Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 12
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ !
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ

مقبولانِ بارگاہِ خداوندی کی ایک امتیازی شان یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر دور میں ان کے معاند رہتے ہیں جو اکثر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے رہتے ہیں جس سے ان اولیاء اللہ کے درجات بلند ہوتے رہتے ہیں اور معاندین کے لئے شقاوت بڑھتی رہتی ہے۔ امت کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
شاہ اسماعیل شہید سے لے کر مجدد الف ثانی تک‘ امام احمد بن حنبل سے لے کر امام اعظم امام ابوحنیفہ تک‘ سید نا امام حسین سے لے کر سیدنا امام معاویہ تک۔ ایسی ہی ایک عظیم ہستی ہمارے محبوب آقا شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی ہے‘ جنہیں اکابرین امت یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
۱:۔ شیخ التفسیر امام الاولیاء‘ قطب زمان حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
”میں نے اپنی زندگی میں چودہ بار حرمین شریفین کی زیارت کی ہے اور مجھے اللہ نے وہ بصیرت عطا فرمائی ہے کہ امت کے اولیاء کرام کو پہچان لیتا ہوں‘ چودہ بار میں نے حرمین شریفین میں موجود دنیا کے اولیاء کرام کو دیکھا ‘لیکن حضرت مدنی کے مقام تک کسی کو نہ پایا“۔ (از چراغ محمد ا ص:۲۳۲)
۲:۔ حضرت شاہ عبد القادر رائپوری فرماتے ہیں:
”جب ہم نے اس مرد مجاہد کو نگاہ اٹھا کے دیکھا تو جہاں شیخ مدنی کے قدم تھے وہاں اپنا سر پڑا دیکھا“۔ (از چراغ محمد ا ص:۴۶۸)
۳:۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں:
”ہماری آپ کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے جانا نہیں کہ وہ کیسے باطنی مراتب پر فائز تھے۔ ا س کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جو اس کوچہ سے واقف ہوں اور جو اس کا احساس رکھتے ہوں‘ وقت کے عارفین اور اہل نظر کی زبان سے میں نے ان کے لئے بڑے بلند کلمات سنے ہیں‘ ان سب کو ان کی عظمت اور بلندی کا معترف اور ان کی مدح وتوصیف میں رطب اللسان پایا“۔ (از چراغ محمد ا ص:۲۳۳)
۴:۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان تلمیذِ رشید‘ شارح بخاری‘ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘ شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی ‘ تحریر فرماتے ہیں:
”یہ حقیقت ہے کہ مجھے فنِ حدیث سے تعلق اور مناسبت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے تلمذ کے طفیل نصیب ہوئی‘حضرت کا ترمذی کا درس روزانہ دو اڑھائی گھنٹے اس شان سے ہوتا تھا کہ نظروں کو وہ خوشگوار منظر کہیں دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا‘ وہ شیخِ زمانہ جس کی دینی وملی‘ سیاسی وسماجی‘ اصلاحی وانتظامی اور درسی خدمات کی کوئی حد نہ تھی‘ وہ استقامت کا جبلِ اعظم تھا‘ مسند درس کو جب وہ زینت بخشا تھا تو چہرے پر شگفتگی کے آثار نمایاں ہوتے‘ شخصیت اس قدر پُرکشش اور دلربا تھی کہ دل ان کی طرف کھچے چلے جاتے تھے‘ سال بھر درس میں حاضری دینے والے طالبعلموں کے لئے حضرت مدنی کی ذات گرامی میں پہلے دن کی طرح نیاپن اور جاذبیت ہوتی تھی۔ خیال آتا ہے کہ حضور پاک اکے عاشقوں کی جب یہ شان ہے تو خود حضور پاک ا کی شان کا کیا حال ہوگا؟“۔ (از چراغ محمد اص:۲۶۵)
اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جب روضہٴ اطہر پر حاضر ہوتے تو کیسی سعادت نصیب ہوتی ہے؟
حضرت مولانا مفتی مشتاق احمد مالیرکوٹلہ والے بیان کرتے ہیں کہ:
