Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

15 - 15
***
مقصد حیات
مولانا طارق جمیل
وہ صحابی رضی الله عنہ رونے لگے اور عرض کی: یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! اس کا حل یہی ہے کہ میں اسے آزاد کرتا ہوں ۔ یہاں تک کہ تراز و قائم کیا جائے۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک زندگی لائے کہ جس زندگی کا نام اسلام ہے … جو ہماری پہچان ہے … جس کو ہم نے سیکھا نہیں… ماں باپ کو تو فرصت ہی نہیں تو انہوں نے اولاد کو کب سکھایا؟… والدین کمائیوں پر چلے جاتے ہیں اور بچے اسکول چلے جاتے ہیں … بچے واپس آتے ہیں تو ٹیوشن چلے جاتے ہیں … وہاں سے آتے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں … نہ کبھی ماں نے بچوں کو بٹھا کر سمجھایا اور نہ کبھی باپ نے سمجھایا کہ دنیا میں ہم کیوں آئے ہیں اور مقصد کیا ہے؟
لوگ تو ہمیں کہتے ہیں کہ تبلیغ والے بچوں کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں … بچوں کوٹائم نہیں دیتے… میں کہتا ہوں یہ جو گھروں میں رہتے ہیں یہ بچوں کو کتنا ٹائم دیتے ہیں … دیانت داری سے بتائیں…
صرف آئس کریم کھلانے لے جانا… مری لے جانا… یہ تو کوئی ٹائم دینا نہیں ہے … یہ تو عیاشی ہے جو ماں باپ نے بھی کی … بچوں نے بھی کی … ٹائم دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو بتایا جائے تم ہو کیا؟… کس لیے آئے ہو؟ … کیا مقصد ہے؟…
ایک بچے کا خوف جہنم
حضرت بہلول ؒ گزر رہے تھے، ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔
اس بچے نے کہا: بہلول! کیاہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟
ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟
بچے نے کہا: الله تعالیٰ کی عبادت کرنے آئے ہیں …
انہوں نے کہا بچے! … ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو …تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے، ابھی تو تمہارا اس منزل میں آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے …
تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے … میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے… اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے ۔
یہ سن کر بہلول توبے ہوش ہو کر گر گئے۔
کسی ماں نے اس بچے کو وقت دیا تھا۔
عورت کے معنی ومقام
آپ لوگ کتنا وقت دیتے ہیں اپنے بچوں کو… جس میں آپ انہیں مقصد زندگی سمجھائیں؟ اسکول وکالج تو ہمارے بچوں کو کچھ نہیں سمجھا رہے… وہ تو کمائی کے طریقے سمجھا رہے ہیں… انسانیت تو نہیں سکھا رہے … ان کو انسان ہونا کب سکھا رہے ہیں؟
بھائیو!… اس وقت ہم وقت مانگتے ہیں … ماں باپ کی ایک ذمے داری ہے … الله تعالیٰ نے عورت کو گھر میں بٹھایا ہے تو کس لیے بٹھایا ہے ۔ فارغ نہیں ہے، بلکہ بہت بڑا کام دیا ہے … انسانیت کی نرسری کو تیار کرنے کا کام ہماری عورت کو ملا ہوا ہے … اس لیے سارے کام الله تعالیٰ نے مرد کے ذمے رکھے کہ کما کے بھی لاؤ … بازار سے سودا بھی لا کردو… اور عورت کی ساری ضروریات گھر میں ہی پوری کرو … اور عورت کو پردے میں رکھو۔ اس کا نام ہی ” عورت“ رکھا ہے … اور عورت کہتے ہی پردے کو ہیں۔
اور اس کا اسلام نے ایسا پردہ رکھا ہے کہ اس کے نام کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں فرمایا، چہ جائیکہ وہ بال کھول کر بازار میں پھرے۔
پورے قرآن میں حضرت مریم علیہا السلام کے علاوہ کسی ایک عورت کا نام بھی نہیں آیا۔ آپ الحمد سے شروع کریں اور والناس تک پہنچ جائیں… آپ کو کسی بھی عورت کا نام نہیں ملے گا۔
