Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 12
حارث کذاب دمشقی اوراس کی استدراجی شعبدہ بازیاں !
حارث کذاب دمشقی اوراس کی استدراجی شعبدہ بازیاں

گزشتہ دنوں روپ محمد ویب سائٹ بنانے اور چلانے والے اور ․․․نعوذباللہ․․․ روپ محمد کے نام نہاد مصداق نبیل، کے والد ڈاکٹر و کیپٹن ضیاء اللہ خان کے عجیب و غریب نظریات اور خطرناک عقائد کے بارہ میں ایک تحریر لکھی، تو ڈاکٹر کیپٹن ضیاء اللہ خان، وہ تحریر پڑھ کر دفتر پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے مجھے خواہ مخواہ قادیانی اور ملحد و زندیق کہا ہے، اس پر راقم الحروف نے کہا کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے، میں نے اس کی روشنی میں لکھا ہے، آپ آج ان عقائد و نظریات سے رجوع کرکے توبہ نامہ لکھ دیں، میں اگلے شمارہ میں نہ صرف آپ کی یہ وضاحت، رجوع اور توبہ نامہ شائع کردوں گا، بلکہ کھلے دل سے اپنے مقالہ اور تحریر سے رجوع کرلوں گا، اس پر وہ کہنے لگا نہ نہ میری گردن تو کٹ سکتی ہے مگر میں ان حقائق سے رجوع نہیں کرسکتا۔ چلتے چلتے وہ کہنے لگا کہ اچھا میرا بیٹا نبیل جو بالکل معذور ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے اور وہ قلم پکڑنے کی صلاحیت سے بھی معذور، مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آتے ہیں تو اس کے معذور ہاتھ خودبخود چلنا بلکہ لکھنا کیونکر شروع کردیتے ہیں؟
اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تو بتلایئے کہ ․․․نعوذباللہ․․․جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر میں آتے ہیں توآپ کس شکل میں تشریف لاتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی آنحضرت ا کی زیارت کی ہے؟ آپ کو دیکھا یا آپ کا دیدار کیا ہے؟ کہنے لگا کہ نہیں، آپ کی شکل تو نظر نہیں آتی، بس ایک نور کی کرن ہی محسوس ہوتی ہے اورآپ کی آواز سنائی دیتی ہے، اس پر میں نے کہا کہ یہ توخالص شیطانی شرارت ہے، اور شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہے، مگر نہ اس شخص نے ماننا تھا اور نہ مانا، اس لئے ڈاکٹر کیپٹن ضیاء اللہ خان کی خدمت میں ایک ایسے ہی ملحد و مدعی نبوت حارث کذاب دمشقی کی شعبدہ بازی اور استدراجی تصرفات کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، خدا کرے کہ اس کو بات سمجھ آجائے اور وہ گمراہی سے بچ جائے
حارث کذاب دمشقی:
حارث بن عبدالرحمن دمشقی ایک قُرشی کا غلام تھا، حصول آزادی کے بعد یاد الٰہی کی طرف مائل ہوا اور بعض اہل اللہ کی دیکھا دیکھی رات دن عبادت الٰہی میں مصروف رہنے لگا، سد رمق سے زیادہ غذا نہ کھاتا، کم سوتا، کم بولتا اور اس قدر پوشش پر اکتفا کرتا جو ستر پوشی کے لئے ضروری تھی، اگر یہ زہد و ورع، ریاضتیں اور مجاہدے کسی مرشد کامل کے زیر ہدایت عمل میں لائے جاتے تو اسے قال سے حال تک پہنچادیتے اور معرفت الٰہی کا نورکشور دل کو جگمگادیتا لیکن چونکہ غلام احمد قادیانی کی طرح بے مرشد تھا، شیطان اس کا رہنما بن گیا۔