”جب میں مدینہ منورہ گیا تو مشائخ وقت سے یہ تذکرہ سنا کہ اس سال روضہٴ اطہر سے عجیب کرامات کا ظہور ہوا ہے‘ ایک نوجوان نے جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر صلوٰة وسلام عرض کیا تو دربارِ رسالت سے ”وعلیک السلام یا ولدی“ کے پیارے الفاظ سے اس کو جواب ملا۔ سمجھے! یہ ہندی نوجوان کون تھا؟ یہ تمہارے استاد مولانا سید حسین احمد مدنی تھے“۔ (الجمعیة شیخ الاسلام نمبر)
اور پھر وطن کی آزادی کے لئے شیخ العرب والعجم حضرت مدنی کی قربانیوں اور انگریز دشمنی کو سید ابو الحسن علی ندوی درج ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
”انگریز دشمنی کا مظہر اتم اور نمونہٴ کامل مولانا سید حسین احمد مدنی تھے‘ جن کی انگریز دشمنی اور حمیتِ دینی‘ فکری اور اعتقادی حدود سے آگے بڑھ کر قلبی وجذباتی نفرت وعداوت اور قال سے آگے بڑھ کر حال میں تبدیل ہوگئی۔ اس کا کسی قدر اندازہ مولانا کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ سننے والوں کو ہوسکتا ہے کہ جب مولانا دشمنانِ اسلام کے لئے ”اللہم دمر دیارہم“ کے الفاظ ادا فرماتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ محراب میں اس کے اثر سے شگاف پڑجائیں گے“۔ (از چراغ محمدا ص:۲۲۵)
اور دوسری طرف نام نہاد صحافی کے ممدوح افراد کا کردار ملاحظہ فرمائیں:
پاکستان کے دو وزیر مشتاق گورمانی اور غلام محمد‘ آزاد کشمیر گئے اور ایک اجتماع میں ایک وزیر نے کوٹ کی جیب سے ایک لاکٹ نماسی چیز نکال کے مجمع کے سامنے لہرائی اور بولے:
”یہ دیکھو اللہ کا قانون ہے جو چودہ سو برس پہلے نافذ ہوچکا ہے اور جس پر عمل کرنا ہم سب کا دینی‘ اخلاقی اور ایمانی فرض ہے“۔ مگر اسی بدنصیب وزیر نے واپسی پر کار میں کہا:
”جیب سے نکلی ہوئی چیز تو محض سگریٹ کا لائیٹر ہے جسے لوگ قرآن سمجھ رہے تھے“۔
(از شہاب نامہ ص:۴۱۳‘۴۱۴)
اب خود موازنا فرمالیں اور ان اشعار پر… پرکھ لیں محمد عربی ا کے مقام اور پیغام سے باخبر کون تھا؟ اور مقام وپیغام محمد عربی ا کا تمسخر اڑانے والے کون تھے؟ ایسی عظیم ہستی کے متعلق چند ٹکوں کا الزام وہ شخص لگاتا ہے جو شاید قلم کی عزت وحرمت کا ادراک نہیں رکھتا اور مستور الحال لوگوں کے حوالجات سے شیخ العرب والعجم کی ذات بابرکات کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور پھر شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی شخصیت کے ان اشعار کی آڑ میں اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتا ہے جن اشعار سے علامہ نے حقیقتِ حال معلوم ہونے پر رجوع کرلیا تھا۔ لیکن اس صحافی نے علامہ اقبال کے اس شعر کو جو تاریخی حقیقت ہے‘ ضرور پڑھا ہوگا اور اسے یاد بھی ہوگا کہ:
جعفر از بنگال‘ صادق از دکن
ننگ ناموس‘ ننگ دین‘ ننگ وطن
اور اسے عجیب اتفاق کہیئے کہ جعفر اور صادق دونوں ”میر“ تھے۔
حضرت مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت ‘ کردار ‘ تقویٰ‘ للہیت‘ اخلاص ‘ وطن کی آزادی اور انگریز دشمنی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے‘ تاہم بے خبر لوگوں کی آخرت کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے کلام اقبال کے شارح‘ یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ شائع کررہے ہیں‘ جس سے حق واضح ہو جائے گا۔
