Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 14
مذہبی رواداری
مذہبی رواداری

مذاہب کے درمیان مفاہمت اور مکالمہ کی بات ایک عرصہ سے دنیا بھر میں چل رہی ہے اور مختلف مذاہب اور نظریات کے حضرات اس پر اظہار خیال کررہے ہیں۔عام طور پر اس حوالہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان رواداری، مفاہمت اور مکالمہ وگفتگو کی فضا کو فروغ دینا ہر دور میں ضروری رہا ہے ،مگر اب جبکہ فاصلوں کے مسلسل سمٹتے چلے جانے کے بعد دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کررہی ہے، اس کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے، تاکہ مختلف مذاہب اور عقائد ونظریات کے لوگ مل جل کر ایک سوسائٹی میں رہ سکیں اور مذاہب کے حوالہ سے جو اختلافات ہیں ،وہ کشمکش اور تصادم کی صورت اختیار نہ کریں۔
مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کے شدت پسندانہ اظہار کو بھی اس ضرورت کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تصادم، محاذ آرائی اور قتل وقتال کا جو سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، اس کا تسلسل آج بھی موجود ہے اور عنوان تبدیل ہونے کے باوجود وہ مذہبی شدت پسندی اور انتہأ پسندی بدستور انسانی معاشرے میں موجود ہے۔
گزشتہ صدیوں میں یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان جو کچھ ہوا ہے اس کی ایک ہلکی جھلک ”ہولوکاسٹ“ کے حوالہ سے بیان کی جانے والی تلخ داستان کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے اور مسیحی مذہب کے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس فرقوں کے درمیان طویل خانہ جنگی کی صدائے بازگشت شمالی آئرلینڈ کی فضاؤں میں اب بھی سنائی دیتی ہے، جب کہ مشرقی یورپ کے ممالک کے کیمونزم کے شکنجے سے نکل جانے کے بعد وہاں کی مسلم آبادی بالخصوص بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
الغرض مسلمانوں اور مسیحیوں، مسیحیوں اور یہودیوں، فلسطین میں یہودیوں اور مسلمانوں اور مختلف ادوار میں ان مذاہب کے باقی فرقوں کے درمیان داخلی طور پر خونریزی اور تصادم کی ایک لمبی تاریخ ہے جو مختلف محاذوں پر اب بھی جاری ہے اور اس صورت حال کو قابو میں لانے کے لئے اہل مذاہب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت کے فروغ کے لئے مختلف سطحوں پر کام ہورہا ہے۔
اس تصادم اور خونریزی کو ختم کرنے کے لئے ایک حل یہ تجویز کیا گیا ہے جس پر دنیا کے ایک بڑے حصے میں عمل ہورہا ہے کہ سرے سے مذہب کے وجود کی یا کم از کم سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے اس کے تعلق کی نفی کردی جائے اور مذہب سے انکار یا اسے محض فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس کے معاشرتی کردار کو ختم کردیا جائے، لیکن یہ سوچ اور طریق کار منفی اور غیر فطری ہونے کی وجہ سے بالآخر ناکام ہوتا جارہا ہے اور دنیا کے مختلف معاشروں میں مذہب کے معاشرتی کردار کی واپسی کا عمل دھیرے دھیرے بڑھتا نظر آرہا ہے، جس نے دانش کی اعلیٰ سطح کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ مذہب کی نفی کرنے کی بجائے مذہب کے کردار وعمل کو باہمی مفاہمت ومکالمہ کے ذریعہ آگے بڑھایاجائے اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات ومفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ حقیقت ایک بار پھر انسانی سوسائٹی میں خود کو تسلیم کراتی دکھائی دے رہی ہے کہ مذہب ایک فرد اور انسان کی بھی ضرورت ہے اور معاشرہ اور سوسائٹی کی بھی ضرورت ہے، جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پھر یہ مفروضہ بھی محض تکلف کی حیثیت رکھتا ہے کہ چونکہ مذہب کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور باہمی تصادم اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور اس لئے اس کی نفی کردی جائے، اس لئے کہ مذہب کے علاوہ اور بھی عوامل موجود ہیں جو انسانی سوسائٹی میں منافرت، باہمی جنگ وجدال اور قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے اسباب میں مذہب کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور قومیت، رنگ ونسل، علاقائیت، زبان اور نسلی عصبیت کا انسانوں کو لڑانے اور خون بہانے میں کردار کسی سے مخفی نہیں ہے، اس لئے مذہب کو سوسائٹی میں جنگ وجدال، انتہاء پسندی اور قتل وغارت کا باعث قرار دے کر اس کی نفی کرنے اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کے بے دخل کرنے کا فلسفہ غیر فطری اور غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اسی وجہ سے اسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا ۔
مذہبی رواداری کا ایک اور فلسفہ آج کل زیر بحث ہے کہ تمام مذاہب کے مشترکات کو جمع کرکے ایک مشترکہ مذہب تشکیل دیا جائے اور جن اقدار وروایات کی سوسائٹی کو ضرورت ہے انہیں ایک ”متحدہ مذہب“ کی صورت میں فروغ دیا جائے۔ اسی فلسفہ کے تحت پانچ سو سال قبل برصغیر میں مغل بادشاہ ”جلال الدین اکبر“ نے ”دین الٰہی“ تشکیل دیا تھا جو انسانی سوسائٹی کے مزاج اور نفسیات سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے فیل ہوگیا تھا اور اسی کا ناکام تجربہ آج کل ”بہائی مذہب“ کی طرف سے اس طرح کیا جارہا ہے کہ بعض بڑے مراکز میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں ایک چھت کے نیچے بناکر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اتحاد بین المذاہب“ کی عملی صورت ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک چھت کے نیچے اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرتے ہیں مگر یہ غیر فطری تجربہ بھی ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپارہا اور ایک محدود اور مخصوص طبقہ کے سوا کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔
”بین المذاہب“ مفاہمت کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر طبقہ اپنے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے اس پر عمل کرے ،مگر دوسروں کا وجود تسلیم کرکے ان کا احترام ملحوظ رکھے اورباہمی احترام اور مفاہمت کی فضا قائم کی جائے۔
جناب نبی اکرم انے اس سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں اور جس طرح دور نبوی ا اور خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں اور اسلام کی راہ میں مزاحمت نہ کرنے والے غیر مسلموں کے درمیان جس طرح تعلقات رہے ہیں اور خلفاء راشدین نے اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق ومفادات کا جس طرح تحفظ کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جب کہ بنوعباس، بنوامیہ، بنوعثمان اور اندلس کی مسلمان حکومت کے زمانے میں غیر مسلم جس امن کے ماحول میں اسلامی ریاست میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں، اسے اس رواداری اور برداشت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور وقانون اور معاشرتی رویہ میں غیر مسلموں کے لئے رواداری اور مفاہمت کا جو ماحول پایاجاتا ہے، اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو تمام وہ حقوق حاصل ہیں جو بنیادی اور شہری حقوق میں شمار ہوتے ہیں، لیکن دو تین معاملات ایسے ہیں جن میں تحفظات پائے جاتے ہیں اور بین المذاہب مفاہمت کے فروغ کی کوشش میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،مثلاً: ”دستور پاکستان“ ملک کی مسلم اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان ”معاہدہ“ کی حیثیت رکھتا ہے جو سب کے اتفاق سے منظور اور نافذ ہوا ہے۔ اگر سب لوگ اس دستور کے مطابق چلیں تو کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا، لیکن جب اس دستور کو یا اس کے اسلامی تشخص کو چیلنج کیا جاتا ہے تو شکایات پیدا ہوتی ہیں اور مسلمان اکثریت کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہوتی کہ پاکستان کی اسلامی بنیادوں اور دستور کے اسلامی تشخص کی نفی کی جائے۔ دوسرے نمبر پر حقوق کے نام پر جب کچھ عناصر پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف عالمی استعمار کی یلغار اور مہم کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ناموس رسالت ا کے تحفظ کا قانون دیکھ لیجئے، جب اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ عالمی سیکولرازم کے اس ایجنڈے کی تائید ہوتی ہے جس پر وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے عمل کررہا ہے۔ اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنے کی بات اس سے مختلف ہے اور سرے سے قانون کو ختم کردینے کی بات قطعی طور پر اس سے الگ ہے۔انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین تمام مذاہب میں سنگین جرائم کی فہرست میں آتی ہے اور اس پر موت کی سزا بائیبل میں بھی مذکور ہے، اس لئے جب اسے قانون سے بالکل ختم کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے کسی مذہب کی نمائندگی نہیں ہوتی، بلکہ مذہب کی نفی کرنے والے عالمی سیکولرازم کی تائید وتقویت ہوتی ہے، جس سے مسلمانوں کوشدید اختلاف ہے۔اسی طرح قادیانیت کا مسئلہ ہے کہ قادیانی گروہ سرے سے پاکستان کے دستور کو تسلیم نہیں کررہا اورمنتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلہ کو مسترد کررہا ہے، اس لئے جب مذہبی آزادی کے نام پر قادیانیوں کے اس غیر دستوری اور غیر جمہوری رویے کی تائید کی جاتی ہے اور انہیں سپورٹ کیا جاتاہے تو اس سے مسلم اکثریت کے جذبات کا مشتعل ہونا فطری بات ہے۔
ان گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ بین المذاہب مفاہمت کے فروغ اور مکالمہ بین المذاہب کے لئے جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کے اہداف ہمارے سامنے ہونے چاہئیں اور ابہام کی فضا میں مذہبی شدت پسندی کا عنوان دے کر مذہبی حلقوں کو خواہ مخواہ ہدف تنقید بنا کر ہمیں کنفیوژن میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ گول مول باتوں اور ابہام کی فضا سے کنفیوژن بڑھتا ہے اور مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں بین المذاہب مفاہمت کا سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ ہم سب اس دستور کا احترام اور اس کی حدود کی پابندی کریں جو ہمارے درمیان سوشل کنٹریکٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم سب نے اس کی وفاداری کا عہد کر رکھا ہے۔ دوسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ باہمی شکایات کا حل ہمیں اپنے ملک کے اندر اور دستور کے دائرہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے پاکستان کے بارے میں مخصوص منفی ایجنڈا رکھنے والے عالمی استعمار کو ملکی معاملات میں دخل اندازی کا موقع دینے سے گریز کرنا چاہئے کہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مسائل ومشکلات کے حل کے لئے بھی کسی صورت میں فائدہ مند نہیں ہے۔
تیسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے مذہبی راہنماؤں کے درمیان وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے اور مشترکہ مسائل اور مشکلات وشکایات پر غور کرنے اور باہمی مشاورت واعتماد کے ساتھ ان کا حل تلاش کرنے کا کوئی ایسا نظام ضروری ہے جو نارمل حالات میں بھی قائم رہے اور ملا قاتوں اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ اس کے ذریعہ جاری رہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: اسراف کی مختلف شکلیں
Flag Counter