Deobandi Books

پاکستان ۔ دستور و قانون

ن مضامی

31 - 37
تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش
اسلامی نظریاتی کونسل نے تین طلاقیں اکٹھی دینے کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے جس پر بعض حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس پر بحث و تمحیص ہو رہی ہے۔ یہ تجویز دراصل مشرف حکومت کے دوران حدود آرڈیننس میں تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے کی جانے والی ترامیم کے موقع پر سرکردہ علماء کرام کی ایک کمیٹی کی طرف سے ستمبر 2006ء کے دوران سامنے آئی تھی۔ اس کمیٹی میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان شہیدؒ ، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ کمیٹی نے حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم پر چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ خان دریشک اور دیگر حضرات پر مشتمل حکومتی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے اور دینی حلقوں کا موقف پیش کیا تھا جسے تحفظ حقوق نسواں بل میں نظر انداز کر دیا گیا۔ اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعہ حدود آرڈیننس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس موقع پر علماء کرام کی مذکورہ بالا کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کے بارے میں اپنے تحفظات اور تجاویز کے اظہار کے علاوہ اپنی طرف سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی تھیں کہ:
1- خواتین کو عملاً وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، اس کے سد باب کے لیے مستقل قانون بنایا جائے۔
2- بعض علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
3- بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس کو بھی شریک جرم قرار دیا جائے۔
4- جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاح شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
5- قرآن کریم کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کا سدباب کیا جائے۔
6- عورتوں کی خرید و فروخت اور انہیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رسم کا سدباب کیا جائے۔
بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دینے کا پس منظر یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاء نے طلاق کے تین درجات بیان کیے ہیں۔ (۱) ایک یا دو بار صریح طلاق کے بعد نئے نکاح کے بغیر رجوع کی گنجائش ہوتی ہے۔ (۲) طلاق بائن کے بعد دوبارہ نکاح کی صورت میں ہی میاں بیوی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (۳) تیسری طلاق واقع ہو جانے پر قرآن کریم نے دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں دی جب تک کہ عورت کا نکاح دوسری جگہ نہ ہو، اور وہاں سے خاوند کی وفات یا طلاق کے ذریعہ فارغ نہ ہو جائے۔ طلاق کے ان تین درجات میں فقہاء کرام نے پہلی صورت کو سنت کے مطابق قرار دیا ہے جبکہ تین طلاقیں اکٹھی دینے کو طلاق بدعی شمار کیا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر لوگ طلاق کے مسائل اور اس کی ترتیب و تفصیل سے آگاہ نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ وثیقہ نویس اور نوٹری پبلک حضرات کی اکثریت بھی ان نزاکتوں سے بے خبر ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان غصہ میں ان کے پاس طلاق لکھوانے کے لیے آتا ہے تو وہ رٹے رٹائے جملے لکھ کر اسے سناتے ہیں اور اس سے دستخط کروا لیتے ہیں جو کہ اکثر اوقات تین صریح طلاقوں کی صورت میں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نئی الجھن کھڑی ہو جاتی ہے کہ چاروں فقہی مذاہب یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مفتیان کرام کے نزدیک تین طلاقیں ایک مجلس میں یا یکبارگی دینے کی صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں رہتی، اور اس کے ساتھ رجوع یا دوسرے نکاح کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ اہل حدیث مکتب فکر کے نزدیک تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے اور رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ چنانچہ کوئی شخص عرضی نویس یا نوٹری پبلک سے رٹے رٹائے جملوں میں طلاق لکھوانے کے بعد غصہ ٹھنڈا ہونے پر مفتیان کرام سے رجوع کرتا ہے تو وہ حنفی اور اہل حدیث مفتیان کرام کے درمیان شٹل بن کر رہ جاتا ہے، اور نئے مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ ساری صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ نہ تو طلاق دینے والا طلاق کے درجات اور دیگر نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی طلاق لکھنے والے کو ان کی خبر یا احساس ہوتا ہے۔ اس مخمصے کا اصل حل یہ ہے کہ نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس حضرات کو طلاق و نکاح کے معاملات و مسائل کی تربیت دینے کے لیے باقاعدہ کورس کرائے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ویسے بھی مباحات میں طلاق مبغوض ترین شمار ہوتی ہے اور تین طلاقیں ایک بار دینے کو فقہاء کرام نے طلاق بدعت قرار دیا ہے۔ اس لیے اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کو روکنے کے لیے یہ تجویز پیش کی گئی کہ اسے تعزیری جرم قرار دے دیا جائے اور خاص طور پر نوٹری پبلک اور وثیقہ نویسوں کو تنبیہ کی جائے تاکہ وہ طلاق لکھوانے کے لیے آنے والے کی صحیح راہ نمائی کر کے طلاق سے بچنے یا کم از کم رجعی طلاق تک اسے محدود رکھنے کی کوشش کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۹ جنوری ۲۰۱۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 3 0
3 سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ 4 1
4 متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط 5 1
5 آٹھویں آئینی ترمیمی بل 5 4
6 پارلیمنٹ کی خودمختاری 5 4
7 آئین کے تضادات 5 4
8 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 4
9 قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر 6 1
10 مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ 7 1
11 توہین رسالت قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی 8 1
12 نکاح کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے دو متضاد فیصلے 9 1
13 قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے 10 1
14 محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں 11 1
15 عقیدۂ ختم نبوت اور امریکی مطالبات 12 1
16 پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار 13 1
17 اجتہاد علمی 13 16
18 اجتہاد مطلق 13 16
19 ’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار 13 16
20 حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات 14 1
21 حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل 15 1
22 عدلیہ کا بحران اور غیر مسلم چیف جسٹس کی بحث 16 1
23 سزائے موت کے خاتمے کی بحث 17 1
24 دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ 18 1
25 قرآن کریم اور دستور پاکستان 19 1
26 توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف 20 1
27 1-سیکولر حلقوں کا موقف 20 26
28 2- مسیحی برادری کا موقف 20 26
29 3- دینی حلقوں کا موقف 20 26
30 4- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف 20 26
31 توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ 21 1
32 پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات 22 1
33 متن قراردادِ مقاصد 1949ء 22 32
34 علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات 1951ء 22 32
35 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 22 32
36 نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول 2011ء 22 32
37 ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں 22 32
38 قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء 22 32
39 قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ 22 32
40 اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی 22 32
41 سزائے موت ختم کرنے کی مہم 23 1
42 تحریک طالبان اور دستور پاکستان 24 1
43 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد 25 1
44 نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ 26 1
45 دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ 27 1
46 دستور پاکستان ۔ اسلامی یا غیر اسلامی؟ 28 1
47 دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ 29 1
48 دستور پاکستان اور عالمی لابیاں 30 1
49 تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش 31 1
50 اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات 32 1
51 قرارداد مقاصد کی آئینی پوزیشن کی بحث 33 1
52 دستور پاکستان کی اسلامی بنیادیں 34 1
53 دستوری سفارشات پر ہر مکتبۂ خیال کے مشاہیر علماء کا متفقہ تبصرہ اور ترمیمات 34 52
104 توہین رسالتؐ کے قانون پر نظر ثانی؟ 35 1
105 قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق 36 1
106 قومی اسمبلی کا منظور کردہ قانونِ تنازع جاتی تصفیہ 37 1
110 صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس 2 1
111 قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا 1 1
112 حصہ (۱) 34 52
113 حصہ (۲) 34 52
114 حصہ (۳) 34 52
115 حصہ (۱۰ ) 34 52
116 حصہ (۱۱) 34 52
117 حصہ (۱۲) 34 52
118 ضمیمہ اول 34 52
119 ضمیمہ دوم 34 52
120 اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس 34 32
Flag Counter