Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 10
خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار!
خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار (آخری قسط)

محترمہ نے اپنے اس دعویٰ پر کہ عدالت، شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے سکتی ہے، حدیث شریف سے بھی استدلال کیا ہے، جس کے الفاظ محترمہ نے درج ذیل نقل کئے ہیں:
”جب ایک خاتون جمیلہ (ثابت بن قیس کی بیوی-ناقل) جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ․․․․․ خدا کی قسم! میں اس کے ایمان یا پاکیزگی پر شک نہیں کرتی، مگر میں اور وہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے کہ مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجوروں کا باغ جو تمہیں مہر میں ملا ہے، واپس کردو۔“
محترمہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ:
”اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، اگر ایک عورت، قاضی یا حاکم کو اس بات پر مطمئن کردے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو حاکم یا عدالت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کو فسخ کردے۔“
یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:
اوّل:… محترمہ کا یہ فقرہ کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”کھجوروں کا جو باغ تمہیں مہر میں ملا ہے، واپس کردو“ قطعاً خلافِ واقعہ ہے، کیونکہ حدیث میں تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے دریافت فرمایا کہ: ”کیا تم اس کو اس کا باغ واپس کردوگی؟“ (أتردّین علیہ حدیقتہ؟)۔ (مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت بخاری)
دونوں فقروں میں زمین و آسمان کا فرق اور مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے، محترمہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو فقرہ منسوب کیا ہے وہ ایک حکم ہے، اور حدیث کا جو فقرہ میں نے صحیح بخاری سے نقل کیا وہ ایک سوالیہ فقرہ ہے۔ اگر محترمہ، حکم اور سوال کے درمیان امتیاز کرنے سے عاری ہیں تو ان کی عقل و ذہانت لائقِ داد ہے، اور اگر انہوں نے جان بوجھ کر سوالیہ فقرے کو حکم میں تبدیل کرلیا ہے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان و افترا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق ہے کہ:
”من کذب علیّ متعمّدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“ (مشکوٰة ص:۳۲)
ترجمہ:۔ ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف غلط بات منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔“
دوم:… محترمہ نے حدیث کا ایک جملہ نقل کرکے اس کا مطلب بگاڑا، اور اس بگاڑے ہوئے مفہوم سے فوراً یہ نتیجہ نکال لیا کہ: ”خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، عدالت کو اختیار ہے کہ از خود نکاح فسخ کردے۔“ لیکن حدیث کا اگلا جملہ جو اِن کے دعوے کی نفی کرتا تھا، اسے حذف کردیا۔ پوری حدیث یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے دریافت فرمایا کہ: کیا تم شوہر کا دیا ہوا باغ اسے واپس کردوگی؟ اور اس نے ”ہاں“ میں اس کا جواب دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر سے فرمایا: ”اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة“ یعنی: ”اپنا باغ واپس لے لو، اور اس کو ایک طلاق دے دو۔“(چنانچہ شوہر نے یہی کیا)۔
پوری حدیث سامنے آنے کے بعد محترمہ کا اخذ کردہ نتیجہ سرے سے غلط ہوجاتا ہے کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں، بلکہ عدالت کو از خود نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ محترمہ نے حدیث کا ایک حصہ نقل کرکے اور ایک حصہ حذف کرکے وہی طرزِ عمل اختیار کیا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”أَفَتُوٴْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ“ (پھر کیا تم کتاب کے ایک حصے پر تو ایمان رکھتے ہو، اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟)۔
سوم:… محترمہ تو حدیث کا آدھا ٹکڑا (وہ بھی تحریف کرکے) نقل کرتی ہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیتی ہیں کہ عدالت، شوہر کی رضامندی کے بغیر فسخِ نکاح کا حکم کرسکتی ہے، لیکن جن اَئمہ دِین کو حق تعالیٰ شانہ نے عقل و ایمان اور علم و عرفان سے بہرہ ور فرمایا ہے، وہ اس حدیث سے ․․․ محترمہ کے بالکل برعکس․․․ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ زوجین کے درمیان ان کی رضامندی کے بغیر تفریق کردینا عدالت کا کام نہیں، اِمام ابوبکر جصاص رازی ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں:
”اگر یہ اختیار حاکم کو ہوتا کہ جب وہ دیکھے کہ زوجین، حدود اللہ کو قائم نہیں کریں گے تو ان کے درمیان خلع کا فیصلہ کردے، خواہ زوجین خلع کو چاہیں یا خلع سے انکار کریں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے اس کا سوال ہی نہ فرماتے، اور نہ شوہر سے یہ فرماتے کہ اس کو خلع دے دو، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود خلع کا فیصلہ دے کر عورت کو مرد سے چھڑا دیتے، اور شوہر کو اس کا باغ لوٹادیتے، خواہ وہ دونوں اس سے انکار کرتے، یا ان میں سے ایک فریق انکار کرتا۔ چنانچہ لعان میں زوجین کے درمیان تفریق کا اختیار چونکہ حاکم کو ہوتا ہے اس لئے وہ لعان کرنے والے شوہر سے نہیں کہتا کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو، بلکہ از خود دونوں کے درمیان تفریق کردیتا ہے۔“
(الجصاص: اَحکام القرآن ج:۱ ص:۳۹۵ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور)
اور حافظ ابنِ حجر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة“ (باغ واپس لے لو، اور اس کو ایک طلاق دے دو) کے تحت لکھتے ہیں:”امر اصلاح وارشاد لا ایجاب“․․․ ”یہ فرمانِ نبوی اصلاح و ارشاد کے لئے ہے، بطور واجب کے نہیں۔“
معلوم ہوا کہ اس واقعہ میں شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کا یک طرفہ فیصلہ نہیں فرمایا گیا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کو مشورہ دیا کہ اس سے باغ واپس لے کر اس کو طلاق دے دیں۔
گزشتہ مباحث سے کچھ انداز ہوا ہوگا کہ محترمہ حلیمہ صاحبہ اپنے غلط موقف کو ثابت کرنے کے لئے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے مطالب کو بگاڑنے کی کیسی سعیٴ بلیغ فرماتی ہیں، کاش! کوئی ہمدردی و خیرخواہی سے ان کو مشورہ دیتا کہ یہ میدان جس میں آپ نے قدم رکھا ہے، بڑا پُرخار ہے، جس سے دامنِ ایمان کے تار تار ہونے کا اندیشہ ہے، قرآن و حدیث اور فقہِ اسلامی کا فہم ان کے بس کی بات نہیں، ان کے ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اس میدان میں ترکتازی سے احتراز فرمائیں۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
محترمہ، ہمیں عدالتی طریقِ کار سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
”یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہماری عدالتوں کا ایک طریقہٴ کار یہ بھی ہے کہ وہ دورانِ مقدمہ شوہر اور بیوی کو بلاکر ایک موقع اور دیتے ہیں، لیکن اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ زوجین کا اکٹھا رہنا ناممکن ہے تو اس صورت میں عدالت خلع کی ڈگری کردیتی ہے، اور یوں عدّت کے بعد اگر کوئی عورت عقدِ ثانی کرتی ہے تو نہ عقدِ ثانی حرام ہے، اور نہ ہی قرآن و سنت اس بات کی ممانعت کرتی ہے۔“
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ عدالتیں اگر میاں بیوی کو مصالحت کا موقع دیتی ہیں تو بہت اچھا کرتی ہیں، تاہم شرعی نقطہٴ نظر سے ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں (خصوصاً عائلی مسائل کے حوالے سے) متعدّد سقم پائے جاتے ہیں، چونکہ خلع کا مسئلہ خالص شرعی مسئلہ ہے، جس سے حلال و حرام وابستہ ہے، اس لئے عدالتی نظام کی ان خامیوں کی اصلاح بہت ضروری ہے، چند اُمور کی جانب مختصراً اشارہ کرتا ہوں:
۱:۔ ہمارے یہاں یہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جس شخص کو جج کے منصب پر فائز کیا جائے وہ رائج الوقت قانون کا ماہر ہو، اور ایک عرصہ تک اس نے بحیثیت وکیل کے قانونی تجربہ بھی بہم پہنچایا ہو، لیکن شریعتِ اسلامی نے منصبِ قضا کے لئے جو شرائط مقرّر کی ہیں، مثلاً: اس کا مسلمان ہونا، مرد ہونا، عادل ہونا، شرعی قانون کا ماہر ہونا، ان شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ جس جج کی عدالت میں خلع کا مقدمہ جاتا ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ اور شرعی قانون کا ماہر ہونا تو درکنار وہ ناظرہ قرآن بھی صحیح پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ کسی غیرمسلم کا فیصلہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے معاملات میں شرعاً نافذ و موٴثر نہیں، اس لئے ضروری ہے کہ یہ اُصول طے کردیا جائے کہ خلع کے جو مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں ان کی سماعت صرف ایسا جج کرسکے گا جو مسلمان ہو، نیک اور خدا ترس ہو، اور شرعی مسائل کی نزاکتوں سے بخوبی واقف ہو، چونکہ خلع سے حلال و حرام وابستہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس میں شرعی اُصول و قواعد کی پابندی کی جائے۔
۲:۔ موجودہ عدالتی نظام میں سب سے زیادہ موٴثر کردار قانون کے ماہرین (وکلاء) حضرات کا ہے کہ وہی فریقین کی طرف سے عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور عدالت کی قانونی راہ نمائی کرتے ہیں، لیکن وکیل صاحبان کا طرزِ عمل عموماً یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے موٴکل کا موقف قطعاً غلط اور باطل ہے، وہ اس باطل کی پیروی کے لئے مستعد ہوجاتے ہیں، اور پھر اس باطل کو حق اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف خود عدالت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، بلکہ اپنے موٴکل کو بھی جھوٹا بیان تلقین کرتے ہیں، اور یہ جھوٹا بیان اس کو اس طرح رَٹاتے ہیں جس طرح قرآن حفظ کرنے والا بچہ مکتب میں قرآنِ کریم کے الفاظ کو رَٹتا ہے۔ کوئی خاتون خلع کی درخواست عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے بھی وکیل صاحبان کی خدمات حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے، اور وکیل صاحبان اس سے بھی جھوٹا بیان دِلواتے ہیں۔ خیال کیجئے کہ عورت کا جو دعویٰ اس طرح کے وکیلانہ جھوٹ پر مبنی ہو، اور عدالت اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر اسے خلع کی یک طرفہ ڈگری دے دے تو کیا یہ عدالتی فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کو تبدیل کرنے میں موٴثر ہوسکتا ہے․․․؟
۳:۔ عدالت کا منصب فریقین کے ساتھ انصاف کرنا ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ عدالت کا جھکاوٴ کسی ایک فریقِ مقدمہ کی طرف نہ ہو، لیکن مغربی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر ہمارے یہاں گویا یہ اُصول طے کرلیا گیا ہے کہ خلع کے مقدمے میں مرد ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ معصوم و مظلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خلع کے قریباً سو فیصد فیصلے عورت کے حق میں کئے جاتے ہیں، جب عدالت نے ذہنی طور پر شروع ہی سے عورت کی طرف داری کا اُصول طے کرلیا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ اس کا فیصلہ انصاف کی ترازو میں کیا وزن رکھتا ہے؟ اور وہ شرعاً کیسے نافذ و موٴثر ہوسکتا ہے؟ اور اس کے ذریعہ عورت پہلے شوہر کے لئے حرام اور دُوسرے کے لئے حلال کیسے ہوسکتی ہے․․․؟
