Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ -مئی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 10
کفر وارتداد سے توبہ کا طریقہ !
کفر وارتداد سے توبہ کا طریقہ

۱…اگر کوئی کافر یا مرتد اپنے کفر وارتداد سے تائب ہوکر مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اسلام کی وسیع اور عالمگیر رحمت کے دروازے اس کے لئے بند نہیں ہیں، وہ صاف وصریح توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اسلامی برادری کا معزز فرد بن سکتا ہے۔ ”چشم ما روشن دلِ ماشاد“ مگر اسے اپنے تمام سابقہ کفریہ عقائد سے اجمالاً وتفصیلاً توبہ کرنا ہوگی اور اپنے سابقہ عقائد سے برأت کا اعلان کرنا ہوگا۔
۲…جس شخص کا کفر وارتداد ثابت ہوجائے اور اس کے کفریہ عقائد میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو، اس کو امام، مقتدأ، مصلح اور مجدد ماننا بھی کفر ہے، کیونکہ ایسے شخص کو امام اور مجدد ماننے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ شخص اس مرتد کے عقائد ونظریات اور اس کے تمام دعووں کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک مسلمان کو مسلمان کہنا اور سمجھنا جس طرح ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح ایک دجال کافر ومرتد کو کافر کہنا بھی ضروری اور فرض ہے، چنانچہ مرزائیوں کی لاہوری جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد آنجہانی مجدد تھے، نبی نہیں تھے، مگر علمائے امت نے اسی نکتہ کی بنیاد پران کو کافر ہی سمجھا، بلکہ انہیں قادیانی مرزائیوں سے بھی زیادہ خطرناک سمجھا گیا۔
۳…مرزائیوں کو اگر واقعی اپنی گمراہی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ تہہ دل سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سچے بہی خواہ بن کر اسلامی برادری میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو مرزائی امت کو (خواہ قادیانی، ربوی ہوں یا لاہوری) صاف صاف اپنے عقائدِ کفریہ سے توبہ کا اعلان کردینا چاہئے اور اس امر کا اقرار واعتراف کرنا چاہیے کہ مرزا غلام احمد آنجہانی اپنے تمام دعاوی میں واقعةً جھوٹا تھا، مفتری تھا، کذاب تھا، دائرہٴ اسلام سے خارج تھا۔ اگر وہ ایمانی جرأت سے کام لے کر اپنے نفاق اور تأویلات سے توبہ کرنے پرآمادہ ہیں تو ماشاء اللہ کیا کہنا !وہ ہمارے بھائی ہوں گے اور اخوتِ اسلامیہ کی عالمگیر برادری میں شامل ہوجائیں گے۔
اپنے سالہا سال کے عقائد کو غلط کہنا اور باپ دادا کے مذہب کو خیر باد کہنا، بڑے دل گرُدے کا کام ہے، آدمی اس میں طبعاً خفت محسوس کرتا ہے، مگر حق بات کا ماننا اگرچہ مشکل اور بے حد مشکل ہے، لیکن اس سے آدمی کی عزت ووقار کو ٹھیس نہیں لگتی، بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ہم مرزائیوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ مرزا آنجہانی کی ”سیاسی نبوت“ سے چپکے رہنے کے بجائے محمد رسول اللہ ا کے دامنِ نبوت سے وابستہ ہوجائیں تو ان کے کسی سابقہ قول وفعل پر کوئی مسلمان انہیں عار نہیں دلائے گا، بلکہ تمام مسلمان انہیں سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے تیار ہوں گے، نیز اگر وہ دینِ مرزائیت سے تائب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں مرزا غلام احمد آنجہانی کی تمام کتابوں سے دست کش ہوجانا چاہئے اور غلام احمد کی ”احمدی“ نسبت ترک کردینی چاہئے اور اندرون وبیرونِ ملک مرزائیت کے تمام اڈوں کو ختم کردینا چاہئے۔
مرزائی امت تقریباً سو سال سے تاویل در تاویل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، عبد اللہ آتہم عیسائی کی موت اور احمدی بیگم کے آسمانی نکاح کی پیشگوئی ہو یا مرزا آنجہانی کے عجیب وغریب دعوے ہوں، مرزائیت کی تو کوئی کَل بھی سیدھی نہیں۔ مرزائی امت کے صنادید سو سال سے تاویل کے نیشوں سے اس کی تراش خراش میں مصروف ہیں، مگر جسے خدانے ٹیڑھا پیدا کیا ہو،ا سے کون سیدھا کرسکتا ہے: ”ولن یصلح العطار ما أفسدہ الدہر“ یقینا مرزائی دوست سوسال تک مرزا آنجہانی کے ہذیانات کی الٹی سیدھی تاویلیں کرتے کرتے تھک چکے ہوں گے، خود ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت کرتا ہوگا کہ وہ صریح غلط بیانیوں کو خواہ مخواہ تاویل کے رندوں سے تراش تراش کر سچ ثابت کرنے کی عبث کوشش کیوں کررہے ہیں؟، کاش وہ جس جال میں پھنسے ہوئے ہیں، ایک جھٹکا دے کر اسے توڑ ڈالتے اور حیص بیص اور گو مگو کی جو کیفیت ان پر سوسال سے طاری ہے، اس سے ان کی گلو خلاصی ہوجاتی۔
۴…بہرحال اگر مرزائی صاحبان دینِ مرزائیت سے تائب ہونا چاہیں تو اسلام کی آغوش ان کے لئے اب بھی کشادہ ہے اور مسلمان انہیں گلے لگانے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر انہیں اپنے عقائد پر اصرار ہے اور وہ مرزا آنجہانی کو بدستور مسیح موعود اور مہدی معہود یا مصلح اور مجدد مانتے ہیں اور صرف ہوا کا رخ دیکھ کر از راہِ تقیہ اپنے نظریات کو تاویلات کے نئے غلاف میں پیش کرکے مسلمانوں کو دھو کا دینا چاہتے ہیں تو انہیں یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ وہ دجل وتلبیس کے راستہ سے مسلمانوں کی صفوں میں ایک بار پھر گھس آئیں گے۔ ”من جرّب المجرب حلّت بہ الندامة“۔
کتے، خنزیر، کافر، جہنمی اور ولد الحرام کے وہ سینکڑوں خطابات مسلمانوں کو اب تک بھی خوب یاد ہیں اور ہمیشہ یاد رہیں گے، جن سے مرزا آنجہانی نے مسلمانوں کو نوازا تھا، مسلمانوں کو مرزائیوں کے خلیفہٴ دوم کے وہ بیسیوں اعلانات بھی خوب یاد ہیں جن میں بڑے غرور اور تحدی سے کہا جاتا تھا:
”کل مسلمان جو حضرت مسیحِ موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیحِ موعود کا نام بھی نہ سنا ہو، وہ کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں“۔
(آئینہ صداقت مصنفہ مرزا محمود)
”حضرت مسیح ِ موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے، ہمارا اور ان کا خدا اور ہے اور ہمارا حج اور ہے اور ان کا اور، اسی طرح ہربات میں ان سے اختلاف ہے“۔ (مرزا محمود کی تقریر)
”یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفاتِ مسیح یا اور چند مسائل میں ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم ا، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے“۔ کیا ان واضح اعلانات کے بعد بھی اس کا امکان ہے کہ مرزا آنجہانی کے واضح کفریات کی تصدیق کرنے کے باوجود مرزائیوں کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کی اجازت دی جائے گی؟۔
مرزائی امت نے مسلمانوں کو آخر ایسا بے حس کیوں سمجھ لیا ہے کہ وہ مرزائیوں کی صد سالہ تاریخ کو یکسر بھول جائیں گے؟، مرزائی آنحضرت اکی عزت وحرمت پر حملہ کریں، مرزا آنجہانی کو نہ صرف آنحضرت اکی جگہ لاکھڑا کریں، بلکہ آپ اسے بھی اونچا مقام دیں ، انبیاء کرام کی توہین وتذلیل کریں، مسلمانوں کو جنگل کے سؤر اور ذریةالبغایا جیسی ”مقدس گالیاں“ دیں، مگر مسلمان ان تمام چیزوں کے باوجود انہیں امتِ اسلامیہ کی صف میں جگہ دیں؟
الغرض مرزائیوں کے لئے صرف دو ہی راستے ہیں، یاتو اپنے عقائدِ کفریہ سے ہاتھ جھاڑ کر مسلمان ہوجائیں یا پھر مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کا سودائے خام اپنے ذہن سے نکال دیں۔ انہیں خوب یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مرزا آنجہانی کی نبوت کو ہزار ظل وبروز کے پردوں میں لپیٹیں یا مجدد ومہدی کے رنگ میں پیش کریں، لیکن امتِ اسلامیہ کا معدہ اسے کبھی ہضم نہیں کرسکتا، علاوہ ازیں مرزائی صاحبان کو اپنے ”مسیحِ موعود“ کی وصیت یاد رکھنی چاہیئے کہ:
”تمہیں دوسرے فرقوں کو دعوٰئ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا“(حاشیہ تحفہ گولڑویہ)
”خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے، پھر جان بوجھ کر ان لوگوں میں گھسنا، جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے، منشأ الٰہی کی مخالفت ہے“۔ (الحکم، فروری ۱۹۰۳ء)
