Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

12 - 12
نقد ونظر
تبصرے کے لیے ہرکتاب کے دونسخوں کا آنا ضروری ہے
(ادارہ)
جزء الاختلاف فی صفة الصلوٰة
للشیخ الامام ریحانة الہند مولانا محمد زکریا الکاندھلوی المہاجر المدنی، تقدیم و اشراف: السیّد محمد شاہد الحسنی الامین العام لجامعہ مظاہر العلوم سہارنپور، یو پی ہند۔ تحقیق و تعلیق: خورشید احمد الاعظمی متخصص فی الحدیث الشریف من جامعہ مظاہر علوم سہارنپور یو پی، ہند۔ صفحات: ۲۷۶، قیمت: درج نہیں، پتہ: مکتبہ الشیخ التذکاریہ محلہ مبارک شاہ سہارنپور یوپی، ہند۔
پیش نظر کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، نماز کی کیفیت کے بارہ میں اختلاف کی تفصیلات پر مشتمل ہے،چنانچہ اس کتاب میں حضرت الشیخ قدس سرہ نے تکبیر تحریمہ سے لے کراسلام پھیرنے تک کے نماز کے ارکان و اعمال میں فقہائے امت کے جو جو اختلاف تھے، ان کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اصل کتاب اور حضرت شیخ کا مخطوطہ درمیانی خط کے قلم کے ۲۶X۲۰/۸ سائز کے ۲۲ صفحات پر مشتمل تھا، جبکہ اس پر صاحب کتاب کے حواشی اور اضافات بھی تھے۔
حضرت شیخ قدس سرہ کا یہ رسالہ اور کتاب بھی ابھی تک غیر مطبوعہ مخطوطہ کی شکل میں تھا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت کے مسترشد و مجاز اور نواسہ حضرت مولانا سیّد محمد شاہ حسنی کو جنہوں نے خصوصی دلچسپی لے کر اس کی طباعت و اشاعت کا انتظام فرمایا، کتاب پر ان کا بیش قیمت معلوماتی مقدمہ ہے، یہ بھی اسی مقدمہ سے معلوم ہوا کہ: ۲۲ ممالک کے ۱۵۵ علماء حضرت شیخ  کی کتب کے ترجمہ میں مصروف ہیں اور انہوں نے ترجمہ کی اجازت لی ہے۔ ۱۹ ممالک میں ۲۳۵ ادارے حضرت شیخ  کی کتب کی اشاعت و تقسیم میں مصروف ہیں۔ ۳۱ مختلف زبانوں میں آپ کی کتب کے ترجمے ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ فن وار آپ کی تالیفات کی تفصیل یہ ہے: علم تفسیر:۲، علم حدیث:۶، فقہ و اصول فقہ:۴، تاریخ و سیرت: ۲۲، تجوید و توضحات: ۲، نحو منطق اور اقلیدس:۳، احسان و تزکیہ:۳، دفاع اسلام: ۴، مختلف علوم و فنون: ۴، کل تعداد: ۱۰۳ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محقق علام مولانا خورشید احمد اعظمی صاحب کی نہایت عمدہ اور بلیغ تحقیقات پر مبنی حواشی اور تعلیقات ہیں۔
حضرت شیخ کی عبارت کو متن قرار دے کر اس کے ذیل میں متعلقہ موضوع کی تمام نقول اور فقہی تحقیقات و تصریحات کو باحوالہ اور مفصل نقل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، جس سے ایک قاری کو اس مسئلہ پر محققین، مجتہدین اور فقہائے امت کے اختلافات اور ان کے دلائل و براہین سے چشم کشا آگاہی اور بصیرت افروز معلومات حاصل ہوتے ہیں اور یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ میں قول فیصل یا راجح اور محقق بات کیا ہے؟ الغرض اس کتاب کے پڑھنے کے بعد نماز میں فروعی اختلاف کی حقیقت و حیثیت نہایت کھل کر سامنے آجاتی ہے، اگر کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر اس کا مطالعہ کرے تو اس کو مخالفین سے سرپٹھول ہونے کی نوبت نہیں آئے گی۔
علمائے سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (پانچ جلد مکمل)
مولانا سیّد محمد شاہد سہارنپوری ،امین عام جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور ، صفحات: جلد اول:۳۸۱، جلد دوم: ۳۴۹، جلد سوم: ۳۱۱، جلد چہارم:۴۶۸، جلد پنجم:۵۱۸، قیمت: درج نہیں، پتہ: مکتبہ یادگار شیخ (اردو بازار)محلہ مبارک شاہ سہارنپور، یو پی انڈیا۔
ہندوستان میں انگریز تسلط اور قبضہ کے بعد فرنگیوں کی سعی و کوشش تھی کہ کسی طرح یہاں سے اسلام اور اہل اسلام کو ختم کردیا جائے اور جس طرح ظاہری اور مادی اعتبارسے یہاں عیسائیت کا غلبہ اور استعلاء ہے دینی، مذہبی ور روحانی اعتبار سے بھی یہاں عیسائیت اور نصرانیت کا تسلط ہوجائے، چنانچہ ہندوستان میں انگریزوں نے بڑی قوت و شدت سے تثلیث کی ترویج و اشاعت اور مسلمانوں کو روحانی اور دینی اعتبار سے نصرانی بنانے کے لئے سیم، زر اور توپ تفنگ اور جبر و تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو اس تکلیف دہ صورت حال کا تدارک کرنے کے لئے ہندوستان کے اہل قلوب، صلحاء اور علمائے نے سر جوڑ کر اس پر غوروخوض شروع کردیا اور سوچنے لگے کہ کس طرح مسلمانوں کے دین و ایمان ا ور عقیدہ و مذہب کا تحفظ کیا جائے؟ اور آنے والی نسلوں کی کس طرح دین اسلام سے وابستگی برقرار رکھی جائے، چنانچہ طویل غوروخوض، استخاروں اور استشاروں کے بعد طے ہوا کہ نئی نسل کو ذہنی اور فکری ارتداد سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دینی مدارس اور مکاتب کھولے جائیں اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دے کر ان کے دین و ایمان کا تحفظ کیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں ہندوستان میں سب سے پہلے دیوبند میں دینی مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سہارنپور میں مظاہر علوم کی بنیاد رکھی گئی۔
آج ہندوستان و پاکستان بلکہ د نیا بھر میں جہاں جہاں ابنائے دیوبند نے جو مدارس قائم کررکھے ہیں اور تعلیم و تعلم کا جو کچھ سلسلہ قائم ہے وہ اسی کی برکت ہے۔
پیش نظر کتاب میں اس سلسلہ کی دوسری کڑی مظاہر علوم سہارنپور کے قیام، بانیان، منتسبین ،ارکان شوریٰ، اس کے فیض یافتگان اور نامور طلبا اور ان کی خدمات خصوصاً علمی اور تصنیفی خدمات کو نہایت بسط و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
مظاہر علوم سہارنپور کی تاریخ اور علماء مظاہر علوم کی علمی اور تالیفی خدمات کے عنوان پر سب سے پہلے حضرت اقدس مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ نے قلم اٹھایا، مگر گوناگوں علمی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے یہ کام معرض التوا میں پڑ گیا تو ایک عرصہ بعد آپ نے یہ کام اپنے نواسے، علمی اور روحانی جانشین حضرت مولانا سیّد محمد شاہد سہارنپوری مدظلہ کے سپرد فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ جو کام میں اپنی مصروفیات کے باعث مکمل نہیں کرسکا، اس کی تکمیل آپ کر دیں، چنانچہ مولانا سیّد محمد شاہد سہارنپور زید علمہ اس کام میں جی جان سے جت گئے اور کئی سال کی محنت شاقہ اور طویل تاریخی مواد کو گنگھالنے کے بعد وہ اس کی ترتیب و تسوید میں کامیاب ہوگئے، اس کی ایک جلد منظر عام پر آئی تھی اور دوسری طباعت کے مرحلہ میں تھی کہ حضرت شیخ قدس سرہ اس دنیا سے رحلت فرماگئے، بہرحال جناب موٴلف موصوف اپنے بزرگوں کی جانب سے لگائی گئی ذمہ داری یا ڈیوٹی میں مسلسل مصروف رہے۔
یہ اس کتاب کا دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن ہے، جو نقش ثانی بہتر از نقش اول کا سو فیصد مصداق ہے، چنانچہ پہلی اشاعت میں کتاب کی دو جلدیں تھیں، جبکہ موجودہ دوسرا ایڈیشن پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، کتاب کی پہلی اشاعت کے کل صفحات کی تعداد ۱۰۴۳ تھی ،جبکہ موجودہ اور دوسری اشاعت کے صفحات کی تعداد دو ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
طبع اول میں شامل ممتاز علماء مظاہر علوم کی تعداد ۱۴۷ تھی، جبکہ طبع دوم میں یہ تعداد بڑھ کر ۳۳۵ ہوگئی ہے۔ طبع اول میں ۱۱۷ مظاہر علماء کا تعارف کرایا گیا تھا، اب موجودہ طبع میں یہ تعداد بڑھ کر ۲۴۶ ہوگئی ہے، اسی طرح طبع دوم کے باب سوم میں چونکہ علماء کے اضافہ کے بعد اب یہ تعداد ۳۰۰ ہوگئی ہے۔ طبع اول میں مظاہری علماء کی ۱۱۵۶ کتابوں کا تعارف تھا، اب طبع دوم میں ان کی تعداد بڑھ کر ۲۰۲۶ ہے۔ طبع اول میں مظاہری علماء کے جاری کردہ اخبارات و رسائل کی کل تعداد ۵۳ تھی، اب طبع دوم میں یہ تعداد بڑھ کر ۲ھ ہوگئی؟؟؟؟، اب طبع اول میں ماخذ و حوالہ جات کی تعداد ۱۸۸ تھی، اب طبع دوم میں بڑھ کر یہ تعداد ۳۲۸ ہوگئی ہے، طبع اول میں باب سوم نہیں تھا، اب اس کا اضافہ کردیا گیا ہے، طبع اول میں مظاہری علماء کے قائم کردہ ادارہ، اشاعتی مراکزعلمی و درسگاہوں اور جامعات کی کوئی فہرست نہیں تھی، اب ان کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
الغرض پیش نظر کتاب علمائے مظاہر علوم کے تعارف، خدمات اور کارہائے نمایاں کی تفصیلات کے سلسلہ میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔
ابنائے مظاہر علوم کے تعارف اور ان کی خدمات کو حروف ابجد کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کتاب سے استفادہ اور متعلقہ شخصیت کے نام، تعارف اور اس کی خدمات سے آگاہی حاصل کرنے میں بہت ہی سہولت ہوگئی ہے۔
اس کتاب کی ترتیب اور تیاری بلاشبہ بہت بڑا علمی اور تاریخی کارنامہ ہے اور اس پر حضرت مولانا سیّد محمد شاہد سہارنپوری بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter