Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

9 - 10
دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش کی رحلت !
دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش کی رحلت
(۲)

حضرت مرحوم کی بطور مہتمم کے ایک بڑی شناخت اس کے لئے ہمہ وقت کی فکر مندی تھی، ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے اسی کے غم کو اپنا غم بنالیا ہے۔ دارالعلوم کے لئے سوچنا، اس کے مسائل کو اوڑھ لینا، اس کی ضروریات، ترقیات اور اس کی ہمہ جہت بھلائیوں کے لئے اپنے ذہن میں خاکے مرتب کرتے رہنا، لگتا تھا کہ ان کی دوا، غذا اور ان کی راحت وعافیت کا ناگزیر سامان ہے۔ اللہ نے انہیں خوش حال پیدا کیا تھا، بڑی زمین وجائداد کے مالک تھے، شہر بجنور میں سامانِ راحت سے بھرا پُرا ان کا محل نما اپنا گھر اور ان کے گھر کے پاس ہی ان کے سارے اہل خاندان کے مکانات تھے، جہاں انہوں نے بچپن سے بڑھاپے تک کی عیش وراحت کی زندگی گزاری تھی، لیکن ان سارے اسبابِ راحت کو چھوڑ کر دارالعلوم کی مسجدِ قدیم کے احاطے کے ایک بالائی کمرے میں سادہ سی زندگی گزارتے، اپنے مصارف سے تیار کرائے گئے مطبخ کے کھانے پر اکتفا کرتے، بڑھاپے کی کمزوری اور اس سے پیدا شدہ بہت سے عوارض اور تکالیف کو جھیلتے اور نہ صرف کمرے کا کرایہ ادا کرتے، بلکہ دارالعلوم سے کسی طرح کا ادنیٰ سے ادنیٰ فائدہ اٹھانے کا بھی معاوضہ پیش فرماتے۔ اگر کسی مجبوری سے مہینے دو مہینے بعد گھر جاتے، تو وہاں بھی ہر وقت دارالعلوم ہی کی فکر ستاتی رہتی، ٹیلی فون سے، آنے جانے والوں کے ذریعے، یا بوقت ضرورت کسی آدمی کو باقاعدہ دارالعلوم بھیج کر، دارالعلوم کے احوال اور مسائل سے مکمل طور پر واقف رہنے کی کوشش کرتے۔
زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کا کوئی کام صرف محنت اور سعی پیہم سے اتنا انجام پذیر نہیں ہوتا، جتنا فکرمندی سے، جس کی وجہ سے وہ کام ذہن پر ہمہ وقت مسلط رہتا ہے۔ حضرت مرحوم دارالعلوم کے متعلقہ کاموں کو نہ صرف محنت اور لگن سے انجام دیتے تھے؛ بلکہ اس کی ساری متعلقہ ذمے داریاں شب وروز کے سارے لمحات میں ان کے ذہن پر مسلط رہتیں اور ہروقت وہ انہی کے متعلق سوچتے رہتے۔ ان کی وفات سے صرف ۱۹ دن پہلے کی بات ہے (۳) یعنی شنبہ: ۱۳/ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰/نومبر ۲۰۱۰ء کی کہ راقم، دارالعلوم کے دو ایک اساتذہ کے ساتھ ان کی ملاقات کو ان کے دولت کدے، واقع محلہ قاضی پاڑہ شہر بجنور پہنچا، حضرت سے ملاقات ہوئی تو مصافحہ اور خبر خیریت معلوم کرنے کے معاً بعد فرمایا کہ دارالعلوم میں قربانی کے کتنے جانور آئے تھے اور یہ کہ اس سلسلے کی کمیٹی ٹھیک سے بن گئی تھی اور پتہ نہیں صحیح ریٹ پر چمڑے کی فروخت ہوئی کہ نہیں؟ راقم کے ساتھ جو اساتذہٴ کرام تھے ان میں سے بعض کمیٹی کے ممبران میں تھے، انہوں نے کہا: حضرت چمڑے ماشاء اللہ اچھے ریٹ سے گئے، تو وہ مطمئن ہوگئے۔ ہم لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ صحت کے اس عالم میں کہ وہ گھل کر ہڈیوں کا مجموعہ بن گئے ہیں، دارالعلوم اور اس کے مفادات ہی کی انہیں لگی ہوئی ہے، اس حالت میں تو آدمی کو اپنی بھی خبر نہیں ہوتی، ۱۰۰ سال کا بوڑھا آدمی (۴) جو عرصے سے طرح طرح کے امراض اور بڑھاپے کی کم زوریوں اور اس کے مختلف الاقسام عوارض کا شکار ہے، اس کو صرف اپنے محبوب ادارے کی فکر ہے اور کسی اور بات کی نہیں؟ ہم لوگوں کو بہت خوشی ہوئی کہ اللہ پاک نے اس عمر میں بھی ان کے ذہن اور حافظے کی کارکردگی کو پوری طرح محفوظ رکھا ہے اور ان کا دماغ مکمل طور پر اپنا کام کررہا ہے، ورنہ اس عمر اور اتنے امراض کی حالت میں آدمی کا ذہن کلا ًیا جزء اً کام نہیں کرتا۔ یہ ان کی دین داری اور تقویٰ شعاری کی برکت تھی اور اپنے خاندان کے عظیم بزرگوں کی نیکیوں کی جو دارالعلوم کے دیرینہ خادم اور سچے بہی خواہ رہے تھے۔
دارالعلوم میں قربانی کے مسئلے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ دونوں کی نمازیں نہیں پڑھ سکا اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔ ہم لوگوں نے انہیں تسلی دی کہ حضرت! آپ کی نیت چونکہ نماز پڑھنے کی تھی اور آپ میں اس کی سکت نہ تھی، اس لئے آپ کو نماز کا ثواب مل گیا، ان شاء اللہ آپ کا رب آپ کو محروم نہ کرے گا، آپ خاطر جمع رکھیں کہ آپ کو ثواب مل چکا۔ یہ سن کر ان کے چہرے پر ایک چمک سی نمودار ہوئی اور وہ قدرے مطمئن سے نظر آئے۔
حضرت مرحوم کو دارالعلوم کی عالمی شہرت کو مزید عالمیت دینے، بالخصوص عالم عرب کے علماء ومفکرین سے رابطہ رکھنے سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ جب تک صحت مند رہے راقم کو تاکید کرتے رہے کہ عرب ممالک کے سفارت خانوں کو رمضان المبارک، عید الفطر،عید الاضحیٰ اور ان ممالک کے قومی دن کے موقع سے تہنیتی خطوط ضرور روانہ کئے جائیں، وہ دلچسپی کے ساتھ راقم سے خطوط تیار کرواتے اور انہیں ٹائپ کروا کے روانہ کرنے کا حکم فرماتے۔ سعودی عرب، کویت اور عرب امارات وغیرہ کے اہم علماء کو بھی اس موقع سے مبارک بادی کے خطوط روانہ کرنے کا اہتمام کرتے۔ راقم کو ۱۴۰۴ھ کے شعبان میں دارالعلوم کی طرف سے بطورِ خاص سعودی عرب کے علماء، اہل صحافت اور پڑھے لکھے طبقے سے ملنے کے لئے سعودی عرب بھیجا۔ اس سلسلے میں راقم سے جو کچھ بن پڑا اس نے کیا۔ حضرت مرحوم اس کے وہاں قیام کے دوران فون اور خطوط کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے۔
راقم کے نام جب بھی عالم عربی سے کوئی دعوت نامہ کسی کانفرنس یا کسی تقریب میں شرکت کا ملتا، حضرت مرحوم سے جب اس کا تذکرہ کیا جاتا تو سفر کے تعلق سے بہت دلچسپی لیتے اور جو سہولت ان کے بس میں ہوئی، اس کے فراہم کرنے سے دریغ نہ کرتے وہ چاہتے تھے کہ دارالعلوم کے اساتذہ بیرون ملک، بالخصوص عالم عربی کا سفر موقع بہ موقع ضرور کریں ؛ تاکہ دارالعلوم کا بیرونی ممالک سے رابطہ مضبوط ہو اور وہاں کے لوگ اس کے کام اور نام سے اچھی طرح واقف ہوں۔ حضرت کی اسی دلچسپی کے پیش نظر، ان کی شدید کبر سنی میں جب سعودی عرب کی طرف سے حج کا دعوت نامہ، ان کے نام آیا اور رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے ایک سے زائد بار اس کی بعض اہم کانفرنسوں میں، اس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبد اللہ المحسن ترکی کی طرف سے انہیں بہ اصرار مدعو کیا گیا اور انہوں نے اپنے ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے عذر کرنا چاہا ، تو اس راقم آثم نے ان کی ہمت بڑھائی اور بہ عجلت اور بہ کثرت وہاں کے متعلقہ ذمے داروں سے رابطہ کرکے ان کے سفر کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ اللہ کے فضل سے حضرت کو، ان اسفار کے لئے آمادہ ہوجانے کی ہمت ہوئی اور اپنے فرزند برادر مکرم مولانا انوار الرحمن صاحب قاسمی کی رفاقت میں ان کے یہ اسفار ہوئے، اس سلسلے میں اگر کسی مقالے اور تحریر کی ضرورت محسوس کی گئی، تو راقم کو اسے بھی تیار کرنے اور حضرت کی بے پناہ دعاؤں اور ان کی خوش نودی ومسرت کے حصول کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ وہ کم گو تھے، ا سلئے زبان سے تو زیادہ کچھ نہ کہتے تھے، لیکن ایسے موقع سے ان کی خوشی اور راقم کے لئے دعاؤں کی لکیریں ان کے چہرے پر، وہ واضح طور پر پڑھتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی خاموشی ہزاروں گویائیوں پر بھاری لگتی تھی۔ وہ ایسے مواقع سے واپسی پر کوئی خاص تحفہ راقم کے لئے ضرور لاتے اور اس کی اپنے پاس حاضری کے وقت بذات خو اس کو پیش فرماتے یا کسی خادم کے ذریعے اس کی رہائش گاہ پر بڑے اہتمام سے بھیجواتے۔
حضرت مرحوم کم گو اور خاموش مزاج تھے؛ لیکن نہ صرف امت مسلمہ، بلکہ عالمی مسائل پر اخبار نویسوں، نامہ نگاروں اور ٹیلی وژن کے مختلف چینلوں کے نمائندوں کو (جو ملک کا سب سے بڑا اور تاریخی اسلامی ادارہ ہونے کی وجہ سے دارالعلوم کثرت سے آتے رہتے ہیں) بہت جچا تلا اور بصیرت مندانہ جواب دیتے تھے، جس سے جہاں امت مسلمہ کے تئیں ان کی دل سوزی وفکر مندی کا اندازہ ہوتا تھا۔ وہیں عالمی حالات وواقعات سے ان کی آگاہی اور صحیح صورت حال کی ان کی جان کاری کا بھی پتا چلتا تھا، وہ اخبارات کا پابندی سے مطالعہ کرتے اور ہندی مسلمانوں، نیز عالم کے تمام مسلمانوں کے مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ راقم جب ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا اور صبح کا وقت ہوتا تو عموماً وہ اخبار ہاتھ سے ڈال دیتے اور مختلف داخلی وخارجی اور ملکی وعالمی بالخصوص اسلامی مسائل اور حالات پر تبادلہ ٴ خیال کرنے لگتے۔
حضرت مرحوم خاصے مردم شناس تھے۔ دارالعلوم کے ویسے تو سارے اساتذہ کا بڑا احترام کرتے تھے، لیکن جن اساتذہ کو وہ دارالعلوم کے لئے دور رس فوائد کا حامل اور اپنے تجربے، استقرا اور ذہنی مطالعے کی روشنی میں سچا خیر خواہ سمجھتے تھے، ان کے ساتھ احترام ومحبت کا خصوصی معاملہ کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے ذہن میں خانے بنے ہوئے تھے اور ان میں سے ہرایک کو اسی خانے میں رکھتے تھے جو انہوں نے اس کے لئے متعین کیا ہوتا تھا اور اسی ”درجہ بندی“ کے اعتبار سے وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے۔ تیس سالہ اہتمام کے طویل دورانیے کے دوران، انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان میں سے کس کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرنا چاہئے۔ اسی لئے ان میں سے ہرایک اور عام اساتذہ وملازمین، ان سے میرے علم ومطالعے کے مطابق ہمیشہ خوش رہے یا کم از کم ناراضگی اور دل شکنی کا شکار نہ ہوئے۔
