Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

11 - 14
عقیدت کے چند آنسوں
عقیدت کے چند آنسوں

حضورِ اقدس ا کے فرمان کا مفہوم ہے: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک رُوئے زمین پر ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا موجود ہوگا۔“ یعنی جب تک رُوئے زمین پر اللہ کا اسم مبارک سکھانے والے، اللہ اللہ کی ضربیں لگانے والے موجود ہیں، اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی۔ ان مبارک ہستیوں میں سے شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد شریف اللہ مولویانوی بھی ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین حق کی خدمت کے لئے وقف کردی اور نصف صدی سے بھی زائد عرصہ تشنگانِ علومِ نبویہ کو سیراب کرتے رہے۔آپ کی ولادت ۱۳۴۹ھ رحیم یارخان کے مضافات میں واقع بستی مولویان میں ہوئی، نام ”شریف اللہ“ تجویز کیا گیا۔ اگر آپ ددھیال کی طرف سے علماء کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو ننھیال کی طرف سے ان کا رِشتہ دین پور شریف کے مشہور رُوحانی خاندان سے ہے، اس طرح حضرت کو نجیب الطرفین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں جہاں ایک طرف قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند تھیں، تو دُوسری طرف اللہ اللہ کی ضربوں سے بھی فضا معطر رہتی تھی۔ آپ کے والد گرامی شیخ عبدالرحیم ایک جید عالم، بلند پایہ محقق اور نامور محدث تھے اور خلیفہ حافظ غلام محمد دِین پوری کے مرید تھے، ان کی وفات کے بعد پھر رُوحانی تعلق حضرت شیخ حماداللہ الہالیجوی سے قائم کیا۔
آپ کچھ بڑے ہوئے تو والد گرامی کو آپ کی تعلیم کی فکر ہوئی، اس کے لئے آپ کو حافظ محمد مٹھا صاحب کے پاس حفظِ قرآن کے لئے بٹھادیا گیا، آپ نے مکمل قرآن مجید ان کے پاس ہی حفظ کیا، حضرت نے قاری فتح محمد پانی پاتی رحمہ اللہ سے بھی قرآن مجید پڑھا۔ قاری صاحب اکثر دورہٴ تجویدالقرآن پڑھانے کے لئے مدرسے میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ حضرت قاری صاحب کو روزانہ قرآن پاک سنایا کرتے تھے، قاری صاحب کا قیام جب تک مدرسے میں ہوتا، ان کی خدمت حضرت ہی کے ذمہ ہوتی تھی، قاری صاحب حضرت کی خدمت سے خوش ہوکر انہیں خوب دُعاوٴں سے نوازا کرتے تھے۔
حفظِ قرآن کے بعد کتب کی تعلیم کو شروع کیا، اللہ جل شانہ‘ نے آپ کو خداداد حافظے سے نوازا تھا۔ آپ بچپن سے ہی غیرمعمولی ذہین تھے۔ آپ کے والد گرامی کا پڑھانے کا اپنا ایک طرز وطریقہ تھا، اس سے جہاں طلبہ کے اندر مطالعے کا شوق پیدا ہوتا، وہیں کتابوں کا حل کرنا بھی ان کے لئے آسان ہوتا۔ آپ نے تقریباً تمام کتب اپنے والد گرامی سے پڑھیں، البتہ فراغت کے بعد آپ کے والد گرامی نے آپ کو علم میراث کے کچھ اسباق پڑھنے کے لئے اپنے اُستاذ شیخ عبدالرزاق ججوی رحمہ اللہ کے پاس ججہ میں بھیجا، جہاں سندِ قربی کی اجازت کا واقعہ پیش آیا، اسی طرح دورانِ تدریس تفسیر قرآنِ کریم میں مہارتِ تامہ حاصل کرنے کے لئے اوّلاً دورہٴ تفسیر القرآن حضرت احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے پاس اور ثانیاً حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ کے پاس پڑھا۔
