چترال میں آغاخانی سرگرمیاں !
چترال میں آغاخانی سرگرمیاں
وادئ چترال صوبہ پختونخوا کا ایک حساس علاقہ ہے، جہاں سنی اور اسماعیلی فرقے کے لوگ عرصہٴ دراز سے آباد ہیں۔ ۱۹۷۰ء سے قبل پرنس کریم آغا خان شمالی علاقہ جات کو ایک اسماعیلی اسٹیٹ بنانے کے خواب دیکھنے لگے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آغا خان فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی، لیکن ان کا یہ خواب آج تک شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا۔ شروع شروع میں اسماعیلی اپنے عقائد مسلمانوں سے چُھپاتے تھے،جب آغاخانیوں کو اپنے عقائد چھپاکر اپنے مقصد میں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو وہ ۱۹۷۷ء میں سنی مسلمانوں کے خلاف میدان عمل میں کود پڑے اور اپنے عقائد ونظریات کا برملا اظہار کرنے لگے ۔نماز، روزہ، زکوٰة جیسے قطعی فرائض پر چوٹ لگاکر مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے لگے، اپنے پیشواؤں کے ناموں اور عہدوں کو تبدیل کردیا اور اپنی طرز عبادت کو بھی تبدیل کردیا۔
۱۹۸۱ء میں ریشن کے مقام پر بڑا جلسہ منعقد کرکے گلگت اور چترال سے اپنے تمام پیشواؤں کو مدعو کیا، وہاں علماء کرام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں اور اسلامی عقائد کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کھلے عام علماء کرام کو چیلنج دیئے۔ مقامی علمائے کرام ان کے چیلنج کو قبول کرکے مناظرے کے لئے تیار ہوگئے اوران کو ”بونی“میں اے سی کے دفتر میں پیش کیا، جہاں ان کو خفت کا سامنا کرنا پڑا، پھر اسی سال مسلمانوں نے ”جامع مسجد بونی“ میں جلسہ عام کا انعقاد کیا تو آغا خانی لوگ دوران جلسہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے، مسجد پر پتھر برسائے، لاؤڈ اسپیکر توڑ دیئے ، علماء کو آٹھ گھنٹے تک مسجد کے اندر محصور کئے رکھا، یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے چترال میں پھیل گئی تو پچاس ہزار کے لگ بھگ مسلمان ”بونی“ پہنچ گئے، جہاں اسماعیلی اہلکاروں نے سرکاری اسلحہ سے نہتے مسلمانوں کے جلوس پر فائرنگ کردی، جس سے چند نوجوان شہید ہوگئے تو مسلمانوں نے مشتعل ہوکر آغاخان ہاسٹل بونی کو آگ لگادی اور پورے چترال میں سنی مسلمانوں اور اسماعیلیوں کے آپس میں فائرنگ کے تبادلے ہوئے، لیکن ایسے حالات میں چترال انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی اور حالات کا نوٹس تک نہیں لیا، اس وقت بھی حالات کو کنٹرول کرنا علماء کے مرہون منت ہے۔
آغاخانیوں نے جب مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو دیکھا، تو وہ سمجھ گئے کہ قوت کے ذریعے مسلمانوں کو زیر نہیں کیا جاسکتا تو انہوں نے دولت اور خزانوں کے دروازے کھول دیئے اور مسلمانوں کو دولت کے ذریعے پچھاڑنے کی کوشش کی، جگہ جگہ خدمت خلق کے روپ میں سکولز، کالجز وغیرہ، تعمیر کرکے لوگوں کے دل جیتنے کا عزم کیا اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش شروع کردی تو ان کی اس امداد کو ولی کامل، عالم باعمل مولانا مستجاب صاحب نے حرام قرار دے کر اس کے خلاف پمفلٹ اور رسالے شائع کرائے، جگہ جگہ اجتماعات اور جلسے منعقد کرکے مسلمانوں کو اس زہر سے دور رہنے کی تلقین کی تو چترال کے مسلمانوں نے اپنی غربت کو ترجیح دی ،مگر آغاخانی امداد کو ٹھوکر ماردی۔ رفتہ رفتہ آغاخانیوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں اور تیسرا وار چترال کے مسلمانوں پر اس طرح کیا کہ چترال کے معتبر اور سرکردہ افراد کو بھاری رقم دے کر اپنے اعتماد میں لیا اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو شکار کرنا چاہا تو سب سے پہلے اس وقت کے ممبر قومی اسمبلی محی الدین (جو پہلے سے منتظر تھے) اس جال میں پھنس گئے اور بھاری رقم بٹور کر آغاخانیوں کی گود میں بیٹھ کر علماء کرام پر تیر برسانا شروع کردیے، پریس کلب چترال میں پریس کانفرنس کرکے اس مستشرق نے علماء کرام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور چترال کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور ملاکنڈ انتظامیہ سے ان علماء کے خلاف فوری کارروائی کرنے اور ان کو پابند سلاسل کرنے کا مطالبہ کیا تو ملاکنڈ انتظامیہ نے علماء کے خلاف پہلا اقدام یہ کیا کہ سرکردہ علماء کو ضلع بدر کیا اور بعض علماء کو جو سکول ٹیچر تھے، ان کادور دراز علاقوں میں تبادلہ کرادیا اور یوں چترال میں آغاخان فاؤنڈیشن کے لئے راہ ہموار کی اور محی الدین نے علماء کے خلاف وہ بکواسات کیں کہ شاید اسماعیلیوں کو بھی اس کی جرأت نہ ہو۔
آغاخان کی طرف سے ملنے والی اسّی ملین ڈالرکی امداد کو چترال کی ترقی کے لئے سنگ میل قرار دیا اور مزید کہا کہ: میں چترال کی ترقی کے لئے کام کرنے والی ہر تنظیم کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ایسی بیان بازی سے ان کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ موصوف پاکستان کے کرپٹ سربراہوں میں شمار ہوتے ہیں، جس نے سرکاری فنڈز کو اپنے ذاتی مفادات میں صرف کرکے عوام کو آغاخانی فنڈز دے کر دھوکہ دیا۔
مولانا عبید اللہ چترالی شہید کی اٹھارہ سالہ ضلع بدری بھی محی الدین کی مرہون منت ہے جو مولانا موصوف کو تخریب کار اور دہشت گرد قرار دے کر گرفتار بھی کرایاتھا۔ مولانا چترالی شہید اٹھارہ سالہ ضلع بدری کی طویل مدت گزار کر جب چترال تشریف لائے تو اسماعیلیوں پر بجلی بن کرگرے، گلگت سے چترال تک ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرکے ان کی مذموم سازشوں کو طشت ازبام کیا اور مسلمانوں کے دلوں میں آغاخانیت کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی۔مولانا موصوف نے ان کے خلاف سب سے پہلے ۱۹۸۱ء میں کتاب ”اسماعیلی قرآن وحدیث کی روشنی میں“ لکھی اور ان کے کفریہ عقائد سے مسلمانوں کو آگاہ کیا تو آغاخانیوں کے لئے یہ سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ،انہوں نے زیر زمین منصوبے اور منظم سازش کے تحت مولانا چترالی کو ۱۹ اگست ۱۹۹۹ء کو ان کے بھتیجے سمیت ان کے آبائی گاؤں میں شہید کردیا، ان کے قاتل افضل حسین کو بھی سازش کے تحت خود اسماعیلی نے گولی ماکر ہلاک کردیا اور خود کشی کا لبادہ پہنا کر اس کیس کو چھپانا چاہا، لیکن پوسٹ مارٹم کے ذریعے اسماعیلیوں کی ساری کارروائی سامنے آگئی۔ اس وقت بھی مسلمان مشتعل ہوکر جلوس در جلوس نکل آئے تھے، لیکن انتظامیہ نے پہلے سے اس کے لئے منظم پلاننگ تیار کی تھی، جس کی بنا پر مسلمانوں کو کنٹرول کیا اور دوسری طرف قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب نے لوگوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی اور آغاخانی غنڈوں نے چوری چھپے جشن بھی منائے، مٹھائیاں بھی تقسیم کیں، لیکن حکومت کی نااہلی نے مسلمانوں کے جذبات پر پانی پھیر دیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے دینی جذبہ کو دیکھ کر آغاخانی ہوش وحواس کھوبیٹھے تھے، لیکن حکومت آڑے آگئی۔ اس کے بعد سے آغاخانیوں نے کھلے عام اسلحہ جمع کرنا شروع کردیا، ”چترال“ ٹو”بونی“ ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے اسلحہ جمع کیاگیا، جگہ جگہ اسلحہ خانے قائم کئے گئے اور زیر زمین اسلحہ محفوظ کیا جارہا ہے، آغاخانی گاڑیوں کی چیکنگ نہیں کی جاتی اور ان کے تمام ذخائر کی نگرانی حکومت اور فوج کررہی ہے۔ یہ وہ عیاش اور مکار قوم ہے جو اپنے تمام ترکام دولت کے ذریعے کرنا جانتی ہے۔ یہ حسن بن صباح کی ذریت اپنی راہ میں رکاوٹ کو کبھی بھی برداشت نہیں کرتی اور چترال انتظامیہ کو بھاری رقم دے کر مکمل اپنی سرپرستی کرارہی ہے، ہر جگہ حکومت ان کا دفاع کرتی ہے۔
