Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 10
حکومت پاکستان کی طرف سے ”تحفظ ناموس رسالت“ قانون سے متعلق تازہ فیصلہ کا مکمل ترجمہ !
حکومت پاکستان کی طرف سے ”تحفظ ناموس رسالت“ قانون سے متعلق تازہ فیصلہ کا مکمل ترجمہ!

نیشنل اسمبلی، وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی وزارت خارجہ، وفاقی وزارت اقلیتی امور اور دیگر ملکی وغیرملکی اداروں وشخصیات نے وزیراعظم پاکستان کو اپنی اپنی طرف سے خطوط لکھے اور یادداشتیں بھجوائیں۔ وزیراعظم پاکستان نے وفاقی وزرائے قانون وپارلیمانی امور کو وہ تمام مواد بھجوا کر ان کی رائے مانگی۔ وفاقی وزارت قانون نے ان تمام امور پر تفصیل سے غور کرنے کے بعد ایک تفصیلی سمری تیار کر کے وزیراعظم پاکستان کو بھجوائی۔ وزیراعظم نے سمری پر دستخط کرکے اسے قانونی حیثیت دے دی۔ ذیل میں اس سمری کا مکمل ترجمہ پیش خدمت ہے۔ یہ ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عتیق الرحمن فیصل نے لکھا ہے۔ ادارہ!

ناموس رسالت قوانین کا مختلف حوالوں سے ایک مکمل جائزہ
(انبیاء علیہم السلام کے متعلق قوانین کا جائزہ)
وزیراعظم پاکستان، وزارت قانون، انصاف وپالیمانی امور کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز کو (ناموس رسالت قانون کے حق میں) بخوشی منظور کرتے ہیں اور اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں کو قابل عمل تجاویز کے متعلق ہدایت جاری کی جارہی ہیں۔ دستخط: خوشنود اختر لاشاری
پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان
۸/فروری ۲۰۱۱ء
پاکستان میں قوانین رسالت کے متعلق سوالات کا تفصیلی جائزہ
حال میں طرح طرح کے مختلف خطوط، مختلف افراد، تنظیموں اور غیرملکیوں کی طرف سے محترم وزیراعظم پاکستان کو لکھے گئے ((حوالہ30)PM.SECRETARIAT 4.0.NO.5 FS/2010)، (بتاریخ ۳۰/دسمبر ۲۰۱۰ء آسیہ بی بی کیس) اور مختلف حوالہ جات جو کہ وزارت داخلہ کی طرف سے (بحوالہ لیٹر نمبر4.0/7/32/2010 Ptns dated 8/12/2010) وزارت عظمیٰ کو بجھوائے گئے۔ یہ سب خطوط سزایافتہ آسیہ نورین کے متعلق لکھے گئے ہیں۔ جیسے کہ ایک معروف ترین عدالت نے سزا سنائی۔ اب ایک اور ریفرنس قانون رسالت میں ترمیم کے حوالے سے اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔
۲:۔وزارت خارجہ کی طرف سے وزارت عظمیٰ کو اسی اشو پر ایک ریفرنس (بتاریخ ۲۳/نومبر ۲۰۱۰ء DG(Americas-2010)) بھجوایا گیا۔
۳:۔شیری رحمن (MNA) کی طرف سے پیش کئے گئے ترمیمی بل قانون رسالت (Amendment Law 2010) کو سیکرٹریٹ نیشنل اسمبلی نے وزارت عظمیٰ کو بحث اور تبصرے کے لئے بھجوایا۔ موصوفہ پینل کوڈ اور کریمنل لاء برائے قانون رسالت ۱۸۶۰ء(جو کہ پاکستانی قانون کا حصہ ہے) اور اس کے ساتھ ساتھ ۱۸۹۸ء کے کوڈ آف کریمنل لاء میں ترمیم چاہتی تھی۔
زیردستخطی (محترم وزیراعظم صاحب) کو آگاہ کیاگیا کہ MNA شیری رحمن نے اس ارادے سے نوٹس دیا ہے کہ قانون رسالت کے بل میں ترمیم کر کے ترمیمی قانون رسالت متعارف کروایا جائے۔ (Amendment Law 2010) یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ (شیریں رحمن کی طرف سے) پیش کئے گئے بل کی موزونیت کے حوالے سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے (PLD1991 فیڈرل شریعت کورٹ10) کی روشنی میں وزارت قانون، انصاف وپارلیمانی امور کی مفصل رائے لی جائے۔
۴:۔اس معاملے کی حساسیت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور نے اس معاملے کا جائزہ قرآن وحدیث (ارشادات نبوی) اور پاکستان میں نافذ العمل قانون رسالت (پینل کوڈ295-C-1860) اور اسی طرح اس قانون کا دوسرے ملکوں میں نافذ العمل ہونے کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
۵:۔پرائیویٹ ممبر بل (جو کہ شیری رحمنMNA کی طرف سے نیشنل اسمبلی میں پیش کیاگیا ہے) پر حالیہ بحث کے حوالے سے جو کہ قانون رسالت سے متعلق ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پہلی دفعہ اس سوال کا جواب فیڈرل شریعت کورٹ (PLD 1991.FSC P-10) کے فیصلے کی مسلمہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پہلے ہی اس کو بلند ترین حیثیت میں منظور کیا ہوا ہے اور اس کو اسی اسلامی تصریحات (قرآن وحدیث کے مطابق) لاگو کیاہوا ہے۔
آج بھی یہ قانون اور فیصلہ اسی طرح رائج ہے۔ آئین پاکستان کے تحت یہ قانون پہلے ہی سے بالوضاحت موجود تھا کہ قانون کے کسی بھی حصے یا شق کے متعلق کوئی فورم تشکیل دیا جائے کہ آیا یہ اسلامی تصریحات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ یہ اختیارات فیڈرل شریعت کورٹ کو (203-D اسلامک ریپبلک آف پاکستان کے قانون کے مطابق) دئیے گئے ہیں اور اس آرٹیکل کا متن نیچے دیاگیا ہے اور اس معاملے میں کسی بھی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
شریعت کورٹ کے آئینی حدود واختیارات
”شریعت کورٹ از خود نوٹس لے کر یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی یا صوبائی حکومت کی رٹ پر اس سوال کا جائزہ لے سکتی ہے اور فیصلہ دے سکتی ہے کہ آیا کہ وہ قرآن وسنت اور اسلامی تصریحات کے مطابق ہے یا نہیں۔“
۶:۔بلاشبہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو قوانین کی تشریح، ترمیم اور تنسیخ کے وسیع تراختیارات ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی روایات اور ٹھوس آئینی روایات کے مطابق یہ قانون جو کہ پارلیمنٹ نے رائج کیا ہے اور کئی عشروں سے موجود رہا ہے اور عدلیہ کی انتہائی گہرے جائزے اور جانچ پڑتال میں رہا ہے اور اس سلسلے میں انتہائی آئینی تجزئیے میں رہا ہے۔ رہا پیش کردہ ترمیمی بل جس کو زبانی طور پر متعلقہ ممبر نے واپس لے لیا ہے اور اس بل کی واپسی کے سلسلے میں ممبر نے کہیں بھی انکار نہیں کیا ہے۔ قانون رسالت جو کہ دئیے گئے پیراگرافس میں بحث کیاگیا ہے۔ جسے پہلے ہی وفاقی شرعی عدالت نے (شق2آرٹیکل203-D) میں جائزہ لیا ہے اور پہلے ہی اس کا فیصلہ کیا ہے کہ یہ قانون (قانون رسالت) عین اسلامی تصریحات کے مطابق ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ اس کی سزا اسلامی تصریحات (احکامات) کے عین مطابق ہے۔ اس لئے متذکرہ بالا قانون رسالت کا نظرثانی شدہ سزا کا ترمیمی بل ۲۰۱۰ء جسے شیریں رحمن نے اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
۷:۔قرآن پاک سے اس سلسلے میں چند آیات کا نیچے حوالہ دیاگیا ہے۔
آیت نمبر:۱
”اور بعض ان میں بدگوئی کرتے ہیں۔ نبی کی اور کہتے ہیں کہ یہ شخص سننے والا ہے تو کہہ سننے والا ہے تمہارے بھلے کے واسطے یقین رکھتا ہے الله پر، اور یقین کرتا ہے مسلمانوں کی بات کا اور رحمت ایمان والوں کے حق میں تم میں سے اور جو لوگ بدگوئی کرتے ہیں الله کے رسول کی ان کے لئے عذاب ہے دردناک۔“ (توبہ:۶۱)
آیت نمبر:۲
”وہ لوگ جو الله اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں۔ الله تعالیٰ کی ان پر لعنت ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ان کے لئے الله تعالیٰ نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ (الاحزاب:۵۷)
آیت نمبر:۳
”اے ایمان والو! اپنی آواز میں اپنے نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور بات کرتے ہوئے تم نہ چیخو۔ ان کے پاس جیسے بعضے تم میں سے آپس میں چیختے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع کر دئیے جائیں اور تمہیں خبر (شعور) بھی نہ ہو۔“
(الحجرات:۲)
آیت نمبر:۴
”تم پیغمبر کی دعا کو اپنے بعض لوگوں کی دعا کی طرح نہ سمجھو۔ الله تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے۔ جو نظریں چرا کر اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور الله تعالیٰ ان لوگوں کو جو کہ احکامات کو نظر انداز کرنے کی سازش کرتے ہیں جانتا ہے۔ خبردار ہو کہ ان کو غم اور دردناک عذاب پہنچے۔“(النور:۶۳)
آیت نمبر:۵
”تاکہ تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاوٴ اور اس کی عزت کرو اور اس کی قدر کرو اور اس کی تعریف کرو۔ صبح وشام۔“ (الفتح:۹)
آیت نمبر:۶
”اے ایمان والو! تم پیغمبر کے گھروں میں طعام کے لئے بلا اجازت داخل نہ ہو۔ لیکن اگر تمہیں دعوت دی جائے تو داخل ہونا اور جب کھانا ختم ہو جائے۔ تب چلے جاوٴ اور گفتگو کے سلسلہ میں زیادہ دیر وہاں مت ٹھہرو۔ یہ بات نبی کریم ا کے لئے باعث تکلیف ہوتی ہے اور وہ تمہارے وہاں جانے پر عار محسوس کرتے ہیں۔ لیکن الله اس حق کے کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا اور جب تم کوئی چیز حضورا کی ازواج مطہرات سے پوچھنا چاہو تو اسے پردے کے پیچھے سے پوچھو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے اطہر ہے۔ نبی کریم ا کو تکلیف (ایذا) پہنچانا نامناسب ہے (اس بات کی اجازت نہیں) انہیں نبی کریم ا کی ازواج مطہرات میں سے (کسی سے بھی) ان کی زندگی کے بعد بھی نکاح کی اجازت نہیں۔ یہ الله کے نزدیک بہت گناہ کی بات ہے۔“ (الاحزاب:۵۳)
آیت نمبر:۷
”وہ لوگ جو الله اور اس کے پیغمبر کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ بہت ہی ذلیل لوگوں میں سے ہوں گے۔“ (المجادلہ:۲۰)
آیت نمبر:۸
”بے شک اے نبی تمہارا دشمن دم کٹا ہے۔“ (الکوثر:۳)
آیت نمبر:۹
”وہ لوگ جو الله اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو قتل کر دیا جائے گا یا ان کو پھانسی (صلیب چڑھانا) دے دی جائے گی اور ان کے ہاتھ اور پاوٴں (متبادل سمتوں سے) کاٹ دئیے جائیں گے۔ یا انہیں وہاں سے (اس جگہ سے) نکال دیا جائے گا۔ پس دنیا میں بھی ان کے لئے ذلت ہے اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔“ (المائدہ:۳۳)
آیت نمبر:۱۰
”اگر وہ عہد کے بعد اپنے عہد سے پھر جائیں اور تمہارے دین پر طعن وتشنیع کریں تو کفار کے سرداروں سے قتال کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی ایمان نہیں۔ کیونکہ وہ پھرنے (اپنے عہد سے) والے ہیں۔“ (التوبہ:۱۲)
(اب کچھ حوالہ جات احادیث سے درج ذیل ہیں)
حدیث نمبر:۱
”حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن حضورا مکہ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے سرپر خود پہنے ہوئے تھے جب انہوں نے اسے اتارا۔ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ ابن خطل غلاف کعبہ سے چمٹ رہا ہے۔ نبی کریم ا نے فرمایا اس کو قتل کر دو اور مالک نے بیان کیا کہ اس دن حضورا احرام کی حالت میں نہیں تھے اور الله بہتر جانتا ہے۔“ (صحیح بخاری ج۵ باب۵۸۲ ص۴۰۵،۴۰۶)
حدیث نمبر:۲
”نبی کریم ا نے فرمایا (جابر بن حیان سے) کہ کعب بن اشرف (یہودی) کو مارنے کے لئے کون تیار ہے؟ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا۔ ”کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ میں اسے مار ڈالوں۔“ تو نبی کریم ا نے اجازت دی۔ (ہاں کہی) تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دی کہ میں جب چاہوں اسے قتل کر دوں۔ نبی کریم ا نے اجازت عطاء فرمائی۔“ (صحیح بخاری ج۴ باب۲۷۱ ص۱۰۸)
حدیث نمبر:۳
”حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ الله کے نبی نے انصار میں سے کچھ لوگوں کو ابورافع (یہودی) کے قتل کے لئے بھیجا اور عبدالله بن عتیک کو ان کا امیر بنایا۔ ابورافع نبی کریم ا کی شان میں گستاخی کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کرتا تھا۔ وہ حجاز کی سرزمین میں ایک قلعے میں رہتا تھا۔ جب سورج غروب ہونے کے بعد اس کے قلعے تک پہنچے اور تب لوگ اپنا سامان اپنے گھروں میں (واپس) لاچکے تھے۔ تو عبدالله بن عاتک اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم اپنی جگہ پر بیٹھ جاوٴ اور میں گیٹ کے دربان سے گیٹ میں داخل ہونے کے لئے کوئی حربہ کروں گا تو عبدالله قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور جب دروازے پر پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو قصداً کپڑوں میں ڈھانپ لیا۔ تاکہ دربان انہیں (وہیں کا سمجھتے ہوئے) اندر بلالے۔ لوگ اندر جاچکے تھے اور دربان نے عبدالله کو (قلعے کے خدام) میں سے سمجھتے ہوئے کہا۔ او الله کے بندے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو اندر داخل ہو جاوٴ۔ کیونکہ میں گیٹ بند کرنا چاہتا ہوں۔ عبدالله نے اپنی کہانی میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں قلعے میں داخل ہو گیا اور اپنے آپ کو چھپا لیا۔ جب لوگ اندر داخل ہوگئے تو دربان نے دروازہ بند کر لیا اور چابیاں لکڑی کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیں۔ میں اٹھا اور چابیاں لے کر میں نے دروازہ کھول دیا۔ کچھ لوگ رات کے وقت ابورافع کے ساتھ خوشگوار رات گذارنے کے لئے اس کے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب اس کے ساتھی رات کی تفریح کے بعد چلے گئے تو میں اس کی طرف چڑھا اور جب میں نے ایک دروازہ کھولا تو اسے اندر سے بند کر دیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ کیا ان لوگوں کو میری موجودگی کا پتہ چلنا چاہئے۔ وہ مجھے اس کو قتل کرنے تک نہیں پکڑ سکیں گے۔ تب میں اس تک پہنچ گیا اور اسے اپنے خاندان کے درمیان تاریک کمرے میں سوئے ہوئے پایا۔ لیکن میں اس کی موجودگی کی صحیح جگہ کو نہ پاسکا۔ اس لئے میں زور سے چلایا۔ ”اے ابورافع“ ابورافع نے کہا کون ہے۔ میں اس آواز کی سمت چل پڑا اور تلوار سے اس پر وار کیا۔ لیکن میں اس پریشانی کے سبب اسے قتل نہ کر سکا وہ زبردست چلایا اور میں مکان سے باہر آگیا اور چند لمحے اس کا انتظار کیا اور تب دوبارہ اس کی طرف گیا۔ اے ابورافع یہ کیسی آواز (شور) ہے؟ ابورافع نے کہا۔ تمہاری ماں (خوار) ہو۔ ایک آدمی میرے گھر میں داخل ہوا اور تلوار سے مجھ پر وار کیا۔ میں نے اسے اور شدت سے تلوار ماری۔ لیکن اسے قتل نہ کر پایا۔ پھر میں نے تلوار کو اس کے پیٹ میں اتنا دبایا کہ اس کی کمر تک جا پہنچی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اب میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں نے ایک ایک کر کے دروازے کھولے اور پھر میں سیڑھیوں تک پہنچ گیا۔ (آخری سیڑھی تک) اور میں نے سمجھا میں آخری سیڑھی تک پہنچ گیا ہوں۔ میں نے باہر قدم رکھا۔ مگر پڑا اور چاندنی رات میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے ٹانگ کو اپنی پگڑی سے باندھ لیا اور آگے روانہ ہوا اور دروازے پر جا بیٹھا اور کہا کہ آج رات میں نہیں باہر جاوٴں گا۔ جب تک یہ نہ جان لوں کہ وہ مرچکا ہے۔ اگلے دن صبح (مرغ کے اذان کے وقت) موت کا اعلان کرنے والا دیوار پر کھڑا اعلان کر رہا تھا کہ میں ابورافع جو کہ حجاز کا سوداگر ہے۔ اس کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا اب ہم اپنے آپ کو بچائیں۔ کیونکہ الله نے ابورافع کو مار دیا ہے۔ اس کے بعد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوا اور پاک پیغمبر کے پاس پہنچ کر پورا قصہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا۔ ”اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو باہر نکالو۔“ میں نے اسے باہر نکالا آپ نے اسے ملا تو یہ ایسے ٹھیک ہوگئی۔ جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ (یعنی کوئی تکلیف تھی ہی نہیں)“
(صحیح بخاری ج۵ باب نمبر۳۷۱ ص۲۵۱،تا۲۵۳)
حدیث نمبر:۴
”حضرت عمیر بن امیہ سے مصدقہ روایت ہے کہ اس کی مشرکہ بہن اسے تنگ کیا کرتی تھی۔ جب وہ حضورا سے ملتا تو وہ (ان کے سامنے) حضورا کو گالیاں دیتی تھی۔ آخرکار ایک دن اس (حضرت عمیر) نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بیٹے چلائے اور کہا ہم ان قاتلوں کو جانتے ہیں جنہوں نے ہماری ماں کو قتل کیا ہے اور ان لوگوں کے والدین مشرک (کافر) ہیں۔ حضرت عمیر نے سوچا کہ اس عورت کے بیٹے غلط آدمیوں کو قتل نہ کر دیں۔ وہ نبی کریم ا کے پاس آئے اور تمام صورتحال عرض کی۔ رسول الله ا نے کہا، کیا تم نے اپنی بہن کو کیوں قتل کر دیا ہے؟ حضرت عمیر نے عرض کی وہ مجھے آپ کے متعلق تکلیف پہنچاتی تھی۔ نبی کریم ا نے اس عورت کے بیٹوں کو بلوایا اور قاتلوں کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے قاتلوں کے بارے میں کچھ اور لوگوں کے نام لئے۔ نبی کریم ا نے انہیں اطلاع دی اور اعلان کیا کہ اس (عورت) کا قتل ٹھیک ہوا ہے۔“ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ج۵ ص۲۶۰)
(جیسا کہ یہ PLD 1991-FSC10 میں رپورٹ شدہ ہے)
حدیث نمبر:۵
”حضرت عکرمہ سے مستند روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورا کو گالی دی تو پاک پیغمبرا نے فرمایا مجھے اس دشمن کے خلاف کون مدد دے گا۔ حضرت زبیر نے فرمایا میں۔ تب حضرت زبیر اس سے لڑے اور اسے مارڈالا۔ نبی کریم ا نے اسے یہ نیکی عطاء فرمائی۔“ (PLD 1991 FSC10/25 میں رپورٹ کی گئی)
حدیث نمبر:۶
”عبدالله بن محمد سے سفیان بن عیینہ سے اور عمر سے (ان تمام حوالوں سے) حضرت جبار نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا کہ کون کعب بن اشرف کو قتل کرے گا۔ کیونکہ پیغمبرا کو بہت ستایا ہے۔ محمد بن مسیلمہ نے دریافت کیا۔ اے الله کے پیغمبر کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ میں اسے قتل کروں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں اور انہوں نے اسے مار ڈالا۔“ (صحیح مسلم کتاب الجہاد ۲۱۵۸)
حدیث نمبر:۷
”یہ بیان کیاگیا ہے۔ فتح مکہ کے بعد حضوراعام معافی کا اعلان کر چکے تو آپ نے ابن خطل اور اس کی کنیزوں کو جو کہ نبی کریم ا کے متعلق گستاخانہ شاعری کرتی تھیں۔ ان کے قتل کا حکم فرمایا۔“ (الشفاء از قاضی عیاض ج۲ ص۵۸۴) (PLD 1991 FSC10 میں رپورٹ کیاگیا ہے)
سیکشن ۲۹۵۔سی
پاکستان کے پینل کوڈ (تعزیرات پاکستان) اسی قانون سے متعلق ہے جو کہ زیر بحث ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ سیکشن ۲۹۵۔سی ۱۸۶۰ء پر اور کورٹ کے مجوزہ چارج پر بھی طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔
۲۹۵۔سی قانون کی تشریح
گستاخانہ الفاظ کا استعمال (نبی کریم یا انبیاء علیہم السلام کے متعلق)
”جو شخص الفاظ کے ذریعے جو بولے گئے یا تحریر کئے گئے یا ظاہری نقوش کے ذریعے یا کسی بہتان کے ذریعے یا طعن آمیزی کے ذریعے یا خوشامد کے ذریعے باالواسطہ یا بلاواسطہ ہو پاک پیغمبر کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے۔ اسے سزائے موت دی جائے گی۔ یا عمرقید دی جائے گی اور جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔“ توہین رسالت پر مندرجہ ذیل چارج کورٹ آف سیشن وغیرہ کی طرف سے (اس نیچے دی گئی شکل کے مطابق چارج لگایا جائے گا)
توہین رسالت کے مرتکب مجرم پر قانونی عدالتی چارج
”یہ کہ تم نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو لکھ کر یا خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ کا یا ظاہری نقوش یا بہتان کا ذکر کیا جو کہ اس نے جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ارادے سے پاک پیغمبر محمداکے مقدس نام کی بے حرمتی کی ہے۔ ایسے نازیبا تاثرات (الفاظ) استعمال کئے۔ اس طرح تم اس جرم کے مرتکب ہوئے اور اس طرح پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کی شک ۲۹۵۔سی کے مطابق سزا (سزائے موت اور عمر قید اور جرمانہ) کے مستحق ہوئے۔“
اور میری (جج) کی ہدایت پر اس الزام کی ٹرائل عدالت کے ذریعے کی گئی۔
متذکرہ بالا قرآنی آیات اور پاک پیغمبر کی روایات سے عیاں ہے کہ قرآن وسنت اور پاکستان کے آئین کے مطابق ناموس رسالت کی بے حرمتی پر سزائے موت مقرر کی گئی ہے اور دستور پاکستان میں ایسے الفاظ کو استعمال کرنے سے جو کہ عملاً اور بدنیتی پر مبنی ہوں (اس خاص الزام میں) ایسے معاملے میں جو سزا رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی اور کوئی بھی عدالت اس سے ہٹ کر کوئی اور سزا نہیں دے سکتی۔ یہ قانون کورٹ پر اس کے غلط استعمال پر دو ضمانتیں قدغن کے طور پر فراہم کرتا ہے۔ پہلی بات یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جج اس جرم کے تعین کے وقت بنظر غائر دیکھے اور دوسرا یہ کہ توہین رسالت کے جرم کے اصل ارتکاب کو دیکھے۔ جرم کے معاملے میں انصاف کی رو سے یہ دونوں اصول بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہیں اور بین الاقوامی معیاروں کے تمام عملی مقاصد پر پورا اترتے ہیں۔
توہین رسالت کا جرم تقریباً تمام الہامی مذاہب میں قابل سزا جرم ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ”یہودیت“ سے لی جاسکتی ہے۔ (تورات بک تین سے) (تورات: ۱۶:۲۴، Livities) میں یہ بیان کیاجاتا ہے کہ: ”وہ جو اہانت رسول کرتے ہیں۔ ان کو یقینا سزائے موت دی جائے گی۔“
اس غلط پروپیگنڈے کو ختم کرنے کے لئے کہ توہین رسالت کا قانون صرف پاکستان ہی میں رائج ہے اور اس طریقے سے صرف ایک مخصوص طبقے کو ٹارگٹ کرنے کے لئے (یہ قانون) بنایا گیا ہے۔ (یہ تاثر بالکل غلط ہے) اس سلسلے میں ہم توہین رسالت کے قانون کو مختلف ممالک میں رائج قوانین کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
(تقابلی جائزہ درج ذیل ہے)
افغانستان :افغانستان جوکہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ توہین رسالت کے قانون کو شریعت کی روشنی میں قتل یا پھانسی کی سزادیتی ہے۔
آسٹریلیا:قانون ناموس رسالت کے معاملے میں کچھ ریاستوں اور علاقوں میں جرم ہے اور کچھ میں نہیں ہے۔ ناموس رسالت کے سلسلے میں توہین رسالت کے مجرم کو آخری دفعہ ۱۹۱۹ء میں وکٹوریہ میں پھانسی دی گئی۔
آسٹریا :آسٹریا میں توہین رسالت کے سلسلہ میں دو شقیں موجود ہیں۔ (۱)۱۸۸/ مذہبی تعلیمات میں تبدیلی لانا۔(۲) ۱۸۹/مذہبی تعلیمات کو (ڈسٹرب) گڑبڑ پیدا کرنا۔
بنگلہ دیش :بنگلہ دیش قانون رسالت کی بے حرمتی کو قانوناًروکتا ہے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے بھی روکتا ہے اور گفتگو کی آزادی کے سلسلے میں دیگر قوانین اور پالیسیوں کو بھی روکتا ہے۔
برازیل :آرٹیکل ۲۰۸/ پینل کوڈ کے مطابق عوامی طور پر ایسا کوئی بھی عمل جو مذہبی تعلیمات میں تبدیلی کا باعث بنے ایک قابل سزا جرم ہے۔ جس کی سزاایک مہینے سے ایک سال تک ہوسکتی ہے۔ یا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔
کینیڈا :کینیڈا کے کریمنل کوڈ کے مطابق اہانت رسول ایک جرم ہے۔ لیکن کینیڈین حکومت ان شقوں کو چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈم کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ ۱۹۳۵ء میں کینیڈا میں قانون رسالت کے مجرم کو پھانسی دے دی گئی۔
ڈنمارک :ڈنمارک میں پینل کوڈ نمبر۱۴۰/ توہین رسالت کے متعلق ہے۔ لیکن ۱۹۳۸ء کے بعد جبکہ ایک نازی گروپ کو غیرمذہبی پروپیگنڈے کی بنا پر سزا دی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد اس شق کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نفرت پر مبنی تقاریر کے حوالے سے ۲۶۶بی کے قانون کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ توہین رسالت کے قانون کے خلاف ۲۰۰۴ء میں تجاویز دی گئیں۔ لیکن اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناکام ہوگئیں۔
مصر :مصریوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے۔ اکثریت قانون رسالت کو مصر کی اقلیتوں خاص طور پر شیعہ، صوفی، عیسائیوں، بہائی اور دہریوں کو تنگ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔
اردن :اردن کا قانون توہین رسالت سے روکتا ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے سے روکتا ہے یا نبی کریم ا کی شان میں گستاخی سے روکتا ہے۔ ان حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کو تین سال تک کی سزا اور جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
کویت :کویت ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ اہانت رسول کو سنی اسلام کے مطابق قانون کے ذریعے روکتا ہے۔ تاکہ شریعت کے ذریعے۔ اہانت رسول کے ملزم کویت میں عام طورپر شیعہ، تعلیمی اداروں اور صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔
ملائشیا :ملائشیا مذہب کی توہین سے روکتا ہے اور مذہبی معاملات کی توہین کو تعلیم کے ذریعے سے روکتا ہے اور اس سلسلے میں الیکٹرانک میڈیا اور اخباری میڈیا پر قانونی پابندی عائد کرتا ہے۔ ملائشیا میں کچھ ریاستیں شرعی کورٹس کے ذریعے سے اسلام کی حفاظت کرتی ہیں۔ لیکن جہاں شریعت لاگو نہ ہوتی ہو وہاں ملائشین پینل کوڈ مجرموں کو سزائیں دیتا ہے۔
مالٹا :توہین رسالت کے خلاف قوانین کی بجائے حکومت مالٹا نے مذہب میں تبدیلی اور غیر اخلاقی جرائم کے خلاف قوانین بنائے ہیں۔ ۱۹۳۳ء کے قانون شق نمبر۱۶۳ (کریمنل کوڈ) رومن کیتھولک مذہب کی خلاف ورزی سے روکتا ہے۔ یہ مالٹا کا مذہب ہے۔ مالٹا کے مذہب میں ردوبدل یا ترمیم کرنے والے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک سے چھ ماہ کی قید دی جاتی ہے۔ آرٹیکل نمبر۱۶۴ کی رو سے مالٹا کی تہذیب میں کسی قسم کی تحریف یا ردوبدل کرنے والے کو ایک سے تین ماہ کی قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آرٹیکل ۳۳۸بی بی کے مطابق اگر کوئی شخص بیشک نشہ کی حالت میں کوئی ایسے غیر موزوں یا غلط الفاظ استعمال کرتا ہے یا غیر اخلاقی حرکات کرتا ہے تو وہ آرٹیکل نمبر۳۴۲ کے مطابق بھی عوامی جذبات کو مجروح کرنے یا ناشائستگی پھیلانے پر سزا کا مستوجب ہوگا۔ ۳۳۸بی بی میں اہانت رسالت کے مرتکب شخص کو گیارہ یورو اور ۶۵سینٹ جرمانہ کیا جائے گااور زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک قید کی سزا دی جائے گی۔ ۲۰۰۸ء میں ۶۲۱/افراد کے خلاف مالٹا میں توہین رسالت کے سلسلے میں کاروائی کی گئی۔
نیدر لینڈ :نیدرلینڈ کی ریاست میں توہین رسالت پر آرٹیکل نمبر۱۴۷ کی رو سے تین مہینے کی جیل ہے یا ۳۸۰۰یورو کا جرمانہ ہے۔
نیوزی لینڈ :نیوزی لینڈ میں سیکشن ۱۲۳ کرائمز ایکٹ ۱۹۶۱ء کے مطابق اگر کوئی شخص توہین رسالت پر مبنی کوئی مواد شائع کرتاہے تو اس کو ایک سال کی سزا ہے۔ اس سلسلے میں The maari landکے پبلشرجان گلورو کو ۱۹۲۲ء میں سزادی گئی۔ نائجیریا :نائیجیریا میں سیکشن ۲۰۴ کے مطابق توہین رسالت ایک جرم ہے اور شریعت کورٹس کو کچھ ریاستوں میں شریعت کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہے۔ آزادخیالی کے عنصر کے سبب نائیجیریا میں کورٹس کی آئینی حیثیت کو اکثر غصب کیاگیا ہے۔
سعودی عرب :سعودی عرب کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ ملک میں سنی اور وہابی فرقے موجود ہیں۔ ملک کے قوانین ایک خوبصورت آمیزہ ہیں۔ شریعت کے اور اعلیٰ مذہبی سکالرز کے فتویٰ کی روشنی میں فیصلے کئے جاتے ہیں جو مختلف سزاؤں کی شکل یاموت کی شکل میں ہوسکتے ہیں۔
سوڈان :سوڈان میں ریاستی مذہب سنی اسلام ہے۔ ملک کی تقریباً ۷۰فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ باقی ایک بڑاگروپ جو تقریباً ۲۵فیصد ہے اینیمسٹ (Animist) مذہب پر مشتمل ہے۔ سیکشن ۱۲۵/سوڈانی کریمنل ایکٹ کے مطابق مذہب کی تذلیل، نفرت یا توہین کی سختی سے ممانعت ہے اور اس سیکشن کے مطابق جرمانے اور مختلف سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ (جرمانہ زیادہ سے زیادہ ۴۰لیشنزہے) نومبر ۲۰۰۷ء میں اگر سوڈانی ٹیڈی بیئر بیلس فیمی کیس (Sudanese taddy bear balesphemy case) بہت مشہور ہوا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں یہ سیکشن دو مصری بک سیلرز کے خلاف استعمال ہوا۔ کیونکہ انہوں نے کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نبی کریم ا کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے۔ ان دو بک سیلرز کو چھ ماہ کی سزا دی گئی۔
متحدہ عرب امارات :یواے ای توہین رسالت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ وہ شریعت کے قوانین کے عین مطابق اور غیر مسلموں کے خلاف جج حضرات کی سماعت کے بعد مختلف سزائیں دی جاتی ہیں۔
برطانیہ :برطانیہ میں توہین رسالت کے قوانین صرف عیسائیت کے متعلق تھے۔ آخری توہین رسالت کا معاملہ ۲۰۰۷ء میں ایک گروپ کرسچین وائس کے خلاف ہوا۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک (gay) کے طور پر سٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس گروپ پر الزمات لگائے گئے۔ لیکن ویسٹ منسٹر کے مجسٹریٹ نے پھر ہائیکورٹ نے یہ الزمات یہ کہہ کر مسترد کردئیے کہ سٹیج یا تھیٹر پر یہ قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ آخری کامیاب کیس برطانیہ میں ۱۹۷۷ء میں ڈینس لیمن کے خلاف دائر ہوا جو گے نیوز کا ایڈیٹر تھا۔ اس کی ایک لکھی گئی نظم (The love thaf dares to speak its name) جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلط کردار پیش کیا گیا۔ لیمن کو پانچ سو پونڈ کا جرمانہ کیاگیا اور نوماہ کی قید ہوئی۔ اسی نظم نے ۲۰۰۲ء میں (Trafalyas squasc) صریح میں اسی طرح لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ لیکن کوئی آئینی کاروائی یا سزا نہیں ہوئی۔ ۹/دسمبر۱۹۲۱ء آخری شخص برطانیہ میں جسے توہین رسالت پر سزا ہوئی۔ اس کا جان ولیم گوٹ تھا۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یروشلم (بیت المقدس) میں داخلے کے متعلق من گھڑت کہانی پیش کی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا موازنہ ایک سرکس کے مسخرے سے کیا تھا۔ اسے نومہینے کی سخت قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ سکاٹ لینڈ میں توہین رسالت کا آخری کیس ۱۸۴۳ء میں ہوا۔ جبکہ ۱۶۹۷ء میں ایک سکاٹش باشندے تھامس ایکن ہڈ کو توہین رسالت پر پھانسی دے دی گئی۔ ۵/مارچ ۲۰۰۸ء کو کریمنل جسٹس اور امیگریشن ایکٹ ۲۰۰۸ء میں توہین رسالت کی قانونی دفعات کے حوالے سے انگلینڈ اور ویلز میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور عام قانون توہین رسالت ختم کردیاگیا۔ ۸/جولائی ۲۰۰۸ء کو شاہی منظوری سے یہ نیا تبدیل شدہ قانون لاگو ہوگیا۔
یمن :یمن میں بھی دوسری اسلامی ریاستوں کی طرح توہین رسالت پہ قوانین اور سزائیں موجود ہیں۔ مذہبی اقلیتوں، ذہین لوگوں، فنکاروں، رپورٹرز اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں کو نقصان پہنچانے پر سزائیں ہیں۔ اگر کوئی شخص واقعتا توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو یمن کی شرعی کورٹس اسے سزائے موت دیتی ہے۔
امریکہ :امریکہ کے ابتدائی ایام میں توہین رسالت پر موت کی سزا تھی۔ لیکن اس میں لچک یا تبدیلی کے مشی گن اوکلاہوما، ساؤتھ کیرولینا، میساجوزٹس اور پنسلوانیا ہیں۔ ریاستوں کے توہین رسالت کے متعلق قوانین موجود ہیں۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں ابتدائی دنوں میں توہین رسالت سے متعلق قوانین موجود ہیں۔ مثلاً باب ۲۷۲ میساچوزٹس میں عام قوانین میں ایک شق موجود ہے جو ۱۶۹۷ء کی ریاستی قوانین میں اسی سے متعلق ہے۔ سیکشن ۳۶/ جوکوئی بھی ارادتاً الله پاک کے مقدس نام کی بے حرمتی کرے گا۔ انکار کی صورت میں کوسنے کی صورت میں یا ملحدانہ انداز میں خدا کی عبادت کرے گا یا اس کی مخلوق کو برا بھلا کہے گا یا گورنمنٹ کو اور دنیا کو برابھلا کہے گا یا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کوئی غلط الفاظ کہے گا یا توہین آمیز یا مضحکہ خیز انداز اختیار کرے گا تو اسے ایک سال یا تین سو ڈالر سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور اسے آئندہ کے لئے اچھے روئیے کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ قانون کے سیکشن ۲/اے اور نمبر۴۱۷ کے مطابق اس سلسلے میں ہائی کورٹ کے مقابلے میں کسی اور عدالت سے بریت کے بعد وہ اعلیٰ عدالتوں میں سزا کے خلاف اپیل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی کیس جوکہ ۳۷۴/ سیکشن کے تحت اور ۳۷۶کے تحت اور کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء کے تحت سزا کی توثیق کی جاسکتی ہے۔ یا کوئی اور سزا قانون کے تحت یا فردجرم عائد کرسکتی ہے اور کسی بھی دفعہ کے ملزم کو جسے سیشن کورٹ نے سزا دی ہو یا نئے ٹرائل کا حکم دیاجاسکتا ہے۔ اسی مقدمے کی دوبارہ یا ترمیم شدہ قانون کے تحت بری بھی کیا جاسکتا ہے۔
پرائم منسٹر آف پاکستان
اس موقع پر میں آپ کی توجہ اس معاملے کے ایک اور پہلو کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ کچھ پروپگنڈا سے بھرے ہوئے ذہن اور اسی طرح کے ایجنڈا سے بھرے ہوئے افراد ایک غلط تأثر دیتے ہیں کہ پاکستان میں اس سلسلے کے جو قوانین ہیں وہ حقوق انسانی کے بین الاقوامی معیاروں پر پورا نہیں اترتے یا یہ قوانین عالمی سطح پر قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ ثأثر کلی طور پر بے بنیاد اوربیمار ساختہ ہے۔ اس کی قریب ترین مثال یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ انڈیا میں ۱۹۷۳ء کے کریمنل کوڈ (ایکٹ ۲۔۱۹۷۴ء) کے باب نمبرxxvIII میں اسی طرح کی شق کے مطابق توہین رسالت کے متعلق سیشن کورٹ کے ذریعہ اسی طرح کی سزا سنائی گئی۔ ۳۶۶/ سزائے موت سیشن کی طرف سے ہائی کورٹ کی طرف بھجوانا۔ جب سیشن کورٹ سزائے موت سناتی ہے تو کیس ہائی کورٹ میں داخل کیا جائے گا اور سزا پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا جب تک ہائی کورٹ اس کی توثیق نہ کردے۔ تقابلی مطالعہ کے فائدے کے حوالے سے ایک اسی طرح کی گنجائش جو پاکستان کے کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء سیکشن ۳۷۴ میں موجود ہے میں اس کا ذکر کروں گا۔
شق ۳۷۴/ سزائے موت کا سیشن کورٹ کی طرف سے ہائی کورٹ میں داخل کیا جانا۔ جب سیشن کورٹ سزائے موت سناتی ہے تو کیس ہائی کورٹ میں داخل کیا جائے گا اور سزا پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا جب تک ہائی کورٹ اس سزا کی توثیق نہ کردے۔ اس تقابلی مطالعے سے بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کریمنل کوڈ ۱۸۹۳ء اور انڈین کریمنل کوڈ ۱۹۷۳ء میں توہین رسالت کے سلسلے میں موجود قانون کے الفاظ تک یکساں ہیں۔ اس ثابت شدہ تجزئیے کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان میں حالیہ قوانین اس طرح کے مقدمات کے ٹرائل اور قانونی اطلاق کے سلسلے میں بین الاقوامی معیار اور ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ مجھے یہاں افسوس سے کہنا پڑے گا کہ پاکستان میں اس سلسلے میں موجودہ کریمنل کوڈ ۱۹۴۷ء کی آزادی کے بعد نہیں بنایا گیا۔ بلکہ اس سلسلے میں برطانوی عہد کا قانون ہی رائج رہا ہے۔ پاکستانی عوام دیگر اقوام کے اندر باوقار مقام بناسکتے ہیں اور بین الاقوامی خوشی اور انسانیت میں اپنا پورا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس حکم کا سوسائٹی میں ادراک اس وقت تک نہیں حاصل ہوسکتا ہے جب تک اس کی باقاعدہ قانون سازی نہ ہو اور اداروں میں رائج نہ ہو۔ اس ریاست کا مذہب اسلام ہے۔ جہاں پہ قرآن وسنت قانون کے بڑے ماخذ مانے جاتے ہیں۔ اب سیکشن ۲۹۵سی کا ٹھوس حیثیت کی بات ہوگی جوکہ پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ء ایکٹ نمبر۳۔۱۹۸۶ء پر لایاگیا (اسی قانون میں یہ شامل ہے) اس موقع پر پہلے سے وضاحت شدہ اور مکمل شکل میں قانون موجود ہے۔ جوکہ درج ذیل ہے:
۲۹۵سی نبی کریم ا کی شان میں گستاخانہ الفاظ تبصرے یا آراء۔ جوکوئی بھی اپنی الفاظ کے ذریعے چاہے وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہو یا مرئی نقوش کے ذریعے یا بہتان کے ذریعے یا طعن آمیز کنایہ کے ذریعے یا غلط دلکشی کے ذریعے (غلط طریقے سے گھیرا ) بالواسطہ یا بلاواسطہ نبی کریم ا کے پاک نام کی بے حرمتی کرتا ہے۔ اسے سزائے موت دی جائے گی یا عمر بھر کی قید اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ قانون کے اس ٹکڑے پر پارلیمنٹ، پارلیمانی فورم، فورسز کے اندر اور باہر بہت زیادہ بحث ہوئی اور ایک آئینی عدالت کے سامنے بھی بحث ہوچکی ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے اس قانون کا قرآن وسنت کی روشنی میں بہت گہرا جائزہ لیا ۔ بعنوان مقدمہ محمداسماعیل قریشی پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون وپارلیمانی امور (PLD 1991 FSC P.10) اس نتیجہ پر پہنچے کہ توہین رسالت کے معاملے میں سزائے موت کے علاوہ کوئی بھی اور سزا اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ کچھ پیرے فیصلے میں سے نیچے پیش کئے جارہے ہیں۔
کافرہ آسیہ کے خلاف درج ذیل ۔ پیرا نمبر۳۳۔ الفاظ(شتم، سب اور ایذاء) نبی کریم ا کی توہین کے لئے (معاذالله) قرآن وسنت میں استعمال ہوتے ہیں۔ جن کا مطلب، ابتلا میں ہونا، نقصان پہنچانا، گرانا، اہانت کرنا، توہین کرنا، دشمنی کرنا، اشتعال دلانا، مجروح کرنا، مشکل یامصیبت میں ڈالنا، بہتان طرازی کرنا، منصب سے گرانا، حقارت کرنا وغیرہ۔ (Arabic English Lexicon Book-1 Part-1 P.44) لفظ شتم کا مطلب تذلیل کرنا، گالی دینا، انتقام لینا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ملامت کرنا، شہرت کو گرانا۔
(PLD 1991 FSC 10 P.26) پیرا نمبر۶۶۔ عملاً تمام ماہرین قانون اور سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کا ناموس ایک مقدس ترین امر ہے اور کسی بھی نبی یا رسول کی شان میں گستاخانہ الفاظ کی سزا صرف موت ہے۔
پیرا نمبر۶۷۔ اوپر کی گئی بحث کے تناظر میں یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ پاکستان پینل کوڈ سیکشن ۲۹۵سی میں جو عمرقید کی سزا ہے وہ اسلامی احکامات قرآن پاک اور سنت کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ الفاظ (عمرقید) اس میں سے حذف کئے جاتے ہیں۔ (p.35 pld 1991 fsc page-10) (اس عظیم ترین فتح پر پوری امت مسلمہ کو مبارک باد)
پاکستان میں عدلیہ کے مروجہ روایات کے مطابق مضبوط آئینی قانون عدالتوں میں موجود ہے۔ اس واضح نظام کے تحت ہر وہ جرم جس پہ موت کی سزا ہے سیشن کورٹ کی طرف سے ٹرائل کیا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ ۱۸۹۸ء اور قانون شہادت آرڈر ۱۹۸۴ء کی شقیں ایک شفاف ٹرائل کی ضمانت مہیا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء اٹھارویں ترمیم ایکٹ ۲۰۱۰ء کے مطابق قانونی طور پہ ہر ملزم کے شفاف ٹرائل کو یقینی بناتی ہے اور اس کو پورے آئینی وعدالتی پراسس میں سے گزارا جائے گا۔ پاکستان میں اس قانون کے تحت ہر ملزم کو ایک قانونی ماہر کی خدمات مہیا کی جاتی ہیں اور اسے اپنے دفاع کا مکمل حق دیا جاتا ہے اور کسی بھی ملزم کو اپنے پسندیدہ وکیل کی خدمات لینے سے نہیں روکا جاتا اور یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر۱۰ شق نمبر۱ بنیادی انسانی حقوق کے عین مطابق ہے۔ ایک مرتبہ ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد پاکستان کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء سیکشن ۳۷۴ کے تحت پھر یہ سزا منسوخ نہیں کی جاسکتی۔ ۳۷۴شق۔ جب سیشن کورٹ سزائے موت سناتی ہے تو کیس ہائی کورٹ میں بھیج دیا جاتا ہے اور سزا پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ جب تک ہائی کورٹ اس کی توثیق نہ کردے۔
۱۸۔ ایک ملزم جوکہ سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کی طرف سے سزا یافتہ ہو وہ ہائی کورٹ میں کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء سیکشن ۴۱۰ کے تحت اپیل کرسکتا ہے۔ بریت کی صورت میں صوبائی حکومت پبلک پراسکیوٹر کو ہدایت کرسکتی ہے کہ وہ کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء سیکشن ۴۱۷ کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کرے۔
۲۰۔ پھر ایک اور حل ملزم یا سزا یافتہ کے لئے مہیا کیا گیا ہے کہ وہ سیکشن اے کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء کے تحت اپیل کرے۔ مزید یہ کہ ایک اور حل بھی مہیا کیا گیا ہے کہ ملزم اور سزا یافتہ شخص اوردکھی شخص کو پاکستان کی ایک اور اعلیٰ عدالت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء آرٹیکل ۱۹۸۵ء شق نمبر۲ کے تحت سپریم کورٹ میں سابقہ (سزائے موت) سزا کے متعلق سماعت کرانے کا حق ہوگا۔
۲۔۱۸۵ ہائی کورٹ کی طرف سے سزائے موت کے آخری فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق ہوگا۔
اے…اگر ہائی کورٹ کسی ملزم کے رہائی کی اپیل واپس کرتی ہے اور اسے سزائے موت دیتی ہے یا زندگی بھر کے لئے ملک بدری یا عمرقید کی سزادیتی ہے یا نظر ثانی پر سزاپہ سزا بڑھادیتی ہے
بی… اگر ہائی کورٹ نے خود ہی اپنی مرضی سے ماتحت عدالت سے کوئی مقدمہ لے لیا ہے اور اس طرح کے ٹرائل میں ملزم کو سزا (یعنی سزائے موت) سناتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
سی… اگر ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کی توہین پر کسی پر سزا مسلط کی ہے۔
۲۱۔ سپریم کورٹ کی فائنل ججمنٹ کے بعد بھی یا کسی اور کورٹ اور ٹربیونل کی ججمنٹ کے بعد بھی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے صدر کو آئین کے آرٹیکل نمبر۴۵کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے معافی دے دے۔ سزائے موت کو سزائے قید میں بدل دے یا سزا معاف کردے۔ معطل کردے یا تبدیل کردے۔ کوئی بھی سزا جو کسی بھی عدالت۔ ٹربیونل یا کسی دوسری مجاز عدالت نے دی ہو صدر پاکستان کے ان اختیارات کی عدالتی جانچ پڑتال، عبدالمالک دی سٹیٹ کے کیس میں pld 2006 sc 365کی گئی۔ اس کیس مجھے معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کو بطور ایڈووکیٹ مدد دینے کا شرف حاصل ہوا۔ (بسلسلہ پٹیشن اور اپیلوں کے) اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کی اور یہ بنچ جسٹس رانا بھگوان داس، مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر، مسٹر جسٹس محمدجاوید بٹر، مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشمل تھا۔ فوری حوالہ کے لئے متعلقہ پیرا نیچے دیا گیا ہے۔
آرٹیکل نمبر۴۵۔۴۸ (۲) اور اے۔۲ کریمنل پروسیجر کوڈ ۱۸۹۸ ء آف وی۔۴۰۲ایس… صدر پاکستان کے اختیارات آئین کے آرٹیکل نمبر۴۵کے تحت رعایت دئیے جانے کے متعلق۔ اس آرٹیکل کی ساخت اور گنجائش۔
صدر پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بلامداخلت کسی بھی جرم میں کسی کو بھی رعایت دے سکتے ہیں اور کوئی بھی ماتحت عدالت صدر کے اختیارات کو مسترد نہیں کرسکتی۔ صدر کے ایسے اختیارات آئین کے آرٹیکل اے۲ کی رو سے متجاوز نہیں ہیں اور یہ صدر کے اختیارات سزا کو معاف کرنے۔ سزائے موت کو عمرقید میں بدلنے۔ سزا کو ملتوی کرنے۔ گھٹانے یا معطل کرنے یا کسی بھی سزا کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ہیں اور یہ اختیارات ۴۰۲ سیکشن کے خلاف نہیں ہیں جوکہ پاکستان کے کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ء کا حصہ ہیں۔ اوپر کی گئی طویل بحث جو کہ توہین رسالت کے سلسلہ میں سزائے موت کے متعلق ہے اور جس کا ذکرپینل کوڈ ۱۸۶۰ء سیکشن ۲۹۵سی میں ہے۔ یہ اسلامی احکامات جوکہ قرآن پاک اورنبی کریم ا کی سنت میں بیان کئے گئے ہیں کے عین مطابق ہے اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت نہیں۔ اس لئے وہ تمام حوالہ جات جن کا ذکر پیرا گراف نمبر۱ میں کیا گیا ہے۔ ان کا بے بنیاد ہونے اور غلط لئے جانے کی بنا پر قانون کے تحت منفی جواب دیاگیاہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء آرٹیکل ۱۹۰۹ کے تحت کوئی بھی شخص قانون کے دائروں کے اندر رہتے ہوئے زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا اور تمام شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہیں اور تمام کو آئین کے آرٹیکل نمبر۲۵ شق نمبر۱ کے تحت مساوی تحفظ حاصل ہے۔ یہ واضح وجہ تھی کہ پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ سیکشن ۲۹۵۔سی سیشن کورٹس میں ٹرائل کئے جاسکتے ہیں اور عام وجوہات کی بناء پر اس کو کسی سپیشل کورٹ میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سب کچھ ٹرائل کے عمل کو شفاف، کھلا، صاف اور معتبر بناتا ہے۔
۲۳:۔ایک اور پہلو جو اس معاملے میں مختصر طور پر بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی ہے۔ ہمارے آئینی دائرہ کار میں مذہب اور مذہببی اداروں کی آزادی کی بنیادی حقوق کی بنیاد پر یہ وضاحت کر دی ہے جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین آرٹیکل نمبر۲۰ پیراگرافA کے تحت کورٹس کے سامنے انصاف کا حق رکھتے ہیں۔ یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ ہر شہری کو اس کے مذہب کی پریکٹس، اس کی اشاعت اور اس کی وضاحت کی آزادی ہے اور پیراگراف B کے تحت ہر مذہبی گروہ ہر مذہبی لیبل اور ہر فرقے کو اپنے آپ کو قائم کرنے، برقرار رکھنے اور اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کا حق ہوگا۔ اس آرٹیکل میں یہ بھی واضح ہے جو کہ انصاف قانون اور آئین کے بین الاقوامی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ جس میں ہر فرقے کو اپنے مذہب کی پریکٹس، اشاعت اور اس کی وضاحت اور اسے آگے بڑھانے کی مکمل آزادی ہے اور ان کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کی مکمل آزادی ہے۔ مگر بیشک یہ سب کچھ قانون پبلک آرڈر اور اخلاقیات کے دائروں میں رہ کر کرنا ہے۔ ۲۴:۔پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے محور پہ (مقدمات کے سلسلے میں) اپیلوں، آئینی اور دیگر عملی حل کے متعلق ایک بھرپور آئینی ڈھانچہ مہیا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۶ء سے لے کر آج تک اس قانون کے تحت کوئی سزا نہیں کی گئی۔ یہ حقیقت ایک واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں عدالتی کارروائیاں انتہائی مضبوطی کے ساتھ قانون پر عمل پیرا ہیں۔
۲۵:۔وزارت داخلہ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں ملزمان کو پوری آئینی جدوجہد میں سے گذرنے دیں۔ کسی قسم کا عمل آسیہ نورین سے متعلق انتظامیہ سے مطلوب نہیں ہے۔ جیسا کہ آسیہ نورین پہلے ہی تمام قانونی امداد سیکشن ۴۱۰ کریمنل کوڈ ۱۸۹۸ کے تحت ہائی کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف لے چکی ہے۔
۲۶:۔اس لئے اقلیتوں کی وزارت کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو کی گئی درخواست جو کہ وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور نے توہین رسالت کے آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت غور سے دیکھی ہے۔ اقلیتوں کی طرف سے دی گئی درخواست میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔
۲۷:۔جب سے وزارت خارجہ نے وزارت داخلہ کی طرف سے بھیجے گئے مواد کو دیکھنا شروع کیا ہے تو یہ مناسب لگتا ہے کہ حالیہ نظر ثانی شدہ فیصلے کی ایک نقل وزارت خارجہ کو بھیجی جائے۔ اس چیز کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ وزیراعظم تمام ڈویژن اور دیگر متعلقہ اداروں کو وزارت قانون انصاف وپارلیمانی امور کی رائے کے بغیر کسی قسم کے عوامی تبصروں سے آئین اور آئینی نتائج کے حوالے سے احتراز کریں۔ کیونکہ یہ گورنمنٹ آف پاکستان کے بزنس رولز ۱۹۷۳ء کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ظہیرالدین بابر اعوان
وفاقی وزیر قانون انصاف اور پارلیمانی امور
ڈائری نمبر Dy No: 611/M/PSP/2011 مورخہ ۸/فروری ۲۰۱۱ء
برائے پرائم منسٹر آف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے نقل ارسال کی گئی
۱… سپیکر قومی اسمبلی پاکستان اسلام آباد
۲… وزیر امور خارجہ، اسلام آباد
۳… وزیر داخلہ، اسلام آباد
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: مغربی رسومات کی اندھا دھند تقلید !
Flag Counter