Deobandi Books

پاکستان ۔ دستور و قانون

ن مضامی

16 - 37
عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد سے ملک میں عدالتی بحران کی جو کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس سے ہر محب وطن شہری پریشان او رمضطرب ہے اور عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے لیے جگ ہنسائی کی افسوس ناک صورت حال سامنے آئی ہے۔ جسٹس افتخار محمدچودھری کے خلاف پیش کی جانے والی شکایات کو اگر نارمل طریقے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں لایا جاتا اور اس کے ساتھ انھیں دستور کے مطابق جبری رخصت پر بھی بھیج دیا جاتا تو یہ ایک معمولی کی کارروائی سمجھی جاتی اور بعض حلقوں کے تحفظات کے باوجود بحران کا یہ منظر نمودار نہ ہوتا، لیکن اس کارروائی کا آغاز جس طریقے سے ہوا اور وہ جس قسم کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھی، اس نے شکوک وشبہات اور اعتراضات وخدشات کا بازار گرم کر دیا جس سے ملک کے قانون دان طبقے کا مضطرب ہو کر سڑکوں پر آنا تو ایک فطری امر تھا ہی، دیگر قومی حلقوں نے بھی اس کی سنگینی کو محسوس کیا اور بہت سے سیاسی ودینی حلقے وکلا برادری کے ساتھ ہم آواز ہو گئے ہیں۔
جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے ہوا، وہ سب کے سامنے ہے اور اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ بہت ہی غلط انداز سے ہوا اور اس پر ملک بھر میں جس اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف جائز اور روا ہے بلکہ ہمارے خیال میں اصل ضرورت سے بہت کم ہے، اس لیے کہ عدلیہ، ریاست کا ایک ایسا محترم ستون ہے جس کا احترام ہر حال میں قائم رہنا ناگزیر ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی اداروں کو وہ مقام اور حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کا جائز حق ہے اور جو قومی زندگی میں اعتدال وتوازن، ملکی سا لمیت، قومی وحدت اور ملی تشخص کے لیے ضروری ہے۔ عدلیہ کا مقام ان سب میں بالا ہے، اس لیے کہ دیگر قومی شعبوں اور اداروں میں توازن قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی بنیادی طور پر اسی کے پاس ہے، اس لیے اگر عدلیہ ہی خدانخواستہ بے وقار ہو جائے اور اس کی شخصیات کا احترام معروف حوالوں سے باقی نہ رہے تو دیگر قومی اداروں کے جائز مقام کے تحفظ کا اعتماد بھی قائم نہیں رہ سکتا۔
جہاں تک جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف شکایات اور الزامات کا تعلق ہے، یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ ان الزامات کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے لائے اور جسٹس چودھری کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ان الزامات سے بری ثابت کریں، ورنہ اس کے دستوری اور قانونی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ ہم ان الزامات اور ان کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کونسل ہی فیصلے کی مجاز ہے، لیکن اس سے ہٹ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ حکومتی سطح پر جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اس پر وکلا برادری اور قومی حلقوں کے احتجاج میں ہم پورے طور پر شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی جذبات اور قانون دان حلقوں کے احساسات کی پاسداری کرتے ہوئے عدلیہ اور اس سے متعلقہ شخصیات کے وقار کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات بروئے کار لائے اور وکلا کے مطالبات کو منظور کرے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اس معاملے کے دو پہلووں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ عدلیہ کے تمام تر احترام اور اس کی ہر ممکن پاسداری کو ناگزیر قرار دینے کے باوجود موجودہ افسوس ناک صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس کے اسباب وعوامل میں خود عدلیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دستور کی بالادستی اور دستوری اداروں کے احترام کو اب تک جس اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جس کا تسلسل بدستور موجود ہے، اس سب کچھ نے ہمارے خیال میں جسٹس محمد منیر مرحوم کے اس فیصلے کی کوکھ سے جنم لیا ہے جو صرف گورنر جنرل غلام محمد مرحوم کے کام نہیں آیا تھا، بلکہ اس کے بعد بھی ہر آمر اور طالع آزما کی مہم جوئی کو دستوری جواز فراہم کرنے کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ اگر جسٹس محمد منیر مرحوم یہ متنازعہ فیصلہ نہ دیتے اور ان کے بعد اسی فیصلے کے تسلسل کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عنوان کے تحت ہر دور میں قائم نہ رکھا جاتا تو آج خود عدالت عظمیٰ کو اس افسوس ناک بحران سے دوچار نہ ہونا پڑتا اور جو کچھ ہوا ہے، اس کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہ آتا۔ اس لیے ہم بصد ادب واحترام قانون دان برادری کے دونوں حصوں یعنی جج صاحبان اور وکلا سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی موجودہ جدوجہد بالکل حق اور درست ہے، لیکن اس کے موثر اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے حقیقی اسباب اور عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور ان کے تدارک کے لیے بھی کوئی ٹھوس صورت اختیار کی جائے۔
دوسرے نمبر پر ہم اس امر کے بارے میں اپنے تحفظات کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ملک کے نئے قائم مقام چیف جسٹس محترم رانا بھگوان داس بنے ہیں اور موجودہ عدالتی بحران کے حل میں ان کے کردار کو اساسی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ہم ایک معروف قانون دان، اچھی شہرت رکھنے والے منصف اور صاحب کردار شخصیت کے طور پر ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اس بحران میں ملک وقوم کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرنے اور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین، لیکن ملک کے جو دینی اور قانونی حلقے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب پر ایک غیر مسلم جج کے فائز ہونے کے اصولی جواز کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہم ان کے شک وشبہ کو بھی بے جواز نہیں سمجھتے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے دستور میں کسی غیر مسلم جج کے چیف جسٹس بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ جسٹس رانا بھگوان داس دستوری اور قانونی طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا پورا استحقاق رکھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اس سے قبل جسٹس اے آر کارنیلیس غیر مسلم ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، بلکہ ہم تو ان کے اس اعزاز وافتخار کے بھی پوری طرح معترف ہیں کہ انھوں نے ایک باکردار اور دیانت دار جج کے طور پر عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا اور غیر مسلم ہوتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں اسلامی قانون اور اسلامی نظام عدالت کا مسلسل دفاع اور وکالت کر کے ملک کے دینی حلقوں کے دلوں میں بھی اپنے لیے جگہ بنائی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اصولی طور پر کسی غیر مسلم کا ملک کی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننا بہرحال محل نظر ہے اور معاملہ کے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصولی اعتراض اور بھی زیادہ قابل توجہ ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتا ہے اور جسے اسلامی احکام وقوانین کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں جہاں قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر کا اختیار ایک غیر مسلم جج کے ہاتھ میں دے دینا شرعی اصولوں کے مطابق درست نظر نہیں آتا، وہاں ہمارے خیال میں یہ اس جج کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ اسے اس کے ایمان وعقیدہ کے خلاف کسی دوسرے مذہب کے مطابق، جس پر وہ یقین نہیں رکھتا، فیصلے کرنے کا پابند بنایا جائے۔
ہماری معلومات کے مطابق برطانیہ کا بادشاہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کیتھولک عیسائی نہ ہو، کیونکہ وہ ملک کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور چرچ آف انگلینڈ کیتھولک نہیں ہے، اس لیے اس کا سربراہ کیتھولک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بادشاہت کے قواعد وضوابط میں یہ بات باقاعدہ طور پر شامل ہے کہ چونکہ برطانیہ کا بادشاہ چرچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا تعلق کیتھولک فرقہ سے نہیں ہوگا۔ اگر اس نزاکت کا برطانیہ کے نظام میں لحاظ رکھا گیا ہے اور وہاں اس پابندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس اصولی موقف کے احترام میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا جانا چاہیے، اس لیے ہم ملک کی قانون دان برادری اور دستوری حلقوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو ابہام میں رہنے دینے کے بجائے اس کا کوئی حل ضرور نکالیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی عدالت عظمیٰ کے اسلامی تشخص کو اس حوالے سے شکوک وشبہات کے دائرے سے نکالیں گے۔
ان تحفظات کے اظہار کے ساتھ ہم عدلیہ کے وقار اور بالادستی کے تحفظ کے لیے وکلا برادری کی جدوجہد اور مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، ان کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی، عدلیہ کے وقار واحترام اور اصول وقانون کی حکمرانی کی اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اپریل ۲۰۰۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 3 0
3 سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ 4 1
4 متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط 5 1
5 آٹھویں آئینی ترمیمی بل 5 4
6 پارلیمنٹ کی خودمختاری 5 4
7 آئین کے تضادات 5 4
8 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 4
9 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 1
10 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ 7 1
11 توہین رسالت قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی 8 1
12 نکاح کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے 9 1
13 قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے 10 1
14 محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں 11 1
15 عقیدۂ ختم نبوت اور امریکی مطالبات 12 1
16 پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار 13 1
17 اجتہاد علمی 13 16
18 اجتہاد مطلق 13 16
19 ’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار 13 16
20 حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات 14 1
21 حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل 15 1
22 عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث 16 1
23 سزائے موت کے خاتمے کی بحث 17 1
24 دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ 18 1
25 قرآن کریم اور دستور پاکستان 19 1
26 توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف 20 1
27 1-سیکولر حلقوں کا موقف 20 26
28 2- مسیحی برادری کا موقف 20 26
29 3- دینی حلقوں کا موقف 20 26
30 4- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف 20 26
31 توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ 21 1
32 پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات 22 1
33 متن قراردادِ مقاصد 1949ء 22 32
34 علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات 1951ء 22 32
35 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 22 32
36 نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول 2011ء 22 32
37 ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں 22 32
38 قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء 22 32
39 قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ 22 32
40 اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی 22 32
41 سزائے موت ختم کرنے کی مہم 23 1
42 تحریک طالبان اور دستور پاکستان 24 1
43 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد 25 1
44 نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ 26 1
45 دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ 27 1
46 دستور پاکستان ۔ اسلامی یا غیر اسلامی؟ 28 1
47 دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ 29 1
48 دستور پاکستان اور عالمی لابیاں 30 1
49 تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش 31 1
50 اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات 32 1
51 قرارداد مقاصد کی آئینی پوزیشن کی بحث 33 1
52 دستور پاکستان کی اسلامی بنیادیں 34 1
53 دستوری سفارشات پر ہر مکتبۂ خیال کے مشاہیر علماء کا متفقہ تبصرہ اور ترمیمات 34 52
104 توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟ 35 1
105 قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق 36 1
106 قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ 37 1
110 صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس 2 1
111 قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا 1 1
112 حصہ (۱) 34 52
113 حصہ (۲) 34 52
114 حصہ (۳) 34 52
115 حصہ (۱۰ ) 34 52
116 حصہ (۱۱) 34 52
117 حصہ (۱۲) 34 52
118 ضمیمہ اول 34 52
119 ضمیمہ دوم 34 52
120 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 34 32
Flag Counter