۴:۔ مفتی اور قاضی کے منصب میں یہ فرق ہے کہ مفتی کے سامنے جو صورتِ مسئلہ پیش کی جائے وہ اس کا شرعی حکم لکھ دیتا ہے، اس کو اس سے بحث نہیں کہ سوال میں جو واقعات درج ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ نہ اس کے ذمہ اصل حقائق کی تحقیق و تفتیش لازم ہے۔ برعکس اس کے قاضی کا منصب یہ ہے کہ مدعی نے اپنے دعویٰ میں جو واقعات ذکر کئے ہیں ان کے ایک ایک حرف کی تحقیق و تفتیش کرکے دیکھے کہ ان میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟ اور جب تحقیق و تفتیش کے بعد دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی الگ الگ ہوجائے تو اس کی روشنی میں عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ میں لے کر خدا لگتا فیصلہ کرے۔
لیکن ہمارے یہاں خلع کے مقدمات میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت کو نظرانداز کردیا گیا ہے، گویا عدالتیں قاضی کے بجائے مفتی کا کردار ادا کرتی ہیں، مدعیہ کی جانب سے جو واقعات پیش کئے جاتے ہیں، جن کو وکیل صاحبان نے اپنی خاص مہارت کے ذریعہ بات کا بتنگڑ بناکر خوب رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا ہوتا ہے، عدالت انہی کو وحیٴ آسمانی اور حرفِ آخر سمجھ کر ان کے مطابق یک طرفہ ڈگری صادر کردیتی ہے۔ شوہر کو حاضرِ عدالت ہونے کی بھی زحمت نہیں دی جاتی، نہ صحیح صورتِ حال کو معلوم کرنے کی تکلیف اُٹھائی جاتی ہے، عدالت زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ شوہر کے نام نوٹس جاری کردیتی ہے کہ وہ:
”فلاں تاریخ کو حاضرِ عدالت ہوکر اپنا موقف پیش کرے ورنہ اس کے خلاف کاروائی یک طرفہ عمل میں لائی جائے گی۔“
مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عدالت جانا نہ جانا برابر ہے، کیونکہ عدالتی فیصلہ تو بہرصورت اس کے خلاف ہونا ہے، اس لئے وہ عدالت کے نوٹس کا نوٹس ہی نہیں لیتا، ادھر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس نے شوہر کے نام نوٹس بھجواکر قانون و انصاف کے سارے تقاضے پورے کردئیے ہیں، اب اگر وہ عدالت میں نہیں آئے گا تو اپنا نقصان کرے گا، اس لئے وہ خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کردیتی ہے۔
دراصل خلع کے مقدمہ کو بھی دیوانی مقدمات پر قیاس کرلیا گیا ہے کہ مالیاتی مقدمہ میں اگر مدعا علیہ حاضرِ عدالت ہوکر اپنا دفاع نہیں کرے گا تو فیصلہ اس کے خلاف ہوجائے گا، اس لئے وہ اس کے خوف کی بنا پر خود حاضرِ عدالت ہوگا۔ حالانکہ خلع کا مقدمہ عورت کے ناموس کے حلال و حرام سے متعلق ہے، اس میں ایسی تساہل پسندی کسی طرح بھی روا نہیں ہوسکتی، اور جب عدالت اپنا منصبی فرض، جو شرعاً اس کے ذمہ ہے بجا نہ لائے تواس کے یک طرفہ فیصلے کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ شرعاً نافذ و موٴثر ہے؟ ہماری عدالتیں آخر ایسی بے اختیار کیوں ہیں کہ وہ مدعاعلیہ کو عدالت میں بلانے سے عاجز ہوں، اور بغیر تحقیق و تفتیش کے حلال و حرام کے یک طرفہ فیصلے کرنے کی انہیں ضرورت پیش آئے․․․؟
۵:… میاں بیوی کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو حق تعالیٰ شانہ نے حکام اور دونوں خاندانوں کے لوگوں کو حکم فرمایا ہے کہ ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں، چنانچہ ارشاد ہے:
”اور اگر تم کو ان دونوں کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی، جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، مرد کے خاندان سے، اور ایک آدمی، جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، عورت کے خاندان سے (تجویز کرکے اس کشاکشی کو رفع کرنے کے لئے ان کے پاس) بھیجو (کہ وہ جاکر تحقیقِ حال کریں، اور جو بے راہی پر ہو یا دونوں کا کچھ کچھ قصور ہو، سمجھائیں) اگر ان دونوں آدمیوں کو (سچے دِل سے) اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمائیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔“ (النساء:۳۵، مأخوذ از ترجمہ حضرت تھانوی)