حضرت مریم علیہا السلام کا نام جو قرآن میں آیا ہے وہ اس وجہ سے آیا ہے کہ ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں نے کہا یہ الله تعالیٰ کا بیٹا ہے ۔ الله تعالیٰ نے اس الزام کو صاف کرنے کے لیے کہا:
ذلک عیسی ابن مریم… سنبھل کر بولو… میرا نہیں ،بلکہ مریم کا بیٹا ہے … ان کے علاوہ کسی کا نام نہیں ہے …امراة فرعون… فرعون کی بیوی… اگر الله تعالیٰ آسیہ کہہ دیتا تو کیا حرج تھا؟… تاریخ میں تو ان کا نام ہے ۔… امراة العزیز… گورنر کی بیوی… اگر الله تعالیٰ زلیخا کہہ دیتا تو کیا حرج تھا؟… تاریخ میں زلیخا کا نام موجود ہے۔… امراة نوح… حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی… امراة لوط… حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی… عورت کا نام خاوند کی نسبت سے آیا ہے… بھائی کی نسبت سے آیا ہے … …
نام صرف مریم کا ہے … علمائے نے اس پر لکھا ہے کہ:
الله تبارک وتعالی اس طرز کلام سے یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ عورت کا نام بھی عورت یعنی چھپا ہوا ہے عورت پردے کی چیز ہے… نام کو بھی بغیر ضرورت کے ظاہر کرنا ناپسندیدہ چیز ہے… تو چہرہ کھول کرپھرنا کہاں سے جائز ہو جائے گا؟…
ویسے تو جائزکرنے کو چوری بھی جائز کروالیں… ہر جگہ ایسے مفتی مل جائیں گے … لیکن ایک وہ مفتی ہے جو اندر بیٹھا ہے… جو کبھی کبھی جب بیدار ہوتا ہے تو پھر پورے وجود کو پریشان کرکے رکھ دیتا ہے … ہم پھر اس کو تھپ تھپا کر سلادیتے ہیں کہ سوجا… سو جا۔تا کہ وہ ہمیں اندر سے دوبارہ پریشان نہ کردے…
تو عورت کو گھر کیوں بٹھایا ہے؟ … امت کی تعمیر کے لیے کہ ایسی نسل تیار کرو جو الله تبارک وتعالی کا دین اور الله تعالی کی بتائی ہوئی پسندیدہ زندگی لے کر ساری دنیا میں چل سکیں۔
مرد تو پہلے ہی سارا دن مصروف ہوتے ہیں … وہ تووقت دے ہی نہیں سکتے، زیادہ وقت تو بچہ ماں کے پاس ہوتا ہے او رمائیں اپنے کاموں میں مشغول ہوتی ہیں… فیڈر بچوں کے منھ میں ہوتا ہے او راسکول جارہے ہوتے ہیں … کیا ظلم ہے … مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری جان چھوٹے…
وہاں سے آئے تو ٹیوٹر کے حوالے… وہاں سے آئے تو ٹی وی کے حوالے… جس کے ذریعے یہود نے ہماری نسل ساری کی ساری خر یدلی ہے اور ایسا بے حیا معاشرہ ہمیں دے دیا جہاں حیا دار ہونا بے عزتی ہو گیا… برقعہ کرنا شرم کی چیز بن گیا ہے اور کھلے منھ پھرنا شرافت کی چیز بن گیا…
یا الله! ہم کس ماحول اور کس معاشرے میں آگئے… جہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ 
کثرت ازدواج میں حکمت
․
بیٹھ جاؤ گھروں میں…
․
یہ تمہارا کام ہے کہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر الله کی کتاب او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی اپنی اولاد کو سکھاؤ اور آنے والی عورتوں کو سکھاؤ… آپ صلی الله علیہ وسلم کی شادیاں زیادہ کرنے میں یہی حکمت تھی ۔ شوق سے نہیں کی ہیں … اگر آپ صلی الله علیہ وسلم شوق سے کوئی شادی کرتے تو پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے دو دفعہ شادی کیوں کی؟
بعض روایت میں تین دفعہ بھی آتا ہے … لیکن دو دفعہ مشہور ہے … حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی دوشادیاں پہلے ہوچکی تھیں اور پہلے خاوندوں سے اولاد بھی موجود ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم پچیس سال کے ایسے حسین نوجوان جن کے بارے میں حضرت حسان رضی الله عنہ کہتے ہیں آپ ایسے بنے ہیں جیسے آپ نے خود چاہا۔
ایسے خوب صورت کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے کہا! حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر عورتوں نے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے … اگر وہ میرے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتیں تو سینوں پہ چھریاں چلا دیتیں…
حضرت جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم مسجد میں بیٹھے تھے اور چودھویں کا چاند چمک رہا تھا… آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار چادر اوڑھی ہوئی تھی… تو ہم کبھی چاند کو دیکھتے او رکبھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھتے … الله کی قسم! آپ کا چہرہ چاند سے زیادہ خوب صورت نظر آرہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں گھر میں کپڑاسی رہی تھی اور سوئی گر گئی … اندھیرا تھا… میں نے تلاش کیا ،ملی نہیں … اتنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم اندر تشریف لے آئے تو آپ صلی اللهعلیہ وسلم کے چہرے کیشعاعوں سے سوئی چمکنے لگی …
ایسے حسین کو کیا کوئی کنواری عورت نہیں ملتی تھی … چالیس برس کی عورت سے شادی کی اور جب آپ نے اپنے سے پندرہ سال بڑی عورت کے ساتھ گزارے اور پھر تین بر س ایک بیوہ حضرت سودہ رضی الله عنہا کے ساتھ گزارے ترپن سال کی عمر تک آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیواؤں سے نکاح کیے ہیں … اور جب بڑھاپا آیا او رموت دستک دینے لگی تو …
پھر تیسری … پھر چوتھی … پھر پانچویں… پھر چھٹی… پھر ساتویں… پھر آٹھویں… پھر نویں… پھردسویں… پھر گیارہویں…
یہ کوئی شوق کی شادیاں ہیں؟ … بڑھاپے میں بھی کوئی شادیوں کا شوق کرتا ہے؟ … یہ ضرورت کی شادیاں تھیں کہ مدینہ اور دور دراز تک اسلام پھیل چکا تھا… عورتیں بھی آرہی ہیں… مرد بھی آرہے ہیں اسلام سیکھنے کے لیے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم عورتوں کے سامنے تو جانہیں سکتے تھے… اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی بیویوں کو بتاتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں تو حلقے لگے ہوتے تھے…
آپ صلی الله علیہ وسلم کی دو بیویاں تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں… حضرت خدیجہ رضی الله عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی الله عنہا… باقی آپ صلی الله علیہ وسلم کی نو بیویاں ہیں اور نوکی نو کے گھر میں دین کا علم سکھایا جارہا ہے… حدیث سکھائی جارہی ہے … چوں کہ وہاں تو گھر کی صفائی کا کام ہے …اور نہ برتن دھونے کی فکر ہے … کیوں کہ دو دو مہینے تو چولہا ہی نہ جلتا تھا… اور نہ کڑھائی کا کام ہے کہ جوڑا ہی ایک ہے … اور نہ کوئی ڈیکوریشن ہے کہ سوائے ایک لحاف کے ہے ہی کچھ نہیں…
آپ صلی الله علیہ وسلم کا فقر
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے گھر میں ایک عورت آئی تو دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رضائی پھٹی ہوئی تھی… وہ گئی اور ایک نئی رضائی پھول دار بھیجی اور کہا یہ میری طرف سے قبول کر لیں … حضرت عائشہ رضی الله عنہا بہت خوش ہوئیں… کیوں کہ عمر بھی ابھی چھوٹی تھی … حضور صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو پوچھا عائشہ یہ کیا ہے؟
حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! آپ کی رضائی پھٹی ہوئی دیکھ کر یہ فلاں انصار ی بہن نے مجھے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے ہدیہ بھیجا ہے …
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ ! اگر میں چاہتا تو احد پہاڑ میرے لیے سونا بن کر حاضر ہو جاتا … میں نے تو اس زندگی کو خود ٹھکرایا ہے … یہ رضائی واپس کر دو ۔
اب حضرت عائشہ رضی الله عنہا لاڈلی بھی تھیں… عرض کیا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم) مجھے بہت اچھی لگی ہے … میں کیوں واپس کروں؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! رسول (الله صلی اللهعلیہ وسلم) اور یہ رضائی ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتے…
آپ صلی الله علیہ وسلم نے واپس کروادی… تو گھر میں کوئی سامان ہی نہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی الله عنہا کے لیے مشغولی کا سبب بنے تو کیا کا م تھا؟
نسل کی تعمیر… انسانیت کی تعمیر… جو آج کی عورت کی اپنی ہی نہیں ہوتی تو وہ اولاد کی کیا تربیت کرے گی؟
ایمانی زندگی سیکھیں
تو اس لیے ہم کہتے ہیں نکلو… پہلے ہم خود ایمانی زندگی سیکھیں… اس کی حدود سیکھیں… اس کی ترتیب سیکھیں… پھر آکر اپنی اولاد کو سکھائیں… اور خصوصا اپنی بچیوں کو سکھائیں… ہم جانور تو ہیں نہیں کہ جنگل میں رہیں… بلکہ ہم انسان ہیں … ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے … کسی کی بیٹی گھر آئے گی اور کسی کے گھر میں ہماری بیٹی جائے گی… تو اگر انہو ں نے انسانیت نہیں سیکھی ہوئی تو دیکھو! آج گھروں میں کتنی سرد آگ ہے، جو سلگ رہی ہے اور ہڈیاں تک جل رہی ہیں … اس لیے کہ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معاشرت سیکھی ہی نہیں … صرف گھروں کو دیکھا … پیسہ دیکھا … اور شادیاں کر دیں … یہ نہیں دیکھا کہ انسان بھی بنے ہوئے ہیں یا نہیں… انسان تو بنتا ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کو سیکھنے سے۔
تو اس لیے گزارش ہے کہ ہم اپنی زندگی کا کچھ رخ بنائیں… اپنے آپ کو آزادنہ سمجھیں… ہمارے پیچھے ایک بہت بڑی طاقت ور ذات ہے… جو ہمارے ہر عمل پر نگران ہے … ہم وہ عمل کریں جس سے وہ راضی ہو جائے … اور اسی کو ہم سیکھنے کے لیے نکلتے ہیں … آپ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں بھی گزارش ہے کہ میری بات پر غور کریں… میں یہ بات بتانے آیا ہوں کہ ہم غلط راہ پر چل پڑے ہیں… کہیں رک جائیں… رک جائیں۔
آدمی راستے پر چلتے چلتے اگر بھٹک جائے تو رک جاتا ہے او رکسی سے پوچھتا ہے کہ مجھے سعید کالونی جانا تھا ،اس کاراستہ کس طرف ہے … تو ہم بھی رکیں اور پوچھیں یا الله! وہ زندگی کون سی ہے جسے تو چاہتا ہے؟ … وہ کون سی ہے … جسے تیرا رسول صلی الله علیہ وسلم چاہتا ہے؟ اسے ہم زندہ کریں … یہ بات گھر بیٹھے ہاتھ میں نہیں آتی … اس لیے نکالا جاتا ہے …
ایک دن کے لیے آپ کے محلے میں آنا الله نے ہمارے مقدر کر دیا تھا تو یہ میں امانت سمجھ کر آپ سے عرض کر رہا ہوں۔
بھائیو! اپنی آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹاؤ اور اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو … جب یہ آنکھیں بند ہو جائیں گی اور ہم بالکل الله کے رحم وکرم پر ہوں گے … ہمارے مرد بھی تیاری کریں … ہماری عورتیں بھی تیاری کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس پر تیار کریں …
گزارش یہ ہے کہ ہر ہر عورت اپنے گھر کو مسجد بنا دے اور پورے گھر میں کوئی بے نمازی نہ ہو …
اور گھر میں اگر کوئی لڑکی ہے تو بے پردہ نہ ہو …
لڑکا ہے تو حیا والا ہو ۔
قرآن کی تلاوت زندہ ہو جائے ۔
اور اپنے مردوں سے کہو کہ ہمیں حلال کھلاؤ … حرام نہ کھلاؤ … روکھی سوکھی ہو، لیکن حلال کی ہو … ہمیں جھوٹ کا پیسہ نہیں چاہیے … ہمیں سود کا پیسہ نہیں چاہیے … غلط تجارت کا پیسہ نہیں چاہیے، جو کل کو ہمیں الله تعالیٰ کی نظروں میں گرادے…
عورتوں کے لیے تین دن ہیں ، اپنے خاوند اور محرم کے ساتھ … یعنی باپ یا بھائی کے ساتھ نکلیں… اگر دو تین مہینے کے بعد تین تین دن عورتیں لگاتی رہیں گی تو ان شاء الله دین پر چلنے کی استعداد پیدا ہوتی رہے گی… اور یہی استعداد پھرپورے ماحول پر اثر انداز ہو گی … اور لوگ بھی آپ سے اثر لے کر دین کے راستے پر چلنا شروع کر دیں گے۔
وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین۔
Flag Counter