فراغت کے اگلے سال ہی آپ نے اپنے جامعہ کے اندر اپنے والد گرامی کی زیرنگرانی مسندِ تدریس کو سنبھالا اور ہمہ جہت درس وتدریس میں مشغول ہوئے، اور تقریباً ساٹھ سال علم وعرفان کی نوری کرنوں سے طالبینِ حق کے دِلوں کو منوّر فرمایا۔ ان ساٹھ سالوں میں تقریباً بائیس مرتبہ مکمل دورہٴ تفسیر القرآن اور چالیس سے زائد مرتبہ درسِ بخاری دیا۔
حضرت کو تعلیم وتعلّم کے ساتھ خاص شغف اور تعلق تھا، حضرت نے تعلیم وتعلّم کو ہی اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنارکھا تھا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیماری کے ایام میں بھی سبق نہ چھوڑتے تھے، بسااوقات دو آدمیوں کے سہارے پر بھی چل کر سبق کے لئے تشریف لاتے تھے، اور آخری دو سالوں میں باوجود شدید علالت اور عدمِ بصر کے مسندِ تدریس کو نہ چھوڑا۔ ایک مرتبہ فرمایا: میری طبیعت بعض مرتبہ بہت زیادہ خراب ہوتی ہے، چلنا دوبھر ہوتا ہے، مگر جب سبق پڑھانے کے لئے آتا ہوں ہشاش بشاش ہوجاتا ہوں۔ فرمایا کرتے تھے: درسِ بخاری میرے لئے مستشفیٰ بخاری ہے، یہاں آکر میں بالکل صحیح ہوجاتا ہوں۔ گویا حضرت کی تمام بیماریوں کی دوا درس وتدریس ہی تھی۔ حضرت فرمایا کرتے تھے: تم تو پانچ چھ سبق پڑھاکر ہی تھک جاتے ہو، میں اپنے دور میں ایک دن میں چوبیس چوبیس سبق بھی پڑھایا کرتا تھا۔
پڑھانے والے جانتے ہیں درس وتدریس کتنا مشکل اور اہم کام ہے، پانچ چھ اسباق کے بعد ہمت بالکل ہی جواب دے جاتی ہے، اور بولنا بھی دوبھر ہوجاتا ہے، ایسے میں چوبیس سبق پڑھانا صرف یہی نہیں بلکہ والد گرامی کے ساتھ مدرسے کے اُمور کی نگرانی میں معاونت آپ جیسے بلند پایہ ہمت والے حضرات کا ہی کام ہے۔ اللہ نے آپ کو تدریس میں بھی خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا، آپ طلبہ کو صرف پڑھاتے ہی نہیں بلکہ گھول کر پلادیتے تھے، مشکل ابحاث کو بھی ایسے سادہ اور عام فہم انداز میں سمجھاتے کہ طالب کو بالکل بھی اندازہ نہ ہوتا کہ یہ کتاب کا ایک مشکل اور مغلق ترین مقام ہے۔
آپ نے متداولہ وغیرمتداولہ تمام کتب پڑھائیں، لیکن آپ کو جو مناسبت اور تعلق قرآن اور حدیث کے ساتھ تھا، وہ کسی اور کے ساتھ نہ تھا، جس کی شاہد آپ کی وہ تصانیف ہیں جو آپ نے فن تفسیر اور حدیث میں فرمائیں۔ واقفینِ حال جانتے ہیں کہ حدیث اور تفسیر کا پڑھانا کس قدر مشکل ہے کہ تھوڑی سی لغزش ایک بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، لیکن اللہ نے آپ کو ان فنون کے اندر جو ملکہ عطا فرمایا ہے اس کا اندازہ آپ کی تصانیف پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
احادیث کی لمبی اور طویل اَبحاث کو ایسے انداز سے بیان فرماتے جس سے طلبہ کے لئے ان ابحاث کو ذہن میں بٹھانا اِنتہائی آسان ہوجاتا۔ اسی طرح تفسیر کے اندر بھی ایسا انداز اِختیار فرماتے کہ لمبی لمبی تشریح کی حامل آیات کی تفسیر چند لفظوں میں طلبہ کے ذہنوں میں نقش ہوکر رہ جاتیں۔ اسی طرح فنِ میراث سے بھی حضرت کو خوب تعلق رہا۔
