Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

10 - 15
***
قبر کی تیاری جاری ہے
مولانا محمد منظور نعمانی 

سورہٴ آل عمران کی آیت کا ترجمہ یہ ہے :
”ہر جان دار کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے اور تمہارے اعمال کے نتائج پوری طرح تم کو قیامت کے دن ہی ملیں گے، پس جو اس دن دوزخ کے عذاب سے بچ جائے او رجنت میں بھیج دیا جائے وہی کام یاب ہو گا اور یہ دنیوی زندگی تو بس ایک دھوکے کا سودا ہے۔“
اس ترجمہ سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ اس آیت میں موت اور آخرت کا ذکر ہے ۔ اس کے پہلے جز میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر جاندار کو مرنا ہے اور ہر ذی حیاة کو ایک دن ضرور موت آنی ہے او راگر قرآن حکیم میں بھی اس کو نہ بتلایا گیا ہوتا جب بھی ہم میں سے ہر ایک کو بطور خود یہ یقین ہوتا کہ ہر زندہ کو ایک دن مرنا ہے ، چناں چہ وہ انسان جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے ہیں مرنے میں ان کو بھی کوئی شک نہیں ۔ اور کیوں کر کوئی شک کر سکتا ہے ؟ جب کہ اس دنیا کی پوری عمر کا تجربہ یہ بتلا رہا ہے کہ ہر زندگی کا انجام موت ہی پر ہوتا ہے۔ بہرحال یہ حقیقت کہ ”ہر زندہ کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے“ ایک یقینی بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے، جس سے کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن انبیا علیہم السلام الله تعالیٰ سے اطلاع پاکر موت سے آگے کے متعلق یہ بھی بتلاتے ہیں کہ موت فنائے محض نہیں ہے، بلکہ درحقیقت مرنے والا ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ جس طرح روز مرہ انفرادی طور پر لوگ مرتے ہیں اور اس عالم سے اس دوسرے عالم کو منتقل ہوتے رہتے ہیں ، اسی طرح ایک دن اس پورے عالم اور سارے جہاں پر ایک دم فنا طاری کر دی جائے گی اور اس وقت جو بھی ذی حیات اس سارے سنسار اور ساری کائنات میں ہوں گے وہ سب موت کے گھاٹ اتر کر اس دوسرے عالم میں منتقل کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد یہ دنیا جس میں ہم آباد ہیں قطعی طور سے درہم برہم اور فنا ہو جائے گی اور جو لوگ اس دنیا سے منتقل ہوتے رہے ہیں ان ہی سے ایک دوسرا عالم الله تعالیٰ کی قدرت سے برپا ہو گا، پھر یہاں جس نے جو برے یا بھلے عمل کیے ہیں اور جس طرح کی اچھی یا بُری زندگی گزاری ہے وہاں اس کے مطابق اس کو جزا یا سزا ملے گی۔
یہی مطلب ہے آیت کے اس جز کا کہ ․
بہرحال ہماری یہ دنیا دار العمل ( عمل کی دنیا) ہے اور دارالجزاء (بدلے کی دنیا) دوسرا عالم ہو گا، جس میں ہم کو موت کے بعد پہنچنا ہے، پھر وہاں ہم کو جو زندگی عطا ہو گی وہ یہاں کی سی محدود اور چند روزہ زندگی نہ ہو گی، بلکہ ہمیشہ رہنے والی اور لامحدود ہو گی، اب ہمارے اختیار میں ہے کہ خواہ اس لامحدود زندگی کو برے اعمال کرکے دکھ اور جہنم کی زندگی بنالیں، یا برائیوں اور گناہوں سے پرہیز کرکے اور نیکیاں کرکے سکھ اور جنت کی زندگی بنالیں ، غرض اپنے کو دوزخی یا جنتی بنانے والے خود ہم اور ہمارے اعمال ہی ہیں۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہی دنیا دارالعمل ہے اور آئندہ ابد الآباد تک یہاں کے کیے ہوئے اعمال کے نتائج ہی سے ہمیں واسطہ پڑنا ہے، تو سوچیے کہ کس قدر خطرناک غلطی اور کیسے خسارہ میں ہیں وہ لوگ، جو اس زندگی کی مہلت کو غفلت میں گزار رہے ہیں اور یہاں سے جانے کے بعد جس دوسرے عالم میں ان کوہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے راحت وآرام کے لیے وہ کوئی تیاری نہیں کررہے ہیں، بلکہ اس دنیا کی لذتوں اور یہاں کے دھندوں میں وہ اس طرح منہمک ہیں کہ گویا ان کو ہمیشہ یہیں رہنا ہے او رکبھی بھی موت نہیں آنی ہے۔
