Deobandi Books

پاکستان ۔ دستور و قانون

ن مضامی

37 - 37
قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ
قومی اسمبلی نے گزشتہ روز ریاستی سرپرستی میں پنچایت سسٹم کے قیام کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا ہے۔ اس قانون کو ’’تنازع جاتی تصفیہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت فوجداری و دیوانی تنازعات کے جلد حل کے لیے پنچایت و مصالحتی کمیٹیاں قائم ہوں گی اور سائلین کو ان تنازعات کے حل کے لیے تھانوں، کچہریوں کے چکر لگانے سے نجات مل جائے گی۔ ایک اخباری خبر کے مطابق وزیرقانون و انصاف جناب زاہد حامد نے اس سلسلہ میں ایوان میں عدل و انصاف کے متبادل ’’تنازع جاتی تصفیہ‘‘ کے لیے احکام وضع کرنے کا بل 2017ء میں پیش کیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ یہ تاریخی بل ہے جسے وسیع تر حمایت حاصل ہے اور قائمہ کمیٹی نے بھی بل کی اتفاق رائے سے توثیق کر دی ہے۔ اس کے تحت تمام اضلاع میں ہائی کورٹس کی راہنمائی میں غیر جانبدار پینل بنیں گے جن میں سماجی کارکن اور علماء کرام بھی شامل ہوں گے۔ مالی تنازعات کے حل کے لیے مصالحتی کمیٹیاں قائم ہوں گی، قانون کا اطلاق دیوانی و فوجداری دونوں قسم کے مقدمات پر ہوگا جن میں 23 قسم کے تنازعات کی بل میں نشاندہی کی گئی ہے اور شیڈول میں ان کو شامل کیا گیا ہے۔
اپنی نوعیت کے لحاظ سے بلاشبہ یہ بل تاریخی نوعیت کا ہے جس کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے ایک عرصہ سے تقاضہ کیا جا رہا تھا۔ اس وقت ملک بھر میں ہر سطح کی عدالتوں میں مقدمات کی جو بھرمار ہے اور جس طرح کوئی تنازع اپنے حل کے لیے سالہا سال تک عدالتوں کی فائلوں میں دبا رہتا ہے اس کے پیش نظر یہ مصالحتی او رپنچایتی سسٹم ایک اہم قومی ضرور ت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں نچلی سطح پر عام نوعیت کے تنازعات کے تصفیہ کے لیے اس قسم کے سسٹم موجود ہیں جن کو دستوری اور قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اور ایسے مقدمات جن میں ریاست خود فریق نہیں ہوتی ان کے لیے عام لوگ عدالتوں اور تھانوں کچہریوں کے چکر لگانے سے بچ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ، جنوبی افریقہ اور بھارت میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ وہاں کی اقلیتی مسلم آبادی کو اس نظام کے تحت خاندانی اور مالی تنازعات میں اپنے مذہبی اور شرعی قوانین کے تحت فیصلہ کرانے کی سہولت حاصل ہے لیکن پاکستان میں اس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی گئی۔ البتہ بعض علاقوں میں قبائلی روایات اور برادری سسٹم کے تحت کسی حد تک ایسا ہوتا ہے اور بعض تجارتی مارکیٹوں میں بھی تنازعات کے باہمی تصفیہ کے لیے طریق کار موجود ہے لیکن یہ نجی اور محدود سطح پر ہے۔
جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان نے 1975ء میں پرائیویٹ شرعی عدالتوں کی صورت میں جو نظام متعارف کرانے کی کوشش کی تھی وہ بھی اسی نوعیت کا تھا لیکن ایک ناگزیر شرعی، معاشرتی اور سماجی ضرورت ہونے کے باوجود یہ کوشش آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہم اگر اس کام کو سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھ سکتے تو نہ صرف ایک بڑی حد تک شرعی احکام و قوانین کی عملداری کا ماحول پیدا ہو جاتا بلکہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ میں بھی خاطر خواہ کمی ہوتی۔ مگر ہمارا یعنی دینی حلقوں کا مجموعی طور پر یہ مزاج بن گیا ہے کہ مطالبات اور نعروں کی حد تک ہماری سرگرمیاں مسلسل جاری رہتی ہیں مگر انہی مطالبات کے لیے اگر خود کام کرنا پڑے تو قابل عمل ہونے کے باوجود ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ اور چونکہ ہماری سرگرمیوں کا محور شخصی قیادت ہونے کی وجہ سے تنظیمی سطح پر کام کی تقسیم کار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے صرف وہی اہداف ہمارے پیش نظر رہتے ہیں جو فی الوقت ہماری قیادت کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا قانون اس پس منظر میں یقیناً خوش آئند ہے جس کی تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں لیکن اصولی طور پر یہ بل ایک ناگزیر معاشرتی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے مثبت پیش رفت دکھائی دیتا ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں نفاذ کے طریق کار، معیار و اہلیت اور اس کے دائرہ کار کے معاملات یقیناًٍ غور طلب ہیں اور ان کے بارے میں تمام تفصیلات سامنے آنے پر ہی کچھ عرض کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کی کچھ تفصیلات ایوان میں وزیرقانون کے خطاب کے حوالہ سے اس طرح ہیں کہ فوجداری مقدمات میں قابل صلح معاملات کو بل میں شامل کیا گیا ہے جس میں حکومت کا کام صرف سہولت کاری ہوگا۔ یہ بل تمام صوبوں میں فعال ہوگا البتہ سرِدست اس کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا۔ تنازع میں مصالحت کا فیصلہ ہمیشہ کے لیے ہوگا اور اس حوالہ سے کوئی اپیل نہیں ہو سکے گی۔ اس قانون کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم تین باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
1- ایک یہ کہ اگرچہ ملک کے دستور و قانون کے تحت ہماری قانون سازی اور فیصلوں میں راہنمائی کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں لیکن اس بل میں اگر اس کی صراحت کر دی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مصالحتی عمل میں قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کو فیصلوں کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہوگی۔ جبکہ غیر مسلم شہریوں کو خاندانی تنازعات میں اپنے مذہب کے مطابق فیصلوں کا حق حاصل ہوگا۔
2- دوسری بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ایم این اے جناب شفقت محمود کا اس بل کی منظوری کے موقع پر یہ کہنا خصوصی طور پر قابل توجہ ہے کہ اس جرگہ سسٹم میں نامزدگیوں کا اختیار حکومت کے پاس ہونے کی وجہ سے سارا سسٹم سیاست کی نذر ہو جائے گا، اضلاع میں اپنے لوگوں کو نوازا جائے گا اور سیاسی نامزدگیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ پنچایتی سسٹم انقلابی ہے اس لیے اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور ان میں نامزدگیوں کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہونا چاہیے۔
