Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

12 - 14
ڈی، این، اے ٹیسٹ ،فنگر پرنٹس اور کلوز سرکٹ کیمرا استعمال کرنے کا شرعی حکم!
ڈی، این، اے ٹیسٹ ،فنگر پرنٹس اور کلوز سرکٹ کیمرا استعمال کرنے کا شرعی حکم!

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
بعض اوقات مسخ شدہ لاش جس کی شناخت نہیں ہورہی ہوتی ،اس کی شناخت ڈی، این، اے (D.N.A)ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اسی طرح فنگر پرنٹس کے ذریعے ملزموں کو پکڑنے میں بھی شناخت کی جاتی ہے،اس کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟ ان کو معتبر قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ نیز کلوز سرکٹ کیمرے جنہیں سی، سی، ٹی، وی کہا جاتا ہے وہ حفاظتی نقطہٴ نظر سے دکانوں، بینکوں اہم جگہوں پر نصب کئے جاتے ہیں ،جس میں ایک کیمرہ اور ٹی وی نما اسکرین شامل ہوتی ہے، شرعاً اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟

سائل:محمد عبید اللہ حسن، کوٹ ادو
الجواب باسمہ تعالیٰ واضح رہے کہ ڈی، این، اے (D.N.A)ٹیسٹ اس موروثی مادے کی جانچ پڑتال کا نام ہے جو انسان کے جسم میں موجود خلیوں کے اندر پایا جاتا ہے، جس کے ذریعہ ایک نوع کے مختلف حیوانات کو ایک دوسرے سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ چونکہ ڈی، این، اے ٹیسٹ کے نتائج کا دار ومدار انسانی عمل اور مشین کی کارگردگی پر منحصر ہے اور دونوں خطا کے امکان سے خالی نہیں، اس لئے ڈی، این، اے ٹیسٹ یہ ایک ظنی چیز ہے، جس کی بنیاد پر احکام شرعیہ مثلاً :ثبوتِ نسب وغیرہ کا اثبات نہیں ہوسکتا۔ تاہم کسی ایسے معاملہ میں جہاں کسی شرعی حکم کا اثبات اس پر موقوف نہ ہو اور مزید کوئی یقینی ذریعہ تصدیق یا تردید کا نہ ہو تو اس ظنی ذریعہ کا سہارا لے سکتے ہیں۔
الدکتور وہبة الزحیلی لکھتے ہیں:
”وتقدم علی البصمة الوراثیة الطرق المقررة فی شریعتنا لاثبات النسب کالبینة والاستلحاق والفراش ای علاقة الزوجیة، لان ہذہ الطرق اقوی فی تقدیر الشرع فلایلجأ الی غیرہا من الطرق کالبصمة الوراثیة والقیافة الا عند التنازع فی الاثبات وعدم الدلیل الاقوی“ ۔(بحوالہ ڈی، این، اے ٹیسٹ کے شرعی مسائل کا حل مولانا بدر الحسن قاسمی ص:۱۵۱)
لہذا اگر چند افراد کے بارے میں موت کایقین ہو کہ مرنے والے یہی ہیں لیکن انفرادی طور پر شناخت کا کوئی یقینی ذریعہ نہ ہو اور وارثوں میں جھگڑا ہو تو محض ”تحویل“ کے لئے D.N.A ٹیسٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
۲…ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے شریعت نے گواہ یا اقرار کا نظام مقرر کیا ہے، اس لئے حتمی طور پر کسی کو مجرم ٹھہرانے کے لئے یہی ذرائع معتبر ہوں گے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
”السرقة انما تظہر باحد الامرین اما البینة او الاقرار“۔ (۲/۱۷۱:رشیدیہ)
وفیہ ایضاً:
”ویثبت باقرارہ مرة واحدة وبشہادة رجلین کما فی سائر الحقوق“۔
(۲/۱۶۰:رشیدیہ)
پھر گواہوں کے معاملہ میں بھی شریعت نے آزادی نہیں دی کہ جو چاہے گواہی دے دے، بلکہ ایسے گواہوں کی گواہی معتبر قرار دی جو عاقل ، بالغ، دیانت دار ہوں۔ واقعہ کے عینی شاہد ہوں اور گواہی دینے میں اپنے سے دفع مضرت یا جلب منفعت نہ ہو (یعنی گواہی اس لئے دے کہ مجھے نقصان نہ پہنچ جائے یا اس لئے کہ مجھے نفع یا فائدہ حاصل ہوجائے) نیز گواہی دینے والے کی صاحب معاملہ کے ساتھ دنیوی مخاصمت (دشمنی) نہ ہو، نیز خود گواہ متہم نہ ہو۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”اما الثانی فانواع: ما یرجع الی الشاہدوہو العقل والبلوغ والحریة والبصر والنطق وان لایکون محدوداً فی قذف عندنا وان یشہد للّٰہ تعالیٰ ولایجر الشاہد الی نفسہ مغنماً ولایدفع عن نفسہ مغرماً وان لایکون خصماً وان یکون عالماً بالمشہود بہ لاعندہما ہکذا فی البدائع“۔ (۳/۴۵۰:رشیدیہ)
لہذا مجرم کی شناخت کے لئے محض فنگر پرنٹس پر جس کی جانچ پڑتال میں غلطی کا قوی احتمال ہے، اس پر بھروسہ کرنا اور اس کو معیار بنانا شرعاً درست نہیں، البتہ اس کو محض مؤید اور قرائن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۳… واضح رہے کہ جاندار کی تصویر کشی شریعت مطہرہ میں قطعاً حرام ہے، خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو۔ ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل کا فرق شریعت میں نہیں ہے۔ ۔دونوں کا حکم ایک ہے۔
امام نووی  مسلم شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:
”باب تحریم تصویر صورة الحیوان وتحریم اتخاذ ما فیہ صور غیر ممتہنة بالفرش ونحوہ وان الملائکة علیہم السلام لایدخلون بیتاً فیہ صورة او کلب، قال اصحابنا وغیرہم من العلماء تصویر صورة الحیوان حرام شدید التحریم وہو من الکبائر، لانہ متوعد علیہ بہذا الوعید الشدید المذکور فی الاحادیث سواء صنعہ بما یمتہن او بغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال، لان فیہ مضاہاة لخلق اللّٰہ تعالی… ولافرق فی ہذا کلہ بین مالہ ظل ومالا ظل لہ، وہذا تلخیص مذہبنا فی المسئلة وبمعناہ قال جماہیر العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدہم وہو مذہب الثوری ومالک وابی حنیفة وغیرہم“۔
”وقال بعض السلف انما ینہی عما کان لہ ظل ولابأس بالصور التی لیس لہا ظل وہذا مذہب باطل، فان الستر الذی انکر النبی ا الصورة فیہ لایشک احد انہ مذموم ولیس لصورتہ ظل مع باقی الاحادیث المطلقة فی کل صورة ،وقال الزہری: النہی فی الصورة علی العموم“۔
(شرح النووی علی ہامش المسلم ۲/۱۹۹ :قدیمی)
لہذا صورت مسؤلہ میں کلوز سرکٹ کیمرہ لگانا درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں جو جاندار کی شکل نظر آتی ہے وہ عکس نہیں، بلکہ تصویر ہے اور یہ حرام ہے۔

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد انعام الحق

کتبہ

عبد الحمید

متخصص فی فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: عقیدت کے چند آنسوں
Flag Counter