Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 12
قلم کس کے ہاتھ میں ہے؟
قلم کس کے ہاتھ میں ہے؟

خواتین کی تعلیم کے بارہ میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر علماء کرام کا درست موقف کبھی پیش نہیں کیا جاتا جو ایک صحافتی بددیانتی اور بیرونی ایجنڈے پر عملدر آمد ہے۔ ایک ہے خواتین کو زیور علم سے آراستہ کرنا‘ دوسرا ہے مردوزن کا اختلاط اور بے پردگی۔ پہلا کام ہرمسلمان کا اپنی بساط کے مطابق فریضہ ہے اور دوسرا کام شرعاً ممنوع ہے‘ جبکہ فی زمانہ تعلیم کے نام پر بے پردگی کو رواج دینے کے لئے عالمی سطح پر کام ہورہا ہے‘ مسلم ممالک کا با اختیار طبقہ اسلامی تعلیمات واحکام کے بر خلاف پوری طرح استعمال ہورہا ہے اور مؤثر اندازسے اہل اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق بطور خاص تعلیمی میدان میں اس کی پیشرفت کے مخالف ہیں۔
اسلام نے خواتین کو تجارت‘ مزدوری‘ وراثت اور تعلیم کا پورا پورا حق دیا ہے‘ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  مکثرین فی الروایة صحابیات میں سے ہے‘ نہ صرف احادیث بیان کرتی ہیں‘ بلکہ فقیہہ اور مفتیہ بھی ہیں‘ علمی میدان میں دیگر بہت ساری صحابیات کا نام آتا ہے۔
حقوق نسوان کے علمبردار اگر اپنے دعوؤں میں مخلص ہیں تو خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل حق دیتے ہوئے پورے ملکی بجٹ کا آدھا حصہ تھما دیں‘ ان کی اسمبلیاں الگ‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال الگ کردیں‘ ان کو مکمل بااختیار بنادیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آزادی کے نام پر ان کو مردوں کا دست نگر بنایا گیا ہے‘ اپنے ہاں کی بات تو چھوڑدیں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں بڑے پسماندہ اور گنوار ہیں‘ کیا امریکی صدور کے جنسی سکینڈلز منظر عام پر نہیں آتے رہے؟ یہ باہمی اختلاط کے ثمرات نہیں تو کیا ہیں؟
آج بھی بہت ساری خواتین تمام تر ذہانت‘ صلاحیت اور علمی ذوق وشوق کے باوجود صرف اس لئے ہمارے ملک میں آگے بڑھنے سے محروم ہیں کہ ان کو اپنی عفت وعزت عزیز ہے‘ وہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نامحرم مردوں سے الگ تھلگ رہ کر علمی فضا میں مزید پرواز بلند کرنا چاہتی ہیں‘ لیکن خواتین کے حقوق کے علمبردارسد راہ بنے ہوئے ہیں‘ مسلمانوں کے اس ملک میں جس کا وجود ہی کلمہ طیبہ کا مرہون منت ہے‘ حواکی اس بیٹی کے لئے ”جرم دین داری“ کی وجہ سے فضا ناساز گار ہے‘ جبتک وہ بے پردہ نہ ہو‘ اس کو علمی میدان میں آگے بڑھنے کا حق نہیں۔
جی ہاں! لاکھوں ایسے والدین ہیں جن کا جی چاہتا ہے کہ ان کی بیٹیاں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائیں اور انسانیت بطور خاص صنف نازک کی خدمت کریں‘ لیکن مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل سے قاصر ہیں‘ دوسری طرف بہت سارے ایسے گھرانے ہیں جو شرعی حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے مرد ڈاکٹروں سے اپنی خواتین کا علاج کرانا پسند نہیں کرتے‘ لیکن ہسپتال کے موجودہ مخلوط نظام کی وجہ سے وہ علاج سے محروم رہتے ہیں (اگر سرکاری ہسپتالوں میں کوئی علاج ودوا میسر ہو تو )
مسلمانوں کے اس ملک میں ”دینداری کے جرم“ ہونے کی ادنیٰ مناسبت سے ایک اور اذیت ناک رویہ بھی آپ کے سامنے رکھتا چلوں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق کفر وشرک کے بعد سب سے بڑا جرم ”سود“ ہے جبکہ مملکت اسلامیہ خداداد یوم آفرینش سے اب تک اس ”عذاب خداوندی“ سے چھٹکارا نہ پاسکا۔
ایک عوامی حکومت برسراقتدار آکر سودی بنیادوں پر زراعت پیشہ لوگوں کو ٹریکٹر فراہم کرتی ہے تو اس سہولت سے وہ آدمی محروم رہتا ہے جو سود جیسی لعنت سے بچنا چاہتا ہے اور تقویٰ کا یہی جذبہ اسلامی ملک میں اس کی ترقی کا سب سے بڑا مانع ہے۔اور پھر دوسری عوامی حکومت محنت کشوں کے لئے پیلی ٹیکسیوں کی سکیم بناتی ہے تو اس میں بھی نقصان اٹھانے والا بندہ وہی ہے جو اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہونے کا شوق رکھتا ہے تو کیا اب بھی ہم آسمان سے برکتوں کے نزول کی توقع رکھیں۔
۱۹۷۳ء کا آئین کسی نہ کسی درجے میں اسلامی تو ہے اور موجودہ برسراقتدار پارٹی اس کا کریڈٹ بھی لیتی ہے‘ لیکن جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو وہ وارہ نہیں کھاتا۔
بات چلی تھی تعلیم سے متعلق خواتین کے حقوق سے‘ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وسائل کے زور پر علماء کو ہی علم دشمن ثابت کرنے کے بجائے تعلیمی نظام کی خامیاں دور کی جائیں تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے‘ علمائے دین پر انتہاء پسندی کا الزام لگانا تو آسان ہے لیکن اگر دلائل قائم کئے جائیں تو انہی کا موقف اعتدال پر مبنی نظر آئے گا۔ دوہرا نظام تعلیم اور وہ بھی اربابِ اختیار کی طرف سے ڈنڈے کے زور پر ایک مستقل موضوع ہے جس پر کافی کچھ عرض کیا جاسکتا ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلامی تاریخ کے کچھ نمایاں گوشے !
Flag Counter