3-جبکہ ہماری تیسری گزارش یہ ہے کہ اس بل کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی لے لی جائے تاکہ اگر کوئی پہلو تشنہ ہو تو اس کی نشاندہی ہو جائے۔
میں گزشتہ دو روز سے کراچی میں ہوں، میرا نواسہ عزیزم حافظ محمد حذیفہ خان سواتی میرے ہمراہ ہے اور ہم دینی پروگراموں کے سلسلے میں کراچی کے مختلف مدارس میں حاضری دے رہے ہیں۔ جامعہ فاروقیہ میں بھی مولانا ہدایت اللہ فاروقی کے ساتھ حاضری ہوئی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کے فرزند مولانا عبید اللہ خالد سے حضرت شیخؒ کی وفات پر تعزیت و دعا کی۔ اس موقع پر حضرت شیخؒ کی حسنات و خدمات کا تذکرہ ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر ایک اور بزرگ کی وفات حسرت آیات کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا، کھاریاں کے قریب گلیانہ ایک قصبہ ہے جو میرا سسرالی اور حضرت مولانا طارق جمیل کا ننھیالی قصبہ ہے۔ وہاں کی مدنی مسجد کے خطیب مولانا محمد یوسف الحسینی ہمارے پرانے بزرگ تھے جو حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا نذیر اللہ خانؒ کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ طویل عرصہ سے مدنی مسجد میں امام و خطیب کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک دینی مدرسہ چلا رہے تھے۔ گزشتہ ماہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین گئے تو مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مسجد نبویؐ میں نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ ان کے فرزند مولانا حافظ محمد عمر عثمانی جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں، پنجاب کالج کھاریاں میں لیکچرار ہیں، مدنی مسجد گلیانہ میں والد مرحوم کی جگہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ضلع گجرات میں مسلکی و دینی خدمات میں مسلسل سرگرم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں او رپسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۸ فروری ۲۰۱۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 3 0
3 سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ 4 1
4 متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط 5 1
5 آٹھویں آئینی ترمیمی بل 5 4
6 پارلیمنٹ کی خودمختاری 5 4
7 آئین کے تضادات 5 4
8 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 4
9 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 1
10 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ 7 1
11 توہین رسالت قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی 8 1
12 نکاح کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے 9 1
13 قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے 10 1
14 محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں 11 1
15 عقیدۂ ختم نبوت اور امریکی مطالبات 12 1
16 پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار 13 1
17 اجتہاد علمی 13 16
18 اجتہاد مطلق 13 16
19 ’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار 13 16
20 حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات 14 1
21 حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل 15 1
22 عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث 16 1
23 سزائے موت کے خاتمے کی بحث 17 1
24 دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ 18 1
25 قرآن کریم اور دستور پاکستان 19 1
26 توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف 20 1
27 1-سیکولر حلقوں کا موقف 20 26
28 2- مسیحی برادری کا موقف 20 26
29 3- دینی حلقوں کا موقف 20 26
30 4- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف 20 26
31 توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ 21 1
32 پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات 22 1
33 متن قراردادِ مقاصد 1949ء 22 32
34 علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات 1951ء 22 32
35 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 22 32
36 نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول 2011ء 22 32
37 ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں 22 32
38 قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء 22 32
39 قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ 22 32
40 اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی 22 32
41 سزائے موت ختم کرنے کی مہم 23 1
42 تحریک طالبان اور دستور پاکستان 24 1
43 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد 25 1
44 نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ 26 1
45 دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ 27 1
46 دستور پاکستان ۔ اسلامی یا غیر اسلامی؟ 28 1
47 دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ 29 1
48 دستور پاکستان اور عالمی لابیاں 30 1
49 تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش 31 1
50 اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات 32 1
51 قرارداد مقاصد کی آئینی پوزیشن کی بحث 33 1
52 دستور پاکستان کی اسلامی بنیادیں 34 1
53 دستوری سفارشات پر ہر مکتبۂ خیال کے مشاہیر علماء کا متفقہ تبصرہ اور ترمیمات 34 52
104 توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟ 35 1
105 قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق 36 1
106 قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ 37 1
110 صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس 2 1
111 قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا 1 1
112 حصہ (۱) 34 52
113 حصہ (۲) 34 52
114 حصہ (۳) 34 52
115 حصہ (۱۰ ) 34 52
116 حصہ (۱۱) 34 52
117 حصہ (۱۲) 34 52
118 ضمیمہ اول 34 52
119 ضمیمہ دوم 34 52
120 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 34 32
Flag Counter