مولاناعبید اللہ چترالی کی شہادت کے بعد ان کو کھلی چھوٹ مل گئی، یہ چترال کے مضافات میں سادہ عوام کو خدمت خلق کے بہانے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں بھاری رقوم تقسیم کرکے ان کی ذہن سازی کی جارہی ہے، جگہ جگہ ہسپتال اور بجلی گھر تعمیر کرکے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں، سکولز اور کالجز قائم کرکے انتہائی کم فیس مقرر کرکے مسلمان بچوں کے ذہنوں کو خراب کررہے ہیں، ان اداروں میں بالغ لڑکے لڑکیوں کو مخلوط بٹھاکر ان کے ذہنوں کو اسلامی تعلیمات سے صاف کیا جارہا ہے، ان اداروں میں پڑھانے والی وہ حیا باختہ لیڈیز ہیں، جو نیم برہنہ ہیں اور اسلامیات پڑھا رہی ہیں اور ناخواندہ لڑکیوں کے لئے دس روزہ، پندرہ روزہ کورسز منعقد کراکر ہنر سکھانے کے بہانے ، فحاشی وعریانی کا درس دیا جارہا ہے، جن سے نکل کر وہ لڑکیاں اسلامی عقائد ونظریات پر طرح طرح کے اعتراضات کرتی ہیں اور اپنے شرعی لباس سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ اب بھی چترال میں بیرون ممالک کی سو سے زائد این جی اوز اسی مقصد کو پروان چڑھانے کے لئے سرگرم عمل ہیں، ان کی سرپرستی آغاخانی کررہے ہے ،ان تمام تر مکروہ عزائم وسازشوں کے خلاف واحد محاذ مذہبی وسیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے جو ان کے تمام حملوں کو روکنے میں کردار ادا کرتی آرہی ہے، ان عیاروں کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد بھی حکومت کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ ۵/۲۰۰۴ء میں چترال کا ایک پسماندہ علاقہ” گوہ کیر“ میں آغاخان فاؤنڈیشن کی گاڑی میں چند افراد آکر سنی مسلمانوں میں رقوم تقسیم کررہے تھے تو ایک مقامی عالم، مولانا عبد الحق عرف سنگین نے ان کا تعاقب کیا، اگلے روز اس عالم صاحب کو اے سی کے دفتر میں پیش کیا گیا، مولانا چونکہ سکول میں اسلامیات ٹیچر تھے تو اس حرکت کی وجہ سے ان کا دور دراز علاقے میں تبادلہ کردیا گیا۔ اس طرح کے بہت واقعات ہیں، جن میں حکومت کی مکمل سرپرستی ان کو حاصل ہے اوریہ کھلے عام اپنی بدمعاشی کررہے ہیں۔
فروری ۲۰۱۱ء میں مستوج کے علاقہ ”بریپ“ میں ایک حافظہ عالمہ کا ظالمانہ قتل بھی ان کی دہشت گردی پر دال ہے، جس کو شدید برفباری کی رات شہید کرکے مٹی میں دبادیا،اور پھر اس کیس کو خود کشی کا رنگ دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی، لیکن حکومت نے جمعیت علماء اسلام کے بھر پور احتجاج اور مسلسل جد وجہد سے قاتلوں کو گرفتار کرلیا ہے اور شہیدہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد سزا سے متعلق فیصلہ سنادیا جائے گا، لیکن اس واقعے میں بھی حکومت نے کسی حد تک اس کیس کودبانے کی کوشش کی، لیکن جے،یو، آئی نے اس کے خلاف آواز اٹھاکر قاتلوں کو گرفتار کرایا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم صادر کرایا۔ ایسے مشکل حالات میں ، چترال سے دوردراز رہنے والے تمام علماء وطلباء کی خدمت میں گذارش کروں گا کہ وہ اپنے تمام ترذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس سفید ہاتھی کے سامنے متحدہ محاذ بنائیں، آج بھی چترال کے لئے مولانا عبید اللہ شہید کی طرح لائق وفائق، عالم باعمل اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے، جو ان تمام سازشوں کو طشت ازبام کرکے مسلمانوں کو ہمیشہ اس زہریلے سانپ سے بچانے کی فکر کرے۔ تمام علماء وطلباءِ چترال آغا خانیت کی نفرت کو نئی نسل کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھردیں، اس کے خلاف پمفلٹ ، رسائل اور اسٹیکرز شائع کرکے ان کی سازشوں کو بے نقاب کریں۔ورنہ مسلمانوں کے عقائد خراب ہونے کا خدشہ ہے اور اس کا جواب روز قیامت ہمیں دینا پڑے گا۔
شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5
پچھلا مضمون: منظر کشی کے لئے غیر مسلم کا روپ دھارنا !