راقم بھی سمجھتا ہے کہ وہ پورے خلوص سے اس کے متعلق بہت اچھی رائے رکھتے تھے، اسی لئے اس کے ساتھ بہت شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے۔ وہ بہت شرمندہ ہوتا تھا جب وہ آم کی سالانہ دعوت کے موقع پر شکر کی اس کی بیماری کی وجہ سے، اس کی غیر حاضری کو نوٹ کرتے ہوئے اس کی رہائش گاہ پر طرح طرح کے آموں کے ایک دوکارٹون ضرور بھیجواتے۔ اس کے بعد جب بھی پہلی مرتبہ حاضر ہوتا، فرماتے آپ نے کوئی آم چکھا کہ نہیں؟ ان کی دل جوئی کے لئے کہتا: حضرت فلاں تخمی آم ناچیز نے چوساہے، بہت مزے دار تھا، یہ سن کر بہت خوش ہوتے۔ اسی طرح پَروَل (ایک قسم کی ترکاری) کے موسم میں وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ بہت سارا پَروَل لاتے اور خاصی مقدار میں راقم کے پاس بھیجواتے؛ کیونکہ حضرت کو معلوم تھا کہ اس کو پَروَل بہت پسند ہے اور اس کے علاقہ بہار میں وہ کثرت سے ہوتا ہے اور اہم ترین سبزیوں میں شمارہوتا ہے۔ بجنور میں گنگاکے کنارے چونکہ کچھ اہل بنگال غیر مسلم آبسے ہیں؛اس لئے اب وہ اس کی کھیتی کرنے لگے ہیں اور وہاں وہ اپنے موسم میں بہ کثرت ملنے لگا ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوا کہ بعض مسائل میں راقم کو حضرت سے شکایت ہوئی اور اس نے ان سے اس کا برملا اظہار بھی کیا؛ لیکن حضرت کو اس سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی، نہ حضرت نے اس کا اس سے اظہار کیا، نہ راقم سے کبھی اپنی کسی ناگواری کی طرف اشارہ کیا، جب بھی ملا وہ بہت انبساط وفرحت سے کھل کے ملے اور ایسا لگا کہ وہ راقم کی آمد کے انتظار میں تھے۔ اللہ انہیں بہت نوازے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے اخلاص کی برکت سے دارالعلوم کو ہر خرخشے سے محفوظ رکھے۔
راقم کو چونکہ اکثر تلوے میں یا پاؤں کی کسی انگلی میں شکر کے مرض کی وجہ سے زخم رہا کرتا ہے، اس لئے جب بھی حضرت سے ملا، حضرت نے ضرور معلوم کیا کہ آپ کا زخم اس وقت مندمل ہے؟ اگر راقم عرض کرتا کہ زخم مندمل نہیں ہوسکا، تو آہستہ آواز میں شفا کی دعا دیتے اور اگر عرض کرتا کہ الحمد للہ ا سوقت کوئی زخم نہیں ہے تو بہت خوش ہوتے۔
ان کی کم گوئی کی خوکی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ بعض دفعہ بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ بڑا سے بڑا اور اچھے سے اچھا کام کرلو، لیکن مہتمم صاحب تعریف نہیں کرنے کے، وہ کبھی حوصلہ نہیں بڑھاتے، نہ ماشاء اللہ یا ”واہ“ کا لفظ ادا فرماتے ہیں، بس مہر بہ لب رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے راقم ہمیشہ یہ کہتا کہ آپ ان کے چہرے کو پڑھا کیجئے، وہ خوش ہوتے ہیں تو ان کا چہرہ دمک اٹھتا ہے اور خوشی کی لکیریں ان کے چہرے پر نمایاں طور پر ابھرآتی ہیں، ان کی کم گوئی انہیں لب کشا ہونے سے مانع رکھتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ڈانٹنے اور جھڑکنے کی جگہ پر بھی وہ کسی کو ڈانٹتے ہیں نہ اس سے سخت کلامی کرتے ہیں؛ لیکن اچھے برے انسانوں کے ساتھ وہ الگ الگ معاملہ کرتے ہیں اور وہ انسانوں اور ان کے کاموں کی بخوبی شناخت رکھتے ہیں۔ تیس سالہ دور اہتمام میں انہوں نے کسی سے سخت کلامی کی، نہ کسی سے ان کی بدزبانی کبھی ریکارڈ کی گئی۔ وہ طویل العمری اور انتہائی پیرانہ سالی کے باوجود جھنجھلاتے بھی نہ تھے، ورنہ ان سے کم عمر کے سن رسیدہ لوگ بھی عموماً ”بے صبرے“ ہوجاتے ہیں اور ان کا پیمانہ ٴ صبر جلد جلد چھلکنے لگتا ہے۔ غصہ آنا، خفا ہوجانا، بات بات پر جھڑکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا بوڑھے لوگوں کی شناخت ہی ہوتی ہے، لیکن بہت بوڑھے اور ساتھ ہی کم زور اور بیمار ہونے کے باوجود حضرت کی یہ خوبی رہی کہ وہ صحت مند انسانوں سے زیادہ متحمل مزاج رہے۔ ہرطرح کے انسانوں کو برداشت کرنے کی ان کی ایسی خو میں نے بہت کم بڑوں میں دیکھی ہے اور جن میں دیکھی ہے وہ بہت بڑے تھے، حضرت مرحوم بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ وہ چھوٹے بڑے اور اچھے برے ہرایک سے اس طرح پیش آتے تھے کہ اس کو لگتا تھا مہتمم صاحب اسی کو زیادہ چاہتے ہیں، گویا ان کا موقف یہ تھا:
