Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

13 - 14
حضرت مولانا غلام رسول خاموش
حضرت مولانا غلام رسول خاموش (قدیم ترین فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)
دارالعلوم دیوبند کے بالواسطہ اور بلاواسطہ فرزندان میں بڑے بڑے باکمال فضلاء گذرے ہیں اور بحمدا للہ! آج بھی موجود ہیں۔ انہیں میں حضرت مولانا غلام رسول خاموش قدس سرہ کا شمار بھی نمایاں ہے۔ حضرت خاموش اگرچہ بالواسطہ دارالعلوم دیوبند کے فرزند ہیں، لیکن باری تعالی نے اصل مادر علمی سے وابستہ کرادیا، جو بہرصورت سعادت وفلاح کا ذریعہ ہے۔
راقم الحروف کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ۴/جمادی الاولی ۱۴۳۱ھ/۱۸/اپریل ۲۰۱۰ء کو مدینہ منورہ میں مکرم ومحترم مولانا سیداخلد رشیدی مدظلہم(نبیرہ حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ) کے توسط سے حضرت خاموش کی زیارت ہوئی۔
حضرت نے اس وقت بتایا کہ میں نے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری سے ۱۹۵۴ء میں دورہ ٴ حدیث کیا ہے۔ حضرت کی اس بات سے مخدومی ومرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت حیاتہم العالیہ کی بات یاد آگئی، جو انہوں نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں گذشتہ سفر میں ارشاد فرمائی تھی کہ: ”آپ کے مدرسہ کے ایک فاضل ہمارے دارالعلوم میں بھی ہیں“ ۔اس پر مدرسہ کے ناظم مولانا امداد اللہ زاد مجدہ نے مزاحاً عرض کیا تھا:”دارالعلوم دیوبند پر بھی بنوری ٹاؤن کا قبضہ ہے“۔
فوراً میرے ذہن میں پرانی بات گھوم گئی۔ میں نے حضرت خاموش سے سوال کیا کہ حضرت! جس زمانے میں آں جناب نے حضرت بنوری سے دورہ ٴ حدیث پڑھنے کے لئے ہندوستان سے پاکستان کا سفر فرمایا، حالانکہ اس وقت بڑے حضرت (حضرت شیخ الاسلام) حیات تھے، اور پاکستان سے دیوبند جانا اور پھر حضرت شیخ الاسلام سے دورہٴ حدیث پڑھنا باعث سعادت سمجھاجاتا تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ باعث سعادت تھا۔ حضرت خاموش نے فرمایا کہ بات ایسی ہی ہے، لیکن دراصل ہم گجرات کے علاقے کے ہیں، حضرت بنوری ڈابھیل ضلع سورت میں پڑھے بھی اور پڑھایا بھی، اس لئے ہمارے بڑوں نے حضرت بنوری سے خاص تعلق کی وجہ سے مجھے کراچی بھیجا، اللہ کا شکر ہے کہ حضرت بنوری سے دورہ ٴ حدیث پڑھا، اس طرح یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔
حضرت خاموش کے ساتھ یہ نشست تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ رہی، میرے لئے ان کی زیارت بڑی سعادت ہے۔ اللہ تعالی اسی تعلق کو قبول فرمائے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرا دامن خالی ہے۔
حضرت مولانا غلام رسول خاموش کے والد محترم الحاج حبیب اللہ مرحوم ہیں، آپ کی ولادت ۹/جمادی الاخریٰ۱۳۵۹ھ/۱۵/جولائی ۱۹۴۰ء (مولانا محمد عثمان پالن پوری استاذ حدیث دارالعلوم چھاپی نے آپ کے جو حالات قلم بند کئے ہیں، اس میں اسلامی تاریخ کے مساوی ۱۶/جون اور ہفتہ کا دن لکھا ہے، جو تقویم کے لحاظ سے غلط ہے) (شریفی) بروز پیر،’ ’میتا“ ضلع بنارس شمالی گجرات میں ہوئی، والد محترم کا لقب خاموش تھا۔پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو والدین نے گجراتی زبان کے اسکول میں داخل کرایا اور دینیات کی ابتدائی تعلیم دلائی، اس کے بعد درس نظامی کے لئے اپنے وطن کے قریب ”چھاپی“ میں ”مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم چھاپی“ میں ۹/سال کی عمر میں داخلہ لیا اور” موقوف علیہ“ تک پوری محنت وجانفشانی سے تحصیل علم میں منہمک رہے۔ پڑھنے کے زمانے سے ہی آپ کو مطالعے کا غیر معمولی شوق وذوق تھا، اسی علمی شغف اور اس پر صلاح وتقویٰ کی صفت جو ہر مسلمان کا زیور ہے، کی وجہ سے اساتذہ ٴ کرام کے منظور نظررہے۔ بعض اساتذہ شروحات اور دیگر کتابیں حضرت مولانا کو لاکر دیتے اور اس علمی انہماک میں ان کے رہبر بنتے۔
مشکوٰة شریف تک تعلیم کے بعد آپ اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ کراچی تشریف لائے اور اپنے ماموں چوہدری شریف صاحب مرحوم کے مشورے کے بعد نوخیز مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن میں داخلہ لیا اور یہاں کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرکے سند فراغ لی۔ تفصیل یہ ہے:بخاری شریف اور ترمذی شریف: محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریسے۔مسلم شریف :حضرت مولانا لطف اللہ پشاوریسے ۔ابوداؤد شریف:حضرت مولانا فضل محمد سواتیسے ۔طحاوی شریف:حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی قدس اللہ اسرارہم سے پڑھیں۔ یہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے ابتدائی سال تھے۔
اس کے علاوہ آپ کے اساتذہ ٴ کرام میں حضرت مولانا عبد اللہ گجراتی ،بانی ومہتمم مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم چھاپی، حضرت مولانا محمد ابراہیم گجراتی، حضرت مولانا محمد آدم طالع پوری، حضرت مولانا ابوالحسن بھاگل پوری مدظلہ، حضرت مولانا معاذ الاسلام سنبھلی مدظلہ، حضرت مولانا نعیم الرحمن اعظمی، حضرت مولانا انعام اللہ شاہ جہان پوری مدظلہ، حضرت قاری محمد امین جون پوری اور حضرت مولانا غلام رسول بخاری شامل ہیں۔
دورہ ٴ حدیث شریف پڑھنے کے بعد آپ واپس ہندوستان تشریف لے گئے۔ حصول معاش کے لئے ممبئی کے لئے رخت سفر باندھا، چھاپی ریلوے اسٹیشن پہنچے تو آپ کے استاذ حضرت مولانا عبد اللہ گجراتی کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت کے ماموں حاجی چودھری عبد اللہ  سے درخواست کی کہ ان کو یہیں ”دارالعلوم چھاپی“ میں پڑھانے دو۔ ماموں نے جواب دیا کہ ضرور انہیں پڑھانے کے مواقع دوں گا، لیکن تجارت ضرور کراؤں گا۔چنانچہ ممبئی میں تجارت کے ساتھ ساتھ بلامعاوضہ تدریسی خدمات دارالعلوم امدادیہ میں انجام دینے لگے۔
آپ کے والد محترم نیک صالح، صوم وصلوٰة کے پابند تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت سے خاص الخاص شغف تھا، لوگ ان کے عقیدت مند تھے، اپنے بچوں پر اور پانی پر ان سے دم کراتے تھے ، مغل قوم کے یہاں ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے، پھر باقاعدہ کاروبار میں لگ گئے، کچھ عوارض کی بنا پر کاروبار کی شراکت سے الگ ہوگئے،اپنے حصے کی نقد رقم موجود تھی، ممبئی میں تجارت کے اچھے مواقع تھے، لیکن مرحوم نے حج کا ارادہ کرلیا۔ انہوں نے سوچا کہ حج سے فراغت کے بعد تجارت کی فکر کریں گے، مگر حج کے دوران ہی منیٰ میں ۱۳/ذوالحجہ ۱۳۷۹ھ/۹/جون ۱۹۶۰ء کو بوقت تہجد وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں ہمیشہ کے لئے آسودہ ٴ خاک ہوگئے، اچھی نفع والی تجارت کر گئے۔والد صاحب کی اچانک وفات کی بنا پر چھوٹے بہن بھائی اور والدہ محترمہ کا سارا بوجھ حضرت خاموش کے کندھوں پرآگیا۔ ذمے دارانہ زندگی کا آغاز ملازمت سے ہوا۔ سخت حالات سے دو چار ہوئے، اللہ تعالیٰ نے فضل وکرم فرمایا کہ ان ہی حالات میں تجارت شروع فرمائی۔ اللہ نے خوب برکت دی، بھائی بہنوں کی کفالت کے ساتھ اپنے تمام کاروبار میں اپنے ساتھ شریک رکھا، بھائیوں کی اولاد جب شعور کو پہنچی تو اپنے کاروبار اور املاک کو تقسیم کیا، تجارت کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت سے گہری وابستگی رہی اور ایک بہت بڑے تاجر بن گئے۔مدرسہ ”دارالعلوم امدادیہ ممبئی“ میں ۹/سال بلامعاوضہ تدریس کے دوران کنز الدقائق، مقامات حریری، شرح عقائد اور دیگر فارسی وعربی کتابوں کا کامیاب درس دیا۔
اصلاح معاشرہ پر بہت توجہ دیتے تھے، چنانچہ اپنی برادری کے چند نوجوانوں کی بے راہ روی دیکھ کر ایک مرتبہ ایک ہی شب میں ”قوم کے نوجوانوں سے خطاب“ نامی کتابچہ تحریر فرمایا۔ جب اس کی اشاعت ہوئی تو کچھ لوگوں نے اپنی اصلاح کی بجائے شور وہنگامہ برپا کردیا۔ حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری کو اس کا علم ہوا تو آپ نے حضرت سے فرمایا: ”طریق کار حکمت کے ساتھ ہونا چاہئے“۔ بس یہیں سے حضرت مولانا پالن پوری کے ساتھ روابط بڑھنے شروع ہوگئے۔ مہینے میں تین دن لگانے کا معمول رہا۔ ۱۹۶۸ء میں پہلی مرتبہ چلہ لگایا، اپنی پوری عمر میں تین چار مرتبہ چار چار ماہ کے لئے تشریف لے گئے، اندرون وبیرون ملک مصر، تیونس، الجزائر، سعودیہ عربیہ، امریکہ، کنیڈا، فیجی، جنوبی افریقہ، جاپان، انگلینڈ، برما، تھائی لینڈ، فلپائن، کویت، آسٹریلیا وغیرہ ممالک کے دعوتی اسفار کئے۔
۱۹۸۸ء میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ میں ایک رکن کے لئے شوریٰ کے رکن مناظر اسلام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی متفکر تھے۔ انہوں نے حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری سے بھی اس کا ذکر کیا، انہوں نے بھی تلاش جاری رکھی۔ قرعہ ٴ انتخاب حضرت مولانا غلام رسول خاموش کے نام نکلا۔ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ/ ستمبر ۱۹۸۸ء میں شوریٰ کے اجلاس میں آں جناب کا انتخاب ہوگیا۔
دارالعلوم کے مہتمم امیر الہند حضرت مولانا مرغوب الرحمن بجنوری (جو ابھی گذشتہ ماہ وفات پاگئے) شدید علیل رہنے لگے۔ مہتمم صاحب نے اہل شوریٰ سے درخواست کی کہ میرے اعذار کی وجہ میرے کاموں میں تخفیف کی جائے، اس درخواست پر مجلس شوریٰ نے ۶/ ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ/ ۷/جون ۲۰۰۳ء کو حضرت مولانا غلام رسول  کو کار گذار مہتمم طے کیا۔ اس کے علاوہ ”دارالعلوم چھاپی“ کے آپ مہتمم بھی تھے۔ نیز کئی مدارس آپ کی سرپرستی میں چل رہے تھے جن کی تعداد چار سو پندرہ ہے۔حضرت خاموش ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“ کے رکن بھی تھے۔
حضرت خاموش کا ابتدائی بیعت کا تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی سے تھا، حضرت شیخ کی وفات کے بعد حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی سے رجوع کیا، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمد یونس جون پوری مدظلہ سے بیعت ہوئے۔ حضرت خاموش معمولات کے بہت پابند تھے۔ ۵/جمادی الاولی ۱۴۲۲ھ/۲۷/جولائی ۲۰۰۱ء کو آپ کے شیخ نے مدرسہ مظاہر العلوم کی مسجد دار جدید میں خلافت سے نوازا۔ لیکن حضرت خاموش نے اخفائے حال کی وجہ سے کسی کواطلاع نہیں دی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہائی صابر اور خوش خلق بنایا، آپ اپنی جیب سے مدارس کی اعانت فرماتے تھے دارالعلوم دیوبند اور چھاپی کے مدرسہ سے کبھی تنخواہ نہیں لی، لوجہ اللہ خدمات انجام دیں۔
۹/شوال ۱۴۳۱ھ/۱۸/ستمبر ۲۰۱۰ء کو دارالعلوم چھاپی میں داخلوں کی نگرانی فرماتے رہے، اسی دوران اہتمام کی ذمے داریوں کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ دیوبند میں اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے ۲۸/شوال المکرم ۱۴۳۱ھ /۸/اکتوبر ۲۰۱۰ء جمعہ کے دن عصر کے بعد داعئی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔قبرستان قاسمی میں اکابر دیوبند کا جوار میسر آیا۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور تمام خدمات کو مقبول فرمائے۔ آمین۔ حضرت  نے جو کچھ خدمات انجام دیں، ان میں یقینا مدرسہ عربیہ اسلامیہ (سابقاً) اور جامعہ علوم اسلامیہ (حالاً) کی محنت واثر کا بھی حصہ ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: ڈی، این، اے ٹیسٹ ،فنگر پرنٹس اور کلوز سرکٹ کیمرا استعمال کرنے کا شرعی حکم!
Flag Counter