لیکن ہمارے یہاں اس حکمِ الٰہی کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ کو تمام عائلی مسائل کا واحد حل قرار دے لیا گیا۔ چنانچہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرانے کا یہ قرآنی حکم گویا منسوخ کردیا گیا، لڑکے اور لڑکی کے خاندان کے لوگ تو اس کے لئے کوئی قدم کیا اُٹھاتے؟ ہماری عدالتیں بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں، بلکہ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ بعض دفعہ میاں بیوی دونوں شریفانہ زندگی گزارنے کے لئے تیار ہیں، لیکن لڑکی کے والدین خلع کا جھوٹا دعویٰ کرکے خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرلیتے ہیں، اور عدالت میاں بیوی سے پوچھتی تک نہیں۔ چنانچہ ۱۲/اگست کو جس سوال کا جواب میں نے دیا تھا (اور جس کی تردید کے لئے حلیمہ اسحاق صاحبہ نے قلم اُٹھایا) اس میں اس مظلوم لڑکی نے، جس کو ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ عدالت نے عطا فرمادی تھی، یہی لکھا تھا کہ میں اور میرا میاں دونوں گھر آباد کرنا چاہتے ہیں، لیکن میرے والدین نے میری طرف سے خلع کا دعویٰ کرکے میرے میاں کی اطلاع کے بغیر خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرلی۔ انصاف کیا جائے کہ جس فیصلے میں قرآنِ کریم کے مندرجہ بالا حکم کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہو، جس میں زوجین کی خواہش کے باوجود ان کو ملنے کا موقع نہ دیا گیا ہو، اور جس میں زوجین کی خواہش کو پامال کرتے ہوئے ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ دے دی گئی ہو، ایسے فیصلے کے بارے میں کس طرح کہہ دیا جائے کہ وہ شرعاً نافذ اور موٴثر ہے؟ اس سے میاں بیوی کا نکاح ختم ہوگیا، اور اب عورت عقدِ ثانی کے لئے آزاد ہے․․․؟
یہ میں نے موجودہ عدالتی نظام کے چند اصلاح طلب اُمور کی نشاندہی کی ہے، ورنہ ایسے اُمور کی فہرست طویل ہے، جس کی تفصیل کے لئے مستقل فرصت درکار ہے:
اند کے با تو گفتم درد دل و ترسیدم
کہ آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
جب تک شریعتِ اسلامی کی روشنی میں ان اُمور کی اصلاح نہیں کی جاتی، عدالت کا یک طرفہ فیصلہ شرعاً کالعدم قرار پائے گا، اس لئے نہ تو میاں بیوی کا نکاح ختم ہوگا، اور نہ عورت کو عقدِ ثانی کی شرعاً اجازت ہوگی۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
محترمہ بڑے معصومانہ انداز میں سوال کرتی ہیں کہ:
”بالفرض اگر ہم یہ مان لیں کہ خلع کے لئے شوہر کی اجازت اور مرضی ضروری ہے تو پھر خلع اور طلاق میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟“
اُوپر تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے کہ قرآن و سنت اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے خلع میاں بیوی دونوں کی اجازت اور مرضی کے بغیر نہیں ہوتا، اور محترمہ نے قرآن و سنت سے اس کے خلاف جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلع کے لئے شوہر کی اجازت اور مرضی ضروری نہیں، اس کا غلط اور باطل ہونا بھی پوری وضاحت سے عرض کیا جاچکا ہے۔ رہا محترمہ کا یہ سوال کہ پھر خلع اور طلاق کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق اور مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے، جسے فقہ کا ایک مبتدی طالبِ علم بھی جانتا ہے۔
طلاق مرد کا انفرادی حق ہے، جس میں بیوی کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں، جب مرد طلاق کا لفظ استعمال کرے تو خواہ وہ چاہتی ہو یا نہ چاہتی ہو، اور اس طلاق کو قبول کرے یا قبول نہ کرے، بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ طلاق کا لفظ استعمال کرتے ہوئے مرد کی رضامندی بھی ضروری نہیں، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اور پھر دعویٰ کرے کہ میں نے طلاق دِل کی رضامندی کے ساتھ نہیں دی تھی، بلکہ یوں ہی عورت کو ڈرانے دھمکانے کے لئے دی تھی، یا محض مذاق کے طور پر دی تھی، تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس خلع میں دونوں کی رضامندی شرط ہے، اگر مرد عورت کو خلع کی پیشکش کرے تو جب تک عورت اس کو قبول نہ کرے، خلع نہیں ہوگا، اسی طرح اگر عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے قبول کئے بغیر خلع نہیں ہوگا، ایک چیز (خلع) دونوں فریقوں کی رضامندی پر موقوف ہے، اور دُوسری چیز (طلاق) دونوں کی رضامندی کے بغیر بھی واقع ہوجاتی ہے، کیسی عجیب بات ہے کہ آپ کو ان دونوں کے درمیان فرق محسوس نہیں ہوتا․․․؟
