Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

13 - 15
***
اسلام میں وضع قطع کی اہمیت
محترم محمد شفیق اعوان
جو لوگ مغربی تہذیب کے دل دادہ، شیدائی اور اسلام کی حدود وقیود سے آزاد ہوناچاہتے ہیں ، وہ سب سے پہلے عیسائیوں اور یہودیوں کی شکل وشباہت اپنانے، انہیں جیسا لباس وپوشاک اختیار کرنے اور اپنی تمام تر سعی وکوشش دین اسلام کے تشخص کو مٹانے میں صرف کرتے ہیں ، تاکہ آئندہ اقدامات کے لیے راہ ہموار اور راستہ صاف ہو جائے اور زبانی دعویٰ اسلام کے ساتھ مغربی تہذیب وتمدن اپنانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے۔ یعنی نام کے اعتبار سے تو مسلمان کہلائیں لیکن رہن سہن، وضع قطع، ہیئت ولباس اور شکل وصورت میں انگریز بنے رہیں۔
حضرات فقہا ومتکلمین نے مسئلہ تشبہ بالکفار کو باب الارتداد میں شمار کیا ہے، یعنی ایک مسلمان جن چیزوں سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، ان میں سے ایک چیز تشبہ بالکفار بھی ہے، جس کے مختلف درجات ومراتب ہیں اور ہر ایک کا حکم جداگانہ ہے۔
تشبہ کی حقیقت
الله تعالیٰ شانہ نے زمین سے آسمان تک، خواہ حیوانات ہوں یا نباتات وجمادات، سب کی صورت وشکل علیٰحدہ بنائی، تاکہ ان میں امتیاز رہے ، کیوں کہ امتیاز کاآسان ذریعہ ظاہری شکل وصورت اور ظاہری رنگ وروپ ہے ، انسان او رجانور میں، شیر اور گدھے میں ، گھاس اور زعفران میں، باورچی خانہ اور پاخانہ میں ، جیل خانہ اور شفا خانہ میں جو امتیاز ہے وہ دوسری چیزوں کے علاوہ اس ظاہری شکل وصورت کی بنا پر بھی ہے، مثلاً اگر کوئی مرد ، مردانہ خصوصیات اور امتیازات چھوڑ کر زنانہ خصوصیات اختیار کر لے، عورتوں جیسا لباس، انہیں کی طرح بودوباش او رانہی کی طرح بولنے لگے ، حتی کہ اس مرد کی تمام حرکات وسکنات عورتوں جیسی ہو جائیں تو وہ شخص ، مرد نہ کہلائے گا، بلکہ مخنث اور ہیجڑا کہلائے گا، حالاں کہ اس کی حقیقت رجولیت میں کوئی فرق نہیں آیا، اس نے صرف لباس وہیئت میں تبدیلی کی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اگر اس مادی عالم میں خصوصیات او رامتیازات کی حفاظت نہ کی جائے اور التباس واختلاط کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کسی نوع کا اپنا علیٰحدہ تشخص اور وجود باقی نہ رہے گا۔
اسی طرح اقوام اورامم کے اختلاف کو سمجھنا چاہیے کہ مادی کائنات کی طرح دنیا کی قومیں اپنے معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا ہیں ، مسلم قوم، ہندوقوم، عیسائی قوم اور یہودی قوم باوجود ایک باپ کی اولاد ہونے کے مختلف قومیں کیوں اور کیسے بن گئیں ؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہر قوم کا عقیدہ وعبادت، تہذیب وتمدن اور اس کا طرز لباس وپوشاک اور طریق خوردونوش دوسری قوم سے جدا ہے باوجود ایک خدا ماننے کے ہر ایک کی عبادت کی شکل وصورت علیٰحدہ ہے، عبادات کی انہیں خاص خاص شکلوں اور صورتوں کی وجہ سے مسلم، کافر سے اور موحد،مشرک اور بت پرست سے علیٰحدہ جانا اور پہچانا جاتا ہے او رایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے ۔جب تک ہر قوم اپنی مخصوص شکل اور ہیئت کی حفاظت نہ کرے، قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہ سکتا، پس جب تک کسی قوم کی مذہبی اور معاشرتی خصوصیات باقی ہیں ، اس وقت تک وہ قوم بھی باقی ہے او رجب کوئی قوم کسی دوسری قوم کی خصوصیات اختیار کر لے اور اس کے ساتھ خلط ملط اور مشتبہ ہو جائے تو یہ قوم اب فنا ہو گی اور صفحہٴ ہستی پر اس کا وجود باقی رہنا ناممکن ہو جائے گا۔
تعریف تشبہ
اتنیمعروضات کے بعد تشبہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیازی اختیار کر لینے کا نام تشبہ ہے۔
اپنی او راپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنالینے کا نام تشبہ ہے۔
اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کر دینے کا نام تشبہ ہے۔
اس لیے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلمان قوم ظاہری طور پر دوسری قوم سے ممتاز ہو ، لباس میں بھی ممتاز اور وضع قطع میں بھی ممتاز ہونی چاہیے۔ مسلمان مرد کے چہرہ اور جسم پر کسی علامت کا ہونا ضروری ہے ، جس سے پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہے ، سو وہ داڑھی اور لباس ہے ۔ بغیر داڑھی کے ایک مسلمان شخص کی شناخت نہیں ہو سکتی۔ معلوم ہوا کہ اسلامی امتیاز کے لیے مسلمان مرد کے لیے داڑھی ضروری ہے۔
کافروں کی مشابہت سے ممانعت اور اسلامی خصوصیات اور امتیازات کی حفاظت کا منشا معاذ الله! تعصب اور تنگ نظری نہیں ، بلکہ اسلامی غیرت وحمیت اور ملت اسلامیہ کو کفر والحاد اور زندقہ سے بچانا مطلوب ہے، ورنہ ملت اسلامیہ آزاد اور مستقل قوم کبھی نہیں کہلاسکتی۔
تشبہ کی اقسام او ران کے احکام
اعتقادات او رعبادات میں کفار ومشرکین کی مشابہت کفر اور ارتداد کا سبب ہے، جیسے ہندو دو خدا اور عیسائی تین خدا کے قائل ہیں ، اسی طرح خالق، مالک، مدبر اور عبادت کے لائق انبیا، اولیا، ملائکہ اور جنوں وغیرہ کو سمجھنا۔
مذہبی رسومات میں کفار کی مشابہت حرام ہے۔ جیسے نصاری کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا یا ہندوؤں کی طرح زنا رباندھنا یا پیشانی پر سندور لگانا۔ ان چیزوں کی استعمال کی حرمت کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال میں کفر کا اندیشہ بھی ہے ، کیوں کہ علانیہ کفر یہ شعائر کا اختیار کرنا قلبی تعلق او ر رضا کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
تشبہ کی یہ قسم اگرچہ قسم اول سے درجہ میں کم ہے ، مگر پیشاب اور پاخانہ میں فرق ہونے سے کیا کوئی پیشاب کا پینا گوارا کرلے گا؟ ہر گز نہیں۔
معاشرت، عادات اور قومی شعائر میں کفار کا تشبہ مکروہ تحریمی ہے ، مثلاً کسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص اس قوم کی طرف منسوب ہو ، جس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے، جیسے نصرانی ٹوپی یعنی ہیٹ ٹائی وغیرہ اور ہندوانہ دھوتی اور جوگیانہ جوتی یہ سب ناجائز ممنوع اور تشبہ میں داخل ہیں ، جب کہ بطور تفاخر یا عیسائیوں، ہندوؤں اور دوسرے کافروں کی وضع بنانے کی نیت سے ہو تو اور بھی زیادہ گنا ہ ہے۔
باقی کافروں کی زبان او ران کے لب ولہجہ اور طرزِ تکلم کو اس لیے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں او ران کے زمرہ میں داخل ہو جائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہو گا۔ ہاں !اگر انگریزی زبان سیکھنے سے انگریزوں کی مشابہت مقصود نہ ہو ، بلکہ محض زبان سیکھنا مقصود ہو،تا کہ کافروں کی غرض سے آگاہ ہو سکیں او ران سے تجارتی اور دنیاوی امور میں خط وکتابت کر سکیں تو پھر انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ایجادات، اسلحہ اور سامانِ جنگ میں غیروں کے طریقے اپنانا جائز ہے، جیسے توپ، بندوق اور ہوائی جہاز، موٹر اور مشین گن وغیرہ، کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے ایجادات کے طریقے نہیں بتلائے، ایجادات اور صنعت وحرفت کو لوگوں کی عقل ، تجربے او ران کی ضرورت پر چھوڑ دیا، البتہ اس کے احکام بتلا دیے کہ کون سی صنعت وحرفت جائز ہے اور کس حد تک جائز ہے۔
اسلام میں مقاصد کی تعلیم دی گئی ہے، اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایجادات ایسی نہ ہوں کہ جس سے تمہارے دین میں خلل آئے یابلاسبب جان کا خطرہ ہو اور وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جن کا بدل مسلمانوں کے پاس نہیں۔ اور اگر وہ ایجادات ایسی ہوں کہ ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے تو اس میں تشبہ مکروہ ہے جیسے حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فارسی کمان کے استعمال سے منع فرمایا، اس لیے کہ اس کا بدل مسلمانوں کے پاس عربی کمان موجود تھی اور دونوں کی منفعت برابر تھی ، صرف ساخت کا فرق تھا۔ ( سیرت المصطفی، ج3 ص:401)
اسلام تعصب کا درس نہیں دیتا، بلکہ حمیت وغیرت سکھاتا ہے۔ پس جو چیز مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور وہی چیز کفار کے پاس بھی ہے ، محض وضع قطع کا فرق ہے تو ایسی صورت میں اسلام نے تشبہ بالکفار سے منع فرمایا ہے ، کیوں کہ اس صورت میں بلاوجہ مسلمانوں کا دوسری قوموں کا محتاج ہونا نظر آتا ہے۔
