاگتے پھرتے ہیں، حالاں کہ آپ کو علم ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ آپ کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسانہ ہو ہم خواہش نفس سے مغلوب ہو کر کوئی اقدام کر بیٹھیں۔“
سفیان کا چہرہ پہلے کی طرح روشن ہے۔ اس دھمکی کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا، وہ انتہائی بے نیازی اور جرأت کے ساتھ جواب دیتے ہیں:
”ہاں آپ جو بھی چاہیں کر سکتے ہیں ، مگر ایک برتر واعلیٰ عادل وقادر ہستی بھی ہے جو حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرکے رہے گی۔“
ربیع حاجب تلوار لیے سفیانؒ کی پشت پر کھڑا ہے۔ اسے ان کا بے نیازانہ اندازِ گفتگو سخت ناگوار گزرتا ہے۔ عرض کرتا ہے:
”میرے آقا! حکم ہو تو اس گنوار کی گردن مار دیں۔ اسے بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ شاہی آداب کی خبر۔“
”کم بخت چپ رہ۔ ان جیسے لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم انہیں قتل کرکے سعادت سے محروم ہو جائیں او راپنا دامن بدبختی سے بھر لیں۔“ مہدی ڈانٹ دیتا ہے ، پھر سفیان کی طرف متوجہ ہوتا ہے :
آپ کو کوفہ کی قضا قبول کرنی ہو گی، ہم مکمل اختیارات دیتے ہیں۔ آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہ ہو گی، جو فیصلہ بھی کریں گے اس کے خلاف اپیل نہ کی جاسکے گی۔“
مہدی تقرری کا پروانہ عطا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ سفیان پروانہ لے کر باہر نکلتے ہیں اور اسے دریائے دجلہ کی موجوں کی نذر کر دیتے ہیں #
ایں دفتر بے معنی غرقِ مئے ناب اولیٰ
ایک مرتبہ مہدی سے حج کے زمانے میں ایسے عالم میں ملاقات ہوتی ہے کہ اس کے مصاحب او رکاسہ لیس قصیدہ سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ۔ سفیان سے رہا نہیں جاتا۔ مہدی سے کہتے ہیں:
” عمر بن الخطاب نے حج کیا اور صرف ستر دینار خرچ کیے۔ تو نے حج کیا اور پورا بیت المال صرف کر دیا۔“
ایک تو بات ہی اپنی جگہ تلخ ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ جس ماحول میں کہی گئی ہے اس نے مزید تلخیاں گھول دی ہیں ۔ مہدی کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھتا ہے ، مگر سفیان خاموشی سے گرد وپیش میں پھیلے ہوئے ہزاروں انسانوں کے جنگل میں گم ہو جاتے ہیں ۔
سفیان اصحابِ اقتدار ہی کے نہیں، عوام الناس کے سامنے بھی اعلان حق کرنے میں مداہنت برتتے ہیں نہ کسی مصلحت سے کام لیتے ہیں ۔ ان کا معمول یہ ہے کہ شام میں ہوتے ہیں تو حضرت علی کے فضائل ومناقب برملابیان کرتے ہیں او ربالکل پروا نہیں کرتے کہ وہاں سب حضرت علی کے مخالف ہیں اور کوئی ان کاحامی نہیں ۔ عراق میں ہوتے ہیں تو حضرت عثمان کے مناقب بیان کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہاں ان کا کوئی مداح نہیں۔ کوفہ میں حضرت ابوبکر او رحضرت عمر کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں، جہاں شیعان علی کا زور ہے اور خوارج کے سامنے جاتے ہیں تو بے دھڑک حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہیں۔
یہ ہے اس مرد جلیل کا کردار جوان افراد میں سے ایک ہے جن کی وساطت سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث امت کی آئندہ نسلوں کو منتقل ہونے والی ہیں ۔ اس مرد جلیل کی طرح اس پورے گروہ اتقیا کا یہ طرہٴ امتیاز ہے کہ اصحابِ اقتدار سے نفور اور اربابِ دول سے بے نیاز ہیں، حق گوئی ان کے ضمیر میں گندھی ہے، حق کے معاملے میں لومة لائم کی مطلق پروا نہیں کرتے، اس کے لیے وہ جابر و ظالم سلاطین کا غضب مول لینے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور یہ شاید اپنے اس کردار سے ان کج رووں اور مفتریوں کا جواب فراہم کر رہے ہیں جو آئندہ چل کر ان پر یہ افترا پردازی کرنے کو ہیں کہ احادیث عجمی سازشیوں نے ارباب اقتدار کے ساتھ سازش کرکے وضع کی ہیں۔ ان کا یہ کردار مفتریوں کی افترا پردازی کے جواب میں یہ خاموش سوال کرے گا کہ کیا اربابِ اقتدار کے اشاروں پر رقص کرنے والے ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں؟