چلو کہ ہنس کے گلے لگائیں کانٹوں کو
کہ صرف پھول ہی پروردہٴ بہار نہیں
صبر وتحمل ان کی زندگی کے بہت بڑے قدر کی حیثیت رکھتا تھا، کہنا چاہئے کہ زندگی کے اکثر معرکے، انہوں نے اسی سے فتح کئے۔ بعض دفعہ بعض لوگوں نے ان کے ساتھ سخت کلامی یا ان کے خلاف سخت نگاری کی؛ لیکن انہوں نے اس کا جواب صبر وتحمل اور سکوت محض سے دیا۔ بہت سے لوگوں کو ان کی طرف سے ان لوگوں پر سخت غصہ آیا، جنہوں نے ان کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا اور ان کے ساتھ درشت گوئی کی یادرشت نگاری کی، لیکن خود انہیں کچھ بھی نہیں آیا، کیونکہ وہ اپنا انتقام لینے کے لئے مخلوق ہی نہ ہوئے تھے، وہ دیانتاً جو سمجھتے تھے وہی کرتے تھے،اپنا معاملہ اللہ سے درست رکھنے کی کوشش کرتے تھے، اسی لئے دارالعلوم کوا ن سے جو فیض پہنچا، اس کی ابتدائے منزل میں کسی کو توقع نہ تھی اور دنیا سے اس حال میں گئے کہ اب لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اکتسابات اور فیضان کا یہ تسلسل باقی رہے گا کہ نہیں؛ کیونکہ نفس کشی اور ناپسندیدگی اور مکروہات کا ایسا بلا نوش، نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوتا ہے: منزل پہ مجھ کو دیکھ کے حیراں تو سب ہوئے
لیکن کسی نے پاؤں کے چھالے نہیں دیکھے
وہ دارالعلوم کے معاملات میں بھی اسی لئے بہ عجلت کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے؛ کیونکہ عجلت پسندی، جذباتیت، سریع الانفعالی سے وہ نا آشنائے محض تھے۔ بہت خوشی اور بہت غم کی وجہ سے بہت زیادہ مثبت اور منفی طور پر متاثر ہوجانا اور اس مثبت اور منفی تاثر کے نتیجے میں کوئی کام کرگزرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ رائے، فکر اور سوچ کو بھی اسی طرح پکاتے تھے، جس طرح دیر میں اور بہ مشکل گلنے والی چیز کوتادیر اور کئی زاویوں سے پکایاجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض دفعہ وہ ان باتوں کے لئے بھی بہ عجلت فیصلہ نہیں لے پاتے تھے،جن کے حوالے سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ معمولی چیزیں ہیں اور انہیں تو مہتمم صاحب کو ضرورہی کرلینا چاہئے۔ لوگوں کے نزدیک ان باتوں میں دیر کرنے سے نقصان کا پہلو متصور رہتا تھا؛ لیکن حضرت کے نزدیک خسارے کا کوئی پہلو نہیں ہوتا تھا؛ کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ جو کام بھی بہت سوچ سمجھ کے کیا جائے، اس میں کسی نقصان کا کوئی احتمال نہیں ہوتا، سارا نقصان ان کاموں میں ہوتا ہے جو بہ عجلت اور بے سوچے کرلئے جاتے ہیں۔