ایک کام جائز او رمباح ہے ، لیکن کافروں کی مشابہت کی نیت اور دشمنانِ دین سے تشبہ کے قصد سے ہو تو شریعت اس کو بھی منع کرتی ہے، کیوں کہ دشمنان دین کے ساتھ تشبہ کی نیت سے کوئی کام کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں کافروں کی طرف میلان اور رغبت ہے ، پس جس طرح کسی کو اپنے دشمنوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت گوارا نہیں اسی طرح خدا وند قدوس کو یہ گوار انہیں کہ اس کے دوست اور اس کے نام لیوا یعنی مسلمان اس کے دشمنوں یعنی کافروں کی مشابہت اختیار کریں ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار> (ہود:113)
ترجمہ…” اور نہ جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ“۔
اور کفار کی مشابہت سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تمہارے دل بھی ان کے دلوں کی طرح سخت نہ ہو جائیں اور کہیں قبول حق کی صلاحیت ہی نہ ختم ہو جائے۔
علامہ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب الزواجر عن افتراق الکبائر میں حضرت مالک بن دینارؒ سے ایک نبی کی وحی نقل کی ہے :
”قال مالک بن دینار: اوحی الله الی النبی من الانبیاء ان قل لقومک: لاتدخلوا مداخل اعدائی، ولایلبسوا ملابس اعدائی، ولا یرکبوا مراکب اعدائی، ولا یطعموا مطاعم اعدائی فیکونوا اعدائی کما ھم اعدائی“ ( الزواجرعن افتراق الکبائر ،ج1 ص:11)
ترجمہ…” مالک بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین میں سے ایک نبی کی طرف الله تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میرے دشمنوں کی جگہوں میں نہ داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں ( ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہو کہ ان کا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہونے لگے۔“
یہی مضمون قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: ( مائدہ:51)
یعنی جو کفار سے دوستی کرے گا انہی میں شمار ہو گا۔ اور حدیث نبوی میں بھی ہے :
” من تشبہ بقوم فھو منھم“ (ابوداؤد ج2 ص:559)
یعنی ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہو گا“۔
دعوی ٰ اسلام کا ہے ، مگر لباس ، طعام، معاشرت، تمدن ، زبان اور طرز زندگی سب کا سب اسلام دشمنوں جیسا۔ جو لوگ اسلام کے دشمنوں کی مشابہت کوموجب عزت وفخر سمجھتے ہوں، اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی پروا۔
بلاضرورت کا فر قوم کا لباس اختیار کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ الله! ہم زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ لاؤ !ہم بھی کافر بنیں، اگرچہ صورت ہی کے اعتبار سے کیوں نہ بن جائیں۔
میرے خیال میں لوگ انگریزی وضع قطع کو اس لیے اپناتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وضع قطع اہل حکومت اور اہل شوکت کی ہے اور جب ہم انگریزوں کے ہم شکل بنیں گے چاہے وہ لباس کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو تو عزت ملے گی ۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ عزت اور ذلت الله کے پاس ہے، جیسا کہ ارشاد ہے۔ (المنافقون:8)
ترجمہ…” کیا ڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت سو عزت تو الله ہی کے واسطے ہے ساری“۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
ولله العزة ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون> (المنافقون:8)
ترجمہ:” اور زور تو الله کا ہے او را س کے رسول کا اور ایمان والوں کا، لیکن منافق نہیں جانتے۔“
الغرض جوکسی کا عاشق بنے گا اس کو معشوق کی چال ڈھال، وضع قطع، سیرت وصورت اور لباس اپنانا پڑے گا، اب اختیار ہے کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور مؤمنین کے عاشق بن جاؤ یا یورپ کے عیاشوں اور اوباشوں کی معاشرت، تہدیب وتمدن اور رہن سہن کے طریقے اپنا کر الله اور اس کے رسول کو ناراض کردو #
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

Flag Counter