فن میراث کو حدیث شریف میں نصف علم قرار دِیا گیا ہے، اور علماء جانتے ہیں کہ یہ کس قدر مشکل فن ہے، اس کا سمجھنا، یاد کرنا اور عملی مشق کرنا ایک اِنتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ حضرت نے اس فن کے اندر اپنے سالہا سال کے تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک کتاب ”تعلیم الفرائض“ تصنیف فرمائی، جس سے نہ صرف اس فن کا سمجھنا آسان ہوگیا بلکہ اس فن کو ترتیب کے ساتھ یاد کرنا بھی آسان ہوگیا۔ اس فن کی تسہیل میں اگر حضرت کو مجدد مانا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حضرت کی اسی ترتیب کے ساتھ ملک کے طول وعرض میں مختلف مقامات پر یہ فن پڑھایا جاتا ہے۔ الحمدللہ! اس سال جامعہ میں دورہٴ حدیث میں ۱۲۶ طلبہ نے حضرت سے کسبِ فیض کیا اور فراغت پائی۔
آپ کو طلبہ کرام کے ساتھ خاص لگاوٴ تھا۔ اپنی نسبی اولاد کی طرح ان سے محبت فرمایا کرتے تھے، تعطیلات میں بھی کچھ طلبہ کو اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور اپنے مخصوص انداز میں فرماتے: ”ابا! اگر طلبہ نہ ہوں تو میں مونجھا ہوجاتا ہوں“ حضرت کو طلبہ کرام کے آرام اور سہولت کی ہمہ وقت فکر رہتی تھی، ہر معاملے میں طلبہ کے آرام کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ تمام طلبہ کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہوتا تھا کہ ہر طالب علم یہ سمجھتا کہ جتنی محبت حضرت میرے ساتھ فرماتے ہیں، اتنی کسی اور کے ساتھ نہیں۔
علم وعمل کے ساتھ ساتھ تصوف ومعرفت بھی حضرت رحمہ اللہ کے خاندان کا خاص طرہٴ اِمتیاز ووطیرہ رہا ہے کہ علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کی طرف توجہ فرماتے تھے۔ حضرت نے بھی اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علومِ ظاہری کے بعد علومِ باطنی کی طرف توجہ فرمائی اور اس کے لئے سندھ کے مشہور بزرگ سائیں حضرت حماداللہ الہالیجوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے خادمانہ اور مریدانہ نسبت قائم کی۔ حضرت رحمہ اللہ کا اپنے شیخ کے ہاں ایک ممتاز مقام تھا، حضرت جامعہ کے ایامِ تعطیلات میں دو دو، تین تین مہینے کے لئے اپنے شیخ کے پاس چلے جاتے اور وہیں رہ کر سلوک وعرفان کی منزلیں طے کرتے رہے۔ حضرت جب اپنے اس سفرِ معرفت کے پوشیدہ گوشوں سے پردہ اُٹھاتے، اس محنت اور مجاہدے کو سن کر قرونِ اُولیٰ کی یاد تازہ ہوجایا کرتی تھی۔