ہم بھی مرزائی صاحبان سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کو ”بکلی ترک کرنا پڑے گا“ اور مسلمانوں میں گھس کر انہیں منشاء الٰہی کی مخالفت کی اجازت نہیں دی جائے گی، الا یہ کہ وہ اپنے دینِ مرزائیت سے تائب ہوکرنئے سرے سے اسلام میں داخل ہوجائیں۔
۶…ہم اپنی حکومت سے بھی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ۲۶/سال تک پاکستان میں مرزائیت نوازی کی سرکاری مہم جاری رہی، انہیں مسلمانوں کے حقوق دیئے گئے اور ان کو مصنوعی طور پر مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی ، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ انہیں اندرون وبیرون ِ ملک سازشوں کا موقع ملتا رہا، مگر اب یہ صورتِ حال تبدیل ہوجانی چاہیئے، مستقبل میں مؤقف کی نزاکت کا احساس کریں۔ اسلامی ممالک جوپاکستان کے تحفظ کا ذریعہ ہیں اور جن سے صحیح ہمدردی کی توقع کی جاسکتی ہے، صرف اربابِ کفر کی خوشنودی کے پیش نظر ان کی ہمدردی اور دوستی وتعاون سے چشم پوشی نہ کریں، آخرت کے غضبِ الٰہی سے قبل دنیا کے عذاب اور ذلت سے بچنے کی تدبیر کریں اور بحالتِ موجودہ سیاسی واقتصادی مشیر اور ہوائی اور بری وبحری قیادت کی جو صورتِ حال ہے، اس کو فوراً ختم کریں اور سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جو تباہی نازل ہوچکی ہے، اس سے کچھ تو عبرت حاصل کریں۔اسلامی وعربی ممالک جن کے ساتھ ہمارے اخوتِ اسلامی کے مضبوط رشتے ہیں اور جو ہر آڑے وقت میں پاکستان کے بہترین دوست ثابت ہوئے ہیں، افسوس ہے کہ انہیں بھی ہماری اس داخلی کمزوری اور ارتداد نوازی کا علم ہوچکا ہے اور ان ممالک میں قادیانی اسرائیل گٹھ جوڑ پر بحثیں ہورہی ہیں، اس کے اثرات ہمارے حق میں کیا ہوں گے؟یہ دانشمندی کے ساتھ سوچنے کی بات ہے۔ یہاں ہم یہ شکایت بھی اربابِ اقتدار کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ ایک طرف تو یہ حالت کہ جب مسلمانوں کی جانب سے قادیانیوں کا ذرا بھی تعاقب کیا جائے تو فوراً امنِ عامہ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر نکل آتا ہے اور قانون اپنے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بڑی تیزی سے حرکت میں آجاتا ہے، زبانیں بند اور جلسہ جلوس اور اجتماع پر پابندی۔
اور دوسری طرف مرزائی ہیں کہ کھلے بندوں گلی گلی اور گھر گھر ”حضرت مسیحِ موعود“ کا پرچار کررہے ہیں اور یہاں تک جرأت کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور دینی اداروں میں جاکر بڑے معصومانہ انداز سے مرزائے آنجہانی کی رسالت ونبوت کی تشریح کرتے ہیں، ہم صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہے، مرزا آنجہانی کے ہفوات وہذیانات کے تبروں سے مسلمانوں کے سینے چھلنی ہوچکے ہیں، وہ اس ملکِ پاک میں محمد رسول اللہ اکے غداروں کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں، دانشمندی کا تقاضا یہ ہے ان قادیانیوں کو… تاجِ ختم نبوت پر ہاتھ ڈال کر اشتعال دلانے سے روکا جائے اور ان کی تحریکِ ارتداد پر پابندی عائد کی جائے اور اگر اصرار ہو کہ مرزائی بھی امت ِ اسلامیہ کا ایک حصہ ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ واقعةً یہ امت کا ایک ایسا گلا سڑا حصہ ہے، جسے جسمِ امت سے الگ کر دنیا ہی اس کا صحیح علاج ہے، ورنہ اس ناسور کا زہر صلتِ اسلامیہ کے پورے دھڑ میں سرایت کرجائے گا اور اس کا نتیجہ موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اس مسئلہ کا حل کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ ایک معمولی اقلیت کی خوشنودی کے لئے ایک بڑی اکثریت کو ناراض کرنا آخر کون سی سیاست ہے؟ حق تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۲ھ -مئی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار!
Flag Counter