Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 12
اعجاز ِقرآنی باعتبار مقاصدِ قرآنی !
اعجاز ِقرآنی باعتبار مقاصدِ قرآنی
شیخ باعتبار مقاصد کے قرآنی اعجاز کو ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ:
”مقاصد سے میری مراد وہ امور ہیں جن کا سیکھنا، سمجھنا اور ان کے رنگ میں رنگ جانا ،مخلوقِ خدا سے ان کے مطابق معاملہ کرنامخاطبین کے لیے ضروری ہے،جیساکہ علمائے امت نے اسماء حسنیٰ کی شرح کے متعلق ان جملہ امور واحکام کے متعلق بحث فرمائی ہے “اردو میں حضرت شیخ کے الفاظ یوں ہیں:
”مقاصد سے میری مراد مخاطبین کو سبق دینا یا لینا ہے ،جیساکہ علمائے کرام نے اسمائے حسنیٰ کی شروح میں لکھا ہے“۔
چونکہ حضرت شیخ کے کلمات مختصر تھے اور اس کلام کے متعلق مجھے کما حقہ شرح صدر نہ ہوا تھا ،اس لئے میں نے اس کے بارے میں حضرت شیخ محقق علامہ شبیر احمد عثمانی سے دریافت کیا اور ان کے سامنے یہ عبارت پیش کی‘ چنانچہ انہوں مجھے یہ عبارت بھی سمجھائی اور حضرت عارف باللہ فقیر اللہ بن عبد الرحمن التراسی جلال آبادی علوی حنفی افغانی کی کتاب ”قطب الارشاد“ کے مطالعہ کرنے کو کہا۔ ذیل میں میں اپنے استفادہ کے مطابق ان مباحث کا منتخب خلاصہ ذکر کئے دیتا ہوں، ملاحظہ ہو:
راقم عرض گذار ہے کہ اسمائے حسنی کے متعلق مندرجہ ذیل تین امور قابل توجہ اور قابل غور ہیں:
۱- مرتبہ ٴ علم ۲-مرتبہ ٴ اعتقاد ۳- مرتبہٴ عمل۔
چنانچہ ان اسمائے حسنیٰ کے تحقق کا مطلب علمائے امت کے ہاں یہ ہے کہ بندہ اللہ جل شانہ کے ان اسماء کے معانی کے ساتھ متصف ہونے کا قلبی اعتقاد رکھے اور ان معانی کی معرفت اور شناسائی میں ان تمام اقدار کا لحاظ رکھے جو باری جل شانہ کی عظمت وکبریائی سے متعلق ہیں ،اس لئے باری جل شانہ کو اس کی مخلوقات میں سے کسی مخلوق کی طرح نہ گردانے اور نہ اس کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفات پر قیاس کرے ۔
پس پختہ عقیدہ رکھے کہ اس کی ”بصر“ ہے، لیکن مخلوق کی آنکھوں کی مانند ہرگز نہیں ہے ،اس کے لئے ”خاصہ سمع“ ہے، لیکن مخلوقات کیفیات سمع کی مانند ہرگز نہیں ہے ،اسی طرح تمام صفات میں لحاظ رکھے اور باری جل شانہ کی ان صفات روئیہ سے جو باری تعالیٰ کی کبریائی وبزرگی کے متضاد ہیں یا مناسب نہیں ہیں ،ان سے باری تعالیٰ کی تقدیس وتمجید بیان کرتا رہے اور یہ خیال بہم رکھے کہ اس کی مانند کچھ بھی نہیں ،وہ سمیع وبصیر ہے اور اس اعتقاد میں اپنی بشری مقدرت کو انتہائی طور پر بروئے کار لائے۔
