Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 14
مختصر درود پاک میں کیا اضافہ درست ہے؟
مختصر درود پاک میں کیا اضافہ درست ہے؟

تبلیغ والے ساتھی جب کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے ”حدیث پاک کا مفہوم ہے“ مجھے بہت غصہ آتا کہ یہ ایسی گول مول بات کیوں کہتے ہیں، صاف کیوں نہیں کہتے یہ ”حدیث پاک ہے“ حتی کہ مصر کی شائع کردہ ملاعلی القاری رحمہ اللہ کی کتاب الموضوعات الکبیر اپنی ضرورت اور بعض حوالوں کے لئے خریدی۔ اس کتاب کا شروع میں ایک طویل مقدمہ ہے، جس میں ۱۱۰۲ احادیث پاک صرف اس عنوان اور مطلب کی ہیں کہ اگر کسی نے یوں کہا کہ یہ “الفاظ حدیث پاک کے ہیں“ اور وہ نہ ہوئے یعنی نبی مکرم ا سے وہ الفاظ منسوب کئے جو حقیقت میں نبی پاک ا نے نہیں بولے تو ایسا شخص اپنی جگہ جہنم میں بنالے۔ اس وعید کو پڑھ کر تبلیغ والوں کی وہ بات سمجھ میں آئی جو وہ کہتے تھے ”حدیث پاک کا مفہوم یوں ہے“ اس کے بعد بندہ بھی حدیث کا حوالہ دیتے وقت محتاط ہوگیا اور یہی انداز اختیار کیا۔
ہمارے ہاں کالجوں، سکولوں میں اسلامیات کے عنوان سے تقریباً ہرکلاس میں احادیث رسول اور سیرة رسول وسیرة اصحاب رسول موجود ہے، ہرحدیث میں جہاں رسول مکرم ا کا اسم گرامی ہوگا، وہاں مختصر درود لکھا ہوگا اور یہی ایمان کا تقاضا ہے کہ لکھا اور بولاجائے۔ عشق ومحبتِ رسول ا کے اظہار کے طور پر جتنا اور جیسا طویل وعریض درود پاک بولیں، باعث خیر وبرکت ہے۔ مگر خود وہ الفاظ جو رسول پاک ا نے استعمال فرمائے، ان کو بولتے ہوئے یا لکھتے ہوئے ان میں اضافہ اور تبدیلی کیا لائقِ تعریف ہے یا تحریف ہے؟ مذکورہ کتابوں میں مثلاً: قال رسول اللہ ا لکھا جانے لگا ہے، بقول بعض اپنے کو بنیاد پرست یعنی اصل اقوال رسول کے ساتھ چمٹا ہوا سمجھنے کی وجہ سے مجھے حدیث پاک میں اضافہ ”علیہ“ کے ساتھ ”وآلہ“ عجیب سالگا ۔ بعض فاضل دوستوں کو توجہ دلائی تو انہوں نے کہا: اس میں تو زیادہ اجر ہے، پھر بعض اہل علم احباب نے اسم ذات ”اللہ“ کے ساتھ ”تعالیٰ“ کا اضافہ بھی کردیا ،کل مجموعہ ہوگیا ”صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم“ بندہ نے علماء کرام سے رجوع کیاتو جامعہ فاروقیہ کراچی کے صدر وفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتھم نے جواب میں لکھا کہ:
”ہم تو ”صلی اللہ علیہ وسلم“ ہی لکھتے اور بولتے ہیں اور یہی مسنون ہے، باقی ”وآلہ“ کا اضافہ معنی ومفہوم میں درست سمجھتے ہیں، تاہم حدیث پاک میں یا کتب حدیث وسیرت میں مستقلاً کوئی بھی اضافہ ناجائز سمجھتے ہیں“۔
دار نبی ہاشم کے ایک ادیب اور فقیہ مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے میرے سوال پر جواب لکھا کہ مسنون مختصر درود ا ہے اور جیسے الفاظ حدیث میں کمی بیشی حرام ہے، اس مختصر درود میں بھی کمی بیشی کا کسی کو حق نہیں۔ راولپنڈی کے ایک مجاہد عالم نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا، مزید یہ کہ ا میں اللہ فاعل ہے ”علیہ“ میں ضمیر مفعول (محلاً مجرور) ہے، اسم ضمیر کا عطف ضمیر پر کرنا ہو تو دوبارہ حرف جرعربی قواعد کی رو سے لازم ہے، لہذا ”علیہ وآلہ“ قواعد لغت کے اعتبار سے نادرست ہے ”علیہ وعلی آلہ“ قواعد عربیہ کی رو سے درست ہوگا۔ البتہ اسم ظاہر یعنی نام پر عطف بغیر حرف جر بھی لایاجانا درست ہے۔اس طرح ”صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم“ قواعد کی رو سے درست ہوگا مگر اسم ذات کے بعد ”تعالیٰ“ کا اضافہ اور ”علیہ“ کے بعد ”وآلہ“ یا وعلی آلہ“ کا اضافہ سنت اور عمل اسلاف کے خلاف ہوگا۔ سیرة طیبہ کی تمام امہات الکتب اٹھاکر دیکھ لیں، آپ کو ہرجگہ مختصر دروداہی لکھاہوا ملے گا۔ صحاح ستہ اور حدیث کی تمام کتب اٹھاکر دیکھ لیں، حتی کہ تفسیر وتراجم قرآن تمام اٹھاکر دیکھ لیں، وہاں ا ہی لکھا ملے گا۔ آخر کیوں آج ہمیں ان اضافوں کی ضرورت پیش آگئی ”آل رسول“ کا ذکر قرآن کی تفسیر اور حدیث وسیرت اورتاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ ہے اور درست بھی ہے، مگر کیا چودہ صدیاں گزر گئیں ،پہلے لوگوں کو جو یقینا آج کے مسلمانوں سے اچھے اور حب رسول وآل رسول میں زیادہ تھے ان کو ”آلہ“ کا اضافہ کیوں نہ سوجھا؟ ہاں کچھ لوگ جو دین کو “پنج تن پاک“ اور ”آل رسول“ میں محدود مانتے ہیں، شیعہ کتب میں مختصر درود ”صلی اللہ علیہ وآلہ“ موجود ہے، وہاں پر ”وسلم“ کا کلمہ نہیں ہے اور وہ درود ابراہیمی کو بھی نہیں مانتے ، ان کا چھوٹا اور بڑا درود یہی ”صلی اللہ علیہ وآلہ“ ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ انہی کی دیکھا دیکھی معذرت خواہانہ رویہ کے طور پر ہم نے ان کے اور اپنے درود کو ملا کر ایک نیا مرکب درود بنالیا ہے؟ علمائے اسلام سے پھر درخواست ہے کہ اگر یہ اضافہ شدہ درود وہی درست ہے تو براہ کرم صحاح ستہ میں درستی کروائیں اور لکھوائیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم“۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مذہبی رواداری
Flag Counter