حضرت مدنی کے شدید مخالفین میں سے چشتی صاحب سب سے آگے تھے‘ آپ نے تقریری کم مگر تحریری طور پر حضرت مدنی کے خلاف بہت کچھ لکھا‘ کیونکہ آپ علامہ اقبال کے کلام کے شارح اور اس پر نظر عمیق رکھنے والے تھے اور مسلم لیگ کے ان عمائدین میں سے تھے جن پر قائد اعظم محمد علی جناح کو پورا اعتماد تھا‘ پھر آپ انجمن حمایتِ اسلام کے قائم کردہ اشاعتِ اسلام کالج کے پرنسپل بھی تھے‘ اس لئے آپ کا قلم حضرت مدنی کے خلاف رواں دواں رہتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی فضل وکرم کے ساتھ حضرت مدنی کے علمی ‘ دینی اور روحانی مقام سے آگاہ فرمایا تو جس طرح آپ نے حضرت مدنی کی مخالفت میں علی الاعلان مضامین لکھے تھے‘ اسی طرح ہمتِ مردانہ کے ساتھ اظہار حق کرتے ہوئے اپنا توبہ نامہ بھی سب سے پہلے ماہنامہ میثاق لاہور بابت فروری ۱۹۷۲ء میں شائع کروایا اور پھر کئی رسائل میں طبع ہوتا رہا اور بعض اداروں نے کتابی شکل میں بھی شائع کیا۔ اس توبہ ٴ صادق کے بعد جناب چشتی مرحوم کا سارا وقت ذکر‘ تلاوتِ قرآن کریم اور اصلاح نفس کی تبلیغ میں گذرتا‘ آپ کا حلقہٴ احباب لاہور اور کراچی میں بڑا وسیع تھا‘ آپ نے اسی مقصد کے لئے ایک ادارہ بہ نام” ادارہ اصلاح نفس“ قائم کررکھا تھا اور اسی ادارہ کا ترجمان ایک ماہنامہ بہ نام ”ندائے حق“ جاری فرمایا تھا‘ آپ کے درس مثنوی اور روحانی محافل سے کئی سعادتمندوں کی دینی اور روحانی اصلاح ہوئی۔ آپ کا وصال ۳/فروری ۱۹۸۴ء کو لاہور میں ہوا اور لاہور ہی میں خلدِ آشیاں ہوگئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
آپ کا توبہ نامہ آپ ہی کے کلمات میں ہدیہٴ ناظرین ہے۔(مرتب)
بسم الله الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم‘رب انی ظلمت نفسی ظلماً کثیراً وانہ لایغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرةً من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم۔
مقدمہ
س تحریر سے دو مقاصد میرے پیش نظر ہیں‘ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ گذشتہ زندگی ۱۹۳۷ء تا ۱۹۵۴ء میں مجھ سے جس قدر گستاخیاں حضرت اقدس‘ مجاہد اعظم‘ شیخ الاسلام‘ آیةً من آیات اللہ الصمد سیدی وشیخی وسندی الحاج الحافظ المولوی السید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کی شانِ رفیع البنیان میں سرزد ہوئی ہیں‘ ان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے غیر مشروط انداز میں اظہار ندامت اور اعتراف‘ تقصیر اور اقرارِ جرم کروں اور بارگاہِ ایزدی میں صدقِ دل سے استغفار کروں۔
دوسرا مقصد یہ ہے کہ ایک اہم تاریخی واقعہ کی وضاحت کردوں اور حقائق کو ان کی اصل شکل میں پیش کردوں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جنوری ۱۹۳۸ء میں ڈاکٹر اقبال مرحوم نے محض اخباری اطلاع کی بناء پر تین اشعار سپردِ قلم کئے تھے جن کی وجہ سے علمی اور دینی حلقوں میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا‘ جناب طالوت نے ڈاکٹر صاحب کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول ومنعطف کرائی کہ حضرت اقدس نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یہ مشورہ نہیں دیا تھا کہ وطن کو اساسِ ملت بنالو‘ اس لئے دیانت وعدالت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ اب مجھے حضرت مولانا حسین احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں رہتا تو ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ اعلان روزنامہ ”احسان“ لاہور میں ۲۸/مارچ ۱۹۳۸ء کو شائع ہوگیا تھا‘ لیکن قوم کی بدقسمتی سے ۲۱/اپریل کو ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہوگیا‘ جبکہ ان کا آخری مجموعہ کلام موسوم بہ ”ارمغانِ حجاز“ نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا‘ اگر یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان تین اشعار کو حذف کردیتے یا حاشیے میں حقیقتِ حال کو واضح کردیتے کہ میں نے یہ اشعار غلط اخباری اطلاع کی بناء پر لکھے تھے۔ بعد ازاں حضرت مولانا نے اخباری رپورٹ کی تردید کردی‘ اس لئے ان اشعار کو کالعدم یا مسترد سمجھنا چاہئے‘ لیکن افسوس کہ یہ بیماری سیاست کی دنیا میں بھی داخل ہوگئی۔
