Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 10
منظر کشی کے لئے غیر مسلم کا روپ دھارنا !
منظر کشی کے لئے غیر مسلم کا روپ دھارنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارہ میں کہ:
مختلف اسلامی اسکولوں میں بچوں کی تربیت کے لئے اور ان کے ایسے جذبات بنانے کے لئے مختلف قسم کے پروگرام کرائے جاتے ہیں، جن میں ہمارے سلف صالحین اور اسلامی نظام عدالت وحکومت ورعیت کے ساتھ معاملات دکھائے جاتے ہیں، مثلاً:سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان علاء الدین وغیرہ۔ اس صورت میں بچوں میں شوق پیدا کرنے کے لئے بچوں سے یہ پروگرام کرائے جاتے ہیں، اس کے لئے مختلف بچوں کو مسلمان بادشاہ اور ان کا ساتھی بنایاجاتا ہے اور کچھ بچوں کو چنگیز خان یا راجہ داہر بناکر منظر کشی کی جاتی ہے۔ محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف نے ایک عورت کے خط بھیجنے پر فوراً بھیجا، جب کہ آج کے حکمران اس بات سے بالکل فارغ البال ہیں کہ رعایا کی کچھ شنوائی نہیں۔ اس کے لئے کچھ بچوں کو راجہ داہر یا چنگیز خان کا روپ بھی دھارنا پڑتا ہے اور کچھ بچے مسلمان بادشاہ کا روپ دھارتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس قسم کے پروگرام کرانے کا کیا حکم ہے؟ نیز کیا غیر مسلموں کا روپ دھارنا جائز ہے؟

مستفتی:ام محمد۔ڈیفنس کراچی

الجواب حامداً ومصلیاً
تعلیم کے لئے عام فہم انداز اختیار کرنا، زیر تعلیم لوگوں کو جاذب اور پُر اثر طریقے سے تعلیم دینا تعلیمی مقاصد کا حصہ ہے جوشرعاً مطلوب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ آسان انداز میں تعلیم دینے والے معلم تھے، لیکن آج کل بعض اسکولوں میں اس آسانی کے لئے منظر کشی وغیرہ کے جو طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں ،ان میں بنیادی طور پر شرعی آداب واحکام کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔بصورت دیگر حرام اور ناجائز کاموں کے ارتکاب کا قوی اندیشہ ہے اور تعلیم جیسے نیک مقصد کے لئے شریعت کے کسی ادنیٰ حکم کو پامال کرنا قطعاً جائز نہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں مذکور تاریخی واقعات پر مشتمل پروگراموں کا انعقاد اسی وقت جائز ہوگا جب کہ ان میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھا جائے:
۱…کسی کافر، ظالم اور جابر شخص کا روپ نہ دھارا جائے، مثلاً: ہلاکوخان، چنگیزخان، راجہ داہر، وغیرہ۔ اس لئے کہ سمجھانے اور تعلیم کی غرض سے بھی کسی کافر، ظالم وفاسق شخص کا روپ دھارنا اور اس کی نقل اتارنا( اگرچہ اس میں نیت کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو) درست نہیں۔ ہاں اس قسم کے پروگرام میں نیک مسلمان بادشاہوں اور وزیروں کا روپ دھارنے کی گنجائش ہے۔
۲…دینی واسلامی شعائر کا استخفاف واستہزاء صراحةً، دلالةً، التزاماً، غرض کسی طرح بھی نہ ہوتا ہو۔شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
”من جلس علی مکان مرتفع والناس حولہ یسئلون منہ بطریق الاستہزاء، ثم یضربونہ بالوسائد أی مثلا وہم یضحکون کفروا جمیعاً: أی لاستخفافہم بالشرع وکذا لو لم یجلس علی المکان المرتفع۔ ونقل عن الاستاذ نجم الدین الکندی بسمرقند: أن من تشبہ بالمعلم علی وجہ السخریة وأخذ الخشبة وضرب الصبیان کفر، یعنی لأن معلم القرآن من جملة علماء الشریعة فالاستہزاء بہ وبمعلمہ یکون کفراً۔ “(ص:۱۷۳،ط:قدیمی)
۳…بچوں سے ایسا مکالمہ نہ کرایاجائے جو الفاظ کفریہ پر مشتمل ہو، اس لئے کہ جان بوجھ کر بغیر جبر واکراہ کے زبان سے کلمہ کفر نکالنے سے بعض صورتوں میں اندیشئہ کفر ہے اور بعض صورتوں میں آدمی کافر ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کا اعتقاد کفریہ نہ بھی ہو۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”وأما الہازل والمستہزئ اذا تکلم بکفراستخفافاً ومزاجاًواستہزاءً یکون کفراً عند الکل وان کان اعتقادہ خلاف ذلک“۔ (۲/۲۷۶،ط:رشیدیہ)
فتاویٰ شامی میں ہے:
”وفی الفتح من ہزل بلفظ کفر ارتد وان لم یعتقدہ للاستخفاف قال فی الرد: (قولہ من ہزل بلفظ کفر) أی تکلم بہ باختیارہ غیر قاصد معناہ، وہذا لاینافی ما مرّ من أن الایمان ہو التصدیق فقط أو مع الاقرار لأن التصدیق وان کان موجوداً حقیقة لکنہ زائل حکماً لأن الشارع جعل بعض المعاصی أمارة علی عدم وجودہ کالہزل المذکور، وکما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً فی قاذورة فانہ یکفر، وان کان مصدقا؛ لأن ذلک فی حکم التکذیب کما أفادہ فی شرح العقائد، واشار الی ذلک بقولہ للاستخفاف، فان فعل ذلک استخفافاً واستہانة بالدین فہو أمارة عدم التصدیق…قلت: ویظہر من ہذا أن ما کان دلیل الاستخفاف یکفر بہ، وان لم یقصد الاستخفاف…“۔ (۴/۲۲۲،ط:سعید)
۴…کیمرہ، موبائل، کمپیوٹر، کسی بھی آلہ سے تصویر کشی اور ویڈیو وغیرہ نہ بنائی جائے، اس لئے کہ تصویر کی حرمت قطعی نصوص سے ثابت ہے۔
۵…مرد وعورت کا اختلاط نہ ہو۔
نیز ملحوظ رہے کہ ان شرائط کے تحت اجازت کے باوجود عمومی طور پر اس قسم کے پروگرام کا انعقاد موجودہ ماحول کے اعتبار سے بہتر نہیں۔ زیادہ ترویج واشاعت سے گریز کیا جائے۔
استفتاء میں ذکر کردہ اغراض کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ مہینہ میں یا جیسے مناسب سمجھیں ایک دن ایسا مقرر کرلیا جائے جس میں بچوں کو صرف اسلامی تاریخ کے عادل حکمرانوں، بادشاہوں اور دلیر فاتحین کی شجاعت وبہادری اور عدل وانصاف کی حکایات سنائی جائیں۔ ان شاء اللہ اس طریقہ سے بھی اچھے اور مفید نتائج سامنے آئیں گے۔فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد داؤد

کتبہ

کاشف اقتدار

متعلم درجہ تخصص فی الفقہ الاسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter