Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

3 - 14
اسراف کی مختلف شکلیں
اسراف کی مختلف شکلیں

جاننا چاہئے کہ دین اسلام ایک کامل مکمل بلکہ اکمل ضابطہٴ حیات ہے۔ اس میں انسانوں کی تمام مشکلات اور مسائل کا حل موجود ہے۔ اسلام نہایت اعتدال کے ساتھ ہرانسان کو زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ انسان کی نجی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ، خوشی کا ماحول ہو یا غمی کی فضا ، تجارت کا میدان ہو یا عبادات کی چار دیواری ، ملکی مسائل ہوں یا خانہ داری امور ، داخلی سیاست ہویا خارجی سیاست ، ماکولات ومشروبات کے مسائل ہوں یا ملبوسات ومفروشات کے قواعد، تعمیرات وعمرانیات کے اصول ہوں یا دیگر ضروریات اور معاملات ، اسلام نہایت انصاف کے ساتھ ان تمام امور کا تعین اور تحدید وتفصیل پیش کرتااور انسان کو افراط وتفریط سے بچاتا ہے۔اسلام انسان کو زندگی گذارنے کا نہایت آسان راستہ سکھاتا ہے، اسلام انسان کو خود دار اور کفایت شعار بناتا ہے، غفلت اور آوارہ گردی سے اس کی حفاظت کرتا ہے، بخل وبزدلی سے اس کو دور رکھتا ہے اور اسراف وتبذیر سے اس کو منع کرتا ہے۔
آج کل پوری دنیا میں مہنگائی کارونا رویا جارہا ہے، قلتِ اشیاء کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور بھوک وافلاس کے خاتمے کا نعرہ لگایاجارہا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے؟ اسلام نے ہمیں اسراف سے روکا ہے اور ہمیں قناعت اور کفایت شعاری کا درس دیا ہے، کفایت شعاری اور قناعت صبر کے زمرہ میں آتی ہے اور”صبر“ ایک ایسا قلعہ ہے جس کی چہار دیواری میں بیٹھ کر انسان سینکڑوں آفات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
آج کل معاشرہ میں صبر نام کی کوئی چیز نہیں ، بس شکایت اور فریاد کا بازار گرم ہے، فقر وفاقہ کی فریاد تو کی جارہی ہے، لیکن صبح کا ناشتہ اور پراٹھا دستور کے مطابق موجود رہنا چاہئے۔ صبر کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا ،بلکہ میں صرف ”اسراف“ کے حوالہ سے کچھ حقائق مسلمانوں کے سامنے رکھنا چاہتاہوں،کیونکہ اسراف کا تصور مسلمانوں کے عوام تو کجا ،ان کے خواص بلکہ بڑے بڑے علماء کے دلوں سے بھی مٹ چکا ہے۔
میں ان باتوں کے لکھتے وقت شرم محسوس کرتا ہوں کہ اسراف کے شعبہ میں مجھ میں کتنی کمزوریاں ہیں اور مجھے اس پر کتنا استغفار کرنا چاہئے۔ نہ معلوم دوسرے لوگوں میں کتنی کمزوریاں ہوں گی؟ سب سے پہلے میں اسراف سے متعلق قرآن کریم کی دو آیتوں کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ نقل کرتا ہوں اور پھر اسراف کی تفصیلات ایک جامع کتاب ”الطریقة المحمدیة“ سے پیش کرنا چاہوں گا، چنانچہ سورة الاعراف میں ہے:
”یَا بَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ“۔ (اعراف:۳۱)
ترجمہ:…”اے آدم کی اولاد! ہرنماز کے وقت اپنی زینت وآرائش لے لو، اور کھاؤ اور پیو، مگر اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے“۔
علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ” تفسیر عثمانی“ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:” یہ آیات ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئیں جو کعبہ کا طواف برہنہ ہوکر کرتے تھے اور اسے بڑی قربت اور پرہیزگاری سمجھتے تھے اور بعض اہل جاہلیت ایام حج میں سدّ رمق سے زائد کھانا اور گھی یا چکنائی وغیرہ کا استعمال چھوڑ دیتے تھے، بعضوں نے بکری کے دودھ اور گوشت سے پرہیزکر رکھا تھا، ان سب کو بتلادیا کہ یہ کوئی نیکی اور تقویٰ کی باتیں نہیں، خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا تستَر اور آرائش ہے، اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابل استعمال ہے، تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو، خدانے جو کچھ پہننے اور کھانے پینے کو دیا ہے، اس سے تمتع کرو، بس شرط یہ ہے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ ”اسراف“ کے معنی ہیں ”حد سے تجاوز کرنا“ جس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً :حلال کو حرام کرلے یا حلال سے گذر کر حرام سے بھی متمتع ہونے لگے یا اناپ شناپ بے تمیزی اور حرص سے کھانے پرگر پڑے یا بدون اشتہأ کے کھانے لگے یا بے وقت کھائے یا اس قدر کم کھائے جو صحت جسمانی اور قوت عمل کے باقی رکھنے کے لئے کافی نہ ہو یا مضر صحت چیزیں استعمال کرے، وغیرہ ذلک۔ لفظ ”اسراف“ ان سب امور کو شامل ہے، بے جا خرچ کرنا بھی اس کا ایک فرد ہے، اسی تعمیم کے لحاظ سے بعض سلف نے فرمایا: ”جمع اللّٰہ الطب کلہ فی آیة“ خدانے ساری طب آدھی آیت میں اکھٹی کردی“۔ (تفسیر عثمانی ص:۲۰۵)