جن لوگوں نے ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۷ء تک کا پُر آشوب دور دیکھا ہے‘ ان سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ حامیانِ مسلم لیگ ان تمام مسلمانوں کے اسلام کو شک اور شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو ان سے دلائل واضحہ اور براہینِ نیرہ کی بناء پر اختلاف کرتے تھے‘ نیز بلااستثناء ان تمام مسلمانوں کو غدارِ قوم‘ ضمیر فروش اور ہندوؤں کے زرخرید کہا کرتے تھے‘ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی (جب ہوش رخصت ہوجاتا ہے اور صرف جوش کار فرما ہوتا ہے تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ) مسلم لیگ کو کفر واسلام کا معیار بنایا گیا تھا‘ چنانچہ ہر شخص ببانگِ دہل یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ: ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“۔حالانکہ کفر واسلام کا معیار کسی سیاسی جماعت میں شرکت نہیں ہے ‘ بلکہ اتباع شریعتِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام ہے‘ اور طرفہ تماشا یہ ہے جس پر آج میری عقل بھی حیران ہے کہ مسلم لیگ تو وہ جماعت تھی جس میں داخلے کے لئے نہ مسلمانوں کی سی صورت شرط تھی نہ ان کی سی سیرت ‘ نہ نماز‘ روزے کی پابندی شرط تھی نہ دین سے واقفیت۔ اہل قرآن ‘ اہلحدیث‘ اہل فقہ اور اہل تصوف‘ بریلوی اور دیوبندی‘ سنی اور شیعہ اور آغاخانی حتی کہ پارسی یعنی آگ کو سجدہ کرنے والے بھی اس کے رکن تھے‘ یعنی اس جماعت میں شرکت کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہ تھا اور ۱۹۳۱ء میں اس کا صدر (یعنی سر ظفر اللہ قادیانی‘ ۱۹۷۴ء میں حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا)وہ شخص تھا جس کے ہم خیالوں کو اسلام سے خارج قرار دینے کے لئے ۱۹۷۴ء میں کراچی سے لاہور تک زبردست ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ اس زمانے میں ہم لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جو مسلمان لیگ میں شامل نہیں ہے وہ مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں ہے‘ خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالم دین کیوں نہ ہو۔یہ تصور کہ جو مسلمان لیگ میں نہیں ہے وہ ہندوؤں کا غلام ہے‘ ضمیر فروش ہے‘ غدار قوم ہے‘ عوام کا تو ذوق ہی کیا ہے خواص کے دماغوں پر بھی مسلط ہوچکا تھا‘ وہی مولانا ظفر علی خان جنہوں نے حضرت اقدس مولانا مدنی کی شان میں یہ شعر کہا تھا:
گرمئی ہنگامہ تیری آج حسین احمد سے ہے
جس سے ہے پرچم روایاتِ سلف کا بلند
جب مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو ان کی ذہنی پستی کایہ عالم ہوگیا کہ انہوں نے اسی حسین احمد سے یوں خطاب کیا اور ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ میں کسی عظیم المرتبت ہستی کو مخاطب بنارہا ہوں:
حسین احمد سے کہتے ہیں مدینے کے خزف ریزے
کہ لٹو ہوگئے کیا آپ بھی سنگم کے موتی پر
اس شعر سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے شیخ الاسلام‘ مجاہد اعظم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کا علمی‘ اخلاقی اور روحانی مقام مرحوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ جن لوگوں نے لیگ سے اختلاف کیا تھا خصوصاً ارکانِ جمعیة العلماء ہند‘ ان کی نیت نیک تھی‘ وہ ہرگز ضمیر فروش یا غدارِ قوم یا ہندوؤں کے زر خرید نہیں تھے۔ چنانچہ صدر مملکت پاکستان (مراد ہیں سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب‘ واضح رہے کہ یہ تحریر آج سے کئی سال قبل کی ہے) بالقابہ‘ نے بھی اپنی شہرہٴ آفاق تصنیف "FreindsnotMasters" میں اس بات کا اعتراف کیا ہے‘ چنانچہ ص:۲۰۰ پر لکھتے ہیں:
”سب لوگ جانتے ہیں کہ بہت سے علماء نے قائد اعظم سے علی الاعلان اختلاف کیا تھا اور پاکستان کے تصور کی تردید کی تھی لیکن میرے اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جن علماء نے تشکیل پاکستان کی مخالفت کی تھی وہ سب ضمیر فروش تھے‘ ان میں قابل اور مخلص لوگ بھی تھے‘ ہاں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی تشکیل سے ان کا اقتدار ختم ہوجائے گا“۔(عزت مآب صاحب صدر بالقابہ کے اس خیال سے مجھے کلیةً اتفاق نہیں ہے‘ سلیم چشتی)
فی الجملہ حقیقت یہی ہے کہ جمعیة العلماء کے ارکان نہ قوم کے بدخواہ تھے نہ ضمیر فروش‘ بلکہ وہ علی وجہ البصیرت یہ سمجھتے تھے کہ نہ تو تقسیم سے ہندی مسلمانوں کا مسئلہ حل ہوسکے گا‘ کیونکہ ان کی ۳/۱ آبادی ہندوستان میں ہندوؤں کے رحم وکرم پر رہ جائے گی اور وہ انہیں اپنے انتقام کا نشانہ بنائیں گے اور نہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوسکے گی‘ کیونکہ لیگ کے اربابِ حل وعقد کی غالب اکثریت نہ دین سے واقف ہے اور نہ اس کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے‘ لیکن حامیانِ لیگ نے مخالفت کے جوش میں اسلامی تہذیب اور علماء دین کے احترام دونوں باتوں کو طاق پر رکھ دیا اور اختلاف کرنے والوں کے ساتھ ہر قسم کی بدسلوکی روا رکھی‘ بلکہ اس پر فخر کیا‘ ذیل میں اس کی دومثالیں درج کرتا ہوں: ۱:۔جب وہ ٹرین جس میں لیگ کے مخالف مسلمان قائدین سفر کررہے تھے‘ علی گڑھ پہنچی تو یونیورسٹی کے مسلمان طلباء نے ان کے کمپارٹمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر ایسی نازیبا اور خلافِ تہذیب حرکات کیں جن کی وضاحت بذاتِ خود خلافِ تہذیب ہے اور اگر وضاحت بھی کی جائے تو کوئی شخص یقین نہیں کرے گا کہ کوئی شریف آدمی ان حرکات کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
۲:۔ جب حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی سید پور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو حامیانِ لیگ کا ایک انبوہ کثیر پلیٹ فارم پر جمع ہوگیا‘ ان لوگوں نے حضرت اقدس کو گالیاں دیں اور جب حضرت موصوف پلیٹ فارم پر اترے تو مخالفین نے حضرت کو زمین پر گرانے کی کوشش کی اور گریبان پھاڑ دیا اور ایک شخص نے عمامہ سر سے اتارلیا اور پہلے اسے پاؤں سے روندا پھر نذر آتش کردیا۔
(حیات شیخ الاسلام ص:۲۳۲تا ۲۳۴)
میں نے دل پر جبر کرکے صرف دوواقعات درج کردیئے ہیں‘ تفصیل سے عمداً اجتناب کیا ہے‘ مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ اس زمانے میں حامیانِ لیگ کی ذہنیت ایسی ہوگئی تھی جو شخص ان سے سیاسی اعتبار سے اختلاف کرتا تھا اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے ادبی روارکھی جاتی تھی‘ بلکہ اسے کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔
آج جب بیس سال کے بعد ایک طرف ہمارے جوش اور ہیجان میں سکوں کارنگ پیدا ہوگیا ہے اور دوسری طرف زندگی کے تلخ تر حقائق نے ہماری آنکھیں بھی کھول دی ہیں تو ہم پرانے مسلم لیگی ان لوگوں کو رواداری کا اپدیش دے رہے ہیں جو اپنے سیاسی مخالفوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے نامور صحافی م۔ش نے (جسے میں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتا ہوں) اپنے ایک مضمون میں جو نوائے وقت مورخہ ۱۴/نومبر ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا‘ مسلمانانِ پاکستان کو یہ مشورہ دیا تھا:
”لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ ہم صیہونیت کے پروپیگنڈے کے زیرِ اثر انہیں (جمال عبد الناصر صدر جمہوریہ مصر) فرعون کی نسل کا علمبر دار اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا نقاد بناکر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرنا جاری رکھیں‘ صدر ناصر عقائدکے لحاظ سے پکے اور سچے مسلمان ہیں اور ہمیں مسلمانوں کو مسلمان ہی رہنے دینا چاہئے“۔
سبحان اللہ! آج اس درسِ اخوت کی صداقت میں کسی پاکستانی کو شک ہوسکتا ہے؟ لیکن میں بڑے بھائی کی حیثیت سے اپنے پیارے م۔ ش سے پوچھتا ہوں کہ جب قوم پر ور مسلمان (کانگریسی‘ جمعیتی اور احراری) زعمائے مسلم لیگ کی خدمت میں یہی حقیقتِ ثابتہ (یہی درسِ اخوت وانسانیت)بایں الفاظ پیش کیا کرتے تھے کہ:
”یہ سچ ہے کہ جمعیة العلماء اور مجلس احرار کے ارکان تقسیم ہند کے حامی نہیں ہیں‘ کیونکہ وہ اس کو اپنی فراستِ مومنانہ کی روشنی میں مسلمانوں کے لئے بہت مضر سمجھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ ہم لیگ کے پروپیگنڈے کے زیرِ اثر انہیں ہندوؤں کا حاشیہ بردار اور کفر کا علمبردار اور مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلموں کا حامی بناکر اپنے (مسلمان) لوگوں کے سامنے پیش کرنا جاری رکھیں۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور ان کے ہم خیال حضرات عقیدے کے اعتبار سے سچے اور پکے مسلمان ہیں اور ہمیں مسلمانوں کو مسلمان ہی رہنے دینا چاہئے“۔
تو کون سا مسلم لیگی ان کی اس معقول بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوتا تھا یا ہوسکتا تھا؟ اس زمانے میں تو سیاسی اعتبار سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کا یہ عالم تھا کہ جب ”الجمعیة“ نے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر طلبہ کی گستاخی اور بد تہذیبی پر صدائے احتجاج بلند کی تو ”ڈان“ نے بڑے فخر کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ: ”گلدستوں کے بجائے ان لوگوں کے حصے میں اینٹ پتھر ہی آئیں گے“۔
میرا مطلب اس تلخ نوائی سے صرف اس قدرہے کہ اس زمانے میں ذہنیت ہی اس قسم کی ہوگئی تھی کہ ہم نے حفظِ مراتب کو بالائے طاق رکھ دیا تھا اور یہ راقم سیہ کار بھی اس کشتی میں سوار اور اسی غلطی کا شکار تھا یعنی میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ جو مسلمان لیگ میں نہیں ہے وہ مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو علماء لیگ میں نہیں تھے ان کی عظمت ‘ عزت اور منزلت میرے دل سے بالکل گئی تھی‘ حالانکہ بیس سال کے بعد اس حماقت پر غور کرتا ہوں تو عرقِ ندامت میں غرق ہوجاتا ہوں۔
اب جبکہ حضرت اقدس کی جلالتِ شان ‘ للہیت‘ بزرگی اور بارگاہِ رسالت میں ان کی قدر ومنزلت مجھ پر آشکار ہوچکی ہے‘ اس لئے بصمیم قلب انتہائی عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنی خطا اور گستاخی کی معافی طلب کرتا ہوں‘ استغفار کرتا ہوں‘ توبہ کرتا ہوں‘ اظہارِ ندامت کرتا ہوں اور اس اعترافِ گناہ کو اس نیت سے شائع کرتا ہوں کہ قارئین میرے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ کو قبول فرمالے اور میرے گناہوں کو معاف کردے اور قیامت کے دن مجھ سے اس گستاخی پر مواخذہ نہ کرے جو میں نے اس کے مقرب بارگاہ بندے کی جناب میں روا رکھی تھی۔ انی ظلمت نفسی ظلما عظیما۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: دینی مدارس اور دہشت گردی کی تازہ لہر ۔۔۔!
Flag Counter