آپ اپنے شیخ کے اِحترام میں پنوعاقل اسٹیشن سے ہالیجی تک پیدل سفر فرمایا کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک مرتبہ زبردست سیلاب آیا اور پانی سینے تک پہنچ گیا تو اس حال میں بھی پیدل تشریف لے گئے، پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ہالیجوی رحمہ اللہ کے حکم سے ہالیجوی سے واپسی پر تانگے وغیرہ پر سوار ہوتے تھے، پھر کچھ عرصہ بعد پنوعاقل سے ہالیجی جانے کے لئے بھی سوار ہونے کا حکم ہوا تو اس کے بعد آمد ورفت بذریعہ سواری ہوا کرتی تھی۔ حضرت رحمہ اللہ جب اپنے شیخ کے پاس ہوتے تو فجر کی نماز کے بعد کا درس حضرت ہی کے ذمے ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا: میں نے صبح کا درس دیا تو میرے شیخ نے فرمایا: ”شریف اللہ کے درس سے سالکین کا سینہ صاف ہوتا ہے۔“ اسی طرح سلوک وعرفان کی منزلیں طے کرتے ہوئے خلافت سے سرفراز ہوئے اور حضرت کے اجل خلفاء میں ان کا شمار ہونے لگا۔
حدیث کے اندر سند بنیادی حیثیت رکھتی ہے، جس محدث کی سند میں واسطے جتنے کم ہوں، اتنا ہی وہ اس محدث اور اس کی کتاب کی فضیلت پر دال ہیں۔ اِمام بخاری کی بخاری میں جہاں اور بھی کمالات ہیں ،وہیں اِمام بخاری کی علوِ سند (یعنی ثلاثیات البخاری) بھی اس کے کمالات میں سے ہے، اور علومِ نبوت کے شائقین جانتے ہیں کہ علوِ سند کس قدر مرغوب چیز اور اعلیٰ درجے کی نعمت ہے، یہ وہ گوہرِ نایاب ہے جس کے لئے ہمارے اسلاف مہینوں کا سفر کرتے اور بے حساب مشقت گوارا کرتے۔ حضرت کو اللہ نے جہاں اور کمالات سے نوازا ہے، وہیں حضرت پر اللہ کا یہ فضل بھی ہے کہ حضرت کی سند حدیث شریف میں اس قدر عالی ہے کہ حضرت سے لے کر رسالت مآب ا تک کل سولہ واسطے بنتے ہیں (ثلاثیات البخاری کے اِعتبار سے)۔مختلف افراد نے اس سند کی تحقیق کی ہے، جس کی رُو سے پوری رُوئے زمین پر اس سے عالی سند موجود نہیں ہے۔ حضرت اس سند کی اِجازت کا واقعہ سناتے ہیں کہ میں اُستاذ الاستاذ حضرت عبدالرزاق ججوی رحمہ اللہ کے پاس تھا، حضرت مولانا خیرمحمد مکی رحمہ اللہ حضرت عبدالرزاق ججوی رحمہ اللہ کی زیارت کے لئے آئے تو حضرت الاستاذ نے حضرت مکی صاحب رحمہ اللہ سے فرمایا: ”آپ مولوی شریف اللہ کو خصوصی اجازتِ حدیث دیں“ اس پر حضرت مکی صاحب رحمہ اللہ نے یہ اجازت مرحمت فرمائی۔
الحمدللہ! برصغیر پاک وہند بلکہ پوری دُنیا سے علمائے کرام کے وفود اس سند کے حصول کے لئے حضرت کے پاس آتے رہتے اور حضرت کمالِ شفقت فرماتے ہوئے ان کو اِجازت مرحمت فرمادیتے، اب تک ہزارہا تشنگانِ حدیثِ نبوی اس اَبرِ کرم سے سیراب ہوچکے ہیں۔ حضرت کے وصال سے جہاں اور محرومیاں ہمارے حصے میں آئی ہیں، وہیں سب سے بڑھ کر یہ محرومی بھی ہے۔ ہم ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت سے محروم ہوگئے جو تشنگانِ علومِ نبوت کو صرف سولہ واسطوں کے ساتھ ذاتِ نبوت ا کے ساتھ جوڑ دیا کرتی تھی، اس سند کی تحقیق کے لئے ملاحظہ فرمائیں:
۱:․․․ ”العناقید الغالیة عن الأسانید العالیة“ موٴلفہ المحدث الجلیل مولانا محمد عاشق اِلٰہی ۔
۲:․․․ ”الیانع الجنی“ موٴلفہ شیخ عبدالغنی دہلوی رحمہ اللہ۔
۳:․․․ ”الفضل المبین“ موٴلفہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ۔
۴:․․․ ”فھرس الفھارس“ موٴلفہ شیخ عبدالحی الکتانی رحمہ اللہ۔
