Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 14
قوم کا اتحاد واتفاق مستقبل کے لئے نیک فال
قوم کا اتحاد واتفاق مستقبل کے لئے نیک فال
نہ معلوم اس بدنصیب مملکت کا کیا انجام ہوگا؟ روزِ اول سے تاریخ کچھ ایسی عبرت ناک ہے کہ بجز حیرت وافسوس کے کچھ حاصل نہیں۔ پاکستان کی سی سالہ مختصر زندگی میں بڑے بڑے بحران آئے اور گذر گئے ، لیکن دورِ حاضر میں جس شکل وصورت میں بحران آیا ہے اور قوم وملت کا جو شدید امتحان شروع ہوا ہے، ادوارِ سابقہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ان دردناک حوادث میں جو گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، بلاشبہ مایوس کن ہیں، لیکن امید وکامیابی کی جو کرنیں ان گھٹاؤں کی تہوں سے نکلتی ہیں، وہ قدرے حوصلہ افزاء ہیں۔ ملک وملت کا حیرت انگیز اتحاد شدید اختلافات کے ہوتے ہوئے جس مرحلے میں داخل ہے، نہایت ہی امید افزا ہے اور من حیث القوم اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ جس قوت سے پیش آرہا ہے، نہایت ہی روشن اور تابناک مستقبل کی خبر دیتا ہے۔ چند مٹھی بھر افراد جو شراب وزنا اور بے حیائی وعریانی کے جنون میں مبتلا ہیں، ان کے سوا تمام قوم کا اتحاد بے نظیر حسین وجمیل منظر پیش کرتا ہے اور دین کے لئے سربکف میدان میں نکل کر جس غیرت ایمانی وحمیتِ دینی اور حرارتِ اسلامی کا ثبوت دیا جارہا ہے، اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔
گذشتہ دنوں تحریکِ ختم نبوت میں پاکستانی قوم جس طرح یک دل ویک جان ہوکر متحد ہوگئی تھی، اب دوبارہ پورے دینی نظام کو لانے کے لئے اتحاد واتفاق ہوگیا ہے جو نہایت امید افزاء ہے اور قوم کے اتحاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کے لئے قوم متحد ہوجائے اور وہ حل نہ ہوسکے۔ قومی اتحاد لوہے کی ایک ایسی دیوار ہے کہ نہ پولیس کی لاٹھیاں اسے مسمار کرسکتی ہیں، نہ فوج کی گولیاں اس میں رخنہ پیدا کرسکتی ہیں، نہ بیرونی اعداء ِ اسلام اور دشمنانِ دین کی ریشہ دوانیاں اسے گراسکتی ہیں اور نہ اس میں سوراخ کیا جاسکتا ہے۔اگر ہٹلر وگوبلز اور ہملرومیسولینی کا انجام پیشِ نظر ہو تو ہرڈکٹیٹرمزاج حکمران کے لئے مقامِ عبرت ہے، ظلم وتشدد کے ہتھیار کی عمر بہت کم ہوتی ہے، حق تعالیٰ نے کسی ظالم وجابر حکمران کو اپنی خدائی نہیں دی ہے کہ جو چاہے کرتا رہے، گذشتہ ادوار میں یورپ وایشیا میں جو ظالم وسنگدل حکمران آئے ،ان کا عبرت ناک انجام دنیانے دیکھ لیا، قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہ وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ۔“ (الشوریٰ:۲۸)
ترجمہ:…”اور وہی ہے جواتارتاہے مینہ بعد اس کے کہ آس توڑچکے اورپھیلاتاہے اپنی رحمت،اوروہی ہے کام بنانے والا،سب تعریفوں کے لائق۔
کچھ بعید نہیں کہ جس انداز سے ملک وملت کا خون بہایاجارہا ہے اور جس انداز سے نوجوانوں کی لاشیں تڑپ رہی ہیں، جیل خانے اسیروں سے بھرگئے ہیں اور ہسپتال زخمیوں سے پٹے پڑے ہیں، اس کا صلہ حق تعالیٰ سے عام معافی ہو اور اس قوم پر رحم فرماکر سی سالہ غلطیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے، صالح حکومت اور اسلامی قانون اور شریعتِ الٰہیہ کے نفاذ کے پرچم لہرائیں اور غضب کو خود ہی حق تعالیٰ ابرِ رحمت سے بجھائے، ”وماذلک علی اللہ بعزیز“
