Deobandi Books

پاکستان ۔ دستور و قانون

ن مضامی

32 - 37
اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے مختلف درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ان سب کو یکجا کر کے بڑے عدالتی بینچ کی تشکیل کر کے ان کی مشترکہ سماعت کی بات سامنے آئی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے اس لیے اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کرنا ابھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن بعض امور ایسے ہیں جن کا تعلق قوم کے مختلف طبقات کے رجحانات اور تحفظات سے ہے۔ اور ان پر مختلف جہتوں سے اظہار خیال خود عدالت عظمیٰ کے لیے درست فیصلے تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اصولی طور پر چند گزارشات ملکی رائے عامہ اور عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھنا ضروری محسوس ہو رہا ہے۔
اکیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں قوم کے دو بڑے طبقوں کے تحفظات اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث ہیں۔ وکلاء برادری نے بعض حوالوں سے اکیسویں آئینی ترمیم کو ملکی دستور کے بنیادی ڈھانچے اور جمہوری و شہری حقوق کے منافی قرار دیا ہے اور اس پر اپنے تحفظات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ جبکہ دینی جماعتوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کو صرف مذہبی حوالہ سے ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت تک محدود کرنے کو مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس سے نہ صرف قانون کی یکسانیت کا تصور مجروح ہوا ہے بلکہ لسانیت، قومیت اور دیگر حوالوں سے ہونے والی دہشت گردی کو الگ کر کے دہشت گردوں کے درمیان اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد یا قابل قبول دہشت گرد اور نا قابل قبول دہشت گرد کا فرق قائم کر دیا گیا ہے جس سے دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ نتھی کرنے کا تاثر قائم ہوتا ہے۔
یہ تحفظات کس حد تک درست ہیں؟ اس کے بارے میں فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی، لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں جو جواب داخل کیا گیا ہے اس سے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا دستور پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے؟ یہ سوال اس پہلو سے اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ گزشتہ دنوں اسی کیس کی سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ اب یہ دیکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے اپنے جواب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سرے سے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہی نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے واضح طور پر حکومتی جواب میں کہہ دیا ہے کہ دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس کی پابندی پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہو۔ چنانچہ اب ساری بحث کا رخ اس طرف مڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی میں کسی دائرہ کی پابند ہے اور کیا اس کے منظور کردہ کسی قانون کے جواز یا عدم جواز کو کسی بنیادی ضابطے کے تحت پرکھا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں حکومت کا یہ جواب وکلاء برادری اور دینی حلقوں دونوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس لیے کہ وکلاء برادری کا عمومی موقف یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری، بنیادی شہری حقوق کے تحفظ اور جمہوری اقدار و روایات کی پابندی کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ ملک کی تمام دینی جماعتیں اور نظریہ پاکستان کو تسلیم کرنے والی سیاسی پارٹیاں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے تحت خود دستور نے یہ گارنٹی دے رکھی ہے کہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اگرچہ کئی مواقع پر زیر بحث آچکی ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کا پابند بنانا اس کی مطلق خود مختاری کو متاثر نہیں کرتا؟ مگر خود پارلیمنٹ نے ہر موقع پر اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کی پابندی کو بخوشی قبول کیا ہے۔ چنانچہ دستور کے یہ تین بنیادی اصول متفقہ طور پر طے شدہ چلے آرہے ہیں کہ:
حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے اور
پارلیمنٹ قانون سازی میں قرآن و سنت کی ہدایات کی پابند ہے۔
اسی طرح دستور پاکستان میں واضح طور پر بنیادی حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے اور ان سے انحراف کے تصور کو کسی بھی مرحلہ میں قبول نہیں کیا گیا۔ مگر حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے ذریعہ سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے والے جواب میں بظاہر دونوں باتوں کی نفی کر دی گئی ہے اور بنیادی حقوق کی پاسداری کو غیر ضروری قرار دینے کے ساتھ ساتھ قرارداد مقاصد اور قرآن و سنت کی پابندی سے بھی پارلیمنٹ کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