حضرت کو جہاں ذاتِ نبوت ا کے ساتھ علمی اعتبار سے یہ قرب حاصل تھا، وہیں اللہ نے حضرت کو یہ خصوصیت بھی عطا فرمائی کہ حضرت کے پاس آقا مدنی ا کے جبہ مبارک کے مبارک دھاگے بھی موجود تھے، جن کی زیارت ہر سال ختم بخاری شریف پر عوام کو اور ختم تفسیر القرآن پر صرف طلبہ کرام کو کرائی جاتی، گویا حضرت کو ذاتِ نبوت ا کے ساتھ ظاہری وباطنی دونوں طرح سے خاص قرب حاصل تھا۔ حضرت کے پاس نسل درنسل سے غلافِ کعبہ بھی موجود ہے، جس کی زیارت بھی انہی مواقع پر کرائی جاتی ہے۔
تصنیف وتالیف، اِشاعتِ دین کا وہ اہم شعبہ ہے جس کی وجہ سے آج دین محفوظ ہے، ہر دور کے علماء نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس دین کی خوب خدمت کی ہے، آج جو دِین ہم تک پہنچا ہے،اس کے پہنچانے میں تصنیف وتالیف کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اللہ نے حضرت کو تصنیف وتالیف کا خاص ملکہ عطا فرمایا، حضرت سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے، جس کا اندازہ حضرت کی بلند پایہ تصانیف کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لمبی اور طویل ابحاث کو چند سطروں میں بیان کرنا، حضرت کا ہی کمال ہے۔ حضرت کی تصانیف جو حضرت کے علمی کمال کا کھلا ہوا اور بین ثبوت ہے، مندرجہ ذیل ہیں:
۱:․․․ التفسیر البدیع، عربی۔ ۲:․․․ تفسیرتبیان الفرقان، عربی۔ ۳:․․․التفسیر الکوثری، اُردو۔ ۴:․․․تفسیر تیسیرالقرآن۔ ۵:․․․مقدمة القرآن، عربی۔ ۶:․․․مقدمة القرآن، اُردو۔ ۷:․․․الکوثر البخاری شرح بخاری۔ ۸:․․․الکوثر الشمسی شرح ترمذی۔ ۹:․․․تنویر المشکوٰة شرح مشکوٰة۔ ۱۰:․․․المجموعة الصادقة۔ ۱۱:․․․تعلیم الفرائض۔
”موت العالم موت العالم“ یہ مقولہ سنا تو بہت تھا، مگر اس کا صحیح اِحساس حضرت کی وفات پر ہی ہوا۔ اُستاذِ محترم محمد خلیل اللہ صاحب مدظلہ العالی نے جب نمازِ عصر کے بعد سب طلبہ کو جمع کرکے حضرت کے وصال کا اِعلان کیا، تو آنکھوں سے بے اِختیار آنسو جاری ہوگئے، دِل غم میں ڈُوب گیا، یوں لگا جیسے دُنیا ویران ہوگئی، ہر چہرے پر غم تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔حضرت کا وصال ۲۷/رجب ۱۴۳۱ھ بروز ہفتہ بوقت نمازِ عصر ہوا۔ اپنے آخری وقت میں ”لا اِلٰہ اِلَّا الله“ اور ”لا اُشرک بہ شیئا“ کا وِرد کرتے رہے، شدید تکلیف کی حالت میں جب بے ہوشی طاری ہوئی، اس وقت بھی زبان ”اللہ اللہ“ کے ساتھ حرکت کرتی رہی، اسی طرح ’ ”لا اِلٰہ اِلَّا الله“ کا وِرد کرتے کرتے اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملے، انا لله وانا الیہ راجعون، اللّٰھم لا تحرمنا أجرہ، ولا تفتنّا بعدہ!
حضرت نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے اتنی دیر ہی رکھا جائے جتنی دیر میں قبر تیار ہوتی ہے۔ حضرت کی وصیت کے مطابق سنت طریقے سے رات ساڑھے گیارہ بجے جنازہ ہوا، اس کے باوجود رَش اتنا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، بلامبالغہ ہزاروں افراد نے شرکت کی اور جامعہ سے متصل آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر رحمتیں نازل کرے، آمین!
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: دعا کی اہمیت وآداب
Flag Counter