Deobandi Books

پاکستان ۔ دستور و قانون

ن مضامی

29 - 37
دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ
مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے اب سے نصف صدی قبل قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا جس پر دونوں طرف سے خط و کتابت بھی ہوئی تھی۔ دریائے چناب کے دو پلوں کے درمیان مولانا چنیوٹیؒ اپنے ساتھیوں سمیت مقررہ تاریخ کو سارا دن انتظار کرتے رہے مگر دوسری طرف سے کوئی نہ آیا۔ اس کے بعد ہر سال مولانا چنیوٹیؒ اسی مقام پر اس چیلنج کو دہراتے تھے اور اب اس کی یاد میں 26 فروری کو سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دانش ور خطاب کرتے ہیں۔ اس سال یہ کانفرنس دو حصوں میں ہوئی۔ 25 فروری کو مغرب کے بعد ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ میں کانفرنس کا ایک سیشن ہوا جبکہ دوسرا سیشن 26 فروری کو صبح دس بجے شام 5 بجے تک ایوان اقبال لاہور کے وسیع ہال میں انعقاد پذیر ہوا۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی نے کانفرنس کی صدارت کی جبکہ سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج اور مولانا چنیوٹیؒ کے جانشین مولانا محمد الیاس چنیوٹی ایم پی اے کی نگرانی میں کانفرنس کے دونوں سیشن کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے ممتاز ارباب علم و دانش نے خطاب کیا اور راقم الحروف کو بھی دونوں نشستوں میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی اس کانفرنس کے ذریعہ ہم جہاں عقیدۂ ختم نبوت اور تحریک ختم نبوت کے ساتھ اپنی بے لچک وابستگی اور عزمِ نو کا اظہار کر رہے ہیں، وہاں تحریک ختم نبوت کے عظیم مجاہد حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی عظیم جدوجہد، یاد اور اس کے تسلسل میں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں۔ آمین۔
آج ملک کا سب سے اہم مسئلہ جس نے قوم کے ہر فرد کو مضطرب اور بے چین کر رکھا ہے، ملکی سا لمیت، خود مختاری اور امن کے قیام کا مسئلہ ہے۔ بیرونی مداخلت بالخصوص ڈرون حملوں نے بد اَمنی کی جو صورت حال ہمارے ملک میں پیدا کی ہے اور اندرونی دہشت گردی اور خودکش حملوں میں جس طرح بے گناہ شہریوں کا خون بہایا گیا ہے وہ سب کے لیے پریشان کن ہے اور ملک و قوم کو اس افسوسناک بلکہ المناک صورت حال سے نجات دلانے کے لیے مذاکرات کی بات چل رہی ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی، ریاست کا تحفظ و وقار، قومی خود مختاری، دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور امن عامہ کی بحالی ہم سب کا مسئلہ ہے۔ اور ہماری ترجیحات میں اسلام اور پاکستان سب سے مقدم ہیں۔ اسی حوالہ سے دستور کی بالادستی کا تذکرہ ہو رہا ہے اور اس پر بحث چل رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پہلے دستور کو تسلیم کرے اور اس کی بالادستی کا اعلان کرے تب مذاکرات صحیح سمت آگے بڑھیں گے۔ ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دستور کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے، خودکش حملے بند ہوں اور آپریشن کا سلسلہ روک کر مذاکرات کے ذریعہ امن قائم کیا جائے۔
لیکن اس سلسلہ میں ایک اہم پہلو یہ بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستانی طالبان دستور کو مانتے ہیں یا نہیں اور مذاکرات کے لیے وہ دستور کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، اس مسئلہ میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور قومی موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس گروہ نے گزشتہ چار عشروں سے دستور کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کر رکھا ہے ان کے بارے میں حکومتی پالیسی کیا ہے؟ 1974ء میں جب منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا، تب سے قادیانی گروہ دستور کے اس فیصلے کو ماننے سے انکاری ہے۔ وہ نہ صرف دستور کی دفعات اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے سے منحرف ہے بلکہ اس نے دنیا بھر میں بیسیوں مقامات پر دستور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے اور لابنگ کے مورچے قائم کر رکھے ہیں اور پاکستان کے نظریاتی تشخص، دستور کی اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں قوم کے موقف اور ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ میں حکومت پاکستان، ملک کے ارباب دانش اور خاص طور پر میڈیا کے پالیسی سازوں اور مختلف چینلوں کے اینکرز سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ دستور پاکستان سے اس انحراف اور اس کے خلاف اس مہم کا بھی نوٹس لیں۔ اگر دستور سے منحرف ایک گروہ کے خلاف آپریشن کی بات اس شد و مد کے ساتھ کی جا رہی ہے تو اسی دستور سے منحرف دوسرے گروہ کے خلاف آپریشن کی بات کیوں نہیں کی جاتی، کیا یہ بھی دستور کی بالادستی کا تقاضہ نہیں ہے؟
اس حوالہ سے ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں، ابھی کل ہماری قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعہ سفارش کی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق ملک میں قانون سازی کی جائے۔ میں اس قرارداد کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن دو سادہ سے سوال قوم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل 1973ء میں دستور کے نفاذ کے بعد قائم ہوئی تھی جس کے ذمہ یہ بات تھی کہ وہ ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر خلاف اسلام قوانین کی نشاندہی کرے اور ان کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز مرتب کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ کام برسوں پہلے مکمل کر دیا تھا، چنانچہ آج ہی کے ایک قومی اخبار نے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں رائج سات سو سے زیادہ غیر شرعی قوانین کی نشاندہی کر کے انہیں اسلام کے مطابق بنانے کے لیے تجاویز مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر رکھی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کو چار عشرے گزر جانے کے بعد اب قومی اسمبلی کو یہ قرارداد منظور کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ سارا کام مکمل ہو جانے کے باوجود اب تک قانون سازی کیوں نہیں ہوئی اور کئی عشروں پر محیط اس دستوری اور قانونی خلاء کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر دستور کو تسلیم نہ کرنے والے مجرم ہیں تو دستور کے اسلامی کردار کو چار عشروں تک معطل رکھنے والوں کے بارے میں ہمارے دانش ور کیا فرماتے ہیں؟
پھر اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی یہ سفارش کس سے کر رہی ہے؟ قانون سازی تو خود قومی اسمبلی نے ہی کرنی ہے، گویا قومی اسمبلی خود سے یہ سفارش کر رہی ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کرے۔ کیا یہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ میں انتہائی نرم الفاظ میں اپنے حکمرانوں سے صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ خدا کے لیے اس قوم پر رحم کیجئے اور اپنے ملک کے عوام پر ترس کھائیے۔
اس موقع پر یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دستور پاکستان کے بیشتر حصوں کو اب تک معطل رکھنے کے نتیجے میں ہی وہ صورت حال پیدا ہوئی ہے جس نے پوری قوم کو کرب و اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے۔ اگر دستور پر عمل ہوتا، دستور کے اسلامی کردار کو معطل نہ رکھا جاتا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی ہو جاتی تو یہ حالات سرے سے پیدا ہی نہ ہوتے۔ اب بھی اس کا حل یہی ہے کہ دستور کا اسلامی کردار بحال کیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں دستوری تقاضوں کے مطابق باضابطہ پیش کر کے قانون سازی کا اہتمام کیا جائے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے اور وطن عزیز نہ صرف امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا بلکہ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف بھی گامزن ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۸ فروری ۲۰۱۴ء (غالباً‌)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 3 0
3 سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ 4 1
4 متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط 5 1
5 آٹھویں آئینی ترمیمی بل 5 4
6 پارلیمنٹ کی خودمختاری 5 4
7 آئین کے تضادات 5 4
8 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 4
9 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 1
10 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ 7 1
11 توہین رسالت قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی 8 1
12 نکاح کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے 9 1
13 قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے 10 1
14 محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں 11 1
15 عقیدۂ ختم نبوت اور امریکی مطالبات 12 1
16 پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار 13 1
17 اجتہاد علمی 13 16
18 اجتہاد مطلق 13 16
19 ’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار 13 16
20 حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات 14 1
21 حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل 15 1
22 عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث 16 1
23 سزائے موت کے خاتمے کی بحث 17 1
24 دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ 18 1
25 قرآن کریم اور دستور پاکستان 19 1
26 توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف 20 1
27 1-سیکولر حلقوں کا موقف 20 26
28 2- مسیحی برادری کا موقف 20 26
29 3- دینی حلقوں کا موقف 20 26
30 4- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف 20 26
31 توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ 21 1
32 پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات 22 1
33 متن قراردادِ مقاصد 1949ء 22 32
34 علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات 1951ء 22 32
35 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 22 32
36 نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول 2011ء 22 32
37 ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں 22 32
38 قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء 22 32
39 قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ 22 32
40 اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی 22 32
41 سزائے موت ختم کرنے کی مہم 23 1
42 تحریک طالبان اور دستور پاکستان 24 1
43 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد 25 1
44 نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ 26 1
45 دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ 27 1
46 دستور پاکستان ۔ اسلامی یا غیر اسلامی؟ 28 1
47 دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ 29 1
48 دستور پاکستان اور عالمی لابیاں 30 1
49 تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش 31 1
50 اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات 32 1
51 قرارداد مقاصد کی آئینی پوزیشن کی بحث 33 1
52 دستور پاکستان کی اسلامی بنیادیں 34 1
53 دستوری سفارشات پر ہر مکتبۂ خیال کے مشاہیر علماء کا متفقہ تبصرہ اور ترمیمات 34 52
104 توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟ 35 1
105 قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق 36 1
106 قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ 37 1
110 صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس 2 1
111 قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا 1 1
112 حصہ (۱) 34 52
113 حصہ (۲) 34 52
114 حصہ (۳) 34 52
115 حصہ (۱۰ ) 34 52
116 حصہ (۱۱) 34 52
117 حصہ (۱۲) 34 52
118 ضمیمہ اول 34 52
119 ضمیمہ دوم 34 52
120 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 34 32
Flag Counter