اس سے ہٹ کر قیام پاکستان کی جدوجہد اور دو قومی نظریہ کے حوالہ سے اگر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ ، بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے واضح اعلانات کو دیکھا جائے تو بھی پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام اور جمہوریت کے علاوہ کچھ اور طے نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ کسی ریاست کے قیام کے بنیادی مقصد کو اس کے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا درجہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قرارداد مقاصد اور تمام دساتیرمیں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے، حتیٰ کہ دینی حلقوں نے بھی علماء کے 22 متفقہ دستوری نکات اور 1973ء کے دستور کی صورت میں اسلام اور جمہوریت دونوں کو قومی زندگی کی اساس تسلیم کیا ہے، اور وہ بدستور اس موقف پر قائم چلے آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہم اپنے اس احساس کا قومی حلقوں کے سامنے ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے موقف میں ملک کے دستور کے لیے کسی بنیادی ڈھانچے کی موجودگی سے انکار دستوری حوالہ سے اسلام اور جمہوریت دونوں کے لیے یکساں خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور قوم کو اس خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والی سیاسی پارٹیاں، وکلاء برادری، انسانی حقوق کے علمبردار حلقے اور دینی جماعتیں مل بیٹھ کر باہمی مشاورت کے ساتھ اس مسئلہ کا کوئی متفق حل نکالیں اور قوم کو ایک نئے ممکنہ خلفشار سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
یکم مارچ ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 3 0
3 سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ 4 1
4 متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط 5 1
5 آٹھویں آئینی ترمیمی بل 5 4
6 پارلیمنٹ کی خودمختاری 5 4
7 آئین کے تضادات 5 4
8 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 4
9 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 1
10 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ 7 1
11 توہین رسالت قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی 8 1
12 نکاح کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے 9 1
13 قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے 10 1
14 محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں 11 1
15 عقیدۂ ختم نبوت اور امریکی مطالبات 12 1
16 پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار 13 1
17 اجتہاد علمی 13 16
18 اجتہاد مطلق 13 16
19 ’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار 13 16
20 حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات 14 1
21 حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل 15 1
22 عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث 16 1
23 سزائے موت کے خاتمے کی بحث 17 1
24 دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ 18 1
25 قرآن کریم اور دستور پاکستان 19 1
26 توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف 20 1
27 1-سیکولر حلقوں کا موقف 20 26
28 2- مسیحی برادری کا موقف 20 26
29 3- دینی حلقوں کا موقف 20 26
30 4- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف 20 26
31 توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ 21 1
32 پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات 22 1
33 متن قراردادِ مقاصد 1949ء 22 32
34 علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات 1951ء 22 32
35 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 22 32
36 نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول 2011ء 22 32
37 ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں 22 32
38 قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء 22 32
39 قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ 22 32
40 اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی 22 32
41 سزائے موت ختم کرنے کی مہم 23 1
42 تحریک طالبان اور دستور پاکستان 24 1
43 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد 25 1
44 نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ 26 1
45 دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ 27 1
46 دستور پاکستان ۔ اسلامی یا غیر اسلامی؟ 28 1
47 دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ 29 1
48 دستور پاکستان اور عالمی لابیاں 30 1
49 تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش 31 1
50 اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات 32 1
51 قرارداد مقاصد کی آئینی پوزیشن کی بحث 33 1
52 دستور پاکستان کی اسلامی بنیادیں 34 1
53 دستوری سفارشات پر ہر مکتبۂ خیال کے مشاہیر علماء کا متفقہ تبصرہ اور ترمیمات 34 52
104 توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟ 35 1
105 قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق 36 1
106 قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ 37 1
110 صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس 2 1
111 قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا 1 1
112 حصہ (۱) 34 52
113 حصہ (۲) 34 52
114 حصہ (۳) 34 52
115 حصہ (۱۰ ) 34 52
116 حصہ (۱۱) 34 52
117 حصہ (۱۲) 34 52
118 ضمیمہ اول 34 52
119 ضمیمہ دوم 34 52
120 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 34 32
Flag Counter