اور اپنے عہد کے محدثین کے سرخیل امام سفیان الثوری کا تو یہ عالم ہے کہ اربابِ اقتدار سے خود ہی دور نہیں بھاگتے، اپنے شاگردوں کو بھی تلقین ونصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے کوئی سروکار نہ رکھیں۔ ان کے درباروں اور بارگاہوں میں حاضر باشی اور ان کے عطا کردہ مناصب کو قبول کرنے کے بجائے عزلت اور گمنامی کی زندگی بسر کریں، چناں چہ اپنے ایک شاگرد کو خط لکھتے ہیں:
” تم جس زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہو یہ وہ زمانہ ہے جس سے اصحابِ رسول خدا کی پناہ طلب کیا کرتے تھے ۔ حالاں کہ انہیں علم وکردار کی وہ بلندیاں حاصل تھیں جن سے آج ہم محروم ہیں ۔ امور خیر کے سلسلے میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہم میں علم کی قلت ہے ، صبر کا فقدان اور اچھے اعوان وانصار کی کمی ہے ، فتنہ وفساد کا دور دورہ ہے اور ہم دنیا کی گندگی اور ناپاکی میں آلودہ ہو چکے ہیں۔پھر ہم اصحاب اقتدار کے ساتھ روابط استوار کرکے ان ذمہ داریوں سے کیوں کر عہدہ برآہو سکتے ہیں جو الله اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی ہیں ، لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کہیں بہتر ہے کہ تم گمنامی کی زندگی بسر کرو۔خبر دار! امرا کا تقرب حاصل نہ کرو، ان سے میل جول نہ رکھو۔ ان کی محفلوں سے دور رہو کہ وہ اقتدار کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوں گے۔ اقتدار انہیں سونے اور چاندی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔“
ایک بار ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، جو حکام کا زلہ ربا تھا۔ آپ نے اسے ان لوگوں کی صحبت سے محترز رہنے کی نصیحت فرمائی، کہنے لگا: ” حضرت! میرے بال بچے ہیں ۔ ان کا پیٹ بھی تو پالنا ہے ۔“ ارشاد فرمایا: ” اس شخص کی باتیں سنتے ہو ؟ یہ کہتا ہے اگر خدا کی نافرمانی کرے گا تو اس کے بال بچوں کو روزی ملے گی اور اطاعت وفرماں برداری کرے گا تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔“ پھر ارشاد فرمایا: ” لوگو! کبھی کسی عیال دار کی پیروی نہ کرو۔ عیال دار آدمی حلال وحرام کی آمیزش سے بہت کم اجتناب کرتے ہیں ۔ مشتبہ اورحرام رزق کھاتے ہیں۔ ان کا عذر ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ کیا کریں ہم بال بچے والے ہیں؟“
کسی شخص نے عرض کیا: ” آپ حکام کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ انہیں آپ ظلم سے باز رکھیں گے ، پندونصیحت کریں گے او رمنکرات سے روکیں گے۔“ فرمایا:” تم مجھ سے فرمائش کرتے ہو کہ دریا میں شناوری بھی کروں اور میرے پاؤں بھی نہ بھیگیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میری آؤ بھگت کریں گے ، میرا دل ان کی طرف مائل ہو جائے گا او رمیرے اعمال برباد ہو کر رہ جائیں گے۔“
آئیے! اس مردِ جلیل کی صحبت سے کچھ فیض او رحاصل کر لیں۔ فرماتے ہیں:
” علم حاصل کرو اور حاصل کرچکنے کے بعد اسے ہنسی مذاق اور لہو ولعب میں نہ گنواؤ۔ اس طرح دل ویران اور کھنڈر بن جاتا ہے۔ جب کسی کو بدعت کا پتہ چلے تو وہ اس کاذکر اپنے ساتھیوں سے بھی نہ کرے اور نہ اپنے گوشہٴ دل میں اسے جگہ دے۔“
”عالم تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو زیادہ خدا شناس ہوتے ہیں ، اس کے اوامر کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ لوگ ہر وقت اپنے الله سے لرزاں وترساں رہتے ہیں اور اس کی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ دوسرے وہ جو خداشناس تو ہوتے ہیں مگر اس کی حدود کو نہیں جانتے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، مگر حدود الله کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تیسرے وہ جو نہ خدا شناس ہوتے ہیں نہ اس کے اوامرہی سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ان کی علامت یہ ہے کہ انہیں نہ تو اپنے الله کا ڈر ہوتا ہے اور نہ وہ اس کی حدود ہی کا پاس کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔“
”جب تک آدمی بیس سال ادب میں صرف نہ کرے اسے علم اور حدیث کی جستجو سزا وار نہیں۔“
”اگر نماز کی وقت پولیس کے آدمی کو سوتا پاؤ تو اسے نماز کے لیے نہ جگاؤ۔ کیوں کہ وہ اٹھے گا تو لوگوں کو ستائے گا۔ اس کا سوتے رہنا ہی اچھا ہے #
ہے نیند ہی اس ننھے سے فتنے کو سزا وار
کسی نے ان سے پوچھا : عربی میں غوغا کیسے آدمی کو کہتے ہیں ۔ (عربی میں غوغا کے معنی ہیں کمینہ اور بد وضع آدمی) فرمایا:” وہ شخص جو اپنے علم کے ذریعے دنیا ڈھونڈتا ہے۔“
”جب علما ہی بگڑ جائیں تو ان کی اصلاح کون کرے گا؟ اور علما کا بگاڑ یہ ہے کہ وہ دنیا کے ہو کررہ جائیں اور دین کو فراموش کر دیں۔“
ایک مرتبہ سفیان کی خدمت میں عرض کیا گیا : ” فلاں شخص خلیفہ مہدی کے پاس آمدورفت رکھتا ہے او رکہتا ہے : ہم اس کا اتباع نہیں کرتے اوراس کی بداعمالیوں سے بری ہیں ۔“ فرمایا: ” وہ غلط بیانی کرتا ہے۔ کیا اس نے مہدی کی مسرفانہ زندگی نہیں دیکھی؟ کیا اس کے کھانے پینے اور پہننے میں اسے افراط نظر نہیں آتی؟ پھر کیا کبھی اس نے اسے یہ کہنے کی جرأت کی ہے کہ یہ مسرفانہ زندگی آپ کے شایانِ شان نہیں؟“
علی بن الحسن السلمی سے انہیں خصوصی تعلق خاطر ہے۔ انہیں اکثر وصیت فرمایا کرتے ہیں ۔ ایسی وصیت جسے ہر مسلمان حرزِ جاں بنالے تو زندگیوں میں انقلاب اور دین حق کے چمن میں بہار آجائے۔ ایک بار وہ مجلس میں حاضر ہوتے ہیں ، تو فرماتے ہیں:
”سنت کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ کہ جس پر عمل کرنا ہدایت اور چھوڑ دینا گمراہی ہے ۔ دوسری وہ جس پر عمل پیرا ہو کر انسان ہدایت سے بہرہ یاب ہوتا ہے ، لیکن اگر اسے چھوڑ دے تو گمراہی نہیں ہے ۔ جب تک فرائض ادانہ کیے جائیں الله نوافل قبول نہیں کرتا۔ رات میں ادا کیے جانے والے حقوق الله دن کے وقت قبول نہیں کرتا اور جو حقوق انسان پر دن میں عائد ہوئے انہیں رات کے وقت قبول نہیں فرماتا۔ وہ قیامت کے دن بندے کا حساب کتاب فرائض سے شروع کرے گا، اگر اس نے فرائض پورے پورے ادا کیے ہوں گے تو اس کے فرائض او ر نوافل دونوں قبول کر لے گا او راگر فرائض میں کوتاہی کی ہو گی او رانہیں ضائع کر دیا ہو گاتو نوافل بھی فرائض کے ساتھ ملا دیے جائیں گے ۔ اب یہ خدا کی مرضی ہے کہ انسان کو بخش دے یا اسے عذاب میں ڈال دے۔ سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ آدمی حرام اور ناانصافی سے باز رہے۔ اور الله تعالیٰ اپنی کتا ب میں فرماتا ہے:․
” الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ایسے لوگوں کے سپرد کرو جو ان کی (حفاظت کی) اہلیت رکھتے ہیں۔“
اے میرے بھائی! الله کا تقوی اختیار کرو، لسانِ صادق، نیت خالص اور اعمال صالح کو اپناؤ، ایسے اعمال جن میں دھوکا ہو نہ مکر وفریب۔ یہ بات ذہن میں رکھو، اگر تم الله کو نہیں دیکھ رہے ، تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ، جہاں بھی تم ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے ۔ الله سے چالیں نہ چلو، ورنہ وہ تمہارے ساتھ چال چلے گا، اس لیے کہ جو الله کے ساتھ چال چلتا ہے الله اس کا جواب چال ہی سے دیتا ہے او را س کا ایمان اور روح زندگی اس طرح کھینچ لیتا ہے کہ اسے پتہ نہیں چلتا۔ اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی مکروفریب مت کرو، اس لیے کہ ایسا مکروفریب اپنے کرنے والے پر لوٹ آتا ہے ۔ اہل ایمان کے ساتھ دھوکا نہ کرو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی صاحب ایمان کو دھوکا دیا تو اہل ایمان اس سے بری الذمہ ہو گئے۔
کسی مسلمان کے ساتھ چال نہ کھیلو کہ الله تمہارے دل میں نفاق پیدا کر دے گا۔ نہ کسی سے حسد کرو او رنہ کسی کی غیبت کرو، ورنہ تمہاری ساری نیکیاں اکارت جائیں گی۔
اپنی دنیا آخرت کے بدلے میں بیچ دو، دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدے میں رہو گے اور دنیا کے بدلے میں آخرت کو نہ بیچو، دونوں جہاں میں خسارے میں رہو گے۔“