اس غفلت کا پردہ اٹھانے اور دنیا کے متوالوں کو آخرت کی یاد دلانے کے لیے الله کے سارے پیغمبر آئے اور الله کی تمام کتابوں میں یہ درس دیا گیا، لیکن انسان ایسا غافل اور ناعاقبت اندیش واقع ہوا ہے کہ اس کے باوجود وہ آخرت سے بے پروا ہو جاتا ہے اور اپنی موت کو بالکل بھلائے رہتا ہے۔ پھر اس کی غفلت کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو روز مرہ مرتے اور اس دنیا سے سفر کرتے دیکھتا ہے، لیکن پھر بھی وہ انبیا علیہم السلام کے دیے ہوئے اس سبق کو اور اپنی موت کو یاد نہیں کرتا۔ وہ اپنے سے زیادہ عمر والوں ہی کو نہیں، بلکہ ہم عمروں ، اپنے سے چھوٹوں، بلکہ اپنے گود کھلایوں تک کو دیکھتا ہے کہ وہ بیمار پڑے، بیماری نے شدت اختیار کی ، حکیموں اور ڈاکٹروں کی ہزار کوششوں کے باوجود علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، کوئی دوا موافق نہیں آرہی ، اب مریض کا آخری وقت قریب آگیا، نزاع اور جانکنی کا آغاز ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد موت کے فرشتہ نے آکر روح کو قبض کر لیا، اب وہ ہم جیسا انسان بے جان لاشہ ہو کے رہ گیا، نہلانے والوں نے پلنگ سے اتار کر ایک ٹوٹے پھوٹے تختہ پر رکھ کر جیسے چاہا نہلا دیا، کفنا دیا اور نمازِ جنازہ پڑھ کے کسی سنسان اور وحشت ناک جنگل میں ہزاروں ٹوٹی پھوٹی قبروں کے بیچ میں ایک اور قبر کھود کے دفنا دیا اور منوں مٹی اوپر سے ڈال کر سب اس مرنے والے کو اکیلاچھوڑ کر اپنے اپنے گھر چلے آئے ذراغور تو کیجیے! ہر مرنے والے کی موت ہمارے لیے کتنا عبرت اور نصیحت کا سامان اپنے اندرکھتی ہے !!! لیکن غافل انسان آئے دن قدرت کا یہ تماشہ دیکھتے ہیں او رکبھی نہیں سوچتے کہ ان سب منزلوں سے ہم کو بھی گزرنا ہے اور ہماری زندگی کا انجام بھی بس یہی ہونا ہے ، درحقیقت غفلت کا یہ درجہ کہ دوسروں کی موت دیکھ کر بھی اپنی موت یاد نہ آئے اور دوسروں کو دنیا سے جاتا دیکھ کر بھی سفر آخرت کی تیاری کی فکر پیدا نہ ہو بالکل آخری درجہ ہے ۔ موت تو سب سے بڑی یاددہانی کرانے والی ہے ۔ حدیث پاک میں ہے ”کفی بالموت واعظا“ یعنی موت ہی انسان کے لیے کافی واعظ ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ازالہٴ غفلت کی خاص تدبیربیان کرتے ہوئے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”اکثروذکر ھاذم اللذات․“ ( یعنی لذتوں کا خاتمہ کر دینے والی موت کو بکثرت یاد کرو) اس سے تمہارے دلوں کی غفلت دور ہو جائے گی۔
اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا دستور تھا کہ رات کا جب بیشتر حصہ گزر جاتا اور تھوڑا سا حصہ باقی رہتا تو آپ اپنے گھرو الوں کو غفلت کی نیند سے اٹھاتے اور فرماتے:
”اذکرو الله، اذکروا الله، جاء ت الراجفة، تتبعھا الرادفة، جاء الموت بما فیہ، جاء الموت بما فیہ“․
یعنی اٹھو! الله کو یاد کرو، الله کو یاد کرو، دنیا کہ تہہ وبالا کردینے والا قیامت کا زلزلہ بس آنے ہی والا ہے ، اس کے پیچھے جو آنا ہے ( یعنی نفحہٴ ثانیہ اور پھر حشر ونشر) وہ بھی آہی رہا ہے ، دیکھو !موت اپنی ساری سختیوں اور مصیبتوں کے ساتھ آپہنچی، دیکھو! موت سر پر آگئی۔
غرض رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی غافلوں کو ہوشیار کرنے اور غفلت سے چوکانے کے لیے موت ہی کی یاد دلاتے تھے۔ لیکن ہماری غفلت اس درجہ کی ہے کہ موت سے بھی ہمارا نشہ نہیں اترتا اور اپنے جیسے دوسروں کو مرتا اور زمین میں دفن ہوتا دیکھ کر بھی ہم کو اپنی موت اور قبر کی بے چارگی وتنہائی یاد نہیں آتی اور ہم نہیں سوچتے کہ جب ہمارے لیے یہ وقت آئے گا جو یقینا آنا ہے تو ہم پر کیا گزرے گی!!!
محترم بزرگو! اور عزیز بھائیو! اس وقت جب تک کہ ہم زندہ ہیں، تندرست ہیں، چلتے پھرتے ہیں، ہمارے لیے ممکن ہے اور ہمارے اختیار میں ہے کہ اپنی قبر میں آرام وراحت اور روشنی اور انسیت کا انتظام کر لیں اور اس تنگ وتاریک کوٹھری کو اپنے لیے پر بہار اور وسیع گلزار بنالیں، لیکن اگر ہم نے زندگی کی یہ مہلت یونہی غفلت میں گزار دی او رحیات آخرت کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے نہ کیا، الله سے نڈر اور محاسبہٴ آخرت سے بے پروا ہو کر ہم الله کی نافرمانیاں او راس کے بندوں کی حق تلفیاں کرتے رہے، تو یقین کیجیے کہ یہ قبر آپ کے لیے صرف ایک تنگ وتاریک کوٹھری ہی نہ ہو گی ، بلکہ یہ ایک چھوٹی سے دوزخ ہو گی، جس میں آگ ہو گی اور طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے ہوں گے ، جو کروٹ کروٹ آپ کو ڈسیں گے۔ پھر وہاں کوئی آپ کی خبر لینے نہ آئے گا، کوئی یارومدد گارنہ ہو گا، آپ پیاسے ہوں گے تو کوئی آپ کو پانی دینے والا نہ ملے گا، آپ کے دائیں بائیں آگ بھڑکے گی ، تو اس کو کوئی بجھانے والا نہ ہو گا۔ آپ چیخیں چلائیں گے تو کوئی سننے والا نہ ہو گا اور صرف یہ ایک دو دن کی بات نہ ہو گی، بلکہ اگر آپ کے اعمال رحمت ومعافی کے قابل نہ ہوئے تو قیامت تک قبر میں یہی عذاب مسلط رہے گا۔ (اعاذنا الله من ذلک) حدیث پاک میں ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
” انما القبر روضة من ریاض الجنة او حفرة من حفر النار“․
یعنی قبر یا تو جنت کے گلزاروں میں سے ایک گلزار ہے اور یا پھر دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرمایا کہ ہر روز قبر پکارتی ہے:
”انا بیت الغربة، انا بیت الوحدة، وانا بیت التراب، وانا بیت الدود“․
یعنی میں بیگانگی اور ناشناسائی کا گھر ہوں ، میں تنہائی کی کوٹھری ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں ، میں کیڑوں کا خزانہ ہوں۔
آگے اس حدیث میں ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب الله کا کوئی مؤمن صالح بندہ دفن کیا جاتا ہے تو قبر محبت اور مودت کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے اور وہ قبر اس کے لیے اتنی وسیع اور کشادہ کر دی جاتی ہے کہ جہاں تک اس کی نظر جاتی ہے وہ کشادگی ہی کشادگی دیکھتا ہے، لیکن اگر کوئی بد کار او رخدا کا نافرمان بے ایمان دفن کیا جاتا ہے تو قبر کا معاملہ اس کے ساتھ گویا ایک بے درددشمن کا سا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے انتہائی تنگ ہو جاتی ہے اور اس طرح بھینچتی ہے کہ اس کی اِدھر کی پسلیاں اُدھر ہو جاتی ہیں۔ اور اس قدر سخت زہریلے سانپ اس کو ڈسنے کے لیے مسلط کر دیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک زمین میں پھنکار مار دے تو زمین ہمیشہ کے لیے بے گیاہ ہو جائے او ر سبزہ اگانے کی اس میں مطلق صلاحیت نہ رہے۔
اب ذرا سوچیے کہ جب ہم کو یقینا مرنا او رقبر میں جانا ہے اور قبر میں ہمارے ساتھ جو معاملہ ہو گا اس کے متعلق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو خبریں ہم کو دی ہیں ہم ان کو بھی صحیح اور قطعی صحیح سمجھتے ہیں اور قبر کے بعد اگر خدا نخواستہ ہم اپنی بداعمالیوں کے باعث جہنم میں بھیج دیے گئے تو پھر وہاں قبر سے بھی سخت تر عذاب ہونے پر ہم یقین رکھتے ہیں ، تو پھر قبر وآخرت سے بے پروا ہو کر ہمارا غفلت کی زندگی گزارنا او رموت کو بھلا کر یہاں کی چند روزہ خوش عیشیوں میں مگن رہنا خود اپنے اوپر ہمارا کتنا بڑا ظلم ہے؟
