Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

3 - 15
***
اسلامی سزاؤں پر اعتراضات
مفتی مزمل حسین کاپڑیا 
مذہب اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے کا تعلق انسان کے دل سے ہے اور دوسرے حصے کا تعلق انسان کے جسم سے ہے، جس حصے کا تعلق انسان کے دل سے ہے اس کو ایمان کہتے ہیں۔ یعنی انسان اپنے دل سے الله کی وحدانیت، رسولوں کی رسالت اور آخرت کی حقانیت کا اقرار کرتا ہے او رجس حصہ کا تعلق انسان کے جسم سے ہے اس کو عمل کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن اور حدیث میں ایمان اور عمل صالح کا ذکر بکثرت ملے گا۔
پھر اس عمل کے کئی پہلو ہیں، ایک پہلو وہ ہے جو الله اور بندے کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے، جس کو ہم عبادات کہتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور قربانی وغیرہ۔
عمل کا دوسرا پہلو وہ ہے جوبندوں کے آپس کے تعلقات اورمعاملات کو واضح کرتا ہے۔
اس تمہیدی بیان سے مقصود یہ ہے کہ اسلام وہ دین کامل ہے جو الله اور بندوں کے درمیان تعلقات کے ساتھ ساتھ بندوں کے آپس کے تعلقات اور معاملات کے سلسلہ میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
بندوں کے آپس کے تعلقات کے سلسلہ میں اسلام ہمیں عدل وانصاف کی تعلیم دیتا ہے اور عدل وانصاف پر قائم رہنے کی ترغیب دیتا ہے اوراسی کے ساتھ ساتھ اگر کبھی عدل وانصاف کی راہ سے ہٹ کر بندوں کے آپس کے معاملات میں ظلم وزیادتی ہو جائے او رکوئی شخص کسی کی جان یا مال یا عزت یا انسان خود اپنی عقل دین یا اخلاق پر زیادتی کرے تو اسلام نے اس کے ازالہ اور تلافی اور سرزنش کے لیے احکامات بھی صادر کیے ہیں ، انہی احکامات کا ایک حصہ اسلامی حدود وقصاص ہیں۔
اسلامی حدود وقصاص سے کیا مراد ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دراصل اسلامی حدود مختلف قسم کے جرائم او ران جرائم کی سزاؤں سے متعلق اسلامی قانون کا نام ہے ، جس کی بہت سی تفصیلات ہیں، ہم اختصار کے ساتھ ان جرائم اور ہر جرم سے متعلق سزا کا مختصر جائزہ قرآن وحدیث کی روشنی میں لے سکتے ہیں۔
جرائم کی سزاؤں کو معلوم کرنے سے پہلے دو باتوں کا ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔
ایک یہ کہ جرم شریعت کی نظر میں کسے کہتے ہیں ؟ جرم سے مرادیہ ہے کہ جس کام سے شریعت نے منع کیا ہے اسے کرنا یا شریعت نے جس کام کو کرنا ضروری قرار دیا ہے اسے نہ کرنا، یعنی ممنوعہ کام کو کرنا یا ضروری کام کو ترک کرنا، دونوں شریعت کی نظر میں جرم ہیں، مثلاً شریعت نے چوری کرنے سے منع کیا ہے لہٰذا چوری کرنا جرم ہو گا۔ اس طرح شریعت نے نماز پڑھنا ضروری قرار دیا ہے لہٰذا نماز ترک کرنا شریعت کی نظر میں جرم ہے۔
دوسری بات جو ذہن نشین کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جرائمکی جو سزائیں ہیں ان کی نوعیت کیا ہے ؟ یعنی یہ سزائیں شریعت میں الله اور اس کے رسول کی طرف سے مقرر کردہ ہیں یا انسانوں کے اختیار میں ہے کہ وہ جس جرم کی جس قسم کی سزا چاہیں مقرر کر دیں۔
شریعت اسلامیہ میں سزائیں دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ سزائیں ہیں کہ جن کی کیفیت اور مقدار وتعداد شریعت نے مقرر کر دی ہے، جن کو حدود وقصاص کہا جاتا ہے لہٰذا اس نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے پر اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس پر وہ سزا ہی نافذ کرنی ہو گی، جو شریعت نے مقرر کی ہے، اس میں نہ کوئی قاضی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ ہی حاکم وقت کمی بیشی کر سکتا ہے اور نہ کوئی اور شخص، جیسے چور کی سزا یہ ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں یا بد کار کو 100 کوڑے لگائے جائیں لہٰذا ان سزاؤں میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔
دوسری قسم جرائم کی وہ ہے کہ جن کی شریعت نے خود کوئی سزا مقرر نہیں کی، بلکہ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاکم وقت اور بعض اوقات قاضی یعنی جج کو دیا گیا ہے، جس کو شریعت کی اصطلاح میں تعزیر کہتے ہیں، چناں چہ تعزیری سزائیں جرم کی نوعیت، مجرم کی کیفیت اور حالات کو سامنے رکھ کر طے کی جاسکتی ہیں او راس سلسلہ میں حاکم وقت کو لوگوں کے عمومی مفادات اور نقصان کو پیش نظرر کھنا چاہے مثلا رشوت لینا شریعت کی نظر میں جرم ہے، لیکن شریعت نے اس جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں کی بلکہ اس کو حاکم وقت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے چناں چہ حاکم وقت جرم کی نوعیت، مجرم کی کیفیت اور حالات کو سامنے رکھ کر سخت سے سخت سزا بھی مقرر کر سکتاہے ۔ 
اب آئیے ان جرائم کے بیان کی طرف! جن کی شریعت نے سزائیں مقرر کی ہیں، یہ جرائم دو قسم کے ہیں ۔
ایک وہ جرائم ہیں جن میں کسی دوسرے شخص کی جان، مال یا آبرو پر زیادتی ہوتی ہے، جیسے قتل چوری یا کسی پر بد کاری کا الزام۔ جب کہ دوسرے قسم کے جرائم وہ ہیں کہ جن میں کسی دوسرے شخص کی جان مال یا آبرو پر حملہ نہ ہو لیکن شریعت کی نظر میں ان افعال کا ارتکاب بھی جرم قرار دیا گیا ہے، جیسے شراب نوشی اور بد کاری وغیرہ۔
وہ جرم جس میں کسی شخص کی جان پر زیادتی کی جاتی ہے مثلاً کسی کو قتل کر دیا، اس کے جسم کے کسی حصے کو نقصان پہنچایا تو اگر یہ جرم قصداً یعنی جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کی سزا قصاص ہے۔ یعنی جیسا فعل مجرم نے کیا ہے اس کو اس طرح سزا دی جائے۔ اگر قتل کیا ہے اور کسی کو زندگی کی نعمت سے محروم کیا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کو بھی اس نعمت سے محروم کر دیا جائے اور اگر اس نے جان بوجھ کر کسی انسان کو اس کے جسم کے کسی حصے سے محروم کر دیا ہے تو عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ مجرم کو بھی اس عضو اور حصے سے محروم کر دیا جائے۔ اس سزا کو شریعت کی اصطلاح میں قصاص کہا جاتا ہے او راس سلسلہ میں قرآن کریم میں متعدد آایات ہیں ،ارشاد باری تعالی ہے ۔
اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے سلسلے میں قصاص یعنی جرم کا بدلہ فرض کیا گیا ہے، چناں چہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ناک کے بدلے ناک ، کان، کے بدلے کان دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح دیگر زخموں کا بدلہ بھی لیا جائے گا۔“
شریعت کی نظر میں قصاص لینا مقتولین کے ورثا کا حق ہے یا اگر کسی شخص کے جسم کے کسی حصے پر زیادتی ہوئی ہے اور وہ ابھی زندہ ہے تو قصاص لینا اس کا حق ہے، اگر وہ اپنے حق سے دستبر دار ہو جاتا ہے یا مقتول کے ورثا قصاص کے حق سے دستبر دار ہو جاتے ہیں اور مجرم کو معاف کر دیتے ہیں تو ان کو یہ اختیار ہے کہ وہ دیت لے لیں۔ دیت دراصل ایک قسم کا مالی معاوضہ ہے، اس مالی معاوضہ کی مقدار بھی مقرر ہے اور اس کی کافی تفصیلات ہیں، جو کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
وہ جرم جس میں کسی شخص کے مال پر زیادتی ہو اس کی بنیادی طور پر کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً ذخیرہ اندوزی، رشوت، ناپ تول میں کمی، مختلف قسم کی مالی بدعنوانیاں وغیرہ، اگر چہ ان سب اقسام کی شریعت نے باقاعدہ سزا مقرر نہیں کی بلکہ اس میں تعزیری سزائیں ہو سکتی ہیں جو کہ قاضی اور حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے لیکن کسی کے مال پر زیادتی کی ایک خاص قسم وہ ہے جس کو عربی میں سرقہ اور اردو میں چوری کہتے ہیں، اس کی سزا شریعت میں یہ ہے کہ چور کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے ۔
سرقہ کی تعریف یہ ہے کہ کوئی عاقل بالغ شخص کسی دوسرے شخص کا وہ مال جس کی حفاظت کا اس نے انتظام کیا ہوا ہے اس کو خفیہ طریقے سے چوری کر لے۔
چناں چہ اگر کوئی شخص اس طریقہ پر چوری کرتا ہے او رتمام ثبوت کے ساتھ اس پر یہ جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس کی سزا شریعت میں یہ ہے کہ اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے، اس سلسلہ میں الله تبارک وتعالی کا ارشاد ہے ۔
” چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے عمل کی سزا ہے۔ “

Flag Counter