یاد رہے کہ” اسراف“ اور” تبذیر“ دو الگ الگ الفاظ ہیں، لیکن دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یعنی بے جا اور فضول خرچ کرنا۔ چنانچہ سورہٴ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے مبذرین کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد عالی ہے:
”وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً،إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن،ِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہ کَفُورًا۔“ (بنی اسرائیل:۲۶،۲۷)
ترجمہ:۔”اور قرابت والے کو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دیدو اور مال کو فضول مت اڑاؤ، بے شک مال کو فضول اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے“۔
مفسر قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں: یعنی قرابت والو ں کے مالی واخلاقی ہرقسم کے حقوق ادا کرو، محتاج ومسافر کی خبر گیری رکھو اور خدا کا دیا ہوا مال فضول بے موقع مت اڑاؤ، فضول خرچی یہ ہے کہ (مال) معاصی اور لغویات میں خرچ کیا جائے یا مباحات میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کردے جو آگے چل کر تفویت حقوق اور ارتکاب حرام کا سبب بنے۔ یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے عبادت میں دلجمعی ہو، بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے ،اس کو بے جا اڑانا ناشکری ہے، جو شیطان کی تحریک واغواء سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کرکے شیطان کے مشابہ ہوجا تا ہے، جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان اور اضلال میں خرچ کیا اس (شخص) نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑادیا۔ (تفسیر عثمانی ص:۳۷۷،۳۷۸)
بہرحال ”طریقہٴ محمدیہ“ کے مصنف نے اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں ص:۳۷ پر ”اسراف“ کے بارے میں اس طرح عنوان باندھا ہے ”المبحث الثالث فی اصناف الاسراف“ یعنی تیسری بحث ”اسراف“ کی اقسام سے متعلق ہے ۔
اسراف کی تعریف
”ہو اہلاک المال واضاعتہ وانفاقہ من غیر فائدة معتدبہا دینیة او دنیویة“۔
یعنی کسی دینی اور دنیوی قابل ذکر فائدہ کے بغیر مال کو تباہ وبرباد کرنا اور بے جا خرچ کرنا ”اسراف“ کہلاتا ہے۔
اسراف کی اقسام
۱…اسراف کی پہلی قسم یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے مال کو دانستہ طور پر سمندر میں یا کسی کنویں میں یا آگ میں ڈال کر تباہ کردیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے مال کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یا توڑ کر رکھ دیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے باغ کا پھل پکنے کے بعد درختوں سے نہیں اتارتا یا کھیتی کی تیار فصل نہیں سنبھالتا، یہاں تک کہ پھل سڑ کر خراب ہوجاتا ہے اور فصل تباہ ہوجاتی ہے یا اگر اس کا مال جانوروں اور غلاموں کی صورت میں ہے تو اس کو گھر میں نہیں رکھتا ہے، جانوروں کو چارہ نہیں کھلاتا ہے اور سخت سردی میں غلاموں کو کپڑے نہیں پہناتا ہے، یہاں تک کہ جانور بھوک سے اور غلام سردی سے مر جاتے ہیں، یہ سب اسراف کے ضمن میں آتا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نوٹوں کے ساتھ ہاتھ صاف کرتے ہیں یا اس کو پھاڑدیتے ہیں یا کسی طرح جلا ڈالتے ہیں، ان کا یہ عمل اسراف میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ ( جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: قوم کا اتحاد واتفاق مستقبل کے لئے نیک فال
Flag Counter