Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 10
مغربی رسومات کی اندھا دھند تقلید !
مغربی رسومات کی اندھا دھند تقلید

پاکستان میں آج کل مغرب کی تقلید کرتے ہوئے کئی مغربی رسومات کو اپنایا جارہا ہے اور ان کی حقیقت کو جانے بغیر انہیں بڑے جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔ یہ رسومات روز بروز ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ ․․․․․․․اس دن بازاروں میں پھولوں کے گلدستے نایاب ہوگئے اور ایک پھول ۵۰۰ روپے میں اور ایک گلدستہ ۵ ہزار روپے تک میں فروخت ہوا۔ایسا لگ رہا تھا کہ ویلنٹائن ڈے بھی شاید عید الفطراور بقر عید کی طرح کا کوئی تہوار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار ویلنٹائن ڈے جس جوش وخروش سے پاکستان میں منایاگیا، اگر کوئی سادہ مزاج شخص اس کے بارے میں اشتہارات اور پروگرام دیکھ کر اس غلط فہمی کا شکار ہوجائے کہ شاید ویلنٹائن ڈے بھی ہمارا کوئی تہوار ہے۔
ہماری نوجوان نسل مغربی رسومات کی تاریخ اور حقائق کو جانے بغیر مغرب کی تقلید میں انہیں اندھا دھند منانا شروع کردیتی ہے، یہ جانے بغیر کہ ویلنٹائن ڈے اور دیگر فضول مغربی رسومات کی ہماری معاشرے اور مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔
میں یہاں نوجوان نسل کو ویلنٹائن ڈے کے پس منظر میں لے جانا پسند کروں گا۔ کہاوت ہے کہ سینکڑوں سال پہلے رومن امپائر کے دور حکومت میں روم پر بادشاہ کلوڈیس کی حکومت تھی۔ بادشاہ وقت ایک بڑی آرمی تشکیل دینا چاہتا تھا، مگر حکومت کو نوجوان لڑکوں کو فوج میں بھرتی پر بڑی مشکلات پیش آرہی تھیں، کیونکہ نوجوان نسل اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فوج میں شمولیت اختیار کرکے محاذوں پر جانا نہیں چاہتی تھی، جس پر بادشاہ کلوڈیس بہت مشتعل ہوا اور اس نے ایک حکم کے ذریعے نوجوانوں کی شادیوں پر پابندی عائد کردی۔ ایسے میں روم کے ایک ویلنٹائن نامی پادری نے بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی خفیہ شادیاں کروانا شروع کردیں اور ایک دن بادشاہ کے حکم عدولی کی جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا، مگر اس وقت تک یہ پادری نوجوانوں کا ہیروبن چکا تھا۔ بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر روز پھول اور ہاتھوں سے لکھے کارڈز اس پادری کے قید خانے کے باہر رکھ کر جایا کرتے تھے۔ ۱۴ فروری کے دن پادری ویلنٹائن کو سزائے موت دے دی گئی۔پادری ویلنٹائن کی موت کے بعد ہرسال ۱۴ فروری ویلنٹائن ڈے کو پیار اور محبت کرنے والوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی محبت کا اظہار تحفہ دے کر کرتے ہیں۔ کرسمس کے بعد منایا جانے والا یہ ایک بڑا دن ہے، اس دن تحفے تحائف اور پھولوں کی خرید میں اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کے علاوہ ”مدرڈے“ اور ”فادر ڈے“ پاکستان میں مقبولیت حاصل کرتا جارہا ہے۔ ان دنوں کو منانے سے قبل ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مغرب میں ان دنوں کے منانے کا پس منظر کیا ہے۔مغربی معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر کے بعد اولاد کا والدین کے ساتھ رہنا ایک معیوب تصور کیا جاتا ہے، اکثر اولاد والدین کواکیلے چھوڑ کر نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے اور بوڑھے والدین ”اولڈایج ہاؤسز“ میں منتقل کردیئے جاتے ہیں۔ اولاد کو پورے سال یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کے لئے وقت نکال سکیں اور ان کی دیکھ بھال کرسکیں۔ اس طرح مغربی معاشرے میں مدر اور فادر ڈے منانے کی روایت شروع ہوئی اور وہاں بچے اپنے والدین کے ساتھ ایک دن گزار کر ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کردیا ہے اور پھر سال کے ۳۶۴ دن یہی اولاد والدین کو بے یار ومددگار چھوڑ دیتی ہے۔آج کے دور میں ”مدر ڈے“ ”فادرڈے“ اور ”ویلنٹائن ڈے“ جیسی رسومات تجارتی بنیادوں پر منائی جاتی ہیں اور ان دنوں کو بہت کمرشلائز کردیا گیا ہے، مختلف اشیاء بنانے والی کمپنیاں اس دن کی مناسبت سے اپنی اشیاء کی مارکیٹنگ کرتی ہیں، جس سے کاروباری کمپنیاں خوب پیسے بٹورتی ہیں اور یہ دن ماں باپ سے محبت کے نام پر اربوں روپے کمانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
ہمارے مذہب اور معاشرے میں والدین کی محبت اور تعظیم کا تصور محض ایک دن پر محیط نہیں، بلکہ ساری زندگی پر محیط ہے۔ ہمارا ہر دن ”مدر ڈے“ اور فادرڈے“ ہے اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ والدین کو ایک مرتبہ محبت کی نظر سے دیکھنے پر ایک حج اور عمرے کا ثواب ملتا ہے۔
کچھ دوسرے مسلم ممالک کی طرح ملایئشیا میں ویلنٹائن ڈے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث ملایئشیا کی حکومت ایسا قانون بنانے پر غور کررہی ہے، جس کی روسے ویلنٹائن ڈے پر پابندی عائد کی جاسکے۔ ملایئشیا اسلامک ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ جو ملایئشیا میں اسلامی پالیسیوں کو مرتب کرتا ہے، نے اس سال ویلنٹائن کے موقع پر ایک مہم کا آغاز کیا، جس کا مقصد نوجوانوں میں غیر اسلامی رسومات کے بارے میں آگہی پیدا کرنا تھا۔ ہماری نئی نسل کو چاہئے کہ وہ مغربی معاشرے کے پھیلائے ہوئے ویلنٹائن ڈے جیسی کمرشل رسومات کے جال میں نہ پھنسیں، جس کی تاریخ عیسائیت سے ملتی ہے۔ ہمیں اپنے پیاروں سے محبت کے اظہار کے لئے کسی مخصوص دن کی ضرورت نہیں اور محبت کا اظہار تحفوں کا محتاج نہیں۔ ہم ان مغربی رسومات پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہوئے اگر یہ سوچیں کہ یہ رقم ہم کسی غریب گھرانے کی مدد کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں تو شاید اس ملک میں غربت کو ختم کرنے میں کچھ مدد مل سکے۔
(بشکریہ: روز نامہ جنگ، ۱۷/مارچ ۲۰۱۱ء)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: چترال میں آغاخانی سرگرمیاں !
Flag Counter