شیاطین کا طریق اغوا:
شیاطین کا معمول ہے کہ وہ طرح طرح کی نورانی شکلوں میں بے مرشد ریاضت کشوں کے پاس آ آکر انواع و اقسام کے سبز باغ دکھاتے ہیں، کسی سے کہتے ہیں کہ توہی مہدی موعود ہے، کسی کے کان پھونکتے ہیں کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے کسی کو نبوت و رسالت کا منصب بخش جاتے ہیں، کسی کو حلال و حرام کی شرعی پابندیوں سے مستثنیٰ کر جاتے ہیں، بے مرشد عابد جو علمی بصیرت میں کامل نہیں ہوتا، اس نورانی شکل کو شیطان نہیں سمجھتا بلکہ اپنی حماقت سے یہ یقین کرلیتا ہے کہ اسے خود اس کے معبود برحق نے اپنا جمال مبارک دکھایا ہے اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے، اسی ذات برتر نے اسے نبوت یا مسیحیت یا مہدویت کے منصبِ جلیل پر سرفراز فرمایا ہے۔
حارث پر جنود ابلیس کی نگاہ التفات:
جب جنود ابلیس نے حارث کو اپنی نگاہ التفات سے سرفراز کرکے اس پر الہام و اتقاء کے دروازے کھولے تو اس کو ایسے ایسے جلوے دکھائی دینے لگے جو پہلے کبھی مشاہدہ سے نہیں گزرے تھے، اس کے سر پر کسی مسیحا نفس شیخ طریقت کا ظل سعادت لمعہ افگن نہیں تھا، جس کی طرف رجوع کرتا اور وہ اسے ابلیسی اغوا کوشیوں پر متنبہ کرکے صر صر ضلالت سے بچاتا، اس نے اپنے باپ کو جو موضع حولہ میں رہتا تھا لکھ بھیجا کہ :”جلد آکر میری خبر لو کیونکہ مجھے بعض ایسی چیزیں دکھائی دینے لگی ہیں، جن کی نسبت مجھے خدشہ ہے کہ کہیں شیاطین کی تلبیس نہ ہو۔“ یہ پڑھ کر احمق باپ نے اس کو ورطہ ہلاکت سے نکالنے کی بجائے الٹا اس کے سامنے ضلالت و ظلمت کا جال بچھادیا اور لکھ بھیجا :”بیٹا تو اس کام کو بے خطر کر گزر جس کے لئے تمہیں حکم ہوتا ہے، کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ:
”کیا میں تم کو بتلاؤں کہ شیاطین کس کے پاس آیا کرتے ہیں، وہ ایسے شخص پر نازل ہوتے ہیں جو دروغ گو بدکردار ہو۔“ (۲۶:۲۲۱)
اور تو نہ دروغ گو ہے اور نہ بدکردار، اس لئے کسی قسم کے اوہام اپنے پاس نہ پھٹکنے دے۔“
لیکن حارث کے باپ کا یہ استدلال قطعاً جہالت پر مبنی تھا، کیونکہ اس سے اگلی آیت کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت ان دروغ گو و بدکردار کا ہنوں کے باب میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے غیب دانی کے دعاوی کے ساتھ تقدس کی دکانیں کھول رکھی تھیں، آیت کے مفہوم میں قطعاً یہ چیز داخل نہیں کہ شیاطین کاہنوں کے سوا دوسروں کو اپنی وحی و القاء سے نہیں نوازتے۔
حارث کے استدراجی تصرفات:
چونکہ حارث بڑا عابد ریاضت کش تھا اور نفس کشی کا شیوہ اختیار کرکے اپنے اندر ملکوتی صفات پیدا کرلئے تھے، اس سے عادت مستمرہ کے خلاف بعض محیرالعقول افعال صادر ہوتے تھے، مگر یہ افعال جو محض نفس کشی کا ثمرہ تھے ان کو تعلق باللہ سے کوئی واسطہ نہ تھا، مسجد میں ایک پتھر پر انگلی مارتا تو وہ تسبیح پڑھنے لگتا، موسم گرما میں لوگوں کو موسم سرما کے پھل اور میوے اور جاڑے میں تابستان کے پھل پیش کرتا، بعض اوقات کہتا آؤ! میں تمہیں موضع دیر مراں (ضلع دمشق ) سے فرشتے نکلتے دکھاؤں، چنانچہ حاضرین برایٴ العین دیکھتے کہ نہایت حسین و جمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جبکہ شیاطین ہر روز کسی نہ کسی نوری شکل میں ظاہر ہوکر حارث کو یقین دلارہے تھے کہ تو خدا کا نبی ہے، ایک دن شہر کا ایک رئیس قاسم نامی اس کے پاس آیا اور پوچھا تم کس بات کے مدعی ہو؟ کہنے لگا: میں نبی اللہ ہوں، قاسم نے کہا: اے خدا کے دشمن! تو جھوٹا ہے، نبوت تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر ختم ہوگئی، اب کوئی شخص منصبِ نبوت پر سرفراز نہیں ہوسکتا، دمشق جہاں حارث کذاب مدعی ٴ نبوت تھا، خلفائے بنو امیہ کا دارالخلافہ تھا اور ان ایام میں خلیفہ عبدالملک دمشق کے تخت سلطنت پر متمکن تھا، قاسم نے جھٹ قصرِ خلافت میں جاکر خلیفہ عبدالملک کو بتایا کہ یہاں ایک شخص نبوت کا دعویدار ہے، خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کو گرفتار کرکے میرے سامنے پیش کیا جائے، لیکن حارث اس سے پیشتر دمشق سے بھاگ کر بیت المقدس چلا گیا تھا اور وہاں نہایت خاموشی اور رازداری کے ساتھ لوگوں کو اپنی نبوت کی دعوت دے رہا تھا۔
بیت المقدس میں حارث کے بعض مرید ایک بصری کو اس کے پاس لے گئے جو بیت المقدس میں نووارد تھا، جب بصری نے توحید الٰہی کے متعلق حارث کی نکتہ آفرینیاں سنیں تو اس کا گرویدہ ہوگیا، لیکن جب حارث نے بتایا کہ میں نبی مبعوث ہوا ہوں تو بصری نے کہا کہ میں تمہارا دعوائے نبوت تسلیم نہیں کرسکتا، کیونکہ نئی نبوت کا دروازہ حضرت نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بند ہوچکا ہے، حارث نے کہا: نہیں ،نہیں! تم سوچو اور غورکرو، میری نبوت کے یہ یہ دلائل ہیں، بصری بغیر کسی مزید حیل و حجت کے وہاں سے چلا آیا اور وہاں سے دمشق جاکر خلیفہ سے ملا اور حارث کے دعوائے نبوت کی شکایت کی۔
خلیفہ عبدالملک نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بصری نے بتایا کہ وہ بیت المقدس میں فلاں جگہ چھپا ہے، خلیفہ نے چالیس فرغانی سپاہی اس کے ساتھ کردیئے، یہ لوگ بیت المقدس پہنچے اور اس کو گرفتار کرلیا اور زنجیر گردن میں ڈال کر اس کے دونوں ہاتھ گردن سے باندھے اور لے چلے، جب وہ بیت المقدس میں پہنچے تو حارث نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ”قل ان ضللت فانما اضل علیٰ نفسی وان اہتدیت فبما یوحی الیّ ربی۔“(سبأ:۵۰)․․․اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں (بفرض محال) راہ راست کو چھوڑ دوں تو یہ حق فراموشی مجھی پر وبال ہوگی اور اگر راہ ہدایت پر مستقیم رہوں تو یہ اس کلام پاک کی بدولت ہے، جس کو میرا رب مجھ پر نازل فرمارہا ہے ․․․اس آیت کا پڑھنا تھا کہ گلے اور ہاتھ کی زنجیر ٹوٹ کر زمین پر جاگری، یہ دیکھ کر پیادوں کو کچھ بھی اچھنبھا نہ ہوا اور انہوں نے زنجیر اٹھاکر دوبارہ اس کے ہاتھ گلے سے باندھے اور لے چلے۔
جب دوسرے درے پر پہنچے تو حارث نے مکرر وہی آیت پڑھی، اور زنجیر دوبارہ کٹ کر زمین پر آرہی ، پیادوں نے از سر نو زنجیر کو اٹھایا اور سہ بارہ جکڑ کر دمشق لے چلے، پیادوں کے مضطرب نہ ہونے اور اس کو پورے اطمینان کے مکرر سہ کر ر جکڑ لینے کی وجہ یہ تھی کہ بصری ہر دفعہ پیادوں سے کہہ دیتا تھا کہ یہ خبیث بڑا شعبدہ باز ہے، آخر دمشق پہنچ کر اس کو خلیفہ عبدالملک کے سامنے پیش کیا، خلیفہ نے پوچھا :کیا واقعی تم مدعیٴ نبوت ہو؟ حارث نے کہا: ہاں! لیکن میرا یہ دعویٰ کچھ من گھڑت نہیں ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں وحی الٰہی کے بموجب کہتا ہوں۔
خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو حکم دیا کہ: ”اس کو نیزہ مارکر ہلاک کردو۔“ نیزہ مارا گیا، لیکن کچھ اثر انداز نہ ہوا، یہ دیکھ کر حارث کے پیرو کہنے لگے کہ انبیاء اللہ کے جسم پر ہتھیار اثر نہیں کرتے، خلیفہ نے محافظ سے کہا: شاید تم نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ نہیں مارا؟ اب کی مرتبہ اس نے بسم اللہ پڑھ کر وار کیا تو وہ بُری طرح زخم کھاکر گرا اور جان دے دی، یہ ۶۹ھ کا واقعہ ہے۔ (دائرة المعارف ، ج:۶، ص:۶۴۴، الرعاة، ص:۷۲،۷۳)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے کتاب الفرقان میں اولیا الرحمن و اولیاء الشیطان میں لکھا ہے کہ حارث کی ہتھکڑیاں اتارنے والا اس کا کوئی شیطان دوست تھا، اور اس نے گھوڑوں کے جو سوار دکھائے تھے وہ ملائکہ نہیں بلکہ جنات تھے۔
قاضی عیاض کا بیان:
قاضی عیاض شفاء فی حقوق دارالمصطفیٰ میں لکھتے ہیں کہ: ”خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حارث کو قتل کراکے سولی پر لٹکوادیا، خلفا و سلاطین ِ اسلام نے ہر زمانہ میں مدعیانِ نبوت کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے اور علمائے معاصرین ان کے اس عمل خیر کی تائید و تحسین کرتے رہے ہیں، کیونکہ یہ جھوٹے مدعیانِ نبوت مفتری علی اللہ ہیں، خدائے برتر پر بہتان باندھتے ہیں کہ اس نے ان کو منصب نبوت سے نوازا ہے، یہ لوگ حضرت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین اور لا نبی بعدی ہونے کے منکر ہیں، علمائے امت اس مسئلہ پر بھی متفق اللفظ ہیں کہ مدعیانِ نبوت کے کفر سے اختلاف رکھنے والا بھی دائرہ ملت سے خارج ہے، کیونکہ وہ مدعیانِ نبوت کے کفر اور تکذیب علی اللہ پر خوش ہے۔“ (نسیم الریاض شرح شفا قاضی عیاض، ج:۴، ص:۵۷۵) (ماخوذاز: ایمان کے ڈاکو،ابوالقاسم رفیق دلاوری)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اعجاز ِقرآنی باعتبار مقاصدِ قرآنی !
Flag Counter