Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

12 - 15
***
اسلامی مدارس کا مقصد
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
مولانا محمد حذیفہ وستانوی الحمد للہ! اللہ رب العزت نے انسان کو عقل عطا کی ہے اور عقل عطا کرنے کا مقصد ہی تمیز بین الخیر و الشر ہے، یعنی اس عقل کے سہارے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقلمند کا ہر کام بامقصد ہوتا ہے، وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے، مقصد کی تعیین کرتا ہے، تاکہ اس کی محنت اکارت نہ ہو؛ جیسے کوئی انسان دکان خریدتا ہے، تو مقصد اس میں تجارت کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر وہ اس میں تالا لگا دے تو لوگ بے وقوف کہیں گے، کہ عجیب آدمی ہے، دکان خریدی یا بنائی اور ایسے ہی تالا لگائے پڑی ہے، تو تعجب کیوں؟ مقصد سے ہٹنے پر۔ ایسے ہی اللہ رب العزت نے انسان بنایا اور اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا، تو تخلیق انسانی کا مقصد بھی بیان کردیا میں نے انسان اور جنات کو محض اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا۔ تو معلوم ہوا کہ مقصد حیات انسانی، عبادت خداوندی ہے، بقیہ امور مثلاً :کمانا، کھانا پینا، سونا وغیرہ، مقصد نہیں، بلکہ ضرورت اور حاجت ہے، اگر کوئی انسان عبادت جل مجدہ سے منہ موڑ کر محض کھانے، پینے، کمانے اور سیر و تفریح، کھیل کود میں لگ جائے، تو اس کا مطلب وہ اپنے مقصد سے ہٹ کر زندگی بسر کررہا ہے۔ اسی لیے اس کا انجام جہنم اور عذاب ہوگا۔ جیسے قلم لکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے،لیکن اگر ایک مدت تک اسے استعمال نہ کیا جائے تو وہ بے کار ہو جاتا ہے۔ اب جب یہ بات سمجھ میں آگئی، تو آیئے! مدارس کے قیام کا مقصد اور پس منظر بھی معلوم کرتے چلیں، تاکہ بعض روشن خیال ، نام نہاد دانشور اور مدارس اور مسلمانوں کے نادان خیرخواہوں کو بھی بات سمجھ میں آجائے اور وہ مدارس سے ڈاکٹرز، انجینئر اور سائنس داں پیدا کرنے کی خواہش ترک کردیں اور خود اپنے گریباں میں جھانکیں کہ معاشرے کو خاص طور پر مسلمان معاشرے کو جو ڈاکٹرز، سائنس داں اور انجینئرز وغیرہ نہیں مل رہے ہیں، اس میں قصور ان کا ہے، مدارس کا نہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں نے ایک روزنامہ میں پڑھا کہ اتنے کثیر تعداد میں مدارس ہونے کے باوجود پچھلے نوسو سال میں مدارس نے کوئی خوارزمی، خیام، رازی امت کو نہیں دیا، تو مجھے بڑا عجیب سا معلوم ہوا ،کچھ ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی؛ تو میں نے قلم اٹھایا اور ارادہ کرلیا کہ ان جیسے مقالہ نگاروں کے سامنے مدارس کا مقصد بیان کردینا ضروری ہے، تاکہ امت، خلطِ مبحث کا شکار نہ ہوجائے، امید ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کریں گے۔
قیام مدارس کا پس منظر
1857ء میں متحدہ ہندوستان کے باشندوں کی مسلح تحریک آزادی ناکام ہوگئی اور ہندوستان میں برطانوی حکومت باضابطہ قائم ہوگئی، تو اس نئی برطانوی ظالم حکومت نے دفتروں اور عدالتوں سے فارسی اور عربی زبان کی بساط لپیٹ دی، اس کے ساتھ ساتھ دیگر علومِ اسلامیہ کا بھی، خاص کر فقہ اسلامی، تفسیر، حدیث کی تعلیم دینے والے مدارس کے معاشرتی کردار پر بھی خطِ نسخ کھینچ دیا گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں مدارس اس نو آبادیاتی فیصلے کی نذر ہوگئے، ایسے سنگین حالات میں حکیم ا لامت حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی جماعت کے بچے کھچے درویش صفت بزرگوں نے دیوبند، سہارنپور، مرادآباد اور ہاٹ ہزاری میں دینی مدارس کے، ایک رضاکارانہ اور پرائیویٹ سلسلے کا آغاز کیا۔ جو ان بزرگوں کے خلوص اور معاشرے کی دینی ضرورت کے باعث بہت جلد ایک مربوط اور منظم نظام کی شکل اختیار کر گیا اور جنوبی ایشیا کے کونے کونے میں ایسے مدارس کا جال بچھ گیا اور اب تو ماشاء اللہ صرف ہندوستان اور جنوبی ایشیا ہی نہیں، بل کہ برطانیہ، امریکہ، کنیڈا، جرمنی، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور اب عرب ممالک میں بھی اس کے قیام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، بل کہ قائم کیے جارہے ہیں، اور کیے جاتے رہیں گے (انشاء اللہ)، کیوں کہ اس کا مقصد بڑا ہی پاکیزہ اور مقدس ہے #
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 
قیام مدارس کا مقصد
اہلِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، شخصی و معاشرتی تمام معاملات میں وحی الٰہی کے پابند ہیں اور اخروی نجات کے ساتھ ساتھ ان کی دنیاوی کامیابی اور فلاح بھی آسمانی تعلیمات کی پیروی پر موقوف ہے، اہلِ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کے تمام انبیا کی تعلیمات کو حق مانتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ اور قرآن کریم وحی الٰہی کا فائنل ایڈیشن ہے اور وہ مکمل محفوظ ہے؛ باقی تمام کتابیں عدم حفظ کا شکار ہیں، لہٰذا راہِ حق کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور سبیل ہی نہیں۔ اس پس منظر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کا قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ ہونا، اس کے دینی فرائض میں شامل ہے؛ لہٰذا دنیا پر استعماری طاقتوں کے تسلط سے پہلے مسلمانوں کی مذہبی حکومت اور قیادت ہی دینی تعلیم کے فروغ کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتی تھی، لہٰذا اس کے لیے جو کچھ ہو، کر گذرتی تھی، اس میں کوتاہی نہیں کرتی تھی، مگر استعمار کے تسلط کے بعد مذہبی تعلیمات علماً و عملاً صحیح طور پر باقی رکھنے کے لیے رضاکارانہ طور پر مدارس کی صورت میں پرائیویٹ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی گئی، قیام مدار س سے اکابر کا اصل مقصد،اسلامی معاشرہ میں دینی تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے معاشرہ میں مساجدومدارس کو رجال کار کی فراہمی تھا، تاکہ دینی تعلیم کا سلسلہ بلا کسی تعطل وخلا کے چلتا رہے۔ الحمدللہ! مدارس اپنے مقصدمیں کامیاب ہیں، خود علامہ اقبال نے مدارس پر اعتراض کرنے والوں سے کہا تھا کہ” ان مدارس کو اسی حالت پر کام کرنے دو۔ اس نے ہندوستان کو اسپین ہونے سے بچالیا ہے“۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ مدارس، ضرورت کے بقدر انگریزی کمپیوٹر وغیر ہ تو اپنے نصاب میں داخل کرسکتے ہیں مگر مدارس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ڈاکٹر زاور انجینئر معاشرہ کو فراہم کریں۔ بقول حضرت مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم، ایسا ہی ہے جیسے کسی میڈیکل کالج کے نصاب میں انجینئرنگ کی کتابیں داخل کرنا یا کسی انجینئر نگ کالج میں ڈاکٹری کی کتابیں داخل کرنا۔ ظاہرہے کہ اس کو حماقت تصور کیا جاتاہے، تو مدارس سے یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے آم کے درخت سے انار یا انگور کی امید رکھنا۔ 