راقم کا خیال ہے کہ مہتمم صاحب کی درازئ عمر میں جہاں ان کی نیکی، خدا کی حکمت اور دارالعلوم کیلئے ان سے تادیر کام لینے کی سعادت سے انہیں بہرہ ور کئے رہنے کی اس کی مشیت کا دخل تھا، وہیں ان کی یہ خوبی بھی ظاہری سبب کے درجے میں کار فرما رہی کہ وہ بڑے نازک سے نازک وقت میں بہ عجلت اور بار بار متاثر ہونے کے مریض نہیں تھے۔ جہاں وہ بڑے دماغ کے انسان تھے، وہیں وہ بڑے مضبوط اعصاب کے آدمی بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ شروع سے ہی علم وتدریس کو اپنا مشغلہ بناتے، تو شاید وہ بڑے دانش ور وبصیرت مند وبصیرت افروز مدرس ہوتے اور ان کے علم وفکر کے نتائج بہت کار آمد او ران سے استفادہ کرنے والے طلبہ گہری سوچ، سنجیدہ رائے اور دانش مندانہ غور وفکر کے حامل ہوتے اور خود ان کی خاموشی گویائی میں تبدیل ہوکر، علم وفکر کے موتی رولنے میں مددگار ہوتی اور امت اور ملت کے لئے بڑے فائدے کا ضامن ہوتی۔
حضرت رحمة اللہ علیہ بہت مہمان نواز تھے۔ مہمان نوازوں کا تناسب انسانی معاشرے میں بہت زیادہ نہیں، تو بہت کم بھی نہیں ہوتا؛ لیکن اصل چیز جو ایک مہمان نواز کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے، وہ مہمان نوازی کا سلیقہ اور مہمان نوازی کی قدروں اور آداب پر کار بند رہنے کی توفیق ہے۔ حضرت مہتمم صاحب پرانے زمین دار تھے، شرافت نسبی کے بھی حامل تھے کہ وہ صدیقی النسب تھے، وہ خلقتاً حلیم وکریم وشریف تھے، سخاوت وکرم گستری انہیں موروثی طور پر حصے میں ملی تھی، رکھ رکھاؤ اور روایات وتہذیب کے آدمی تھے، سیر چشمی وکشادہ دلی اور فیاضی سے ان کا خمیر اٹھا تھا، عالی حوصلگی ہمیشہ ان کے ہم رکاب رہتی تھی اور میزبانی کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے اسباب بھی اللہ نے ان کے لئے مہیّا کر رکھے تھے کہ مادی وسائل کی بھی کمی نہ تھی (اللہ پاک اپنے فضلِ خاص سے، ان کے پس ماندگان کے لئے بھی یہ وسائل افزودگی کے ساتھ باقی رکھے) پھر یہ کہ انہوں نے اپنے سلف کو میزبانی کے سارے آداب برتتے ہوئے دیکھا اور سیکھا تھا؛ اس لئے وہ صحیح معنی میں مہمان نواز تھے۔ وہ دستر خوان پر بیٹھے سارے مہمانوں تک دسترخوان کے سارے مشمولات کے پہنچنے کو یقینی بناتے، ڈھکی ہوئی روٹیوں میں سے گرم گرم روٹیاں ہرایک کی طرف اپنے ہاتھ سے بڑھاتے، ہرایک کی پلیٹ میں ہرطرح کے سالن اپنے سے ڈالنے کی کوشش کرتے، مہمانوں کا کھانے کے دوران ”حوصلہ“ بڑھاتے کہ خود بھی آہستہ آہستہ آخر تک ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ لیتے رہتے اور زبان سے بھی اور ماکولات لینے کے لئے ان پرزور ڈالتے۔ پھر یہ کہ ہرطرح کی چیزیں دسترخوان پروافر مقدار میں ہوتیں، جس سے مہمانوں کا ”حوصلہ“ کھانے کے لئے از خود مہمیز ہوتا، دسترخوان کا ماحول ایسا تشکیل دیتے کہ کسی مہمان کو کھانے میں تکلف ہوتا نہ شرمندگی ہوتی۔ بہت سے ”مہمان نواز“ دسترخوان پرساری چیزیں چن کے مہمانوں کو دسترخوان پر بٹھادیتے ہیں اور کھانے کے لئے ذرا بھی ترغیب وتشویق کارویہ نہیں اپناتے، جیسے ان کا اصلی مقصد کھانوں اور برتنوں کی نمائش تھی جو ہوچکی، اب مہمان کچھ لیں یا نہ لیں، ان کی بلا سے۔ان کی مشہور آم کی سالانہ دعوت، جس میں اساتذہ واعیان شہر اور سرکاری اہل کاروں کی ایک تعداد بھی شرکت کرتی تھی، ہی ان کی پہچان نہ تھی؛ بلکہ ان کی اصل شناخت ان کا وہ دسترخوانِ ضیافت تھا جو وقفے وقفے سے ان کے دارالعلوم والے کمرے میں اور تقریباً ہمہ روز ان کے گھر پر بچھا کرتا تھا۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: کفر وارتداد سے توبہ کا طریقہ !
Flag Counter