بزرگو اور عزیزو! جو کچھ کرنا ہے اس زندگی میں کر لو، آج کر لو، بلکہ اسی وقت کر لو، معلوم نہیں کس وقت موت کا فرشتہ پیام اجل لے کر آجائے اور پھر تم کچھ بھی نہ کر سکو۔ خدا کی قسم! یہاں کی جو پوری زندگی ہم نے غفلت سے گزاری اور جس کے دن رات، بلکہ جس کے مہینے اور برس ہم غفلت سے گزارتے چلے جارہے ہیں ، وہاں اس کا ایک ایک لمحہ بڑی حسرت سے یاد آئے گا اور پھر اگر ہم چاہیں گے کہ اس غفلت کی تلافی کے لیے ہم کو ایک ہی دن تھوڑی ہی دیر کے واسطے پھر دنیا میں بھیج دیا جائے یا بس ایک سجدہ ہی کی مہلت اور دے دی جائے یا بس توبہ واستغفار کے لیے ہی صرف ایک لمحہ کے واسطے ہم کو پھر سے دنیاوی زندگی بخش دی جائے تو ہم کو اس کا موقع نہ دیا جائے گا۔ غافلوں اور مجرموں کے لیے تو وہ وقت بڑی رسوائی اور بڑی حسرت کا ہو گا ۔
قرآن پاک میں اس ذلت وحسرت کی تصویر اس طرح کھینچی گئی ہے:․
یعنی اس دنیا کے مجرم الله کے حضور میں اپنی مجرمانہ صورت میں سرفگندہ کھڑے ہوں گے اور اس وقت بڑی عاجزی اور زاری سے عرض کریں گے کہ خداوند! اب ہمارے آنکھ کان کھل گئے ،ہم نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیا او رکانوں سے سن لیا، اب بس یہ التجا ہے کہ ہمیں پھر سے دنیا میں بھیج دیجیے ، اب کے ہم نیک ہی کام کریں گے، اب ہم کو پورا یقین آگیا۔
لیکن چوں کہ ان کی یہ درخواست غلط اور بے محل ہو گی، اس لیے نہیں سنی جائے گی اور صاف کہہ دیا جائے گا ․ یعنی تم جس طرح دنیا کی بدمستیوں میں گم ہو کر اس دن کی آمد کو بھولے ہوئے تھے اسی طرح آج ہم نے تم کو بھلا دیا اور نظر انداز کر دیا ہے ( یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا ہے ) لہٰذا دنیا میں تم نے جو غفلت کی زندگی گزاری اور ہمارے احکام سے بے پروائی برتی اب اس کے بدلے میں بس عذاب ہی عذاب چکھو اور اپنے کیے کو بھرو۔
اور قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے موقع پر فرمایا گیا ہے:
․
ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ :
جب ان مجرموں اور خدا فراموشوں پر موت طاری ہوتی ہے اوراپنی بد کرداریوں اور غفلت کیشیوں کے نتائج بدان کو آنکھوں سے نظر آنے لگتے ہیں تو یہ گڑگڑا کر کہتے ہیں ، خدا وند! ذرا مجھے پھر اسی دنیا میں واپس بھیج دے جس کو میں چھوڑ کر آرہا ہوں تاکہ میں اچھے عمل کر لوں… لیکن ہر گزا یسا نہ ہو گا یہ اس کی بکواس ہو گی جو وہ بکے گا، قیامت کے دن تک تو وہ عالم برزخ میں گرفتار رہے گا اور وہاں اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھتا رہے گا، پھر جب قیامت کا وقت قریب آئے گا اور صور پھونک دیا جائے گا اور حشر نشر سے ایک دوسرا عالم برپا کر دیا جائے گا تو اس دن ان کے رشتے ناطے بھی نہ رہیں گے ، یعنی کوئی عزیز قریب پھر پاس بھی نہ پھٹکے گا اور نہ کوئی بات پوچھے گا اور بس فیصلہ یوں ہو گا کہ جس کے پلڑے میں ایمان اور اعمال صالحہ کا وزن ہو گا وہی نجات پاسکیں گے اور فلاح وکامرانی صرف انہیں کے لیے ہو گی ۔ او رجن کے پلڑوں میں یہ وزن نہ ہو گا، یعنی جو ایمان او راعمال صالحہ کی دولت سے تہی دامن اس دنیا سے گئے ہوں گے ، وہ وہاں سخت خسارہ میں ہوں گے ، ان کے لیے بس تپتا ہوا جہنم ہو گا جس میں وہ پڑے رہیں گے ، دورخ کی آگ ان کے چہروں کو جھلستی ہو گی اور دوزخ میں ان کی صورتیں بہت بگڑی ہوئی او رناقابل دید ہوں گی۔
الغرض الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بار بار اعلان کر دیا ہے کہ جس کو جو کچھ کرنا ہو اس دنیا کی زندگی میں کر لے، اس کے بعد کسی کو عمل کی کوئی مہلت ملنی نہیں ہے ۔ پس اے خدا کے بندو! زندگی کی اس مہلت کو جس کے متعلق یہ بھی معلوم نہیں کہ کس وقت ہم سے چھین لی جائے غنیمت جانو! اور اس کی قدر وقیمت پہچانو! اگر اب تک غفلت سے دن گزارے ہیں اب تو غفلت سے بیدار ہو جاؤ اور آخرت کی اس زندگی کے لیے، جو حقیقی زندگی ہے، تیاری میں لگ جاؤ۔
میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ لوگ دنیا اور علائق دنیا سے دست بردار ہو کے اور فقیری کا چولا پہن کر کسی جنگل میں جا بیٹھیں اور گھر بار اور آس اولاد کو چھوڑ کے بس الله الله کی تسبیح پڑھیں، نہیں نہیں ، شریعت کا مطالبہ یہ نہیں ہے ، نہ خدا کو راضی کرنے اور اپنی آخرت کو درست کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے ، الله پاک تو تم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی او راس کے رسول کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارو، تمہارے دلوں میں ایمان ہو اور تمہارے اعمال صالح ہوں، دنیا سے تم پورا اشتغال رکھو، مگر الله کے احکام کے ماتحت، یعنی حلال او رحرام میں فرق کرو… یہ دنیا تو مومن کے لیے بھی ہے او رکافر کے لیے بھی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن احکام الہٰیہ کا پابند رہ کر اس میں تصرف کرتا اور اس کو برتتا ہے او رکافر اس پابندی کے بغیر اس سے لپٹتا ہے۔ تو الله کی رضا اور آخرت کی نجات وفلاح حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت نہیں کہ آپ بالکل ”تارک الدنیا“ ہو جائیں، بلکہ صرف اس کی ضرورت ہے کہ دنیا میں آپ جو کچھ کریں الله کے قانون کے ماتحت کریں اور صرف نماز روزہ ہی میں نہیں بلکہ کھانے میں ، پینے میں ، تجارت اور سوداگری کرنے میں ، اپنے چھوٹوں، بڑوں، اپنے عزیزوں، دوستوں ، اپنے پڑوسیوں اور عام انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ،غرض زندگی کے ہر شعبہ میں آپ الله کے احکام اور اس کی ہدایت کا اتباع کریں اور بس یہی حقیقت ہے ”اسلام“ کی جس پر نجات اُخروی اور رضائے الہٰی کا مدار ہے۔
میں جانتا ہوں او رمانتا ہوں کہ الحمدلله ایک حد تک ایمان ہم میں ہے ، لیکن جو کمی ہے( اور یقینا بہت زیادہ کمی ہے) تو اس کا سبب وہ غفلت ہے جو ہمارے دلوں پر چھائی ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے نہ خدا کی گرفت اور اس کا محاسبہ ہمیں یاد آتا ہے اور نہ آخرت کی فکر کبھی ہمیں بے چین کرتی ہے ، پس سب سے بڑا اور سب سے پہلا کام ہمارا اس غفلت کو زائل کرنا اور دلوں کو الله اور آخرت کی طرف متوجہ کرنا ہے اور یہ غفلت دور ہو سکتی ہے بس بار بار اپنی موت کو یاد کرنے او ر موت کے بعد قبر وحشر اور پھر آخرت میں پیش آنے والے واقعات کا دھیان کرنے سے۔ پس میں آپ حضرات میں سے ہر ایک سے عرض کروں گا کہ اگر زیادہ نہیں تو دن رات میں کم ازکم ایک وقت وہ ضرور ایسا مقرر کر لیں جس میں پوری یکسوئی کے ساتھ وہ یہ سوچا کریں کہ ایک دن ضرور ہم بھی اسی طرح مرنے والے ہیں جس طرح دوسروں کو مرتا ہوا ہم دیکھتے ہیں، پھر سوچیں کہ وہ وقت کتنا سخت ہو گا، پھر جب مجھے قبر میں اتار دیا جائے گا تو میرا کیا حال ہو گا، اس کے بعد قیامت تک کیسے گزرے گی ، پھر حساب کتاب کے وقت جب میرے گناہوں کی فہرست میرے سامنے ہو گی اور میرے خلاف میرے ہاتھ پیر تک گواہی دیں گے تو میری کیسی رسوائی ہو گی اور اگر میں قابل مغفرت نہ ٹھہرا اور جہنم میں مجھے ڈلوا دیا گیا تو وہاں میری کیا گت بنے گی ؟!! اسی طرح یہ تصور کرکے الله کے خوف کو دل میں پیدا کریں اور اسی کے ساتھ اپنے روز مرہ کے اچھے برے اعمال کا محاسبہ بھی کر لیں۔ اس طرح ان شاء الله چند روز عمل کرنے سے یہ غفلت دور ہو جائے گی اور خدا نے چاہا تو ایک وقت یہ کیفیت ہو جائے گی کہ ہر کام کے وقت دل میں یہ کھٹک پیدا ہونے لگے گی کہ یہ الله کو راضی کرنے والا کام ہے یا ناراض کرنے والا؟ اور اسی کیفیت کا نام تقوی اور خشیة الله ہے، جو ساری سعادتوں کی بنیاد ہے اور یہی ”ولایت“ کا مقام ہے۔
پھر آپ کو موت سے کوئی وحشت اور اس کے بعد آنے والی منزلوں میں کوئی دکھ اور کوئی اذیت نہ ہو گی، بلکہ آپ خوشی اور مسرت کے ساتھ موت کا استقبال کریں گے اور ہر منزل میں الله کے فرشتے رضائے الہٰی کی بشارت سنا کر آپ کو مطمئن کریں گے اور مبارک باد دیں گے ، جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا: 
․
معلوم ہونا چاہیے کہ الله تعالیٰ سے لگاؤ رکھنے والوں کو کوئی خوف وخطر نہیں اور نہ کسی قسم کا رنج وغم ہی ان کو ہو گا ، یہ وہ لوگ ہیں جو با ایمان اور صاحبِ تقویٰ ہیں ، ان کے لیے بشارت ہے حیاتِ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ موت کا فرشتہ جب کسی مومن صادق اور عبد صالح کے پاس قبض روح کے لیے آتا ہے تو پہلے ہی اس سے کہہ دیتا ہے”لاتخف مما انت قادم علیہ․“ ( یعنی جس دوسرے عالم میں تم کو اب جانا ہے اس سے ڈر ومت، وہاں تمہارے لیے راحت ہی راحت ہے۔) تو اس کی ساری وحشت اور سارا ڈر ختم ہو جاتا ہے، پھر فرشتہ اس سے کہتا ہے”لاتحزن علی الدنیا ولا علیٰ اھلھا وابشر بالجنة“(یعنی دنیا اور دنیا والے تمہارے اعزہ اور اقارب، جو تم سے چھوٹ رہے ہیں، ان کا کوئی صدمہ نہ کرو اور خوش ہو جاؤ کہ دنیا کے بدلے جنت اور اہل دنیا کے بدلے اہل جنت سے اب تمہارا واسطہ رہے گا) تو وہ ہنسی خوشی اس دنیا سے کوچ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اور بعض روایات میں ہے کہ الله سے خاص دلی لگاؤ رکھنے والے اس کے مؤمن صالح بندے کے پاس موت کا فرشتہ جب آتا ہے تو پہلے الله کی طرف سے اس کو سلام پہنچاتا ہے او رکہتا ہے ”ربک یقرئک السلام“ (یعنی تمہارا رب تعالیٰ تم کو سلام کہتا ہے)… اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ الله کے فرشتے جب اس قسم کے پیغامات کسی خوش نصیب بندہ کو پہنچاتے ہوں گے تو وہ کس قدر خوش اور مسرور ہو گا او رکیسا ہشاش بشاش اس دنیا سے جاتا ہو گا؟ اور اس کے نیک اور مخلص بندوں کو موت اور مابعد الموت کے متعلق یہ بشارت تو خود قرآن پاک سنا رہا ہے کہ․
حضرات! الله کے یہ انعامات اور فرشتوں کی یہ بشارتیں حاصل کرنا ہم میں سے ہر ایک کے لیے ممکن ہے ، شرط صرف یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ غفلت کی حالت کو دور کرکے الله کی خشیت اور تقویٰ اپنے اندر پیدا کر لیں اور پھر اپنی زندگی اس کی ہدایت کے مطابق گزاریں، کسی عارف نے اپنے ایک شعرمیں کہا ہے #
یاد داری کہ وقت زادن تو، ہمہ خندہ بوندو ترگریاں
اینچنیں زی کہ وقت مردن تو ہمہ گریاں بوند وتو خنداں
کہ تجھے کچھ یاد ہے کہ جس وقت تونے اس دنیا میں پہلا قدم رکھا تھا تو تیرے سب گھر والے تو شاداں وخنداں تھے مگر تو رو رہا تھا، اب اس دنیا میں اس طرح الله والوں کی سی زندگی بسر کر کہ جس وقت تو اس دنیا سے کوچ کرنے لگے تو سب تو تیرے لیے روتے ہوں ، مگر تو خوش وخرم وہشاش بشاش جاتا ہو، کہ گویا قید خانہ سے چھوٹ کے اپنے گھر جارہا ہے۔
تفسیر ابن جریر میں ایک روایت ہے کہ کسی مومن صادق اور بندہٴ صالح کے پاس جب موت کے فرشتے پہنچتے ہیں تو پہلے اس سے کہتے ہیں ” ہم تم کو لے چلیں یا اسی دنیا میں چھوڑ دیں؟ تو وہ کہتا ہے کہ آپ مجھے پریشانیوں اور مصیبتوں کے اس گھر میں چھوڑ جانا چاہتے ہیں”قدمونی الی الله تعالی“ مجھے جلدی الله کی طرف لے چلو۔“
اور بعض اصحابِ طمانینت کو موت کے وقت اس کی بھی مسرت ہوتی ہے کہ اب ہم اس عالم میں پہنچ جائیں گے، جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام اور حضرات انبیائے سابقین پہلے تشریف لے جاچکے ہیں اور وہاں ان شاء الله ان حضرات کی زیارت وملاقات کی دولت نصیب ہو گی۔ چناں چہ شفاء قاضی عیاض میں منقول ہے کہ حضرت بلال کی وفات کا جب وقت آیاتو ان کی بیوی کی زبان سے نکلا واحزناہ (یعنی ہائے کیسا غم کا وقت ہے! ) حضرت بلال نے فوراً کہا نہیں نہیں”واطرباہ غداً القیٰ الاحبة: محمداً وحزبہ“ یعنی بڑی خوشی کا موقع ہے، ہم کل ان شاء الله اپنے گزر جانے والے دوستوں یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے جاملیں گے۔
مگر یہ کیفیت اور یہ دولت جب ہی ہم کو حاصل ہو سکتی ہے جب کہ ہم اپنے کو اس لائق بنالیں ، ورنہ اگریوں ہی ہم غفلت کی زندگی گزارتے رہے او رمحاسبہ آخرت سے بے پروا ہو کر شیطانی راہوں پرچلتے رہے جو ہمارا عام حال ہے تو ہمارے لیے پھر مصیبت ہی مصیبت اور حسرت ہی حسرت ہو گی۔
ہم میں سے بہت سے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زندگی بھر تو خوب عیش کے گل چھرے اڑالو، جب موت کا وقت آئے گا تو توبہ کر لیں گے، الله غفور رحیم ہے ۔… انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ محض شیطانی وسوسہ ہے، اول تو کسے خبر ہے کہ موت کا جب وقت آئے گا تو توبہ کی مہلت بھی مل سکے گی ، یانہ مل سکے گی۔ علاوہ ازیں یہ کہ توبہ کی قبولیت وعدم قبولیت کا قانون صاف صاف قرآن پاک میں بیان کر دیا گیا ہے کہ توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو نادانی سے بُرے کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد اپنے کیے پر پچھتا کے سچے دل سے توبہ کر لیتے ہیں، لیکن جو لوگ ایسے ڈھیٹ ہیں کہ مدة العمر توبے باکی سے گناہ کرتے رہے او رجب موت سامنے آکھڑی ہوئی تو گڑگڑا کے توبہ کرنے لگے تو ایسے ناہنجاروں کی توبہ کچھ بھی نہیں، قرآن حکیم نے نہایت واضح اعلان کر دیا ہے۔
․
پھر یہ بھی تو کسی کو نہیں معلوم کہ موت میں کتنا وقت باقی ہے ، کیا پتہ کہ یہ دن ہی زندگی کا آخری دن اور یہ رات ہی زندگی کی آخری رات ہو ، آخر آئے دن ہم اور آپ یہ خبریں سنتے رہتے ہیں کہ فلاں صاحب اچھے خاصے بیٹھے تھے ، اچانک ہارٹ فیل ہو گیا اور دو منٹ کے اندر ختم ہو گئے ، بہرحال ہر دن اور ہر گھڑی اور ہر لمحہ کو توبہ واستغفار کی آخری مہلت سمجھنا چاہیے اور جلد سے جلد الله پاک سے اپنا معاملہ صاف کر لینا چاہیے، اب تک جو وقت غفلت میں گزرا اور جو سیاہ کاریاں اس غفلت میں ہم سے ہوئیں ان کے لیے ٹوٹے ہوئے دل سے الله پاک سے معافی مانگی جائے اور آئندہ کے لیے دل کے پورے عزم کے ساتھ اس سے عہدِ اطاعت کیا جائے او رپھر اس سے مغفرت ورحمت کی امید رکھی جائے ۔ اگر ہماری یہ توبہ ، یہ معافی طلبی سچے دل سے ہو گی تو یقینا وہ ہمارے سارے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔ حدیث پاک میں ہے : 
” التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ“ ( یعنی گناہ سے سچی توبہ کرنے کے بعد آدمی بالکل بے گناہ ساہی ہوجاتا ہے) بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ ”کیوم ولدتہ امہ“ کہ سچی توبہ کے بعد آدمی گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ دنیا میں آیا تھا۔ اور قرآن پاک کے ایک اشارہ سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ تائبین کے پہلے گناہ بھی نیکیوں سے بدل دیے جاتے ہیں ، سورہٴ ”فرقان“ کی ایک آیت ہے:
․
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جن خوش نصیبوں نے سچی توبہ کرکے اپنی باقی زندگی ” ایمان صادق“ اور ”عمل صالح“ کے ساتھ گزاری تو ان کے گناہوں کو بھی الله پاک نیکیوں سے بدل دے گا… اللهاکبر! کیا ٹھکانہ اس رحمت کا!
لیکن یہ نہ سمجھیے کہ بس زبان سے یہ کہہ دینے سے کہ ” الله میری توبہ ہے “ یا”استغفرالله ربی من کل ذنب واتوب الیہ“ کی تسبیح پڑھ لینے سے آپ ان رحمتوں کے مستحق ہو جائیں گے۔ نہیں، ہر گز نہیں! توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں اور مصیبتوں پر دل پوری طرح نادم وپشیمان ہو اور آئندہ کے لیے دل سے یہ قطعی اور حتمی فیصلہ ہو کہ اب یہ غلطی او رمعصیت نہ ہو گی۔
ہاں!اگر لغزش بشری سے پھر وہی خطا ہو جائے تو پھر ایسی ہی توبہ کر لے، الله پاک بخشنے والا او رحمت فرمانے والا ہے، بہرحال توبہ کے وقت دل کی ندامت وپشیمانی اور اپنی سابقہ غلط کاریوں پر رنج وملال اور آئندہ کے لیے گناہوں سے اجتناب کا صادق عزم ضروری ہے۔ اس کے بغیر صرف زبان سے ہزار بار بھی توبہ کی جائے تو بے سود ہے۔
خوب یادر کھیے۔ انسان ہر ایک کو فریب دے سکتا ہے اور خود بھی اپنے نفس کے فریب میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ لیکن الله تعالیٰ کو کوئی فریب نہیں دے سکتا۔ ” وہ علیم بذات الصدور“ ہے، خوب جانتا ہے کہ آپ کی توبہ اور آپ کی طلب مغفرت صرف زبانی ہے یا دل سے ہے۔
اب میں اس سلسلے کو ختم کرتا ہوں اور آخر میں اپنے الله سے اپنے گناہوں کی معافی او رمغفرت چاہتا ہوں۔ اور آپ کے لیے بھی اس سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتا ہوں۔ آپ بھی اپنے لیے اور میرے لیے اسی کی دعا فرمائیں اور اپنی دعاؤں میں میرے ان مرحوم بھائی کو بھی شریک کریں جن کے دفن کرنے ہی کے لیے ہم آپ اس وقت یہاں جمع ہیں۔

Flag Counter