بہر حال اس مضمون کا مقصد ،صرف قیام مدارس کا بیان کرنا تھا جو اختصارا بیان کردیا گیا، الحمد للہ! مدارس اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اور انشاء اللہ کامیاب رہیں گے، ان ہی مدارس نے حضرت تھانویؒ ،حضرت گنگوہیؒ، قاضی مجاہد الاسلامؒ، مولانا علی میاں ندویؒ، مولانا تقی عثمانی، مفتی شفیع صاحبؒ، علامہ ادریس کاندھلویؒ، علامہ بنوریؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ ظفر عثمانیؒ، شیخ زکریاؒ، قاری طیب صاحبؒ، حضرت مدنیؒ ، علامہ کشمیر یؒ ، عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا منظور نعمانیؒ، وغیر ہ رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے اساطین علم وفضل امت کو عطا کیے اور کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان ہی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ 
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو 
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ڈاکٹرز اور سائنس داں کا مطالبہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ سے کرو،جو اسی مقصدپر قائم کیے گئے تھے ، کہ ہم امت کو انجینئرز، ڈاکٹرز اور سائنس داں دیں گے، اگر ان مدارس سے بے جا مطالبات کرنے والوں کو شکایت ہی ہے۔
مدارس نے امت کو کیا دیا؟
مدارس کیسے چلتے ہیں اور انہیں کیسے چلا یاجاتا ہے، اسے تو اللہ ہی خوب بہتر جانتے ہیں، کتنی قربانیوں اور کیسے کیسے طعنوں اور دربدر کی ٹھوکروں کے نتیجہ میں یہ اپنی خدمات میں مصروف ہیں ، وہ کوئی پوشیدہ نہیں، سبھی جانتے ہیں، ایک طرف اعد ائے اسلام ان کو ”بنیاد پرست“ ، ”رجعت پسند“ ، ”دہشت گرد“، ”قدامت پسند“ کا طعنہ دیتے ہیں اور دوسری جانب روشن خیال مسلمان جو مدارس کے نادان دوست ہیں، وہ اپنی خطاوٴں سے مدارس کو مورد الزام ٹھہرادیتے ہیں ، انجینئرز اور ڈاکٹر زاور سائنس داں پیداکرنے کا بیڑا ہم اہلِ مدارس نے لیا ہی کہاں ہے؟ یہ بات الگ ہے کہ دینی مدارس اب نونہالانِ امت کے ایمان کو بچانے کے لیے دینی ماحول میں عصری تعلیم کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، مگر اس پر بھی امت کا ایک طبقہ ان کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ عجیب صورت حال، امت کو ہر جانب سے مدارس ہی کو نشانہ بنانے کی سوجھتی ہے، مگر مدارس الحمد للہ ! اللہ کی توفیق اور مدد سے برابر اپنی خدمت میں بلاکسی لومة لائم کی پرواہ کیے مصروف کا ر ہیں؛ اللہ، ہمارے ان مدارس کو ہر طرح کی داخلی وخارجی ،ظاہری وباطنی سازشوں اور فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین یارب العالمین !
مدارس نے امت کو یہ دی
لاکھوں نادار افراد کو تعلیم سے بہرہ ور کیا۔معاشرے میں بنیادی تعلیم اور خواندگی میں معقول اضافہ کیا ۔قرآن وسنت کی تعلیم اور دینی علوم کی اشاعت وفروغ میں کلیدی کردار اداکیا۔عام مسلمانوں کو دینی رہنمائی اور مذہبی تعلیم کے لیے رجال کار فراہم کیے۔عام مسلمانوں کے عقائد وعبادات واخلاق اور مذہبی کردار کو تحفظ فراہم کیا ۔اسلام کے خاندانی نظام اور کلچر اورثقافت کی حفاظت کی۔اسلامی عقائد اور احکامات کی اشاعت کی اور اس پر ہونے والے اعتراضات وشبہات کا جواب دیا۔اسلام کی بنیادی تعلیمات، عقائد اور احکام کی ہر طرح کی بغاوت اور تحریف سے حفاظت کی اور راسخ العقیدگی کوتحفظ دیا۔مادہ پرستی،اورخودغرضی کے دور میں قناعت اورایثار وسادگی کو مسلمانوں کے ایک طبقہ میں باقی رکھا۔وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کوعملی نمونہ کے طور پر باقی رکھا۔ مذکورہ چیزیں امت کو دیں، دے رہے ہیں اور انشاء اللہ! دیتے رہیں گے۔ اس طرح ان مدارس نے صرف مسلمانوں ہی نہیں، بل کہ پوری نسل انسانی کو آسمانی حقیقی سرچشمہ تک رسائی میں مرکزی کردار اداکرکے، پوری انسانیت کی جانب سے فرض کفایہ اداکیا،لہٰذا ساری انسانیت کو ان مدارس کا ممنون ومشکور ہونا چاہیے۔

Flag Counter