بہرحال پوری قوم کو بارگاہِ رحمت ہی کی طرف توجہ کی شدید ضرورت ہے اور یہ کہ ان ظاہری اسباب پر فتح وکامیابی کو موقوف نہ سمجھیں، خوشی کی بات ہے کہ مختلف جماعتوں کا اسلام کے اساسی مقاصد پر پورا اتحاد واتفاق ہے، قرآن کریم وسنتِ نبی کریم ا وعقیدہ ٴ ختم نبوت پر سب کا اتفاق ہے، اگر تھوڑا بہت اختلاف ہے تو چند فقہی مسائل میں، قوم اپنے اپنے مسلک کے مطابق اس کو اختیار کرنے کی مجاز ہے، گذشتہ چند دنوں میں راقم الحروف نے پریس کو دو بیانات جاری کئے تھے، پہلا بیان شخصی وانفرادی تھا جو ۹/اپریل کو اخبارات میں شائع ہوا اور دوسرا مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے امیر کی حیثیت سے جو ۱۵/ اپریل کے اخبارات میں چھپا، دونوں بیان علی الترتیب حسب ذیل ہیں:
حکومت تشدد کرکے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی
۱․․․․”کراچی ۹/اپریل (پ ر) ممتاز عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف بنوری نے آج یہاں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت پاکستان جس بحران سے گذر رہا ہے وہ بہت دردناک اور تاریخِ پاکستان کا تاریک ترین باب ہے، حکومت عوام کی مرضی کے خلاف اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے ،دوسری طرف عوام اس حکومت کو کسی طرح برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور اسے متفقہ طور پر بار بار رد کرچکے ہیں۔اربابِ حکومت تشدد سے عوام کے جذبات کو دباناچاہتے ہیں جو یقینا بہت مذموم ہے، نیز مسجدوں میں لاٹھی چارج کرنا، اشک آور گیس استعمال کرنا، نمازیوں اور علماء کو زدوکوب کرنا اور بے گناہ مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا سراسر عقل وانصاف کے خلاف ہے، اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ حکومت تشدد کرکے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، برطانیہ جیسی حکومت بھی تشدد کرکے اقتدار سے محروم ہوگئی۔حکومت کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ ان حالات میں قوم کے مطالبات کو تسلیم کرلے، مولانا محمد یوسف بنوری نے آخر میں قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ تحریک کو پر امن رکھیں اور مظلوم بنے رہیں اس لئے کہ مظلوم ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت وکامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں ،اسلام کی تاریخ عہدِ نبوت سے لے کر آج تک یہی بتلاتی ہے۔ “ (جنگ کراچی ۱۹/ربیع الثانی، ۱۳۹۷ھ۔ ۹/اپریل ۱۹۷۷ء)
۲․․․․”ملکِ عزیز جس ہولناک بحران کی لپیٹ میں ہے ،اس پردل کانپ رہا ہے، خانہٴ خدا کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، علماء وکلاء اور ملک کے دیگر معززین کی سربازار تذلیل کی جارہی ہے، نہتے شہریوں کو خاک وخون میں تڑپایاجارہاہے اور ان کا پرندوں کی طرح شکار کیا جارہاہے، معصوم بچوں اور خواتین پر شہ زوری کامظاہرہ کیا جارہا ہے جو کسی قوم کی پیشانی پرسب سے بدنما داغ ہے، معیشت تباہ ہوچکی ہے، اقتصادیات پٹ چکی ہیں، کارخانے اور بازار بند اور کاروبار ٹھپ ہے، عالمی برادری میں ملک کا وقار خاک میں مل چکا ہے، دشمن ہنس رہے ہیں اور دوست رورہے ہیں، یہ ظلم وستم، یہ جور وتعدی، یہ انتشار وخلفشار، یہ بے آبروئی وہواخیزی ملک کے مستقبل کے لئے نہایت خطرناک ہے۔میں نہایت دل سوزی سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اس ملک کی حالت پر رحم کریں ،اقتدار سے الگ ہوکر قوم کو آزادانہ انتخابات اور بے لاگ فیصلہ کا موقع دیں ،اگر قوم بخوشی انہیں دوبارہ منتخب کر لیتی ہے تو اطمینان سے حکمرانی کریں اور اگر قوم انہیں مسترد کردیتی ہے تو زبردستی لوگوں کی گر دنوں پر مسلط رہنے کی کوشش نہ کریں، ملک کے طول وعرض میں جو خونی ڈرامہ کھیلا جارہا ہے، ملک اب اس کا مزید متحمل نہیں۔“ (جنگ کراچی ۲۵/ ربیع الثانی، ۱۳۹۷ھ۔ ۱۵/اپریل ۱۹۷۷ء)