اسی طرح ان اسمائے حسنیٰ کے ساتھ تعلق کا مطلب علمائے کرام یہ لیتے ہیں کہ جب خداوند بزرگوار سبحانہ وتعالیٰ کبریائی اور عظمت وبزرگی کی ان اعلیٰ صفات کے ساتھ متصف ہے اور اسمائے حسنیٰ کا موضوع حقیقی ومنفرد ہے تو اب اس کے بندہ کواس کے پیش نظرکیا کرنا چاہئے اور اس کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے ،چنانچہ علمائے کرام نے بخوبی واشگاف کیا ہے کہ تب بندہ کو چاہئے کہ اللہ رب العزت کی صفات جلالیہ وجمالیہ کا اس قدر استغراقی مراقبہ کرے کہ باری تعالیٰ کا تصور ہمہ وقت اس کے دل میں جاگزیں ہوجائے اور ان صفات واسماء کے آثار وانوار کے مطالبات کے سامنے سرنگوں ہوجائے اور قلبی طور پر ان کے تقاضوں کے روبرو سر تسلیم خم کردے ،یہاں تک کہ اس پر ان کے انوار وتجلیات کے آثار ونقوش نقش ہوجائیں ۔اور جہاں تک ان اسمائے حسنیٰ کے ساتھ تخلق کا تعلق ہے تو اس کا مطلب علماء نے یوں لیا ہے کہ بندہٴ خدا ان صفات ربانیہ کے رنگ میں رنگ جائے اور عملی طور پر ان کو تسلیم کرلے، جس کی بناء پر وہ صفات باری تعالیٰ میں سے ہر ہر صفت کا گویا مظہر بن جائے، پس مخلوق کے ساتھ اس کے معاملات کی کیفیت اس طور پر ہو کہ اس میں اس استخلاف ونیابت کے آثار جھلکنے لگیں کہ واقعی اس کو خدا بزرگوارنے زمین میں اپنے خلیفہ اور اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور حدیث شریف میں بھی وارد ہوا ہے:
”ان اللّٰہ خلق اٰدم علی صورتہ فجعلہ سمیعاً بصیراً وہداہ الی الخیر والشر والحق والباطل“
چنانچہ بندہ ٴ خدا سے مطلوب یہ ہے کہ اس کے اعمال باری تعالیٰ کے شؤن کے موافق ہوں، چنانچہ وہ عمدہ خصائل، بہترین صفات پرستائش ،افعال وکردار اور قیمتی اعمال کا حامل ہو اور انہی اعمال کے نتیجے میں تمام مخلوق کے ساتھ بغیر کسی دنیوی منفعت وغرض کے جو اسے اس کے دنیوی مقاصد میں برآری کے لئے مقصود ہو معاملہ رکھے، بلکہ سوائے رضائے خداوندی اور خوشنودی پروردگار عالم کے کسی شئ کا خواہاں نہ ہو اور یہ گمان رکھتا ہو کہ تو نے اپناایک واجبی فعل ادا کیا ہے اور محض اپنے منصب کے تقاضہ کو بھی پورا کیا ہے ،یہ ہے اللہ رب العزت کے اسمائے گرامی کے ساتھ تخلق کا حاصل۔ یہی ہے صفات خداوندی کے ساتھ رنگے جانے کا مطلب۔
اب ہم ایک مثال ذیل میں درج کرتے ہیں جس سے یہ تینوں مراتب بخوبی آشکارا ہو جائیں گے۔لفظ ”الرحمٰن“ اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسم مبارک ومحترم ہے، اس کے متعلق مرتبہ تحقیق تو اس بات کی معرفت ہے کہ اللہ رب العزت کے لئے عظیم رحمت کی صفت ہے ،یہ صفت ازلی ،ابدی اور خداوند کی بقاء کے ساتھ ہمیشہ باقی ہے اور باری جل وعلا اس صفت کے ساتھ حقیقتاََ وواقعتا متصف ہیں، اگرچہ اس صفت کی مکمل حقیقت کا ادراک اور اس کے متعلق مالہا وماعلیہا تفصیلات کی شناسائی نہ ہوسکے۔ اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ مخلوقات میں جو رحمت کی صفات پائی جاتی ہیں، یہ اسی رحمت عظیمہ کے آثار وانوار میں سے مقتبس نور واثر ہے اور اسی چشمے کا قطرہ اور پھوٹتی نہر سے مستفاد بوند ہے، خداوند کی ذات اس سے برتر وبالا ہے کہ اس کی کوئی مخلوق اس کے ساتھ اس صفت میں مشارکت ومساہمت رکھتی ہو ”لیس کمثلہ شئ وہو السمیع البصیر“اور اس صفت رحمت کے ساتھ مرتبہ تعلق کا مطلب یہ ہے کہ: بندہ ٴخدا ،خدا کے حضور اپنے مقدور بھر قویٰ وجوارح سے عاجزی اور فروتنی کرے، اس کا ظاہر وباطن ،اپنے قیام وقعود، سونے جاگنے میں انکساری کا گویا مظہر ہو اور ایسا شکر ادا کرے جو اس کی اس رحمت کے لائق ہو، جو رحمت غیر محدود ہے اور اعضاء وجوارح، قلب ولسان سے اس رحمت بے پایاں کو کسی شمار میں گنا نہیں جاسکتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی جان رکھے کہ اس رب کے ان بیش بہا احسانات وانعامات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے۔
اسی طرح اس صفت رحمت کے ساتھ مرتبہ تخلق یہ ہے کہ: آدمی اس رب کے بندوں پر مہربان ہو ، مصائب میں ان کی غمگساری کرے ،شدائد میں فریادرسی کرے، اپنے ذاتی مال سے ان پر خرچ کرے اور اس مہربانی کرنے کو جملہ واجبات کا حصہ سمجھے اور اپنے عہدہ اور منصب کا تقاضہ سمجھے اور محض خالق ومالک کی خوشنودی تلاش کرے ،اس کے علاوہ اور جو ”رحمت“ کے متعلق باری جل وعلا کے شؤن ہیں ،ان کو اختیار کرے۔اجمالی طور پر اس قدر بحث اس مقام کے مطابق کافی ہے، اس لئے کہ اس مختصر رسالہ میں ان تمام تر تفصیلات کا بیان ناممکن ہے۔
پھر راقم کہتا ہے کہ: ان ہر سہ مراتب میں سے ہر مرتبہ لاحقہ، مرتبہ سابقہ پر متفرع ہے، تخلق تعلق کی فرع اور تحقق کی فرع ہے ۔تحقق مرتبہ اعتقاد وتسلیم ہے۔ تعلق مرتبہ صفات تفاسیر ہے اور تخلق مرتبہ صفات فعلیہ ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ خدواند کی معرفت اور اس پر یقین کی کیفیات کے تفاوت مراتب کے اعتبار سے ان مراتب ثلاثہ میں بھی قوت اور ضعف کا تفاوت پایا جاتا ہے۔ مرتبہ اولیٰ میں کامل شخص ،مرتبہ ثانیہ میں اور مرتبہ ثانیہ میں کامل ،مرتبہ ثالثہ میں بھی کامل ہوگا ۔اسی طرح طبعی وفطری اخلاق وملکات کے اعتبار سے بھی ان مراتب ثلثہ میں تفاوت کا پایا جانا ممکن ہے، اس لئے کہ بعض بندگان خدا صفات جلالیہ کے رنگ میں ڈھل جانے کو جلد قبول کرلیتے ہیں اور بعض صفات جمیلہ کی کیفیات کے قریب ہوتے ہیں۔ کامل شخص وہی ہوتا ہے جو ان ہر دو قسم کی صفات میں کمال وصلاحیت رکھے ۔تفصیلی بحث کے لئے متعلقہ کتب ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ،یہاں اس تفصیل وتمحیص کی جگہ نہیں ہے۔
جہاں تک راقم السطور کی رائے ہے تو شیخکا مقصد اپنی اس عبارت سے یہ ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ ان اسمائے حسنی سے پند ونصیحت حاصل کریں اور عبرت وموعظت کے پہلوؤں کو تھامتے ہوئے اپنے جملہ معاملات سرانجام دیں اور اعتقاد رکھیں کہ انسانی کمال صرف انہی اسمائے حسنی کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے اور یہ یقین رکھیں کہ انسانی نجات اور فوز وفلاح کا دار ومدار ان اسمائے حسنی کو سمجھنے اور ان اسمائے حسنی کے اس مضبوط کڑے کو تھامے رکھنے میں ہے، جو کڑا کبھی ٹوٹ نہ سکے گا اور یہ بھی جان رکھیں کہ اسی میں ابدی سعادت اور رضا خداوندی مضمر ہے، چنانچہ اس کے فطری خصائل وشمائل ان اسمائے حسنی کے مقاصد کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے رنگ میں رنگ جائیں گے اور پھر وہ احکام خداوندی کی اطاعت وفرمانبرداری ،خداوند تعالیٰ کی بکھری عبرتوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ ترغیب وترہیب اور قصص وامثال سے پندونصیحت حاصل کرنے میں‘ قرآنی مصالح وحقائق اور دنیوی واخروی منافع کے حامل اعمال میں تدبر اور غور وفکر کرنے میں‘ نیز اپنے اعمال کی ابتداء وانتہاء ‘ اپنے ظاہری وباطنی کردار کے متعلق بصیرت حاصل کرنے میں ،اسی طرح قرآنی تنبیہات وتعلیمات میں تیقظ اور قرآنی تلمیحات واشارات پر مطلع وراہ یافتی کے حصول میں گویا اس مردے کی مانند ہوجائے گا جو غسل دینے والے کے زیر تصرف ہو۔بعد ازاں حضرت شیخ فرماتے ہیں: قرآنی مقاصد تو وہی ہونے چاہئیں جن میں مبدأ ومعاد‘ اصلاح معاش‘ اور دنیوی واخروی نجات کا حصول بتلایاگیا ہو۔حضرت شیخ کے الفاظ یہ ہیں:
”قرآن حکیم کے مقاصد وہ ہونے چاہئیں جن سے مبدأ ومعاش ومعاد اور فلاح ونجاح دنیا وآخرت وابستہ ہو“۔
مقصد یہ ہے کہ قرآنی مقاصد بندگان خدا کو مبدأ ومعاد میں پیش آمدہ احوال کے متعلق تنبیہ کرنا ہے ،تاکہ وہ باری تعالیٰ جو قدرت واختیار میں منفرد ومتفرد ہیں، اعتقاد الوہیت مضبوط رکھنے، وہ خداوند بزرگوار جو آسمان وزمین اور ان کے مابین تمام اشیاء کا اکیلا خالق ہے ،اسی طرح یہ بھی اعتقاد رکھے کہ اس کے بہترین اسماء وصفات ہیں‘ اسی نے تمام مخلوق کو پیدا فرمایا جبکہ اس سے پہلے کچھ نہ تھا‘ اسی ذات برحق نے انسان کو پیدا کیا ،پھر اس کو برابر خلقت سے نوازا ،اس کی بہترین صورت بنائی اور اپنی تمام مخلوقات پر اس کو فضیلت وکرامت بخشی اور ان کو ایسا نور بخشا جس کے عکس میں وہ اپنے جملہ امور سے شناسائی حاصل کرے اور کائنات کی بکھری نشانیاں دیکھنے ‘ خداوند کے ودیعت کردہ اچھوتے ایسے محکم نظام کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے انہی تعلیمات کی نشر واشاعت کے لئے رسل وانبیاء بھیجے اور انسان کی راہنمائی کے واسطے کتابیں نازل فرمائیں اور اس کو اس شریعت ودین کی پیروکاری کا حکم دیا جو اس کے معاش ومعاد اور دنیوی واخروی امور میں مکمل نجات ونجاح کا ضامن ہے اور اس انسان کو یہ باور کروادیا کہ یہ دنیا دھوکہ کا سامان ہے، چنانچہ اس کو چاہئے کہ وہ اس کے شان وشوکت حسن وجمال ‘ آب وتاب اور اس کے آسمانی وزمینی مناظر ،ان کی ملاحت وشگفتگی‘ اور ان کی تازگی اور مٹھاس کو دیکھ کر دھوکہ میں نہ پڑجائے، اس لئے کہ آخر کار رجوع اور انتہائی ٹھکانہ خدا کی طرف جانا ہے اور اس کے ہاں حساب وکتاب کی منازل طے کرنا ہے اور پھر اس کے حکم کردہ ٹھکانہ کو لوٹ جانا ہے، یہ دنیا ہلاک اور فنا ہونے والی ہے اور خبر دار تمام معاملات کو اللہ ہی کے ہاں پہنچنا ہے ،چنانچہ قرآن کریم نے بھی اس دنیا کے مختلف مراتب اور احوال اور متعدد احوال واطوار بیان فرمائے، باری جل شانہ کا فرمان ہے:
”اعلموا انما الحیٰوة الدنیا لعب ولہو وزینة وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد، کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ‘ ثم یہیج فتراہ مصفراً ثم یکون حطاما،ً وفی الآخرة عذاب شدید ومغفرة من اللّٰہ ورضوان وما الحیٰوة الدنیا الا متاع الغرور“۔
ان مقاصد کی رو سے حاصل ہونے والا اعجاز قرآنی بہت نمایاں اور خوشنما ہے اور واقعی یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم خدائے پاک کی زبردست کتاب ہے جو حکیمانہ پند ونصائح سے بھر پور ہےِ جو ان مذکورہ امور واحکام کو اچھوتے طرز پر نفاست کے ساتھ ‘ انتہائی فصیح ومحکم لہجے میں جو لوگوں کے لئے نرمی کا پہلو بھی رکھتا ہے اور بہت نفع بخش بھی ہے، بیان کرتا ہے۔ اس شریعت حقہ کے مساوی کوئی شریعت شمار نہیں کی جاسکتی اور نہ کوئی کتاب اس کتاب عزیز کی ہمسری کرسکتی ہے اور اسی ہوشربا طرز کے مطابق جس تک پہنچنے سے حکماء اور دانشوروں کی عقول قاصر وکوتاہ ہیں، یہ کتاب پچھلی شرائع الٰہیہ کا نچوڑ اور خلاصہ پر بھی مشتمل ہے اور گزشتہ ادیان سماویہ کے گویا مغز واساس کی حامل ہے ،قرآن کریم نے ان تمام ادیان سماویہ کا مغز اخذ کیا، اس کے نصاب کو مکمل کیااور ان ادیان سماویہ کی بہترین تعلیمات واحکام کو اختیار کیا‘ اس کا مخلص لے کر اپنے اندر سمو لیا، پھر اسی شریعت قرآنی پر ابدی سعادت اور دائمی نجات کا دار ومدار ہے، اسی شریعت پر عامل ہوکر رب تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور جنات ابدیہ متنوع نعم کے حصول کی صورت میں کامیابی مل سکتی ہے۔اسی طرح قرآن کریم نے اجتماعی شعبے، آداب واحکام کا وہ خزانہ عطا کیا ہے جو فطرت انسانی اور نوامیس عالم کے عین موافق ہے ،ان آداب واحکام کی قدر ومرتبہ اتنی بلند ہے کہ بشری عقول ان سے زیادہ محکم ‘ بلندپایہ آداب کا تصور نہیں کرسکتی ہیں اور واقعی خداوند تعالیٰ کی مثال بہت اونچی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور خداوند زبردست حکمت والا ہے، کیا اس عالم دنیوی میں کوئی اور کتاب ہے جس کو سعادت ونجات کا مدار ٹھہرایا جاسکے؟ اور کیا قرآن کریم کے وضع کردہ نظام کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا عمدہ نظام محکم پیش کیا سکتا ہے جو بشری فطرت کے تقاضوں کے عین موافق ہو؟ کیا لوگوں کے پاس اس صحیفے کے علاوہ بھی کوئی صحیفہ ہے جو حق اور صراط مستقیم کی طرف درست رہنمائی کرتا ہو؟ کیا دنیا میں قرآن کریم کے علاوہ بھی کوئی کتاب ہے جو حکمت ونصیحت سے بھر پور اور نور مبین ہو جو بیک وقت لوگوں کے واسطے دنیوی کامیابی ‘ اس کے مراتب عالیہ تک رسائی کے ساتھ ساتھ اخروی جنات نعیم کی کامیاب راہوں کی طرف راہ یابی بھی کرتی ہو؟ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وانہ لکتاب عزیز لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ، تنزیل من حکیم حمید“۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ !
Flag Counter