اور آپ کا یہ تصوّر کہ جس طرح مرد، عورت کو اس کی مرضی کے بغیر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح عورت، مرد کی رضامندی کے بغیر اس سے خلع لے سکتی ہے، یہ دورِ جدید کا وہ مغربی تصوّر ہے، جس سے شریعت کا پورا عائلی نظام تلپٹ ہوجاتا ہے، اور جس سے اللہ تعالیٰ کی وہ حکمتِ بالغہ باطل ہوجاتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ”نکاح کی گرہ“ مرد کے ہاتھ میں رکھی تھی، عورت کے ہاتھ میں نہیں۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
محترمہ لکھتی ہیں:
”کیا ہم جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فیصلہ کرسکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔“
بلاشبہ، کسی اُمتی کی مجال نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فیصلہ کرے (اور اگر کوئی کرے گا تو خلع کی یک طرفہ عدالتی ڈگری کی طرح وہ فیصلہ کالعدم اور باطل ہوگا)، لیکن محترمہ کو سوچنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کرنے کی جسارت کون کر رہا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمیلہ کی درخواستِ خلع پر ان کے شوہر سے فرمایا تھا کہ: ”اپنا باغ (جو تم نے اس کو مہر میں دیا تھا) واپس لے لو اور اس کو طلاق دے دو۔“ لیکن محترمہ حلیمہ اسحاق فرماتی ہیں کہ خلع کے لئے شوہر سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ عورت کا انفرادی حق ہے، اور عدالت شوہر سے پوچھے بغیر دونوں کے درمیان علیحدگی کراسکتی ہے۔ فرمائیے! یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ہے یا نہیں․․․؟
محترمہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں کرسکتیں جس میں عورت کی درخواستِ خلع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر سے پوچھا تک نہ ہو، اور صرف عورت کی درخواستِ خلع پر اس کے ہاتھ میں ”خلع کی یک طرفہ ڈگری“ تھمادی ہو۔ اب آپ خود انصاف کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میری جان اور میرے ماں باپ آپ پر قربان) کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ حضراتِ فقہائے اُمت ، یا خود محترمہ حلیمہ اسحاق․․․؟
”منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر!“
محترمہ لکھتی ہیں کہ:
”خلع عورت کا ایک ایسا حق ہے جو اسے خدا نے دیا ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے مہرِ تصدیق لگائی ہے۔“
اللہ و رسول کی بات سر آنکھوں پر، آمنا و صدقنا۔ مگر محترمہ یہ تو فرمائیں کہ قرآنِ کریم کی کون سی آیت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو کہ خلع عورت کا انفرادی حق ہے، جب اس کا جی چاہے مرد کو خلع دے کر اس کی چھٹی کراسکتی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے جس میں عورت کے اس انفرادی حق کو بیان کیا ہو کہ عورت شوہر کی اجازت و مرضی کے بغیر اس کو خلع دے سکتی ہے؟
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ضرورت محسوس کرے تو شوہر سے خلع کی درخواست کرسکتی ہے اور ”بدلِ خلع“ کے طور پر مالی معاوضے کی پیشکش کرسکتی ہے، ”خلع کا حق“ اور ”خلع کے مطالبے کا حق“ دو الگ الگ چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، یہ حق نہیں دیا کہ وہ از خود مرد کو خلع دے کر چلتا کرسکتی ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حق دیا ہے کہ حدودِ شرعیہ کی رعایت رکھتے ہوئے جہاں چاہے نکاح کرسکتا ہے، یہ حق مرد کو بھی ہے اور عورت کو بھی، لیکن نکاح کا یہ حق یک طرفہ نہیں، کیونکہ نکاح ایک ایسا عقد ہے جو دونوں فریقوں کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اسی طرح خلع بھی ایک ایسا عقد ہے جس کے ذریعہ دونوں فریق ازالہٴ نکاح بالعوض کا معاملے طے کرتے ہیں۔ جس طرح نکاح کا پیغام بھیجنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے لیکن عملاً نکاح اس وقت ہوگا جب دونوں فریق (اصالةً یا وکالةً) نکاح کا ایجاب و قبول کرلیں گے۔ اسی طرح خلع کی پیشکش کرنا عورت کا حق ہے، لیکن عملاً خلع اس وقت ہوگا جب دونوں فریق اس عقد کا ایجاب و قبول کرلیں گے، بخلاف طلاق کے، کہ وہ عقد نہیں، بلکہ یمین ہے، مرد کو اس یمین کا اختیار دیا گیا ہے، خواہ دُوسرا فریق اس کو قبول کرے یا نہ کرے، بلکہ دُوسرے فریق کو اس کا علم بھی ہو یا نہ ہو۔
الغرض! خلع لینا عورت کا حق ہے، لیکن عملاً اس کو خلع اس وقت ملے گا جب شوہر اس کو خلع دے گا۔ ”خلع لینا“ کا لفظ خود بتاتا ہے کہ وہ شوہر سے خلع لے سکتی ہے، اس کو از خود خلع نہیں دے سکتی، خلع لینا اس کا حق ہے، خلع دینا اس کا حق نہیں۔ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
اپنے مضمون کے آخر میں محترمہ لکھتی ہیں:
”مندرجہ بالا سطور سے اُمید ہے کہ بہت سی ایسی خواتین کے شکوک و شبہات دُور ہونے میں مدد ملے گی جو یا تو صحیح رہنمائی نہ ملنے پر، یا پھر کسی دباوٴ میں آکر چاہنے کے باوجود اپنا یہ حق استعمال نہیں کرسکتیں۔“
میں محترمہ کا ممنون ہوں کہ ان کی تحریر کی وجہ سے مجھے خلع کے مسئلے کی وضاحت کا موقع ملا، مجھے اُمید ہے کہ اس وضاحت کے بعد وہ تمام عورتیں (اور ان کے والدین) جو عدالت سے خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کرکے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ ان کا پہلا نکاح ختم ہوچکا ہے، اس لئے وہ بلاتکلف عقدِ ثانی کرلیتی ہیں، ان کی غلط فہمی دُور ہوجائے گی، اور وہ اچھی طرح جان لیں گی کہ:
Y:…قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کی رُو سے خلع اس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی دونوں اس پر راضی اور متفق ہوجائیں۔
Y:…باجماعِ اُمت، شوہر کی طرف سے دُوسرا کوئی فرد یا ادارہ یا عدالت اس کی بیوی کو طلاق دینے یا خلع دینے کی مجاز نہیں ہے، اگر کسی شوہر کی بیوی کو اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر کسی فرد نے، کسی ادارے نے، یا کسی عدالت نے طلاق دے دی یا خلع دے دیا تو وہ شرعاً کالعدم ہے، یہ عورت بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے، جب تک کہ اس سے طلاق یا خلع نہ لے۔
Y:…ایسی عورت جس کو شوہر کی مرضی کے بغیر کسی ادارے نے طلاق یا خلع دے دیا ہو وہ چونکہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے، اس لئے اس کا عقدِ ثانی باطل ہے، اگر وہ دُوسری جگہ عقد کرے گی تو ہمیشہ کے لئے گناہ کی زندگی گزارے گی، اور اس کا وبال دُنیا و آخرت میں اس کو بھگتنا ہوگا۔
نوٹ:… میں نے یہ مضمون حلیمہ اسحاق کی اس ”آزاد فکری“ کے جواب میں لکھا ہے کہ عورت کو خلع کا یک طرفہ حق ہے، اور یہ کہ عدالت کو خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کا اختیار ہے۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ بعض حالات میں عورت نہایت مشکل میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے، اور اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہٴ کار نہیں رہتا کہ عدالت اس کے معاملے میں مداخلت کرے۔ مثلاً: شوہر نامرد ہونے کے باوجود عورت کو رہائی نہیں دیتا، کبھی متعنت ہوتا ہے کہ نہ عورت کو آباد کرتا ہے اور نہ آزاد کرتا ہے، یا شوہر لاپتا ہے، یا مجنون ہے جس کی وجہ سے عورت سخت مشکلات سے دوچار رہتی ہے، ایسی صورتوں میں مسلمان حاکم کو خاص شرائط کے ساتھ تفریق کا حق ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: جب پندرہ جرائم ہوں گے تو زلزلے آئیں گے !
Flag Counter