یہاں تک لکھا گیا تھا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پریس کانفرنس نشر ہوئی جو بہت غور سے سنی گئی اور اس کے پس منظر وپیش منظر پر غور کیا تو حیرت وافسوس کی انتہا باقی نہ رہی، اسی وقت رات کو ایک اخباری بیان جاری کیاگیا جو ۱۸/اپریل کے صبح کے اخبارات میں شائع ہوا، اس کا متن حسب ذیل ہے:
”کراچی ۱۷/اپریل (پ ر) مولانا سید محمد یوسف بنوری امیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت نے آج رات ایک بیان میں کہا ہے کہ قوم کو توقع تھی کہ جناب بھٹو اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کے موجودہ بحران کا جس نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے ، حل مرنے کے لئے قوم کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس کے مطالبات کو منظور کرنے کا اعلان کریں گے، مگر افسوس کہ جناب بھٹو نے صورت حال کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے پریس کانفرنس میں جن اقدامات کا اعلان کیا ہے انہیں قوم سے مذاق ہی تصور کیا جاسکتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ جس حالت میں قوم کو خاک وخون میں تڑپایا جارہا ہو اور عوام کے مجمعوں پر آتش باری کی جارہی ہو ،ان اقدامات کی کیا قیمت ہوسکتی ہے۔بہرحال جناب بھٹو صاحب کو اطمینان رکھنا چاہئے کہ قوم اب ان کے سبزباغوں سے فریب نہیں کھائے گی۔ انہوں نے قوم سے اتنی وعدہ خلافیاں کی ہیں کہ اب قوم کے کسی سنجیدہ فرد کو ان کے وعدہ پر اعتبار نہیں رہا، مثلاً قادیانیوں کے بارے میں قانون سازی کا قومی اسمبلی میں وعدہ کیا تھا مگر تین سال گذرنے پر بھی وعدہ پورا نہ کیا گیا، اس کے لئے بارہا یاددہانی کرائی گئی، تاردئے گئے، تقاضوں پر تقاضے کئے گئے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی، ان کے لئے دانشمندانہ راستہ اب یہی ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں، آزادانہ انتخاب کاراستہ صاف کریں اور موجودہ اسمبلیوں کو جو دھاندلیوں کی پیداوار ہیں اور جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں توڑ کرقوم کے مطالبات تسلیم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح فہم کی توفیق نصیب فرمائے اور ملک پر رحم فرمائے۔ آمین۔“
حکام کے وعدے اور اسلام سے ان کا تعلق
بڑا صدمہ ہے کہ یہاں روزِ اول سے جو حکمران آتے رہے، کتاب وسنت کا نام لینے کے باوجود کتاب وسنت کی جڑیں کاٹتے چلے گئے، اسلامی قانون بنانے کے بہانے سے تعلیمی بورڈ قائم کیا گیا، لاکھوں روپیہ اس پر خرچ کیا گیا، پھر مشاورتی کونسل قائم کی گئی جو آج تک موجود ہے، اس وقت شاید کروڑوں روپیہ خزانہ عامرہ کا خرچ ہوچکا ہوگا، لیکن ہنوز روزِ اول سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی سیاسی شعبدہ بازی ہے، چونکہ عام مسلمانوں کا مزاج دینی ہے اور انہیں معلوم ہے کہ یہاں کے مسلمان اسلام کے سوا کسی نظام کو برداشت نہیں کرسکتے، اس لئے ان کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لئے یہ سب کچھ ہوتا رہا، عائلی قوانین وکتاب وسنت کے خلاف نافذ کر دیئے گئے، تمام ملک میں احتجاج ہوا مگر کیا مجال کہ حکومت اپنے مؤقف سے سرمو بھی ہٹی ہو، آخری دور بھٹو صاحب کا آیاہے، اپوزیشن میں چند مؤقر خدا ترس ہستیوں کی مساعی جمیلہ سے خداخدا کرکے آئین میں پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور اس کا آئین کتاب وسنت پر مبنی ہوگا،لیکن عملی طور پر زبانی جمع خرچ اور لفظوں کے ہیر پھیر سے زیادہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔اس بدنصیب مملکت کے حکمرانوں کا مزاج سوئے اتفاق سے ایک ہی قسم کا نکلا تھا۔ ”تشابہت قلوبہم قاتلہم الله انی یؤفکون“ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں باربار یہی دہرایاگیا، پھر منشور کی بنیادی دفعات میں یہ دہرایاگیا کہ مذہب اسلام ہوگا، معیشت سوشل ازم ہوگی مگر اسلام کے ساتھ سوشلزم کا جوڑ کیسے؟ کیا کفر واسلام دونوں ایک ہوسکتے ہیں؟ کیا سفید وسیاہ ایک ہی چیز ہے؟ غرض حقائق کو مسخ کرکے الفاظ کے گورکھ دھندوں میں بے چارے عوام کو پھنسانے کی کوشش کی گئی اور ہورہی ہے۔
بھٹو دورِ حکومت میں تمام مسلمانوں نے اپنے اتحاد واتفاق کی قوت سے ملتِ مرتدہ قادیانیہ مرزائیہ کو اقلیت بنانے میں کامیابی حاصل کی، ضرورت تھی کہ فوراً قانون بنتا، مرزائیوں کی مردم شماری ہوتی، اس تناسب سے ان کے لئے اسمبلی کی سیٹیں متعین کی جاتیں، ان کے شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں پر قادیانی مرزائی کا لفظ لکھنا ضروری کردیا جاتا، تاکہ چور راستوں سے جو اسلامی اور عربی حکومتوں میں گھس کر وہ اسلام کی بیخ کنی کرتے چلے آئے ہیں، اس کا راستہ بند کیا جاتا ۔لیکن افسوس اور صد افسوس کہ ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، بلکہ اٹھتے ہوئے قدموں کو کاٹ دیاگیا۔ مسٹر بھٹو کی حکومت اس سلسلہ میں خود تو کیا اقدام کرتی، حزب اختلاف کی طرف سے جو بل اسمبلی میں پیش ہوا، اسے بھی مسترد کردیا اور حالیہ انتخابات سے پہلے مسٹر بھٹو نے مرزا ناصر احمد قادیانی مرتدین کے سربراہ سے تین گھنٹے تک طویل ملاقات کی، نہ جانے کیا خفیہ پخت وپز ہوئی ہوگی، اسی کا شاخسانہ ہے کہ موجودہ نام نہاد اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے قادیانیوں کو شریک نہیں کیا گیا، گویا آئین میں جو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، عملی طور پر اسے معطل کردیا گیا۔
ماضی قریب میں شراب پر فخر ومباہات کا اظہار کیا اور عملی طور پر برسربازار شراب نوشی کی محفلیں گرم کی گئیں، قانون ِ اسلام کا مضحکہ اڑایاگیا ، زکوٰة وعشر کے اسلامی نظام کو فرسودہ اور باعثِ لعنت قرار دیا گیا، بلکہ تمام اسلامی حکام کو پارینہ، دیرینہ اور فرسودہ نظام سے یاد کیاگیا، ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیا بھٹو صاحب کے وعدے پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اپنی کرسئی اقتدار کو سہارا دینے کے لئے شراب نوشی کی پابندی کے اعلان سے عوام کو دھوکا دیا جارہاہے ،جب کہ چور راستوں سے غیر ملکی لوگوں اور غیر مسلموں کے لئے کھلی اجازت دے دی گئی، عبرت کی بات ہے کہ ہندوستانی حکومت نے مدت سے شراب کو اس سختی سے ممنوع قرار دے رکھا ہے، جس کی نظیر اسلامی حکومت میں نہیں ملے گی، حالانکہ وہ کافر سیکولر حکومت ہے، چند ناموں کا اعلان کرکے اسلامی قانون سازی کے لئے سفارشات پیش کرنے کا اعلان کیا گیا، تاکہ ہوا کے رخ کو موڑا جاسکے، سابقہ تجربوں کو سامنے رکھ کر کیا کوئی سادہ لوح بھی ان اعلانوں اور ان وعدوں پر اعتماد کرسکتا ہے؟بہرحال یہ آخری سیاسی حربہ تھا اور ترکش کا آخری تیر تھا۔
اس وقت ہم نے صرف ایک دینی پہلو کے پیش نظر چند اشارات کئے ہیں، سیاسی اعتبار سے مملکت کی تباہی، اقتصادی بدحالی، بدامنی، بے رحمی، ظلم وعدوان کی فراوانی، بیرونی قرضہ جات سے معیشت کی تباہی کی داستانیں اتنی طویل اور اتنی دردناک ہیں کہ نہ قلب میں طاقت، نہ قلم میں یارائی کی قوت ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: یورپی پارلیمنٹ کی اسلام دشمنی
Flag Counter